Biography Mufti Mazhar Kareem daryabadi تعارف حضرت مجاہدآزادی حضرت مفتی مظہر کریم دریاآبادی

 شاہجہاں پورکے سرپرستِ انقلاب

مفتی مظہر کریم ،دریابادی

Biography Mufti Mazhar Kareem daryabadi
تعارف حضرت مجاہدآزادی حضرت مفتی مظہر کریم دریاآبادی


از قلم علامہ یاسین اختر مصباحی

مفتی مظہر کریم، دریابادی (متوفی ۱۲۸۹ھ؍اکتوبر۱۸۷۳ء) 

معروف اردو ادیب و صحافی، مولانا عبدالماجد، دریابادی (متوفی ۱۹۷۷ء)کے دادا تھے۔

یعنی مولانا عبد الماجد دریابادی، فرزندِ مولوی عبدالقادر ،دریابادی، فرزندِ مفتی مظہر کریم، دریابادی۔

مفتی مظہر کریم ،دریابادی ایک طویل مدت تک، شاہجہاں پور میں سر رشتہ دار فوجداری تھے جہاں انقلابِ ۱۸۵۷ء میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ عیدگاہِ شاہجہاں پور میں ایک بھاری اجتماع کے درمیان آپ نے انگریزی اِقتدار کے خاتمہ کی دعا کرائی تھی۔

ڈاکٹر محمد ایوب، قادری (کراچی) نے ایک یورپین لیڈی جرنلسٹ’’مریم‘‘ کی تحریر کردہ رپورٹ ،نقل کی ہے، جس میں بتایا گیاہے کہ:

 مفتی مظہر کریم ،دریابادی کے مکان ،واقع شاہجہاں پور پر ایک جلسہ یکم مئی۱۸۵۷ء کو ہوا جس میں تقریر کرتے ہوئے، مولوی سرفراز علی نے انگریزوں کے خلاف، ہندوستانیوں کو مشتعل کیا۔ مریم کے الفاظ میں مولوی سرفراز علی کی تقریر کا اہم حصہ ،یہ ہے:

’’مولوی صاحب نے اپنا ہاتھ، داڑھی پر پھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ کچھ پڑھا۔

 پھر، ہر چہار سَمت، نظر ڈال کر فرمایا:

آپ کو معلوم ہے کہ فرنگی، مکَّاری سے ہمارے آقا بن بیٹھے ۔ملک میں سوداگری کے بھیس میں آئے۔ سیاسیات میں دخل انداز ہو کر ایک صوبہ دار کو دوسرے کے خلاف بھڑکایا۔ اورخود ،تنازعات کا فائدہ اٹھانے لگے۔ اس طرح انہوں نے کرناٹک پر قبضہ کرلیا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کس عَیَّاری سے انہوں نے کلکتہ کو دارُ السَّلطنت بنایا۔ کبھی، خوشامد سے اور کبھی، مکاری سے او رکبھی، دونوں سے بادشاہِ وقت پر اثر ڈالا۔ بنگال کی صوبہ داری کی مسند لے لی۔

پھر، میسور کی حکومت ،حاصل کرلی۔ مرکزی ہندوستان کے سبزہ زاروں پر قبضہ جمایا۔ روہیل کھنڈ جیسے نفیس صوبہ پر ،دسترس، حاصل کرلی۔ پنجاب اور برما پر ،دست درازی کی۔

بالآخر،ایک نمایا ں تخریب سے، جس کی کوئی مثال، تاریخ میں نہیں ملتی

 انہوں نے شاہِ اَوَدھ کو ،بِلاوجہ، معزول کیا اور باغِ ہند کے غیر متنازعہ آقا، بَن بیٹھے۔

اِس طرح ،تھوڑا تھوڑا کرکے انہوں نے ہمارا سب ملک چھین لیا ۔

اور اپنی ملعون حکومت، ملک کے گوشہ گوشہ میں قائم کرلی۔ 

……آپ کہیں گے کہ:

 ہم، محکوم قوم ہیں۔قدرت کی طرف سے ہمارا یہی مَقسوم ہے۔ ہم کو ،شکایت کا حق نہیں۔

یہی سہی۔ لیکن ،اے بھائیو! اب تو ہمارا دین و مذہب بھی خطرے میں ہے۔

 ملکی حکومت گئی، کافر کی اِطاعت بھی کی ۔

کیا، اب ہم، وہ ناقابلِ انتقال نعمت بھی حوالے کردیں، جو ہم کو ،رسول اللہ ﷺ سے ملی ہے؟

شاید، آپ ،یہ معلوم کرنا چاہیں گے کہ: میرے بیانات ،کن واقعات پر مبنی ہیں؟

دوستو!جان بوجھ کر کافروں کی عیَّاریوں پر، پردہ نہ ڈالو۔

کیا ،ملک کے طول وعرض میں ان کے پادری، نہیں پھیل گئے ہیں؟ 

کیا، وہ، نصرانی عقائد کے ممنوعہ بیج، نہیں بورَہے ہیں؟

 کیا، سادہ لوح اَنْ پڑھوں کو، ان کے مذہب سے ،نہیں نکالا جارہا ہے؟

 کیا ،انہوں نے گیہوں کے آٹے میں ہڈی کا بُرادَہ ،ملا کر ،فروخت کرنے کاحکم ،نہیں دیا ہے؟ 

کیا، انہوں نے فوج کے سپاہیوں کو گائے اور سُوّر کی چربی لگا کر، کارتوس، نہیں دیے ہیں؟ اور اس ناپاک شے کے استعمال کو بزور جاری کرنے کے لئے

 کیا، انہوں نے ہر اُ س شہر میں جہاں، دیسی فوج ہے

 دوہزار لوہے کی ہتھکڑیاں ڈَھلْوا کر ،اس حکم کے ساتھ ،نہیں بھیجی ہیں کہ:

 جو کوئی، دانت سے کاٹنے پر انکار کرے، اُس کو فوراًگرفتار کرکے جیل بھیج دیا جائے؟

برادرانِ ہند! تمہاری قومی تقدیس، خطرے میں ہے۔

 تمہارے مذہبی امتیاز پر ،جو تمہارا طُرَّۂ افتخار ہے

 گمراہ کُن نَووَارِد فرنگیوں نے ہلَّہبول دیاہے۔ مسلَّح ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔

بتاؤ تو اَب کب اٹھو گے؟ افسوس !کیا ،ہم میں کوئی بھی ایسا صاحبِ فہم نہیں

 جس میں اپنے مذہب کے تقدس کے خاطر، ایسی مردانہ ہمت ہو کہ:

 وہ ہماری مذہبی آزادی میں دخل اندازی کا مقابلہ کرے؟ کیا، ہم، مُردہ ہیں؟ بالکل، مُردہ ہیں؟‘‘

اِس پُر جوش تقریر میں عید کی نماز کے بعد، بغاوت کا اعلان کیا گیا۔

اور لفظ ’’دین‘‘ کو نشانِ امتیاز ،قرار دیا گیا ۔

اِختتامِ تقریر پر، سب اہلِ جلسہ، جوش میں آگئے او رنعرے لگانے لگے۔‘‘

(ص:۳۲تاص۳۶ ۔تحریکاتِ ملّی ۔ از ڈاکٹر ابو سلمان، شاہجہاں پوری)

اِس تقریر اور بعض تاریخی تحریروں سے معلوم ہوتاہے کہ:

 انقلاب کی اصل تاریخ ،خفیہ طور پر ۳۱؍مئی ۱۸۵۷ء مقرر تھی ۔

مگر ،میرٹھ کے فوجی، اپنے جذبات پر قابو،نہ رکھ سکے اور دس مئی ہی سے اس کا آغاز ہوگیا۔

مفتی مظہر کریم ،دریابادی کے پوتے ،ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی (سرسید نگر، علی گڑھ۔ یوپی) نے آپ کاایک مختصر تعارف’’ انقلاب ۱۸۵۷ء نمبر‘‘، ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ۔ شمارہ اپریل ومئی۲۰۰۷ء میں تحریر کیا ہے ،جسے یہاں، بِلفظہٖ،نقل کیا جارہاہے:

’’لکھنؤ اور فیض آباد کے درمیان اور لکھنؤ سے تقریباً ۴۲ میل دور واقع ایک مردم خیز قصبہ ہے :دریاباد۔ جو ۱۸۶۱ء تک، یا اس کے کچھ بعد تک یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خاتمے کے تقریباً ،پانچ سال بعد تک ،ضلع رہا۔ اس کے بعد، بارہ بنکی کو ضلع کا مستقر بنایا گیا اوردریاباد کو، کوئی انتظامی حیثیت، حاصل ،نہ رہی۔

اس قصبے میں قدوائی خاندان بھی آباد ہے۔ جس کے مورثِ اعلیٰ، قاضی القُضاۃ شیخ مُعِزُّالدین ،ملقَّب ،بہ قدوۃُ الدینِ و العلم، یا ۔عُرف ِ عام میں قاضی قدوہ تھے۔

 ایک زیادہ صحیح روایت کے مطابق :

وہ اناطولیہ سے شہاب الدین غوری کے عہد میں ہندوستان آئے اور انھیں قضا کا منصب، عطا ہوا۔

 اور سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں انھوں نے حسبِ فرمائشِ سلطان، لکھنؤ کا رُخ کیا اورجگور، رسولی، قدیم نام ’’ہرسولی‘‘ وغیرہ میں زمینداروں پر فتح پاکر اجودھیا پہنچے اور وہیں، سکونت، اختیار کی۔ 

ان کا مزار، بابری مسجد(اجودھیا) سے تقریباً ،ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھا ۔

جسے مسجد کے ساتھ ،شہید کردیا گیا۔

 انھیں جاگیریں بھی عطا ہوئیں اور ان کی اولاد، مسولی، بڑاگائوں، بھیارہ، رسولی، دریاباد میں اورکچھ جگور اور ضلع فیض آباد میں آباد ہوئی۔ 

قاضی صاحب کا شوقِ جہاد اور غایتِ تشرُّع و تقویٰ، سب روایتوں میں مشترک ہے۔

 قاضی صاحب ،قدوائی خاندانوں کے شجر ے کے مطابق، نسلاً اسرائیلی تھے۔

 شجرئہ نسب، ہریشون بن حضرت موسیٰ سے ہوتا ہوا

 حضرت لاوا، انگریزی قالب میں Levi فرزندِ سوم، حضرت یعقوب تک پہنچتا ہے۔

 لکھنؤ اور جوارِ لکھنؤ کے شیوخِ صدیقی، عثمانی، و انصاری ،جواپنی اعلیٰ نسبی پر فخر کے خوگر تھے انھوں نے بڑھ کر قدوائیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنی لڑکیاں، ان کے عقد میں دیں۔

انھیں قاضی قدوہ کی نسل میں، ان سے کوئی دس پشتوں میں

 ایک بزرگ اور نمایاں ہستی، مخدوم شیخ محمد آب کش ،دریابادی متوفی ۸۸۰ھ مطابق ۱۳۲۷ء (جو اِس قصبہ کے بانی تھے) کی نظر آتی ہے۔ ان کی گیارہویں پشت میں 

مولوی مظہر کریم پیدا ہوئے۔ فقہ اور مشیخت ،ان کے والد، مخدوم بخش کا خاندانی ورثہ تھا۔

 مولوی مظہر کریم، جو چار بھائیوں میں منجھلے تھے، انھوں  نے علم و فضل کی تحصیل ،خود کی۔ تعلقات، خود ان کے اور ان کے بڑے بھائی، مولوی حکیم نور کریم (جو طبیب گر کہلاتے تھے) کے فرنگی محل، لکھنؤسے بہت بڑھے ہوئے تھے۔

 اور فرنگی محل اُس وقت تک تھا: دارُ العلم و العمل۔

 محض قافیہ کی رعایت سے نہیں، واقعہ کے اعتبار سے بھی۔

 معاصر عُلماے فرنگی محل (لکھنؤ) کے نام ،مولانا عبدالحکیم، مولانا عبدالحلیم، مولانا عبدالرزَّاق مولانا عبدالحئی ، مولانامحمد نعیم کے ہیں اور فتاویٰ کی تائید میں دستخط ،اُن کے ملتے ہیں۔

 بدایوں، بریلی، رام پور، شاہجہاں پور اور دہلی کے عُلَما سے بھی تعلقات تھے۔

فتاویٰ کے سلسلے میں مولانامفتی صدرالدین ،آزردہ،ؔ شاہی مفتی دہلی، مولانا فضلِ حق خیرآبادی، مولانا سعدُ اللہ ،،رام پوری، مولانا فضلِ رسول، بدایونی کے نام، بار بار ملتے ہیں۔

انگریزی حکومت، نئی نئی ،قائم ہوئی تھی۔ کہیں ،قائم ہوچکی تھی، کہیں، قائم ہورہی تھی۔

 ان علاقوں میں جو آج ،ریاستِ اتر پردیش کہلاتا ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کا حکم ،چل رہا تھا۔

 شاہ جہاں پور، ضلع قرار پاچکا تھا۔ مفتی مظہر کریم، ۱۸۲۹ء میں

 بسلسلۂ تلاشِ ملازمتِ انگریزی، شاہجہاں پور پہنچے اور ایک ادنیٰ عہدے سے ترقی کرتے ہوئے 

سَو(۱۰۰)روپے کے مشاہرے پر، سرشتہ دار فوجداری ہوگئے۔

 اُس وقت کے معیار سے تنخواہ اور اختیارات، دونوں کے لحاظ سے بلند اور ذِمَّہ داری کا عہدہ تھا۔ انگریز کلکٹر پر مفتی صاحب کا خاصا اثر تھا۔ جب مفتی صاحب ان سے ملنے جاتے ،تو خاندانی روایتوں میں سننے میں آیا ہے کہ کلکٹر اپنے مسلمان خانسا ماں سے چائے بنواکر پیش کرتا تھا۔

جب، مجاہدینِ آزادی نے شاہجہاں پور پر قبضہ کرلیا اور انگریز حُکَّام کو قتل کردیا تومفتی صاحب کے قیامِ شاہجہاں پور کی مدت اُس وقت، ستائیس(۲۷) سال سے زیادہ ہوچکی تھی۔

 اتنے طویل قیام سے پر دیس ،دیس بن چکا تھا اور مسافرت میں شان، وطن کی ہوچکی تھی اور عمائدینِ شہر سے مفتی صاحب کے بہت گہرے مراسم و روابط، عزیزوں کے سے، قائم ہوچکے تھے۔ ان کا شمار، شہر کی بااثر شخصیتوں میں ہوتا تھا اور ان کا عوام اور حُکَّام پر ،بڑا اچھا اثر تھا۔

مفتی صاحب نے انگریزوں کے خلاف ،جہاد کا فتویٰ دیا۔ گیارہ مہینے سے زیادہ، شاہجہاں پور اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں مجاہدینِ آزادی کی حکومت، جنرل خان بہادر خاں کی سربراہی میں قائم رہی۔ ان مجاہدین میں غیور اور بہادر روہیلے اور جان ہتھیلی پر رکھنے والے راج پوت تھے۔ 

مفتی صاحب نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ 

ان کے گھر پر مجاہدینِ آزادی کے جلسے ہوا کرتے تھے۔ ان جلسوں میں جنگی حکمتِ عملی تیارکی جاتی تھی اور دوسرے انتظامی امور کے بارے میں بھی اہم فیصلے کیے جاتے تھے اور ان معاملوں میں مفتی صاحب کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔

 مولانا احمدُ اللہ ،مدراسی، جو عُرفِ عام میں ’’مولانا فیض آبادی‘‘ کہلاتے تھے ، مفتی صاحب کی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ جب مجاہدین کو انگریزی فوجوں نے شاہجہاں پور میں شکست دی اور اس پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا ،تو مجاہدینِ آزادی کے دوسرے لیڈروں کی طرح، مفتی صاحب کو بھی گرفتار کرلیاگیا۔

ایک انگریز، ٹی، ایف فنیتھم نے ۱۸۵۸ء میں بنارس کے ایک پریس سے شاہجہاں پور میں انگریزی حکومت کے تسلُّط کے بعد شاہجہاں پور میں ۱۸۵۷ء میں ہونے والے واقعات کی ایک طویل داستان، انگریزی میں شائع کی اور اس میں مفتی صاحب کو بغاوت کا سرغنہ ٹھہرایا۔

 اور اسی کے ساتھ ،اس نے مفتی صاحب کے اثر و اقتدار کو، ہر جگہ، تسلیم کیا۔

 انگریزی تسلُّط کے بعد مفتی صاحب کو گرفتار کیا گیا۔ اس نے ان پر یہ الزام لگایا کہ انگریزی حکومت کے خلاف، جہاد کے فتویٰ پر، ان کے دستخط تھے۔ مفتی صاحب کو بغاوت کے اِلزام میں چودہ(۱۴)سال کی سزا، بہ عبور دریاے شور دی گئی۔ یعنی انھیں انڈمان بھیج دیا گیا۔

 جہاں، ان کا ساتھ، مولانا فضلِ حق خیرآبادی اور مفتی عنایت احمد، کاکوروی جیسے سالاروں کا، رہا۔ 

اسیری کے دَوران، مفتی صاحب نے علمی مشغلہ، جاری رکھا۔

 اپریل ۱۸۵۹ء میں گورنمنٹ کی طرف سے، یہ اشتہار ،شائع کیا گیا کہ:

 ’’مفیدِ عام کتابوں کے ترجمے پر ،اہل ِعلم کو بشرطِ پسندِ حکومت، معقول انعام، نقد عطا ہوگا۔‘‘ مفتی عنایت احمدکاکوروی صاحب اور مفتی مظہر کریم صاحب نے اس اعلان سے فائدہ اٹھاکر عربی جغرافیہ کی ایک ایک کتاب ،اردو ترجمے کے لئے انتخاب کرلی۔

مفتی عنایت احمد صاحب نے تَقْوِیْمُ الْبُلْدَان کو لیا ۔

اور مفتی مظہر کریم صاحب نے مَرَاصِدُ الاِْطِّلاع فِی اَسْمَائِ الْاَمْکِنَۃ وَ الْبِقاع۔ مصنَّفہ صفی عبدالمومن کا اُردو میں ترجمہ کیا۔

 (یہ غیر مطبوعہ ضخیم ترجمہ، قلمی نسخہ ،یا مخطوطہ کی صورت میں عَمِّ مرحوم ،مولانا عبدالماجد ،دریابادی کے کتب خانہ میں عرصہ تک رہا اور راقم السُّطور (محمد ہاشم ،قدوائی) کو بھی 

اس کی ورق گردانی کا شرف، حاصل ہوا) 

جب، انعام کا وقت آیا تو بجائے نقد رقم کے ،رہائی کو پیش کیا گیا۔

چنانچہ، بقیہ میعادِ اَسیری، معاف کردی گئی اور اپنے وطن ،دریاباد(اَوَدھ) واپس آگئے اور خانہ نشین ہوگئے اور خاموشی کے ساتھ ،انھیں خدمات میں لگے رہے۔

انھوں نے ۱۴؍اکتوبر ۱۸۷۳ء کو، داعیِ اجل کو لبیک کہا اور آبائی قبرستان میں مدفون ہوئے۔ ان کی بیوی کا چھ مہینے پہلے ،انتقال ہوچکا تھا۔ دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں کل سات اولادیں چھوڑیں۔ چھوٹے فرزند، مولوی عبدالقادر، ڈپٹی کلکٹر تھے اور ان کے چھوٹے بیٹے، نامور عالمِ دین، مفسرِ قرآن اور ادیبِ جلیل، مولانا عبدالماجد،دریابادی تھے۔

 اور بڑے بیٹے، مولوی عبدالمجید، ڈپٹی کلکٹر تھے ۔

اور راقم السُّطور (محمد ہاشم ،قدوائی)کے والدِ ماجد تھے۔

مفتی صاحب کا خاص فن، فقہ تھا۔ جزئیات کے گویا ،حافظ تھے۔ اِستفتا ،بکثرت آتے تھے۔  بعض، دور دراز سے بھی۔ فتاویٰ، ہزاروں کی تعداد میں قلم سے نکلے، جو فتاویٰ مظہریہ کے نام سے موسوم ہوئے۔ لیکن، افسوس ہے کہ یہ فتاویٰ ،غیر مطبوعہ رہے۔ عام کتبِ فتاویٰ کی طرح ان فتاویٰ میں فہرستِ مضامین بھی تھی اور ان کی ترتیب بھی بڑی جامع اور مکمل تھی۔ 

مفتی صاحب کے کمال کا شہرہ، سُن کر، شاہ آباد، بلگرام، محمدی، تلہر، جلال آباد، بدایوں

 اور بریلی سے اِستفتا آتے تھے اور یہ سب استفتا مع جواب، واپس بھیجے جاتے تھے۔

 سرکاری ملازمت کے ساتھ ،استفتا کے جوابات دیتے رہتے تھے۔

 مگر، اس کے باوجود، انھوں نے بہت سی کتابیں ،جمع کر لی تھیں۔

 جن میں فقہ کی چھوٹی بڑی کتابوں کو ملاکر ،بڑی کثیر تعداد کا حوالہ اپنے فتووں میں دیتے تھے۔ 

فقہ کی متعدد کتابیں ،اپنے ہاتھ سے نقل کیں۔ خط ،بڑا پختہ تھا۔

 حضرت رسالت مآب ﷺ سے خاص طور سے شیفتگی تھی۔ 

عقائد میں ہم مسلک، عُلماے بدایوں کے تھے۔ 

’’غَایۃُ الْمَرَام فِی تَحقیقِ الْمَولُودِ وَالْقِیام‘‘ کے نام سے ایک کتاب، اپنے ایک عزیز قریب کے نام سے محفلِ میلاد اور اس میں قیامِ تعظیمی کی حمایت اور جواز میں چھپوائی۔ 

مناقبِ غوثیہ، یعنی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی مدح اور توصیف میں ایک غیر مطبوعہ تصنیف چھوڑی۔

 فارسی میں بھی متعدد فقہی مسائل سے متعلق ’’مسائلِ مذہبیہ‘‘ کے نام سے ایک تصنیف تھی۔ جوغیر مطبوعہ رہی۔‘‘ (ص۹۶ و ۹۷۔ انقلابِ ۱۸۵۷ء نمبر۔ماہنامہ ،نیا دور، لکھنؤ۔شمارہ اپریل/مئی۲۰۰۷ء)


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی