Hazrat Moulana Qazi Ismail Maqbooli Hangal Shareef حضرت الحاج الشاہ مولانا محمد اسماعیل صاحب مقبولی

 رونق بزم عاشقاں، پیکر کشتگان، عاشقِ اولیاء، مہلک الوہابیہ والنجدیہ مجاہدِ اہلسنت، ناشرِ مسلکِ اعلیٰ حضرت، مناظرِ اہلسنت، علمبردار مقبولیت حضرت الحاج الشاہ مولانا محمد اسماعیل صاحب مقبولی شاگردِ رشید حضرت پیر مقبول احمد شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ہانگل شریف کرناٹک 

آپ نامور عالم، فاضل، صوفی بزرگ، عربی و فارسی کے زبردست ماہر،طبیب  روحانی تھے۔آپ  ان علماء میں سے تھے جن کی صورت کردار میں اکابرین علماء اولیاء کی سیرت مبارکہ کی جھلک نظر آتی ہے۔سمجھنے اور سیکھنے والوں کےلئے اس میں بڑی حکمتیں ہیں۔ حضرت  ایک جید عالم دین اور اپنے وقت کےاکابر علماء ومشائخ  خصوصاً اعلیٰ حضرت کشمیری کےفیض یافتہ تھے۔آپ نے خلوص و للہیت کے ساتھ ساری زندگی دینِ متین کی  خدمت فرمائی جوآج  کل کےنوجوان علماء کرام کے لئے مشعل راہ ہے۔آپ کے مزاج میں انتہائی سادگی اور بے تکلفی تھی ، جو میسر آتا پہن لیتے تکلف و تصنع کو پسند نہ فرماتے تھے ۔



حضرتِ والا تبار کی اس دینِ متین کو لیکر کیجانے والی خدمات بے شمار ہیں۔آپ نے وہابیوں کو للکارا۔نجدیوں کو پھٹکارا، عشق مصطفیٰ کا جام لٹاتے رہے۔ 

آپ علیہ الرحمہ ایک بہترین واعظ اور بہترین زبان سناش تھے۔ آپ کی وعظ و نصیحت کا دور دور تک شہرہ تھا، تبلیغ دین کے لیے آپ دور دراز کا سفر فرماتے رہے۔آخری عمر میں اوراد و وظائف، تزکیۂ نفس اور زیارات مزارات ِ مقدسہ میں مشغول رہنے لگے، تمام معمولات اہلسنت، بزرگان دین کے ایام، میلاد شریف، معراج شریف کی محافل بڑے اہتمام سے مناتے تھے۔ ۔ اسی طرح آپ وہابیہ کے سخت مخالف تھے۔ 

آپ ذکر اعلیٰ حضرت کشمیری اس انداز سے کرتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے۔ آپ اعلیٰ حضرت کشمیری کے انسائیکلوپیڈیا تھے ، آپ اعلیٰ حضرت کشمیری سے متعلق یوں بیان کرتے کہ کچھ وقت پہلے ہی آپ بارگاہ کشمیری سے اٹھ کر آئے ہوئے ہوں۔

آپ کی ہر مجلس اشاعت دین کی آئینہ دار تھی۔ ہر ایک سے خلوص سے پیش آنا آپ کی عادت ثانیہ تھی۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت آپ کا وصف خاص تھا، کلام رضا سن کر جھوم جاتے  تھے۔

مرحوم قاضی وجیہ الدین  کے گھر حضرت مولانا قاضی محمد اسماعیل کی ولادت25 اپریل 1935؁ءکو ہانگل شریف دھارواڑ صوبہ میسور(کرناٹک) میں ہوئی۔ آپ کےاجداد سلطان علی عادل شاہ بیجاپوری کے عہد میں منصب قضا پر فائز تھے ۔آپ کی تعلیم وتربیت دینی ماحول میں ہوئی۔اردو میڈیم سے ۷ کلاس پڑھا اور ہائی اسکول کا امتحان انگریزی ھندی مدراس بورڈ سے پاس کیا،دینی تعلیم کے حصول کے لیے حضرت علامہ سید مقبول کشمیری کی بارگاہ بافیض سےاستفادہ کیا۔

بقول شخصے :’آپ اعلیٰ حضرت کشمیری کے مرید خاص ہیں اور سفر و حضر میں بیس سال تک خدمت کی سعادت حاصل کی۔‘فکرمقبول کو عام کرنے کی ہر ممکن سعی کرتے رہے۔ ریاست کرناٹک و دیگر ریاستوں میں درجنوں اداروں کو اعلیٰ حضرت کشمیری کے نام سے معنون کروانے میں آپ کو سعادت ملی۔ بلاشبہ آپ مقبولیت کے علمبرادر تھے۔آپ کے حوالے سے مرحوم الحاج منورالدین (انور ) انعامدار صاحب تحریر کرتے ہیں کہ

’’ ا یک بات اور بھی ہے وہ یہ کہ مولانا قاضی اسمٰعیل، حضرت کی زندگی میں ہو یا وصال کے بعد رت کبھی بھی حضرت کی شان میں ذرہ برابر کسی بھی طرح کی لب کشائی نہ سُنتے بلکہ ایسا کرنے والے کے ساتھ مقابلہ کرتے ۔ اُن کی یہ والہانہ چاہت و محبت ایسی ہے کہ صرف ان تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ انہوں نے ہمیں بھی اپنی ہی فہرست میں لاکر کھڑا کر دیا اور اپنی اولاد کو بھی وہی درس دیا جس کی وجہ سے ان کا بچہ مقبولی رنگ میں رچ بس گیا۔ وہ اور ان کے بچے اپنے نام کے ساتھ کشمیری حضرت کی نسبت لگانا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اور اپنے بچوں کے نام (اعلیٰحضرت کشمیری نے محمد ابراہیم اور عبد الرحیم )اپنی زبان سے رکھے تھے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی بچے ان کے گھر محلے گلی گاؤں دوسرے گاؤں میں پیدا ہوتے سب کے ساتھ اپنے پیر کا نام لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کی مثال نثار مقبول ا حمد،رضائےمقبول احمد، غلام مقبول احمد، عطائے مقبول احمد، فیضان مقبول احمد ، حسان مقبول احمد ..... وغیرہ ایسے کتنے ہی نام انہوں نے رکھے ہیں۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی نام پوچھتا تو لوگ مقبول کی نسبت کو ہی ایک نشانی بنا لیتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کا نام بھی مقبولی منزل رکھا۔ یہ سب خلوص محبت کے جذبہ نے ایسا کرنے کے لئےمجبور کیا۔ہم ہانگل والوں کا اپنے گھر اپنے بچوں کے نام پیر کے نام سے رکھ لینا آسان ہے مگردوسرے علاقوں اور گاؤں جا کر یہ کام کر دکھائیں؟

یہ حقیقت ہے کہ باہر جہاں بھی جائیے ہمارے مرشدِ اعلیٰحضرت کے نام سے مدرسہ اور مسجد کومنسوب کرنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنا یہ مولانا قاضی اسمٰعیل ہی کے بس کی بات ہے۔ میں گوا، بیلگام ،اور بہت سی جگہوں پر ان کے ساتھ تبلیغی دوروں پر گیا وہاں بھی انہوں نے قیامت تک کے لئے اعلیٰحضرت کا نام روشن رہے، ایسا کام کیا ہے۔ ایسا اور کسی ہانگل والے نے نہیں کیا۔ یہاں کے لوگ دم تو بہت بھرتے ہیں مگر ان کا دم یہیں ہانگل تک ہے۔‘‘‘(سوانح مقبولی)

مرحوم کو کئی زبانوں پر دسترس حاصل رہی اپنی روز مرہ کی گفتگو میں وہ عربی و فارسی زبان کے محاورے ایسے استعمال کرتے جیسے کہ محاورے خود ہی ان کی زبان پر آنے کے لیے بے چین ہوں۔ اردو انگریزی اور عربی رسم خط تو قابل رشک ہے۔

متعدد بار بیت اللہ وروضہ رسول ﷺ کی حاضری کا شرف حاصل ہوا۔دیگر بلاد اسلامیہ کا بھی متعدد بار سفر کیا۔

آپ کی یادگاروں میں اپنے فرزندان کے علاوہ سوانح مقبولی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

 انکی جانب سے دینِ متین کی خدمات اس سے بڑھ کر کیا ہونگی کہ انہوں نے اپنے چاروں فرزندان کو دیندار بنانے کے ساتھ ساتھ عالمِ دین بھی بنایا۔آپ کے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں جن کے اسما کچھ یوں ہیں

مقبول العلما حضرت قاضی مفتی ابراہیم مقبولی

حضرت مولانا قاضی عبد الرحیم مصباحی 

حضرت مولانا نثارِ مقبول ثقافی

حضرت مولانا احمد نعمانی جمالی مقبولی

اورآپ کی شاہزادی کا نکاح محترم قاری بشیراحمد صاحب ساکن ہوسپیٹ سے ہوا۔

حضرت قاضی اسماعیل صاحب کو مذکورا بالا اشخاص سے خلافت حاصل رہی۔

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ

پیر طاھر نقشبندی مدینہ منورہ 

پیر طریقت الشیخ نورس خانقاہ قادریہ بغداد شریف 

خلیفہ حضور مفتی اعظم الحاج اسمٰعیل احمد جانی علیہ الرحمہ

 آپ کے ملفوظات کو اگر جمع کیا جائے تویہ ایک شاندار کام ہوگیا۔

آپ کی زبان و بیان نہایت صاف سلیس اور دل چھو جانے والا ہے۔ آپ کی تحریری کارمانے میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک سوانح مقبولی ایک انمول تحفہ ہے۔ 

آپ کا وصال  بتاریخ ۱۳ محرم الحرام ۱۴۴۵ ھ بمطابق 30 جولائی 2023 بروز اتوار رات تقریباً 9بج کر 30 منٹ پر ہوا۔انا للہ وانا الیہ رٰجعون

اور 1 اگست 2023 کو آپ کی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مفتی ابراہیم مقبولی صاحب کی اقتدا میں ادا کی گئی اور ہزاروں لوگوں نے نمناک آنکھوں کے ساتھ آپ کو تہہ خاک سلا دیا ۔ ہماری دعا ہے کہ رب قدیر ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی