Biography Sayed Moinuddin Nuzhat Muradabadi والد صدرالافاضل حضرت سید معین الدین نزہت مرادآبادی

 *استاذ الشعرا مولانا معین الدین نزہت مرادآبادی:علم وادب کی ایک عظیم شخصیت*

Biography Sayed Moinuddin Nuzhat Muradabadi والد صدرالافاضل حضرت سید معین الدین نزہت مرادآبادی

*والد صدرالافاضل مولانا معین الدین نزہت کے صد سالہ عرس کے موقع پر ایک نیازمندانہ تحریر*:

غلام مصطفیٰ نعیمی gmnaimi@gmail.com

نزیل حال Mokopane ساؤتھ افریقہ

#سرزمین مرادآباد ایک مردم خیز سرزمین واقع ہوئی ہے. جس کی خاک سے ایسے ایسے اساطین علم وفن پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے خداداد علم وفضل سے علم وفن کی مشاطگی کی اور فکر وفن کو جلا بخشی. ایسے ہی نامور افراد میں استاذ الشعرا مولانا سید معین الدین نزہت بھی شامل ہیں.

مولانا معین الدین کا خانوادہ علم وادب کے حوالے سے انتہائی مشہور ومعروف اور مرادآباد کے مقتدر گھرانوں میں سے ایک تھا. آپ کے والد گرامی مولانا سید امین الدین راسخ, دادا مولانا سید کریم الدین آرزو ان نابغہ روزگار شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں جن کے قلم اور درس گاہ کا فیض اٹھانے والے اپنے زمانے کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے. اس خانوادے کے شاگردوں میں جگر مرادآبادی, نواب شبیر علی خاں تنہا اور مولانا کفایت علی کافی جیسے مشاہیر شامل ہیں.

*مولانا معین الدین نزہت کا علمی مقام*:

تاج العلما مفتی محمد عمر نعیمی(مدیر اعلی السواد الاعظم مرادآباد)تحریر فرماتے ہیں :

"مرادآباد کی خواندہ آبادی میں ایک ربع حضرت مولانا معین الدین کی شاگردی کا شرف رکھتی تھی".

{سواد اعظم لاہور ص4}

مذکورہ اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس شہر کی تعلیم یافتہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ فرد واحد کی شاگردی میں ہو اس کا علمی مقام کیا ہوگا؟

مولانا معین الدین نزہت کے علمی وقار میں اس وقت مزید تابانی بڑھ گئی جب ان کے گلشن میں نعیم الدین نامی بلند اقبال صاحبزادے کی آمد ہوئی. جنہیں ان کے علم وفن, تحقیق وتدریس, فقاہت و محدثانہ مہارت کی وجہ سے مجدد وقت,اعلی حضرت امام احمد رضا نے"صدرالافاضل"کا خطاب عطا فرمایا. اور اہل علم ودانش نے استاذ العلماء, سلطان العلوم, فخر الاماثل اور امام الہند جیسے القابات سے یاد فرمایا. اور یہ القابات ان کی قامت زیبا پر جچتے بھی تھے.

*سن ولادت*

مولانا معین الدین نزہت علیہ الرحمۃ کی ولادت 1254ھ میں مولانا سید امین الدین راسخ کے یہاں ہوئی. جو اپنے زمانے کے قادرالکلام شاعر اور مشاہیر علما میں اہمیت کے حامل ادیب تسلیم کئے جاتے تھے. جناب راسخ کے چند اشعار کو یہاں نقل کرتا ہوں تاکہ قارئین بھی لطف اندوز ہوسکیں:

ہے خیالِ یار کا مسکن دلِ بیتاب میں

قید کرتے ہیں پر کو ہم, چہِ سیماب میں

دیکھ کر اس روئے روشن پر عرق,حیراں ہوں میں

آئینہ پر آب ہے؟یاآئینہ ہے آب میں

خاک ہے آغاز راسخ اور ہے انجام خاک

پھونک دے اسبابِ عالم,عالم اسباب میں

*نمونہ کلام نزہت*

حضرت مولانا معین الدین نزہت بھی اپنے والد اور اجداد گرامی کی طرح ایک بلند خیال اور حساس فکر شاعر تھے.ذیل میں چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں:

🔹جس وقت مرادآباد کے بدعقیدہ لوگ صدرالافاضل کی جان کے دشمن بن گئے تھے اور آپ کو ایک اجلاس میں ننگی تلوار دکھائی گئی تو اس وقت حضرت نزہت نے یہ اشعار کہے تھے:

یاالٰہی بے خطا,بے جرم ہے میرا پسر

دشمنی رکھتے ہیں اس سے شہر والے فتنہ گر

تو برائے احمد مختار, بوبکرو عمر

دشمناں را دوست کرد ودوستاں را دوست گر

🔹جس زمانے میں مولانا معین الدین نزہت مرادآباد کے افق علمی پر جگمگا رہے تھے ان دنوں سرخیل دیوبندیت مولوی قاسم نانوتوی کا مرادآباد آنا جانا خوب ہوتا تھا. لیکن نانوتوی صاحب نے تقیہ وفریب سے کام لیکر اہل سنت کے مابین خود کو سنی صوفی عالم کے طور پیش کیا. اس کے ظاہرے کو دیکھ کر مولانا نزہت بھی اس سے بیعت ہوگئے. بعد میں جب صدرالافاضل نے اس کی گستاخیاں بیان کیں اور معمولات اہل سنت پر اس کے اعتراضات بیان کئے تو مولانا نزہت نے اپنے فرزند کو جواب دیا کہ مجھے تو قاسم نانوتوی نے قیام کے ساتھ سلام کی برکات بیان کیں اور اجازت بھی دی ہے. تو میں کس طرح مانوں؟اس پر حضرت صدرالافاضل نے نانوتوی کی کتاب تحذیرالناس کی ایمان سوز عبارات دکھائیں اور ان پر علمائے حرمین شریفین کا فتوٰی "حسام الحرمین"دکھایا تب جاکر مولانا نزہت نے قاسم نانوتوی کی بیعت فسخ کی اور اعلی حضرت امام احمد رضا کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا. اس اہم موقع پر آپ نے یہ تاریخی اشعار کہے:

🔹پھرا ہوں میں اس گلی سے نزہت

ہوں گمراہ جس میں شیخ و قاضی

رضائے احمد اسی میں سمجھوں

کہ مجھ سے احمد رضا ہوں راضی

🔹آپ کے یہ اشعار بھی بڑے والہانہ جذبے میں لکھے گئے ہیں:

پسِ فنا جو کھلی ہیں آنکھیں, کسی کے مَیں انتظار میں ہوں

یہ کون آتا ہے آنے والا,کہ منتظر میں مزار میں ہوں

🔹یہ فارسی شعر بھی ان کے عشق مصطفےٰ اور والہانہ اخلاص کا منہ بولتا ثبوت ہے. لکھتے ہیں :

گر نیائی بہ بیداری عمرم بنظر

بند ہرگز نہ کند خواب عدم دیدۂ ما

ترجمہ:یارسول اللہ اگر آپ عمر بھر بھی مجھے بیداری میں نظر نہ آئے.

تو عدم میں بھی آپ کے دیدار کے بغیر اپنی آنکھیں بند نہیں کروں گا.

*وصال پر ملال*

مولانا سید معین الدین نزہت علیہ الرحمۃ جب عمر کی 85 ویں بہار میں تھے. رمضان المبارک کا مقدس ماہ چل رہا تھا.بیماری مسلسل بڑھ رہی تھی مگر اس عالم بیماری اور عمر کی اس منزل پر بھی آپ کے روزے قضا نہ ہوئے بلکہ مسلسل 19 رمضان تک سارے روزے رکھے.

صدرالافاضل نے خود والد گرامی کے وصال کی خبر یوں تحریر فرمائی :

*"میرے والد ماجد استاذالشعراء حضرت مولانا مولوی معین الدین صاحب نزہت مرادآبادی علیہ الرحمہ کا وصال*"

حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ پرانی وضع کے مقدس عالم اور متقی بزرگ تھے. آپ کے اوقات عبادت الٰہی میں گزرتے تھے. ملک الشعراء ذکی کے تلامذہ میں آپ ہی باقی تھے. آپ کے شاگرد ہزارہا ہیں. آپ کا کلام بلاغت نظام سند مانا جاتا ہے. فکر نازک,طبیعت بلند زبان فصیح رکھتے ہیں. 25 رمضان المبارک جمعۃ الوداع کو 85 سال کی عمر میں چار روز بخار میں مبتلا رہ کر ذکر نفی واثبات کرتے ہوئے راہی ملک بقا ہوئے. انا للہ و انا الیہ راجعون. "

آخری ایام میں آپ نے ذکر الٰہی کے سوا ساری باتیں ترک فرما دی تھیں. اور یہ شعر آپ کے لبوں پر تھا:

آج نزہت ہوا فنا فی اللہ

کہتے کہتے خدا خدا, نہ رہا

آپ نے بالکل اسی حالت میں رحلت فرمائی. انتقال کے بعد آنکھیں کھلی رہیں. ہرچند کہ بند کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بند نہ ہوئیں. اور اپنی حیات کے ان دو شعروں کے مصداق ثابت ہوئے:

پسِ فنا جو کھلی ہیں آنکھیں کسی کے مَیں انتظار میں ہوں

یہ کون آتا ہے آنے والا, مَیں منتظر مزار میں ہوں

آپ بغیہ شریف(بغیہ والی مسجد کے بغل میں) حضرت مولانا سید شاہ غلام حسین علیہ الرحمہ کے مزار کے قریب مدفون ہوئے. جنازہ میں خلق خدا کابڑا اژدہام تھا اور پلنگ کاندھا دینا بکوشش میسر آتا تھا.

*وصال پر شہر بھر میں ماتم*

آپ کے وصال پر پورا شہر سوگوار ہوگیا, علمی محفلیں سونی پڑ گئیں اور ہر صاحب علم نے آپ کے وصال کو علم وادب کا بڑا خسارہ قرار دیا. شہر میں جابجا آپ کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی. شعرا وادبا نے تعزیتی محفلیں منعقد کیں. قطعات کے لئے شعرا نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا. اور اہل قلم نے صدرالافاضل کو تعزیتی خطوط لکھ کر اپنے رنج و غم اور حضرت ممدوح کی ذات سے والہانہ لگاؤ کا ثبوت دیا.

اس نازک موقع پر مولانا نزہت کے مرشد گرامی اعلی حضرت امام احمد رضا بریلی شریف سے دور بھوالی میں زیر علاج تھے. اس لئے بروقت آپ کو خبر نہ ہوسکی.جب اعلی حضرت کو وصال پر ملال کی خبر ملی تو صدرالافاضل کو تعزیتی پیغام تحریر کیا. جس کے بارے میں صدرالافاضل اپنے تاثرات یوں رقم فرماتے ہیں :

"تعزیت کرنے والے احباب جنہوں نے اس خاکسار کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا, میں اپنے ان تمام ہمدردوں کی غم خواری کا شکرگزار ہوں. لیکن اس صحیفہ منیفہ کو اپنے لئے باعث فخر اور حضرت مرحوم کے لئے ذریعہ نجات سمجھتا ہوں جو اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد مأۃ حاضرہ مولانا مولوی شاہ محمداحمد رضا خان صاحب دامت برکاتھم نے ارسال فرمایا. "

*اعلی حضرت کا لگاو*

تعزیتی خط یوں تو طویل ہے لیکن خط کے اس اقتباس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اعلی حضرت کو مولانا معین الدین نزہت سے کتنا لگاؤ اور انسیت تھی. لکھتے ہیں:

"اسی روز (وصال کی خبر ملنے والے دن)سےمولانا المرحوم کا نام تابقائے حیات ان شاء اللہ تعالیٰ روزانہ ایصال ثواب کے لئے وظیفہ کر لیا. وہ تو ان شاء اللہ تعالیٰ بہت اچھے دنیا سے گئے مگر دنیا میں ان سے ملنے کی حسرت رہ گئی. مولیٰ تعالیٰ آخرت میں زیر لوائے سرکار غوثیت ملائے.الھم آمین.

{سواد اعظم لاہور ص75}

آج حضرت مولانا معین الدین نزہت علیہ الرحمہ کے وصال کو مکمل سو سال ہوگئے ہیں. اہل ارادت وعقیدت ان کی صد سالہ تقریبات اپنے اپنے انداز میں منا رہے ہیں اور اپنے محسن وممدوح کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں. یہ چند بے ربط سطور فقیر نے بھی خراج عقیدت کے طور پر پیش کی ہیں. اللہ تعالیٰ ہم تمامی اہل سنت کو حضرت نزہت فیض علمی سے فیض یاب فرمائے. اور حضرت نزہت کو مقام بلند وبالا عطا فرمائے.

ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی