Biography SARKAR SHER E SUNNAT Allama Hashmat Ali Khan Qadri | تعارف شیر بیشہ اہل سنت حشمت علی خان



شیرِ بیشۂ اہلسنت حضرت مولانا حشمت علی خان لکھنوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ولادت

شہر لکھنؤ پر شیر بیشۂ اہلسنت مناظر اعطم ہند عبید الرجا مولانا حشمت علی خاں رضوی قدس سرہٗ کی ولادت ۱۳۳۲ھ؍۱۹۱۳ء میں ہوئی۔ شیر بیشۂ اہلسنت قدس سرہٗ سگ در گہ بغداد اپنی تاریخ ولادت فرماتے تھے۔ شیر بیشہ اہلسنت کے والد حافظ نواب علی خاں نوری حضرت ابو الوقت مولانا ہدایت رسول نوری رامپوری (خلیفہ امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی) قدس سرہٗ سے بیعت تھے۔

تعلیم وتربیت

شیربیشۂ اہلسنت نے لکھنؤ میں نشو ونما تربیت پائی۔حضرت مولانا سید عین القضاۃ لکھنوی مہتمم مدرسہ فرقانیہ کے اساتذہ سے دس برس کی عمر شریف میں قرآنپاک حفظ کیا اور تجوید کی سند بروایت حفض بارہ برس کی عمر میں حاصل کی، اور تیرہ برس کی عمر میں سند قرأت سبعہ اور چودھویں سال سند عشرہ حاصل فرمائی۔

مولانا حشمت علی رضوی کی والدہ ماجدہ جب مولانا ہدایت رسول نوری رام پوری سے بیعت ہوئیں مولانا ہدایت رسول قدس سرہٗ نے امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی کا رسالہ تمہید ایمان اور چند رسالے عطا فرمائے۔ اس پر والدہ ماجدہ نے عرض کیا کہ صاحبزادے کی روش بہت غلط ہے۔ ارشاد فرمایا رکھو کام آئیں گی۔ مرشد کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات نے دل پر گہرا اثر کیا۔ ہر سال دھوپ میں سکھایا کرتی تھیں۔ ادھر مدرسہ فرقانیہ کے کو شرکی اور بدعت کہنا شروع کردیا تھا۔ اور گھر پر ان امورکو روکنے کی کوشش شروع کردی۔

والدۂ ماجدہ شیر بیشۂ اہلسنت کا یہ ر ویہ دیکھ کر بہت پریشان رہا کرتی تھیں اور اکثر حافظ نواب علی سے کہا کرتی تھیں کہ لڑکےکو کیا ہوگیا ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ آپ مدرسہ سے پڑھ کر دوپہر کے وقفہ میں گھر پہنچے۔۔۔ امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ کی کتابیں سوکھ رہی تھیں۔ ان کتب کو دیکھ کر معتجب ہوئے اور فوراً تمہید ایما ہاتھ میں لی۔ ورق گردانی کے بعد کتاب ‘‘تمہید ایمان’’ پڑھتے جاتے اور کہتےجاتے کہ

‘‘یقیناً کافر ہیں یقیناً کافر ہیں۔’’

آپ کی والدۂ ماجدہ نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ اس کے بعد شیر بیشۂ اہلسنت نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کی کتابوں کو مطالعہ شروع کیا کچھ دنوں بعدحافظ نواب علی نے مدرسہ منظر اسلام میں داخلہ کرادیا اور یہیں مستقلاً تعلیم حاصل کرنے لگے [1]۔

دوران تعلیم منظر اسلام شیر بیشۂ اہلسنت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی کی بارگاہ میں زیادہ اوقات گزارتے تھے۔ اس بناء پر صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نواب علی سے شکایت کی کہ

یہ صاحبزادے پڑھنے لکھنے کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے۔ دن رات اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے پاس بیٹھے رہتے ہیں۔

حافظ نواب علی نے مولانا امجد علی رضوی اعظمی کو بڑا ہی عاشقانہ اور عارفانہ، جواب دیا کہ:

‘‘حضرت جو آپ بانٹ رہے ہیں وہ تو بعد میں مل سکتا ہے اور جو اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ بانٹ رہے ہیں وہ بعد میں کہاں ملے گا۔’’

فراغت از علم

چونکہ امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی کا وصال شیر بیشۂ اہلسنت کے دوران تعلیم ہی میں ہوچکا تھا۔ منظر اسلام کا سارا اہتمام وانتظام حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ شعبان المعظم [2] ۱۳۴۰ھ کےجلسۂ دستار فضیلت میں علماء وفضلاء کی موجودگی میں حضرت حجۃ الاسلام، حضور مفتی اعظم نے دستار باندھی۔

اساتذۂ کرام

۱۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ

۲۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا بریلوی قدس سرہٗ

۳۔ صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی قدس سرہٗ

۴۔ اُستاذ الاساتذہ مولانا رحم الٰہی منگلوری قدس سرہٗ

۵۔ تاجدار اہلسنت حضور مفتئ اعظم نوری بریلوی قدس سرہٗ

شیب بیشہ اہلسنت نے حضور مفتی اعظم سے بخاری شریف کا دورہ کیا اور مزید حدیث کی کتابیں پڑھیں [3]۔

بیعت وخلافت

حضرت م ولانا حشمت علی بریلی شریف پہونچنے سے پہلے فرنگی محلی لکھنؤ میں صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی قدس سرہٗ سے ارادت حاصل کر چکے تھے [4]۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ نے اجازت وخلافت سے سر فراز فرمایا [5]۔ پھر ۱۳۴۰ھ کے جلسۂ دستار بندی منظر اسلام میں حجۃ الاسلام قدس سرہٗ نے اجازت وخلافت سے مشرف فرمایا [6]۔

جب شیر بیشہ اہلسنت حج وزیارت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے وہاں قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاءالدین احمد مدنی رضوی قدس سرہٗ نے بھی خلافت واجازت سے نوازا [7] مزید خلافت واجازت حضور مفتی اعظم نوری بریلوی قدس سرہٗ نے عطا فرمائی [8]۔ مذکورہ بزرگوں کے علاوہ ابو المساکین حضرت مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی علیہ الرحمہ سے بھی اجازت حاصل تھی [9]۔

منظر اسلام سے وظیفہ

امام احمد رضا بریلوی نے ۱۹۸۳ء میں انیس ۱۹ سالکی عمر میں شیر بیشۂ اہلسنت کو حکم دے کر ہلدوانی ضلع نینی تال مناظرہ کے لیے روانہ فرمایا۔ جس میں دوسری جانت مخالف مولوی یٰسین خام سرائی تھے۔ ہلدوانی ضلع نینی تال میں مولوی یٰسین خام سرائی سے مناظرہ ہوا۔ اس ننھی سے عمر کے لڑکے نےساٹھ سال کے بوڑھے مرد کو شکست فاش دی اور فتح ونصرت کا سہرا شیر بیشۂ اہلسنت کے سرہا۔ بریلی آکر مناظرہ کی ساری روداد امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی کو سُنائی۔ اس مناظرہ کی فتح پر پانچ روپے بطور انعام عطا فرمائے۔ نیز امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ نے اپنی طرف سے پانچ روپے ماہانہ وظیفہ مقرر فرمایا۔ اور مدرسہ منظر اسلام کا رجسٹر منگاکر خود امام احمد رضا قدس سرہٗ نے اپنے دست فیض سے تحریر فرمایا کہ:

مولانا حشمت علی خاں سلمہٗ میا روحانی بیٹا ہے، ان کو پانچ روپیہ ماہانہ وظیفہ میری طرف سے ہمیشہ دیا جائے ۔

(فقیر احمد رضا قادری غفرلہٗ)

امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ کے وصال کے بعد حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ اور نبیرۂ امام احمد رضا مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خاں جیلانی علیہ الرحمۃ شیر بیشۂ اہلسنت کو زندگی بھر پوری پابندی کے ساتھ یہ وظیفہ ادا فرماتے رہے [10]

بارگاہ امام احمد رضا سے دو عظیم خطاب

ہلدوانی کے مناظرہ سے واپسی پر اپنے شیخ کامل امام احمد رضا فاضل بریلوی کی بارگاہ میں حاضری دی اور پوری تفصیل سے مناظرہ کی کیفیت سنائی تو امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی اپنے شیر کے اس جرأت اور فتح مندانہ قدم کو دیکھ کر بہت مسرور ہوئے اور خوشی کا اظہار فرمایان یزن دستار عنایت فرمائی اور غیث المنافقین، والد المرافق ابو الفتح کے بے نظیر اظہار فرمایا۔ نیز دستار عنایت فرمائے۔ ابو الفتح کا خطاب شیر بیشۂ اہلسنت کو پسند تھا۔ اس لقب کو اپنے نام کے ساتھ اپنے قلم سے تحریر فرماتے، لکھنے کا انداز یہ ہوتا۔ پہلے ابو الفتح عبید الرضا محمد حشمت علی خاں رضوی تحریر فرماتے، علماء ہندوستان نے شیر بیشۂ اہلسنت کو معلوم نہیں کتنے خطابات سے نوازا تھا۔ کسی نے سلطان المناظر، کسی نے مناظر اعظم ہند، کسی نے مظہر اعلیٰ حضرت، کسی نے معراج الواعظین وغیرہ۔ بہر حال ہزاروں علماء ومشائخ نے اپنے نئے خطابات سے نوازا۔ مگر شیر بیشۂ اہلسنت کو اپنے شیخ کامل کا عط اکردہ خطاب ہی زیادہ عزیزتھا۔

شدھی تحریک کی آگ سرد ہوگئی

شیر بیشہ اہلسنت نے سیاسی، مذہبی، تحریکوں میں خوب حصہ لیا، خلافت کمیٹی، جمعیۃ علماء میں سر دھڑکی بازی لگادی۔ شدھی تحریک کے رد میں حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے شانہ بشانہ، قدم بہ قدم رہے۔ اور ہندستان میں شدھی مذہب ت سے پھرنے کی بڑی بڑی اسکیمیں بنائی تھیں مگر لاکھوں راجپوتوں کا ایمان حضور مفتی اعظم کی ذات نے محفوظ مامون رکھا۔ حضور مفتی اعظم کے ساتھ شیر بیشہ اہلسنت نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ گاؤں گاؤں جاکر تبلیغ دین کی، اب حضور مفتی اعظم کے قلم فیض رقم سے شیر بیشہ اہلسنت کی فتحیابی ملاحظہ ہو۔

نوگانواں(مضافات آگرہ) اس نواح میں ایک بڑا گاؤں ہے اور یہاں تخمیناً تین ہزار راجپوت آباد ہیں۔ اس گاؤں میں آئے دن کوئی نہ کوئی آریہ پہنچتا رہا۔ ۲۳؍رجب ۱۳۴۱ھ کو آٹھ دس آریہ پہنچے۔ باواجی استھل (جو ایک مندر ہے) پر راجپوتوں کو جمع کیا۔ غالباً انہیں پہلے سے تیار کیا ہوگا۔ ہمارے وفد کو اطلاع ملی کہ ساٹھ ستر راجپوت شُدھی کرنے کے لیے جمع کیے گئے۔ اگتی کھنڈ کھودا گیا ہے، آگ جلائی گئی۔ پنڈت متعدد ہیں۔ یہ سنتے ہی مولوی حشمت علی خاں وہاں پہونچے دیکھا کہ گڈھا کھُدا ہوا ہ ے اور اس میں آگ جل رہی ہے۔ آٹھ دس آریہ پنڈت راجپوتوں کی ایک جماعت کو مندر کے چبوترے پر گھریے بیٹھے ہیں۔

مولانا (حشمت علی خاں) بھی بیٹھ گئے۔ آریوں نے انکے وہاں آنے سے اعتراج کیا اور کہا کہ ‘‘آپ یہاں کیوں آئے ہیں جہاں ہم پہنچتے ہیں وہاں آپ اجاتے ہیں اس کا باعث؟

مولانا نے فرمایا۔ آپ اپنے جانے کی صحیح اطلاع نہیں دیتے۔ ورنہ جہاں اپ جاتیں وہاں ہم پہنچنے کی پابندی سے التزام رکھیں۔ ہمارے آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ آپ کیا کریں گے۔

کہنے لگے۔ راجپوت ہمارے بھائی ہیں ہم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم انہیں ملانا چاہتے ہیں آپ کے پیٹ میں کیوں درد ہوتا ہے۔

مولانا نے فرمایا کہ راجپوت تو آپ کے بھائی نہیں ہیں ہیں۔ اور وہ ملنا چاہتے تو آپ کیوں اتنی محنتیں اُٹھانے سکھانے سمجھناے لالچ دلانے کی کیا ضرورت ہوتی۔ اگر آپ انہیں کوئی سچی تعلیم دینا چاہتے ہیں، آپ کے زعم میں وہ چشی تعلیم ہو تو ہماری موجودگی سے کیا اندیشہ ہے، اور اگر سچی نہیں ہے تو بھائی بتا بتاکر غلط راستے بتاتے ہو۔ میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ اگر آپ کی کوئی غلط راستہ بتائیں تو میں اپنے بھائیوں کو آگاہ کر کے ان کی رہنمائی کروں، اور اگر اس پر بھی آپ کو میرا حاضر رہنا ناگوار ہے تو چلا جاؤں۔

اب آریوں نے مولانا کو بیٹھنے کی اجازت دی اور بحث شروع کردی۔ اسلام پر اعتراض کرتے رہے، مولانا جواب دیتے رہے۔ دیر تک تقریر رہی۔ اثنائے تقریر میں کئی موقعوں پر انی غلطی اور کبھی اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنا پڑا۔ آخر کار آریہ لاجواب ہوگئےے۔ اور پنڈت شام لال (بانی شدھی مذہب) نے کہا۔

معاف کیجئے ہمیں اپنا کامکرنے دیجئے ہم ہار گئے یہ کہہ کر آریہ راجپوتوں کی طرف متوجہ ہوگئے اور کہا یہ باتیں تو ہوچکیں اب تم شدھی ہوجاؤ، راجپوتوں کی جماعت میں سے ایک شخص نورنگ سنگھ نمبردار نے جواب دیا۔

‘‘ہمارا مولوی ایک تھا تم دس تھے اس ایک نے تم کو ہرادیا اگر دو چار ہوتے تو تمہارے ہوش بھی ٹھیک رہتے’’

اس طرح آریہ ناکام ہوئے [11]۔

قاتلانہ حملہ

۱۳۴۸ھ میں اہل کانپور کے اصرار پر شیر بیشہ اہلسنت وہاں تشریف لے گئے۔ بروز وشنبہ ۲؍جمادی الآخر ۱۳۴۸ھ شب کو محلہ بڑے بوچڑ خاں میں بیان مقرر تھا۔ وہابیہ تھانہ میں رپورٹ کر آئے کہ آج کے بیان میں ہمیں کچھ فساد کا اندیشہ ہے۔ اپنی جان کا خطرہ ہے۔ وہابی چاقو، بھالا وغیرہ لےکرجلسہ گاہ میں آگئے۔ کانپور کےایک مدرسہ کے طالب علم قاری عبدالرحیم قابل ذکر ہے۔ نوبجے تقریر شروع ہوئی خطبہ، نعت، تمہید کے بعد وہابیہ کا ردشیر بیشہ اہلسنت نے شروع کردیا اور درمیان تقریر فرمایا کہ

‘‘لوگ اگر نہ سُننا چاہیں تو تشریف لے جائیں۔ اعتراض کا شوق ہو تو نوٹ کرتے جائیں۔ بیان کے ختم پر یا کل پر سوں جب چاہیں تنہائی یا مجمع میں اپنے شکوک رفع کرلیں۔ مگر مجمع کو بگاڑیں نہیں ’’

اتنا ہی فرمانا تھا کہ وہابی مولوی عبد المجید بول پڑے کہ ہم گالیاں سننے نہیں آئے ہیں شیر بیشہ اہل سنت نے فرمایا، میں نے کون سی گالی بکی۔ جس پر آپ کو اس قدر غسہ ہے۔ بس پھر کیا تھا قاری عبد الرحیم اچھل کر تخت پر آگئے اور بڑی بھاری بُجھالی سے (جو وہ اپنے کپڑوں میں چھپاکر لائے تھے) شیر بیشۂ اہلسنت پر حملہ کردیا۔ قریب تھا کہ شہادت ہوجاتی۔اللہ ورسولﷺ کو منظور تھا کہ شیر بیشۂ اہلسنت کو ہم اہلسنت کے لیے افادہ کے طور پر ابھی قائم وباقی رکھا جائے۔ اس لیے بچالیا۔ اور ند آدمیوں نے قاری عبدالرحیم کو حملہ کرتے دیکھ کر اس کو دھکا دیکر کھینچ لیا اور اس کی بُجھالی چھین لی جو بعد میں پولیس کے حوالے کردی گئی۔ اس منظر کو دیکھ کر وہ تمام وہابیہ دیوبندیہ جو لاٹھیوں سے مسلح ہوکر اہلسنت اور آپ پر حملہ کرنے آئےتھے سب فرار ہوگئے اور تھانہ میں جاکر پولیس المدد کو توال الغیاث کا شور مچایا۔

صبح کو دروغہ عبدالجلیل کے لیے آئے تو قاری عبدالرحیم نے بیان کیا کہ حشمت علی خاں نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور دیڑھ سو آدمیوں نے مجھ کو مارا ور زدوکوب کیا۔ تمام لوگ اس پر نفرت و ملامت کرتے رہے۔ آخر کا رد داروغہ عبدالجلیل نے کہا۔ مجھے تعجب ہے کہ ڈیڑھ سو آدمیوں نے آپ کو زدو کوب کیا اور آپ کے بدن پر کہیں خراش بھی نہ آئی۔

قاری عبدالرحیم نے کہا حشمت علی خاں نے خطبہ اور غزل میں گالیاں دیں۔ داروگہ عبدالجلیل نے کہا افسوس! خطبۂ مبارک اور غزل ساری کی ساری حضور سرور کائناتﷺ کے محامد جلیلہ ومدائح جمیلہ سے دونوں پُر ہیں۔ کیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فضائل بھی دیوبندی دھرم میں گالیاں ہیں؟ (والعیاذ باللہ)

شیر بیشۂ سنت سےلوگوں نے عرض کیا کہ عبدالرحیم دیوبندی پر اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیجئے۔ فرمایا نہیں ہمارا استغاثہ خدا ورسول جلہ جلالہ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سرکار میں ہے ہمارا دعویٰ بغداد کی عدالت میں دائر ہیں۔ جہاں کے فیصلے کی اپیل نہیں۔ الغرض اس واقعہ نے کانپور کے بھولے بھالے سنی مسلمان کو بتادیا کہ دیوبندی نے جیسےاپنےایمان کو شیخ نجدی پر قربان کردیا ہے۔ ویسے ہی حیاء وشرم انسانیت غیرت سب کو اس پر بھینٹ چڑھادیا ولاحول ولا قوۃ [12]۔

آریوں کی کوشش ناکام

ضلع آگرہ سے تقریباً سات کلو میٹر دور پر ایک موضع اوندی ہے۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ اور شیر بیشۂ اہلسنت تحریک شدھی مذہب کی رد کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ اوندی کے اس واقعے کے سلسلے میں خود حضور مفتئ اعظم رقم طراز ہیں۔

‘‘ایک سر برآور وہ شخص اب چند کا انتقال ہوا۔ جس کا اسلامی نام حبیب الرحمٰن تھا۔ ان اطراف میں اکثر لوگوں کے دو نام ہوتےہیں ایک ہندوانی دوسرا اسلامی، متوفی چوٹی نہ رکھتا تھا۔ کبھی کبھی نماز پڑھتا تھا، باوجود اس کے یہ کوشش کی گئی کہ اُسکی نقش کو ہندوؤں کے طریقہ پر بھونکا جاے۔ اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اس کا بھتیجہ آریہ خیال کا تھا۔ اس کہ وجہ سے آریوں کو چڑھ دوڑنے کا موقع ملا۔ مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور گاؤں کےلوگوں نے کسی طرح سے گوارا نہ کیا ہمارا وفد وہاں موجود تھا۔ مولانا مولوی حافظ قاری حشمت علی خاں لکھنوی جو اس حصہ وفد کے سر گردہ تھے انہوں نے میت کے غسل وتکفین میں شرکت کی اور باقاعدہ مسلمانوں کےط ریقے پر نماز پڑھاکر دفن کیا۔ گاؤں ولاوں نے اس سے بہت اچھا اثر لیا،اور وہاں کے چھوٹے بڑے، مولانا کی نماز پڑھانے کو متوفی کی خوشش قسمتی بتاتےتھے۔کتنا ظلم ہوتا اگر اس میت کو پھونک دیا جاتا [13]۔

شیر بیشۂ اہلسنت ملک بنگال میں

۲۷؍شوال المکرم ۱۳۴۲ھ صبح یکشنبہ کو صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی قدس سرہٗ شیر بیشۂ اہلسنت نے ملک بنگال کا سفر کیا۔ ۲۸؍یوم دو شنبہ کو صبح سات بجے پنجاب میل سے کلکتہ پہونچے۔ وہاں کے لوگوں نے کثیر تعداد میں استقبال کیا۔ حضرات علماء کے جانے سے پہلے پنڈت شردھاندجی نے بہت پروپیگنڈہ پھیلا رکھا تھا۔ پنڈت شردھا نند کو جب مسلمانوں کی بیداری معلوم ہوئی۔ سبھا میں کھنڈ رات نظر آنے لگے تو گھبرائے اور خیال کیا کہ کسی طرح اہل اسلام غافل ہوجائیں، اور اپنا فریب چل جائے۔ جھٹ یہ چال چلے کہ اپنا پروگرام بدل دیا۔ اور اعلان کردیا کہ اب ہم سراج گنج نہیں جائیں گے۔ جب اہلسنت کو معلوم ہوگا تو پنڈت جی سبھا میں شریک نہ ہوں گے تو مناظرین علماء کو کیوں تکلیف دیں اور پھر پنڈت جی میدان خالی پاکر خوب زدر کے مناظرہ کا اعلان کر سکیں گے۔ یہ من گڑنت منصوبے ٹھانکر پروگرام بدلنے کے بعد پنڈت جی خفیہ طور پر سراج گنج روانہ ہوگئے۔

مگر پنڈت جی کی ساری کاروائی برباد ہوگئی۔ علماء کے کلکتہ پہنچنے پر فوراً مسلمانان سراج گنج کو تاردیا۔ یہ خبر وہاں بہت تیزیکے ساتھ پھیل گئی اور جب پنڈت جی کو معلوم ہوا کہ جو مصیبت ہندوستان میں پیش آئی تھی وہی بنگال میں، وہ تھی وہی بنگال میں، وہ رات ہی کو فرار ہوگیا بغیر مناظرہ کیے محض رعب حقانی سے فتح مبین حاصل ہوئی۔ علمائے اسلام سراج گنج میں داخل ہوئے تو اللہ اکبر اسلام کی فتح نعروں سے استقبال ہوا۔ اور شیر بیشہ اہلسنت نے وہاں خوب جم کر کے تقریریں کیں [14]۔

ضلع فیض آباد کا تاریخی مقدمہ

شیر بیشۂ اہلسنت نے ضلع فیض آباد کے علاقہ قصبہ بھدرسہ اور اس کےقرب وجوار میں ۲۲؍مئی ۱۹۴۶ء تا ۶؍جون ۱۹۴۶ء مسلسل تقریریں فرمائیں۔ جن میں شیر بیشۂ اہلسنت نے مزہب اسلام کی تبلیغ اور سنی مسلمانوں ودیگر حاضرین کی نصیحت وہدایت کےلیے حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کے مضامین پڑھ کر سناتے رہے۔ وہابیوں کے عقائد کفریہ سے آگاہ کرنے کے لیے تخذیر الناس، براہین قاطعہ، حفظ الایمان، اور مختصر سیرت نبویہ کی عبرات کفریہ کتاب کھول کھول کر لوگوں کو دکھلاتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے وہابی دیوبندی جو بیچارے اپنے پیشواؤں کے عقائد کفریہ سے آگا نہ تھے توبہ کر کے سنی مسلمان ہوگئے۔ جب گھاگ وہابیوں نے دیکھا کہ شیر بیشۂ اہلسنت کے ہاتھوں وہابیت کی مٹی پلید ہوتی جارہی ہے تو انہوںن ے اپنے علماء سے سازش کر کے شیر بیشۂ اہلسنت کے خلاف مہابیر شاداگروال مجسٹریٹ درجہ اول شہر فیض آباد کے اجلاس میں استغاثہ دائر کردیا۔ جس میں یہ الزام تھا۔

ملزم (شیر بیشہ اہلسنت) نے بتاریخ ۸؍جون ۱۹۴۶ء وقت ۹بجے شب لغایت ۱۲بجے شب ایک تقریر کی۔جس کے دوران میں ملزم نے مدعیان کے مذہبی عقائد مجروح کرنے نیز فرقہ وارانہ م فساد برپا کرنےکی غرض سے مجمع عام میں تقریری کرتے ہوئے کہا کہ مولوی اشرف علی تھانوی، قاسم نانوتوی،مولوی خلیل احمد انبیٹھوی، رشید احمد گنگوہی، مولوی عبدالشکور کاکوروی کا فر مرتد بیدین ہیں۔ملزم کی تقریری مذکور سے مدعیان اور ان کے علماء دین کی سخت توہین اور دل آزاری ہوئی۔

عالی جاہا۔ملزم نہایت ہی مفسد آدمی ہے اور جو جرم (دفعات ۲۹۸، ۵۰۰۰، ۱۵۳، الف کا مرتکب ہے۔ لہٰذا تدارک ملزم حسب دفعات بالا فرمایا جائے۔

قصبہ بھدرسہ ضلع ضلع فیض آباد۔ مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۴۶ء۔

کار روائی استغاثہ کے مطابق شیر بیشۂ اہلسنت جب کورٹ میں پہنچے تو مجسٹریٹ نے استغاثہ کے متعلق جواب طلب کیا۔ شیر بیشۂ اہلسنت نے اجلاس تخدیر الناس، براہین قاطعہ حفظ الایمان، فوٹو فتویٰ مہر دستخطی گنگوہی، مختصر سیر نبویہ پیش کیا اور ؟؟؟؟؟ کفریہ سے مجسٹریٹ کو آگاہ فرمایا۔ اور اس کے ساتھ ہی شیر بیشۂ اہلسنت نے مجسٹریٹ پریہ بھی واضح کردیا کہ دنیائے سنیت کے عظیم جلیل پیشوا اعلیٰ حضرت امام احإد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ نے تھانوی، نانوتوی، گنگوہی انبیٹھوی مولویوں پر ان کے عقائد کفریہ یقینیہ کےسبب بحکم شریعت اسلامیہ کفر وارتداد کا فتویٰ دیا ہے۔ جو مقدس کتاب حسام الحرمین میں چھپ کر پورے پاک وہندوستان میں شائع ہوچکا ہے، اور اس فتویٰ کی تصدیق عرب شریف کے اکابر پیشوائے عظام اور ہندوستان کے دو سو اڑٹھ علمائے اسلام اپنی مہری اور دستخط کے ساتھ کرچکےہیں۔

حسام الحرمین کےایک فتویٰ میں ایک حکم شرعی یہ بھی ہے کہ جو شخص مولویان مذکورین بالا کے عقائد کفریہ پر مطلع ہوکر ان کو کافر نہ کہے یا اُن کے کافر ہونے میں شک کر ے تو بحکم قانون شرع وہ بھی کافر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مبلغ وہابیہ کی زاری میں ہندوستان کے چورانے علمائے اسلام نے شرعی فتویٰ دیا کہ عبدالشکور کا کوری نے اپنی کتاب نصرت آسمانی ص ۱۵، ۲۷، ۴۷، ۴۸، میں تھانوی انبیٹھوی کی کفری عبارتوں کی حمایت وطرف داری کی ہے۔لہٰذا مولوی عبدالشکور کاکوری بھی بحکم شریعت اسلامیہ کا فرو مرتد بیدین ہیں۔

پھر شیر بیشۂ اہلسنت نے اپنےبیان کی تصدیق نیز مجسٹریٹ کے اطمینان کےلیے حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ وغیرہ کتابیں پیش کیا اور عبارات کفریہ کی ہندی کی چندی کر کے ان کو اتنا عام فہم بنادیا کہ انگریزی واں غیر مسلم مجٹریٹ بھی پوری طرح سمجھ گیا تھانوی وغیرہ نے ضرور پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں کھلی گستاخی اور بے ادبی ہے اور یہ لوگ یقینی طور پر حسام الحرمین کے فتوے کے مطابق کافر و مرتد ہوچکےہیں۔

اس مقام پر وہابی حضرات ہر گز یہ خیال نہ فرمائیں گےکہ کسی نے مجسٹریٹ کے سامنے المہند کامضمون نہیں سنایا، اور نہ کسی نے اجلاس میں پیشوایان وہابیہ تھانویہ وغیرہ کا مسلمان ہونا ثابت کیا۔ اس لیے اس تاریخی مقدمہ میں وہابیوں کے مشہور عالم چرب زبان مقرر ابو الوفا شاہجہانپوری وہابیت کے اکسپرٹ عالم کی حیثیت سے پیش کیے گئے اور سراسر اجلاس مجسٹریٹ کے سامنے شیر بیشۂ اہلسنت اور مولوی ابو الوفا شاہجہانپوری کے درمیان ایک طویل وعریض مناظرہ ہوا۔ جس میں پیشوان وہابیہ کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے دیوبندی میگزین کے نئے اور پُرانے جتنےبھی ہتھیار تھے۔ وہابیت کے اس اکسپرٹ عالم نے وہ سب استعمال کر ڈالے۔ لیکن احمد رضا کے شیر بیشہ اہلسنت نے حرمین کے حسام براں سے کفر وارتداد کے قلب و جگر کو کاٹ کے پھینک دیا اور بارگاہَِ رسالت کے گستاخ باغیوں کی طرف دار ابو الوفا شاہجہانپوری کو لوہے کے چنے چبوادیئے اور دلائل شرعیہ کے کانٹے پر پیشوایان وہابیہ کا کافر و مرتد ہونا ایسا بےنقاب فرمایا کہ مولوی ابو الوفا جیسا گھاگ ہوشیار،مشاق علم، بھی مجسٹریٹ کے سامنے دیوبندی کفریات پر پردہ ڈالنے میں ہر طرح ناکام رہا اور پیشوایان وہابیہ کا مسلمان ہونا ثابت نہ کر سکا [15]۔

واضح ہوکہ وہابیوں کا دائر کردہ مقدمہ دو برس تین ماہ تیرہ دن جاری رہ کر ۲۵؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو ختم ہوا۔ پھر ان کی اپیل کا فیصلہ ۲۸؍اپریل ۱۹۴۹ء کو ہوا۔ فرحت افزا فتح مبین میں پوری تفصیل مذکور ہے۔

مناظرہ بسڈیلہ

شیر بیشۂ اہلسنت کابس ڈیلہ میں مناظرہ ہوا۔ جس میں وہابیوں کا ایک بہت ہی خرانٹ اور مشہور مناظر تھا۔ حسام الحرمین میں علمائے عرب نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ کے لیے جو دعا ئیہ کلمات لکھے اور امام احمد رضا قدس سرہٗ کی تعریفیں لکھیں وہ عبارتیں آپ پڑھ رہے تھے۔ عربی میں ایک جگہ یہ تھا۔ ادام ماللہ برکاتہٗ اللہ ان کی برکتیں ہمیشہ ہم پر رکھے۔

شیر بیشۂ اہلسنت نے یہ عبارت پڑھی اس پر وہابی مولوی، فاضل بےفضل بولا۔ مولانا حشمت علی خاں) ادام اللہ برکاتہٗ برکاتہٗ برکاتہٗ

مولانا حشمت علی خاں نے فرمایا۔ میرا اعراب پکڑ رہے ہو، برکاتہٗ جمع مونث سالم ہے اس کو حالت نصب میں جر ہوتا ہے۔ بھول گئے، پھر جو پانی مولوی بے فضل پر پڑا ہے چکنے گھڑوں پر تو یہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ ان پر کبھی پانی بھی پڑا ہے [16]۔

تصانیف

شیر بیشۂ اہلسنت کی ساری زندگی دیانبہ سے مناظرہ کرنے میں گذری،م ناطرہ کا حق ادا کردیا صحیح معنوں میں مناظر اعظم کہلانے کے حقدار شیر بیشۂ اہلسنت ہی ہیں، فرمایا کرتے تھے۔ اے وہابیو تم جس فن میں مناظرہ کرنا چاہو میں اس میں مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ توجہ نہ ہوسکی۔ آخری ایام میں تصنیف کی طرف توجہ دی اور تقریباً سوکے قریب مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا۔ خصوصاً رد فرقۂ باطلہ پر۔

دیوبندی، وہابی چکڑالوی فرقۂ باطلہ وغیرہ شیر بیشۂ اہلسنت کے نام سے تھراتے تھے۔ اگر کہیں کسی نے کہہ دیا کہ مناظرہ کو حشمت علی خاں آرہے ہیں تو بڑے سے بڑا مناظر میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا۔

راقم السطور نے پیلی بھیت شریف کو کافی خطوط لکھے مگر کسی ایک خط کا جواب نہ موصول ہوا۔ افسوس کےساتھ ان کلمات پر ہی اکتفا کیا۔

شیر بیشۂ اہلسنت کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔

۱۔ انوار الغیبیہ مطبوعہ پیلی بھیت

۲۔ القلادۃ الطیبہ المرمعہ

۳۔ صمسام حیدری وہابی بیدین سبکو ہری

۴۔ شمع منورہ نجات مطبوعہ بمبئی

۵۔ قہر واجدادیان

۶۔ راد المہند

۷۔ تقریر منیر قلب مطبوعہ مکتبہ المصطفیٰ بریلی

۸۔ مبلغ وہابیہ کا گریز

۹۔ لطمۂ شیر بر نجدی زادۂ الندیر مطبوعہ مکتبہ المصطفیٰ بریلی

۱۰۔ راند میں سنیوں کی فتح کی عجیب

۱۱۔ امداد الدیان ی تفسیر القرآن (تفسیر حشمتی) مطبوعہ پاکستان کراچی

۱۲۔ مباحثہ اہلسنت و وہابیہ

۱۳۔ جمال الایمان والایقان

۱۴۔ اہل الرشاد اہل ارشاد

۱۵۔ صمصام سنت برگلوئے کاندھیت

۱۶۔ القول الازہر مطبوعہ کتب خانہ اہلسنت پیلی بھیت

۱۷۔ الصوارم الہندیہ مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور، مکتبہ الجمال آستانہ جمالیہ رام پور

۱۸۔مناظرہ ہلدوانی غیر مطبوعہ۔جدید ترتیب از:محمد شہاب الدین رضوی بہرائچی

۱۹۔ مناظرۂ جاحد سمدھن

۲۰۔ مناظرہ سنبھل مطبوعہ پیلی بھیت

۲۱۔ مناظرہ لاہور مطبوعہ پیلی بھیت

۲۲۔ مناظرہ پنجاب مطبوعہ پیلی بھیت

۲۳۔ مناظرہ ملتان مطبوعہ پیلی بھیت

۲۴۔ مناظرہ دھانے پو، غیر مطبوعہ

۲۵۔ سنی وہابی کا مناظرہ

۲۶۔ مناظرہ سنٹیا

۲۷۔ مناظرہ ڈبرا

۲۸۔ مناظرہ الٰہ غیر مطبوعہ

۲۹۔ احکام دین مصطفیٰ مطبوعہ کتب خانہ اہلسنت پیلی بھیت

خلفاء اور تلامذہ

شیر بیشۂ اہلسنت کے خلفاء وتلامذہ کی صحیح فہرست حاصل نہ ہوسکی۔ مگر مختصر خۂفاء وتلامذہ مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ مناظر اعظم مولانا مشاہد رضا خاں رضوی حشمتی سجادہ نشین آستانۂ عالیہ قادریہ رضویہ حشمتیہ پیلی بھیت شریف

۲۔ علامہ مولانا بدر الدین احمد قادری رضوی گور کھپوری شیخ الحدیث غوثیہ بڑھیا بستی

۳۔ مولانا مفتی محمد یعقوب رضوی حشمتی دھانے پور

۴۔ مولانا محمد ادریس رضا خاں حشمتی پیلی بھیت صاحبزادہ

۵۔ مولانا محمد احمد رضوی کانپوری

۶۔ مولانا محمد مشہود رضا حشمتی صاحبزادہ

۷۔ مولانا معصوم رضا خاں حشمتی صاحبزادہ

۸۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

۹۔ مولانا محمد اصغر علی حشمتی در مدرس حشمت الرضا پیلی بھیت۔

۱۰۔ الحاج سیٹھ محمد عمر ڈوسا رضوی حشمتی

انتقال پُر ملال

حضرت شیر بیشۂ، اہل سنت علیہ الرحمہ دو سال صاحب فراش رہے۔ وہابیوں دیوبندیوں کی زہر خوروفی کی وجہ سے آپکے حلق میں تکلیف ہوگئی تھی۔ وہ بھی بہت زیادہ نہیں۔ آسانی کے ساتھ کلام فرماتے۔ اور ادو وظائف، نماز حسب معمول ادا فرماتے۔ وصال سے تھوڑی دیر پہلے علاقہ کاٹھیاواڑ کے سیٹھ جناب عبدالرزاق حبیب موسیٰ صاحب کو داخل سلسلہ فرمایا۔ اخیر وقت تک کلمہ شریف پڑھتے ہوئے ۸؍محرم الحرام ۱۳۸۰ھ کو جوار رحمت میں جابسے [17]۔



ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی