Biography Hazrat Molana Hakeem Abdul Qayyum Shaheed Badayuni مولانا حکیم عبدالقیوم شہید بدایونی

  مولانا حکیم عبدالقیوم شہید بدایونی 

شوال المکرم ۱۲۸۲؁ھ سال ولادت، ‘‘ذاکر رسول اللہ’’ تاریخی نام، پردادا مولانا شاہ فضل رسول بد ایونی نے محمد عبد القیوم نام رکھا، دادا کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت تاج الفحول نے تعلیم دی، ۱۲۹۸؁ھ میں حضرت تاج الفحول کے ہمراہ حج وزیارت سے مشرف ہوئے، تکمیل علوم کے بعد طب کی تحصیل مولانا حکیم سراج الحق سےکی، پھر دہلی جاکر حکیم عبد المجید خاں سے استفادہ کیا، حکیم محمود خاں دہلوی نے بہت مسرت کے ساتھسند طب پر دستخط ثبت کیے، طب میں خصوصی کمال حاصل کیا، علاج نہایت ارزاں اورتیربہدف کرتے، نامی طبیب آپ کی حذا قت کے قائل و معترف تھے، حضرت شاہ ابو الحسن احمد نوری قد س سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے، حضرت تاج الفحول اور مولانا عبد العزیزی مکی سے اجازت وخلافت تھی۔



علم کلام سے شغف ورثہ میں ملا تھا، خصوصاً وہابیوں کے ردکی طرف پوری توجہ صرف کرتے، آپ کی ذات سے بد ایوں میںمسلاح معاشرہ کے بڑے بڑےکام انجام پائے، بد ایوں میں شیعوں سے قرابت نے سُنیوں کے دلوں میں مداہنت کارنگ جمایا، سنیوں کی مجالس محرم میں شیعہ سوز خوانی پڑھتے تھے، مولانا حکیم عبد القیوم نے ازخود سنی محفلوں میں شرکت کر کے محافل پڑھیں، جس وقت ذکر شہادت وفضائل اہل بیت بیان فرمائے مجلس عرصہ کربلا بن جاتی، خود بے اختیار روتے اور دوسروں کو رُلاتے جب ۱۳۱۱؁ھ میں مجلس ندوۃ العلماء قائم ہوئی اور اس کے بانیوں نے دین و مذہب کے قیود دائرہ سے تجاوز کر کےوہابیوں ، غیر مقلدوں اور شیعوں سے وداد، و ، الفت کی ٹھانی تو دیگر علمائے اہلسنت کی طرح مولانا حکیم عبد القیوم شہید نےان کی اصلاح کی کوشش فرمائی، اور بعد میں اس کے بالمقابل مجلس علمائے اہل سنت کی بنیاد ڈالی، قاضی عبد الوحید صاحب رئیس اعظم عظیم آباد سے تحریک کرکے ‘‘تحفۂ حنفیہ’’ جاری کرایا اور اس کے ذریعہ مفاسد ندوہ کارد بلیغ فرمایا۔۔۔۔۔ اجلاس پٹنہ سے ایک سال پہلے ۱۱؍صفر ۱۳۱۷؁ھ میں جامع مسجد شمسی میں جامعہ شمسیہ کی بنیاد ڈالی اور ایک عظیم الشان افتتاحیج لسہ منعقد کیا، جس میں مولانا شاہ احمد رضا بریلوی، مولانا سید شاہ عبد الصمد سہسوانی، مولانا وصی احمد محدث سورتی نے شرکت کی، مولانا شاہ محب احمد بد ایونی صدر مدرس مقرر کیے گئے۔

مولانا حکیم عبد القیوم قدس سرہٗ کی رحلت و موت ایک خاص انداز سے ہوئی، حضڑت سیف اللہ المسلول کے عرس میں ۶؍جمادی الثانیہ کو معمولاً فجائل اہل بیت و ذکر شہادت بیان کیا جاتا تھا ۱۳۱۸؁ھ کو مواجہہ میں بیٹھ کر خاص شان سے ذکر شہادت ومصائب اہل بیت بیان کیا، علماء ومشائخ کا مجمع تھا سب اشکبار تھے، اختتام پر دفعۃ دعاء کو ہاتھ اٹھاتےہوئے بارگاہ الٰہی میں سراپا عجز ونیاز ہوکر یہ دعا مانگی، کہ الٰہی بہ برکت شہادت اہل بیت رسالت وعزت خاندان نبوت اس گنہگار بندہ کو بھی خمخانۂ شہادت سے ایک جام عطا ہو، دعاء قبول ہوئی اور آپ نے چالیس دن کے اندر درجہ شہادت حاصل کیا

ندوۃ العلماء کا جلسہ پٹنہ میں ہورہا تھا، آسی کے مفاسد کےانسداد واستصال کےلیے مولانا قاضی عبد الوحید صاحب نے مدرسہ حنفیہ کا جلسہ طلب کیا، مولانا عبد القیوم صاحب نے جلسہ کی کامیابی کےلیے مشاہیر علماء مشائخ کو آمادہ کرنے کے لیے ملک گیردورہ کیا، اور وقت مقررہ پر حضرت تاج الفحول کی ہمرکابی میں کثیر تعداد میں علماءکو لے کر جلسہ کی شرکت کے لیے روانہ ہوئے، دارنگر میں گاڑی رکی، نماز فجر کا وقت تھا، اسٹیشن پر اُترے، حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر وضو کیا، ریل نے سیٹی دے دی، لپک کر چڑھنا چارہا ریل تیز ہوچکی تھی پاؤں پھیل گیا، نیچےجاگرے، مسافروں میں کُہرام مچ گیا، مولانا شاہ محمد فاخرالہ آبادی جو ہمراہ تھے سب سے پہلے گاڑی سے کود پڑے، گاڑی روک دی گئی، بار بار پہئے سے ٹکرانے کی وجہ سے آپ کا جسم زخموں سے چور تھا، ہمت و توانائی کا یہ عالم کہ گاڑی رکتے ہی دامن قبا جھاڑتے ہوئے نکل آئے، مولانا شاہ محمد فاخر نے بڑھ کر ہاتھوں کو بوسہ دیا، قوت باطنی اور ہمت و توانائی پر سب کو حیرت تھی، صحیح سلامت نکل آنے پر حاضرین نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے، مگر حضرت تاج الفحول کی حق بیں نگاہیں پر نم تھیں، اس حادثہ فاجعہ کی خبر بجلی کی طرح پھیل گئی، امکان واپسی کے لیے لوگوں نے عرض کیا تو فرمایا جس نیت سے گھر چھوڑا ہے وہ امردینی ہے اور اس کی شرکت واپسیکے لیے لوگوں نے عرض کیا تو فرمایا جس نیت سےگھر چھوڑا ہے وہ امر دینی ہے اور اس کی شرکت جان سے زیادہ عزی اور مقدم ہے، پٹنہ اسٹیشن پر ہزارہا افراد موجود تھے، فرود گاہ پر پہونچ کر حضرت سید العرفاء مولانا سید شاہ امین احمد منیری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علماء ومشائخ کےاصرار سے ڈاکٹری علاج شروع کرایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت تاج الفحول کے حکم کے مطابق مولانا سید شاہ عبد الصمد سہسوانی مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی، مولانا شاہ فضل مجید بد ایونی تیممارد ای کے لیے مقرر تھے، طبیعت بظاہر وصحبت ہورہی تھی کہ یکا یک دل و جگرے ٹکڑے خون بن کے خاجر ہونے لگے، سترہویں رجب کو جلسۂ اہل سنت ختم ہوا کامیابی جلسہ کے شکر میں شکر الٰہی ادا کرکے نماز عشاء معہ وتمہادا کی، اس کے بعد آدھا گھنٹہ تک یاد الٰہی میں مروف رہنے کے بعد جام شہادت نوش فرمایا،۔۔۔۔حضرت تاج الفحول نے حضرت مولانا سید شاہ عبد الصمد صاحب سے فرمایا، سید صاحب! آپ شہید مرحوم کے بہت زیادہ ناز بردار اور خیال رکھنے والے تھے، اج آپ ہی اُن کو غسل بھی دیجئے، مولانا شاہ عبد الصمد نےمولانا شاہ عبد المقتدر، مولانا فضل مجید مولانا عبد الواحد خاں رام پوری کی مدد سے غسل دیا، اور قطب بہار حضرت شاہ امین احمد ثبات منیری المتوفی ۱۳؁ھ قدس سرہٗ نے نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ بذریعہ ریل بد ایوں لے جایا گیا ۱۴؍ رجب کو خانقاہ قادری میں حضرت سیف اللہ المسلول کے قرب میں دفن کیے گئے، مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی نے قطعۂ تاریخ کہا ؎

عالم کامل، طبیب نامدار

 

عبد قیوم آں وحیدروزگار

از شہادت، منصب اعلیٰ گرفت

 

روح پاکش رفت در دا القرار

ہاتمی از قوت اوامل جہاں

 

نوحہ خواں اندر فراقش روزگار

تایکے ایں گریہ نالہ تا یکے

 

تابکے باشی حسن اشک بار

صبر کن،تاریخ رحلت خوش نویس

 

شد بجنت عالم عالی وقار

آپ تصانیف میں ‘‘رسالہ شفاعت’’ فضائل الشہود بیان علم عروض تدبیر معالجات مرضیٰ عربی فارسی اردو قصائد وغزلیات کا مجموعہ میں آپ کا تخلص جوش تھا۔

(تذکرہ طیبہ، اکمل التاریخ حصہ دوم، تحفۂ حنفیہ پٹنہ)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی