Biography Hazrat Sayed Ibraheem Majzoob Tashqandi ayodhya حضرت سید شاہ ابراہیم مجذوب تاشقندی

 

Biography Hazrat Sayed Ibraheem Majzoob Tashqandi ayodhya 
حضرت سید شاہ ابراہیم مجذوب تاشقندی

       ایودھیا کی سرزمین پر ایک انتہائی عظیم المرتبت اور مہتم بالشان شخصیت آرام فرما ہیں جن کا اسم گرامی سید شاہ ابراہیم مجذوب علیہ الرحمہ ہے۔ آپ کا آستانہ فیض آباد سے 10 کلو میٹر کی دوری پر ایودھیا کے محلہ ابراہیم گنج میں اڑگڑا چوراہے کے پاس جلوہ گاہ خاص وعام ہے۔ 



         حضرت ابراہیم شاہ مجذوب علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت شہر تاشقند میں اپنے والد ماجد کے عہد حکومت میں ہوئی۔ اس وقت آپ دوسرے بھائی مناصب عظمیٰ فائز تھے۔ پھر بعد میں آپ بھی مسند شاہی پر فائز ہوئے۔ لیکن جلد ہی آپ نے بادشاہت کو خیرباد کہہ دیا۔ آپ علیہ الرحمۃ والرضوان حضور سیدنا خواجہ یحییٰ بنارسی علیہ الرحمۃ والرضوان کے مرید اور خلیفہ مجاز تھے اور سلسلہ قادریہ، اور چشتیہ میں بھی آپ کو خرقہ خلافت و اجازت حاصل تھا۔ اپنے مرشد گرامی کے حکم واجازت سے آپ نے شہر ایودھیا میں قیام فرمایا۔ جب حضور سیدنا سید ابراہیم مجذوب تاشقندی نے اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ یحییٰ بنارسی علیہ الرحمۃ والرضوان کے حکم پر ایودھیا  میں مستقل قیام فرمالیا تو حضور سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد سرہ آپ سے ملاقات کے لئے ایودھیا تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ آپ کے ایک مرید بھی تھے۔ حضرت بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں کوئی چیز مجذوب کے کھانے کے لئے آئی وہ کھانے لگے۔ کچھ دیر کے بعد حضرت مخدوم صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اشرف! تم بھی کھاؤ حضرت کھانے میں شریک ہو گئے جب کھانا تھوڑا باقی رہ گیا۔ تو مجذوب نے کہا اپنے مرید کو بلا لو تاکہ وہ بھی شریک ہو جائے۔ مرید نے کہا جو بظاہر نماز نہیں پڑھتا میں اس کے ساتھ نہیں کھا سکتا ہوں۔ یہ سن کر مجذوب بہت خفا ہوئے اور عالم جلال میں ان کو مارنے کے لئے تکیہ اٹھا لیا۔  حضرت درمیان میں آ گئے اور معذرت کی، مجذوب نے کہا مجھے غصہ اتارنے کے لئے کوئی چیز  چاہیے۔ حضرت نے ایک مینارہ کی طرف اشارہ کیا مجذوب نے تکیہ مینار کی طرف پھینکا تو مینار گرگیا۔

          یہ بات ہر عام وخاص میں مشہور معروف ہے کہ اگر کوئی شخص چالیس دنوں تک بلا ناغہ آپ کے آستانہ پر حاضری دے اور اپنی حاجت پیش کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ  اس کی برکت سے اس کی حاجت پوری فرما دیتا ہے۔ آپ علیہ الرحمۃ والرضوان نے ایودھیا میں ہی انتقال فرمایا  ”ھو الخالق دریائے فیض“سے آپ کی تاریخ میں وصال نکلتی ہے۔ روضہ شریف کے اندر مزار کے سرہانے ایک طاق میں  مقفل ایک پٹارہ میں آپ کے تبرّکات رکھے ہوئے ہیں۔ خرقہ مبارک، عصا اور کشتی رکھی ہوئی ہے۔ اور ایک مرقع با تصاویر جو نہایت پر تکلف ہیں صدہا سال سے موجود ہیں کہیں ایسے نہیں دیکھے گئے ہیں اور ایک ڈبہ بھی موجود ہے۔ آپ کے آستانے میں ایک دینی درگاہ بنام ”مدرسہ ابراہیمیہ“ چلتی ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 26،25،24 رجب المرجب کو انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے۔



حضرت شیخ ابراہیم مجذوب علیہ الرحمۃ

آپ وہی ہیں"جن کا ذکر شیخ نجیب الدین علی برغش کے حالات میں گزرا ہے کہ وہ عجیب دیوانہ تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ چند روز کچھ نہیں کھاتا اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک ہی دفعہ سوسیر کھا جاتا ہے۔اس کے حالات و کرامات عجیب بیان کرتے تھے۔مجھے ان کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔میں نے اس سے کہا"آایک دن باہم مل کر رہیں۔وہ ایک بار بھی مانتا نہ تھا۔آخر ایک دن میں نے اس کو بازار میں دیکھا۔جاڑے کا موسم تھا۔کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ ایک جگہ ہم مل کر رہیں"لیکن یہ شرط ہے کہ آج کی رات بازار کی مسجد میں رہیں۔پھر اس کے ساتھ مسجد میں گیا۔میں نے کہا"کھانا لاؤں؟ کہا"میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔پھر وہ چلاگیا۔بارش پڑنی شروع ہوئی پر نالے بہ نکلے۔جب مغرب اور عشاء کی نماز ہم نے پڑھ لی اور لوگ مسجد سے باہر چلے گئے۔تب میں اور وہ تنہا مسجد میں رہ گئے۔اس وقت کہا کہ میں بھوکا ہوں"کچھ کھانا لاؤ کہ میں کھاؤں۔اندھیری رات تھی اور برف پڑ رہی تھی۔بارش ہو رہی تھی۔میں نے چند دینار زر جو کہ میرے پاس تھے۔اس کو دئیے اور کہا اس وقت معاف رکھو۔کیونکہ ظاہر ہے عذر ہے۔اس زر سے کل کو غذا لےلینا۔وہ زر تو لے لیا اور تھوڑی دیر صبر کیا،لیکن پھر یہ کہا کہ میں بھوکا ہوں،اٹھ اور کچھ لا کہ میں کھاؤں۔میرا گھر مسجد دور تھا،لیکن اس مسجد کے قریب میرا ایک رشتہ دار مال دار تھا۔میں اس کے گھر گیا اور جب میں سن چکا تھا کہ وہ بہت کھانا کھاتا ہے۔میں نے کہا،ایک جماعت میری مہمان آگئی ہے اور یہ میں نے اس معنی میں کہا کہ ہر شخص حقیقت میں ایک جماعت ہے۔کیونکہ اس میں لطائف ہیں۔یعنی نفس،قلب،روح وغیرہ۔انہوں نے کہا،دیر ہوگئی اور کھانا پختہ نہیں رہا۔ان کے خدمت گار تھے۔ہر ایک کے سر پر ایک بھرا ہوا،طشت کچے چاول کا اور بعض طشت کچے باقلا اور بعض پنیر اور بعض چنے وگیہوں اور ایک دنبہ قدید(بھنا ہوا گوشت)میرے ساتھ مسجد میں لائے اور کہاکہ خود پکالو۔میں نے یہ سب طشت اس کے سامنے رکھ دئیےاور دل میں تخمینہ کیا تو وہ سب پچاس سیر وزن تھا۔میں نے کہا،صبر کر کہ اس کو پکالو۔کہا، میں ویسے ہی کھاؤں گا۔سب کو کچا کھا گیا۔ایک گھڑی صبر کیا۔ایک سائل کی آوازآئی جو مانگتا پھرتا تھا۔مسجد سے باہر دوڑا اور جو کچھ اس نے جمع کیا تھا،اس سے لے لیا۔دس سیر کے قدر روٹیوں کے ٹکڑے اور کھانا تھا۔مسجد میں لے آیا اور سب کھا گیا۔جب آدھی رات گزری تو مجھ سے کہا،اٹھ اور مسجد کے گوشہ میں جاکر سو رہو۔کیونکہ تم نے مجھ سے بڑی تکلیف اٹھائی ہے،اگر کوئی حرکت کی یا ہلا تو تجھے ہلاک کر ڈالوں گا۔میں مسجد کے گوشہ میں جا کر سو رہااور یہ طاقت نہ رکھتا تھاکہ حرکت کروں۔چنانچہ اگر مجھے کہیں کھجلی ہوتی تو کھجلنے کی حرکت نہ کرتا۔اس مسجد میں ایک بڑا پتھر رکھا ہوا تھا۔ہر دم اٹھاتا اور اس پتھر کو پکڑتااور میرے سرہانے لاتا اور اپنے آپ کو کہ اس پتھر سے اس کو ماروں گااور ہلاک کردوں گا۔پھر آپ ہی کہتا کہ یہ جائز نہیں۔کیونکہ اس کا باپ بوڑھا ہے۔کل کو روئے گا۔اس پتھر کو پھر وہیں جا کر رکھ دیتا۔چند دفعہ ایسا ہی کیا۔مجھ کوڈر کے مارے نیند نہ آئی تھی،لیکن اپنے آپ کو ایساظاہر کیا کہ میں سوتا ہوں۔پھر کہنے لگا،میں جانتا ہوں کہ تم نہیں سوتے ہو۔تجھ کو بہت تکلیگ دیتا ہوں۔اب می ننے تم کو خدا کے لیے معاف کیا۔میں مسجد کے چھت پر جاتا ہوں۔تاکہ تو آرام سے سورہے۔پھر وہ چھت چلا گیا۔میں ڈر تا وہا گیا اور ہجر کا درازہ باہر سے بند کر دیااور سو رہا۔اس کے کھانے کی آواز آتی تھی۔میں نے تعجب کیا کہ وہ کیا کھاتا ہے۔کیونکہ مجھے معلوم تھاکہ اندر کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔جب صبح کو باہر نکلا اور چلا گیا تو میں حجرہ میں گیا۔دیکھا تو کتابوں کی تمام جلدیں کھا گیا تھا۔

(نفحاتُ الاُنس)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی