تذکرہ قطب الاقطاب‘ حضرت سید شاہ موسیٰ قادری
شیخ الحلقہ پیرزادہ ڈاکٹر سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی
حضرت سید شاہ موسیٰ قادری رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب اکیس واسطوں سے حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیر سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی حضرت سید شاہ محی الدین قادری عرف قادر پاشاہ ہے۔ جو قطب الافاق حضرت سیدنا تاج الدین عبدالرزاق قادری فرزند حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیر کی اولاد سے ہیں۔
ولادت:
حضرت سید شاہ موسیٰ قادری کی ولادت باسعادت ۱۱۵۲ھ میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو اپنی ہمشیرہ کی فرزندی میں دے دیا اس لیے آپ کی پرورش پھوپی صاحبہ کے گھر میں ہوئی اور وہیں بڑے ہوئے۔ جن کا مکان محلہ مستعد پورہ بلدہ میں تھا۔ اور کم سنی میں کبھی کبھی آپ اپنے والد کی خدمت میں بھی حاضری کی سعادت حاصل فرماتے تھے۔ آپؒ مادر زاد ولی تھے۔ آپ نے سات سال کی عمر ہی سے اپنے آباء و اجداد کے طریقے کو اختیار فرمایا اور اس کم سنی میں ہی اپنے ہم عصر بچوں کو سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت دیتے تھے۔
آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ غلام علی قادری الموسوی فرماتے ہیں کہ ان بچوں کے منجملہ بعض کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد بھی حضرت کے دست حق پرست پر مکرر بیعت ہوئے اور کہے کہ ہم لوگ ایام طفولیت ہی میں حضرت کے مرید تھے۔ اس وقت سے آج تک ہماری ارادت قائم ہے، اور بعض ایسے لوگ بھی تھے جو بچپن کی بیعت پر ہی اکتفا کئے۔
خلافت:
صاحب مشکوۃ النبوۃ لکھتے ہیں کہ جب حضرت سیّد شاہ موسیٰ قادریؒ کی عمر شریف چودہ سال کی ہوئی ایک روز آپ جب اپنے پدر بزرگوار کی خدمت میں ان سے شرف ملاقات کے لیے اور اپنے جد امجد کے روضہ مبارک کی زیارت کی نیت ے تشریف لے گئے ۔ آپ نے والد ماجد کودیکھا کہ وہ روضہ منورہ کی جاروب کشی میں مشغول ہیں، حضرت کے والد اپنی خدمت جاروب کشی و غلاف گردانی سے فارغ ہوکر آپ کو روضہ کے اندر بلوایا اور آپ روضہ شریف میں داخل ہوکر والد بزرگوار کی قدم بوسی سے مشرف ہوئے۔ والد بزرگوار نے میرا ہاتھ پکڑ کر مراسم بیعت ادا فرمائے اور اسی وقت مجھے دولت ارادت سے مالا مال کردیا اور مراتب سلوک کی تلقین فرمائی۔
مسند سجادگی پر:
جب آپ کی عمر شریف ۱۹ سال کی ہوئی تو آپ مسند سجادگی پر رونق افروز ہوئے اور ایک عالم کو فیض یاب فرمایا اور آپ ۱۹ سال کی عمر سے ۶۳ سال کی عمر تک ریاضات و مجاہدات میں مشغول رہے، نماز پنجگانہ باجماعت ادا فرماتے، فقہ اور عقائد کی عملی کتابیں آپ کے خاص مطالعہ میں رہتی۔
اشغال و اذکار:
اشغال و اذکار ہمیشہ پردہ اخفاء میں کرتے۔ اگر اتفاق سے کوئی شخص رات کے آخری پہر میں حاضر ہوتا تو آپ اس سے ناخوش ہوتے۔ آپ آخری عمر میں نماز پنجگانہ گھر ہی میں ادا فرماتے اور پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نفل کثیر تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔ اکثر دیکھا گیا کہ آپ نماز عشاء کے بعد تہجد تک نوافل میں مصروف رہتے۔ روزانہ ہمہ وقت اوراد و وظائف میں مشغول رہتے۔ کبھی آپ کے دست مبارک سے تسبیح جدا نہ ہوئی۔ (حصن حصین) کے اکثر اجمال اور ادعیات کے حضرت پابند تھے یعنی اُٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے ،کھانا تناول فرماتے وقت اور سوتے وقت جو دعائیں اور آیات سے مروی ہیں ان کا ورد فرماتے۔ اور ان مسنون دعاؤں کے بغیر کوئی کام نہ کرتے۔
قرآن شریف آپ کا شغل دوام تھا اور مراقبہ کے وقت سرمبارک سینہ تک پہنچ جاتا تھا۔ آخری ایام میں کھانا اس درجہ کم ہوگیا تھا کہ کمسن بچوں کی مقدار خوراک ہوگئی تھی۔ آپ بہت نحیف و ناتوان ہوگئے تھے لیکن چہرہ مبارک اسی طرح تاباں اور درخشاں تھا جیسا کہ پہلے رہتا تھا۔ آپ صرف غربا اور مریدین کی دعوتوں میں تشریف لے جاتے تھے، امراء کی دعوتوں پر معافی چاہتے اور کسی کا دل نہیں توڑتے تھے۔
ایک اہم کرامت:
حضرت سیدی کی کئی کرامات و خوارق عادات ہیں جن میں صرف ایک کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔ شہر کی مشہور موسیٰ ندی میں ایک بار شدید طغیانی آئی۔ باشندے بہت پریشان ہوئے اور آپ سیدی سے دعا کی درخواست کی۔ حضرت نے اپنے عصائے مبارک کو ایک خاص مقام پر رکھا اور ارشاد فرمایا تو موسیی ہے اور میں موسیٰ ہوں۔ اپنی حد میں رہ اور آگے نہ بڑھ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی وقت طغیانی کا زور ٹوٹا اور پانی اپنی حد میں چلا گیا اور اس طرح آپ کی ذات اقدس سے اہل بلدہ کو راحت نصیب ہوئی۔ آپ ہی کے اسم مبارک سے موسیٰ پیٹ۔ موسیٰ باؤلی۔ موسیٰ ندی موسوم ہے۔
صاحب مشکوۃ النبوۃ لکھتے ہیں کہ نظام الدولہ آصف جاہ ثانی حضرت کی خدمت میں اکثر آمد و رفت رکھتے۔ حضرت بھی چند بار رئیس مذکور کے خلوص کی بناء پر ان کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ اکثر لوگوں نے جن کی رئیس وقت کے دربار میں رسائی تھی بارہا سناکہ رئیس الملک نظام الدولہ اپنی مجلس میں کہتے تھے کہ تمام بزرگان وقت کی وجہ معاش مقرر ہے سوائے درویش متوکل حضرت سیّدی موسیٰ قادری رحمۃ اللہ علیہ کے۔ وہ یہ بھی کہتے کہ آپ آبادی شہر کے باعث ہیں اور ملک میں امن و آمان آپ کے قدوم مبارک کی برکت سے ہے۔
وصال:
۲۱ ؍رمضان المبارک ۱۲۱۵ھ حضرت آخری دفعہ محل میں تشریف فرما ہوئے اس کے کامل (۱۰ دس) روز کے بعد یکم ؍شوال کو مرض الموت میں مبتلا ہوئے جس سال آپ کا وصال ہوا۔ اس سال اکثر فرماتے تھے کہ میری عمر ساٹھ سال سے زائد ہوگئی ہے۔ پھر بھی رشتہ حیات باقی ہے۔ یکم شوال بروز عیدالفطر آپ اپنے مکان سے برآمد ہوئے مریدین اور معتقدین کو عید ملاپ کا موقع عنایت فرمایا۔ اس روز آپ کو درد کم محسوس ہوا اور آپ دیوان خانہ الموسوی میں رونق افروز ہوئے۔ عشاء کے بعد گھر میں تشریف لے گئے۔ شدت درد بیان فرمایا۔ تین روز تک علاج کی طرف متوجہ رہے۔ اس کے بعد جب ادویات آپ کے روبرو پیش کئے تو آپ نے فرمایا تین روز سنت کی تکمیل میں دراز لیا۔ اب مجھے دوا کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سفر آخرت کے لیے کمربستہ ہوں مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو۔
حاضرین نے عرض کیا کہ حضرت ایسا ارشاد نہ فرمائیں، آپ کا سایہ عاطفت ہمیشہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ آپ نے فرمایا بیشک عالم غیب حق سبحانہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے لیکن نیک بندوں کو موت کے وقت کی آگاہی ہوجاتی ہے۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اپنے سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میرا دل تو چاہتا ہے کہ دروازہ پر شادیانہ نوبت بجواؤں اور تمام افراد کو آگاہ کردوں کہ یہ فقیر فلاں روز رحلت کرجائے گا لیکن چونکہ یہ سلف صالحین کے معمول کے خلاف اور اہل خانہ کے لیے باعث اضطراب ہے۔
حضرت شاہ قاسم علی حسینی صاحب جو حضرت سیدنا محمد محمد الحسینی گیسودراز بلندپرواز بندہ نواز کی اولاد سے تھے فرماتے ہیں کہ حضرت کی شب رحلت میں نے خواب میں دیکھا کہ خواجہ عبداللہ میرے روبرو آئے اور عرض کیا کہ حضرت ، کیا آپ نے حیدرآباد کے آج کے واقعہ کے متعلق کچھ نہیں سنا میں نے کہا نہیں۔ خواجہ نے کہا کہ آج شہر کے صدر المشائخ کی وفات ہوگئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کے جنازہ میں شریک رہوں۔ کمر بند دوشالہ عنایت کیجئے۔ پس میں نے وہ دوشالہ جو زیب تن تھا نکال کر انہیں دیا اور کہا کہ خواجہ عبداللہ کچھ دیر توقف کرو پس ابھی تمہارے ہمراہ چلوں گا۔ بعد ازاں میں خواب سے بیدار ہوگیا اور حیرت کے ساتھ خواب کی تعبیر کے بارے میں غور کررہا تھا کہ خواجہ عبداللہ خواب کی طرح حاضر ہوئے اور کہا کہ ایک شخص آکر کہہ رہا ہے کہ حضرت سیّد شاہ موسیٰ قادری ابھی رحلت پذیر ہوئے ہیں۔اس کے بعد میں نے جنازہ میں شرکت کا عزم کیا اور نصف صحن تک بھی نہ گیا تھا کہ خواجہ عبداللہ مذکور میرے روبرو آئے اور کہا کہ حضرت رونق افروز ہورہے ہیں غلام کو کچھ مرحمت فرمائیں۔ میں نے دل میں کہا کہ سبحان اللہ عجیب رویائے صادقہ ہے جسے مکاشفہ کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنا دوشالہ خواجہ کو دیا اور انہیں ساتھ لے کر سعادت حضور جنازہ حاصل کی۔
آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ غلام علی شاہ قادری فرماتے ہیں کہ آپ ۲۱ روز تک درد گردہ میں مبتلا رہے۔ لیکن اس عرصہ میں آپ نے کبھی بے اختیار آہ و بکا نہیں کی اور نہ ہی بسر پر پاؤں دراز کئے۔ ایک ہی نشست میں چار زانوں تشریف فرما رہے۔ دن رات یہی حالت رہتی جو ہم لوگوں کی عقل انسانی سے بالاتر ہے۔ آخر وہ وقت بھی آگیا ، آپ ۲۱؍ذیقعدہ ۱۲۱۵ھ کو ۶۳ سال کی عمر میں خلد بریں کو سدھارے (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ مکہ مسجد میں نماز جنازہ کی ادائی کے بعد والد بزرگوار کے روضہ میں سپرد لحد کیا گیا۔ اندرون شہر دروازہ پراناپل کے قریب حضرت کا عالیشان گنبد زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
حضرت کے چار صاحبزادے (۱) حضرت سید شاہ غلام علی شاہ قادری الموسویؒ (۲) حضرت سید شاہ غلام قاسم قادری الموسوی (۳) حضرت سید شاہ غلام حسین قادری الموسوی (۴) حضرت سید شاہ غلام محمد قادری الموسوی ہیں۔
چنانچہ حضرت کے وصال کے بعد بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ غلام علی شاہ قادری الموسوی جانشین مقرر ہوئے۔ آپ صاحب تصنیف و تالیف تھے اور جو مشکوٰۃ النبوۃ جو فارسی نثر میں صوفیائے کرام کے حالات پر مشتمل ہے، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔
عرس شریف:
ہر سال ۲۰؍ذیقعدہ سے ۲۳؍ذیقعدہ تک آپ کے عرس کی تقریب منائی جاتی ہے۔ سجادہ نشین و متولی مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی صاحب کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ عرس شریف میں بلا مذہب و ملت ہر قوم کے افراد شریک ہوتے ہیں اور حضرت قبلہ سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔
سجادہ نشین و متولی صاحب قبلہ کے تین صاحبزادے (۱) پیرزادہ سید شاہ واصف عالم قادری الموسوی (۲) پیرزادہ سید شاہ مختار عالم قادری الموسوی (۳) پیرزادہ سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی ہیں ۔