Biography Ahmadullah Shah Madrasi Faizabad تعارف مجاہد آزادی قائد انقلاب احمد اللہ شاہ مدراسی

 مولانا سید احمدُاللہ شاہ ،مدارسی
بانیِ ریاستِ ’’محمدی‘‘شاہجہاں پور

ازقلم علامہ رئیس القلم یاسین اختر مصباحی

دلاورجنگ ،مولانا سیداحمدُاللہ شاہ، مدراسی (متولد ۱۲۰۴ھ/ ۱۸۱۷ء۔ متوفی۲؍ ذوالقعدہ ۱۲۷۴ھ/ ۱۵؍جون ۱۸۵۸ء) انقلابِ ۱۸۵۷ء کے سالارِ اعظم تھے۔

 جن کا تدیُّن و تصوُّف اور جن کی شجاعت و مردانگی 

تاریخِ ہند و تاریخِ انقلاب کے روشن ابواب ہیں۔

احمد علی نام، ضیاء الدین لقب اور دلاور جنگ، خطاب ہے۔ بعد میں احمدُاللہ کے نام سے شہرت ملی۔ اپنی جمعیت کے ساتھ، جب سیداحمدُاللہ شاہ، مدراسی نکلتے

توآپ کے ساتھ، ایک دَستہ، ڈنکا اور نقارہ پیٹتا ہوا چلتا تھا۔ اِس لئے تاریخوں میں آپ کا عُرف ،کہیں’’ڈنکا شاہ‘‘ اور کہیں ’’نقارہ شاہ‘‘ بھی جابجا ملتاہے۔

مولانا سیداحمدُاللہ شاہ، مدراسی بن سیدمحمدعلی (نواب چنیاپٹن تعلقہ پورنا ملّی) بن سیدجلال الدین عادل، جنوبی ہند کا ایک درخشاں ستارہ ہے 

جس نے شمالی ہند کے آفاق کو، مدتوں روشن ودرخشاں رکھا اور دہلی و آگرہ و لکھنؤ و فیض آباد وشاہجہان پور کے اندر، اپنی تگ و تاز اور معرکہ آرائیوں کی ایک ناقابلِ فراموش تاریخ، رقم کی۔

سید جلال الدین عادل، اُس خاندانِ قطب شاہی کے ایک فرد تھے، جسے ۱۶۸۷ء میں سلطان اورنگ زیب عالمگیر نے گول کنڈہ (دَکنْ)پر قبضہ کے بعد ،تخت و تاج سے محروم کردیا تھا۔ 

اچھی تعلیم و تربیت، صوم و صلوٰۃ و احکامِ شریعت کی پابندی، اَوراَد وظائف سے دل چسپی ہمت و اولوالعزمی، فنونِ حرب میں مہارت اور خوش اخلاقی و اعلیٰ ظرفی نے سیداحمدُاللہ شاہ مدراسی کو مجموعۂ صفات بنادیا تھا۔ خود، آپ کے والد، سیدمحمدعلی، جہاں ایک طرف، نواب چنیاپٹن اورمُصاحب ومُشیرِ سلطان ٹیپو تھے، وہیں، دینداری اور فقر و تصوف سے انھیں خاصا قلبی وروحانی لگائو تھا۔

انگریزوںکے ساتھ، جنگِ سرنگاپٹنم، میسورکے درمیان، شہادتِ سلطان ٹیپو (۱۷۹۹ء) کے  بعد، پورے علاقۂ مدراس کے حالات، خراب اور مسلمان، تباہی و بربادی کے شکار ہوچکے تھے۔ یہ ماحول، سیداحمدُاللہ شاہ نے ہوش سنبھالتے ہی دیکھا تھا۔ اور حالات کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا تھا۔

عنفوانِ شباب ہی میں مولانا سیداحمدُ اللہ شاہ، اپنا گھر بار چھوڑ کر ریاضت و مجاہدہ وسَیر وسیاحت کے لئے نکل پڑے۔ پہلے، حیدرآباد دَکن (جنوبی ہند)پہنچے ۔

اوروہاں کچھ دن، قیام کیا۔ اس وقت ،مَرہٹے ،،حیدرآباد پر حملے کر رہے تھے۔

 حیدرآباد کی طرف سے مرہٹوں کے خلاف، آپ نے جنگ میں حصہ لیا اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے۔ پھر، مدراس، واپس آئے اور وہاں سے انگلستان کا سفر کیا، جہاں ،ملکہ و کٹوریہ کے شاہی مہمان ہوئے۔ وہیں سے مصر گئے ،پھر، حج و زیارت کی نیت سے حجازِ مقدس کا سفر کیا۔

آپ کے ایک مُرید، مولانا فتح محمد،تائبؔ لکھنوی(متوفی ۱۳۲۰ھ/ ۱۹۰۱ء) نے

آپ کے منظوم حالات ،بنام’’ تواریخِ احمدی‘‘ (مطبوعہ ۱۲۹۷ھ مطبع انوارِ احمدی، لکھنؤ) میں اس سفرِ حج وزیارت کا ذِکر، اِس طرح کیا ہے:

ہوا دل کو ذوقِ سفر پھر قبول

پیٔ اِقتباسِ حضورِ رسول

چلے، سر کے بل، جاں نثارِ نبی

ہوئے خاک بوسِ مزارِ نبی

عرب و تُرکی و ایران و افغانستان ہوتے ہوئے مولانا سیداحمدُاللہ شاہ

ہندوستان، واپس آئے۔ بیکانیر و سانبھر(راج پوتانہ ،موجودہ راجستھان) کے علاقے میں 

بارہ (۱۲)برس رہ کر ریاضت و مجاہدہ و اَوراد و ظائف و چلَّہ کشی کی۔ 

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ کے پوتے، حضرت خواجہ حُسَام الدین سوختہ کا مزارِ مبارک، سانبھر(راج پوتانہ ۔،موجودہ راجستھان)ہی میں ہے۔

یہاں کی آب و ہوا اور فیضان نے آپ کو روحانی لذت سے سرشار کردیا۔

 بارہ برس، یہاں عبادت و ریاضت میں گذارنے کے بعد، آپ، جے پور(راج پوتانہ ) آئے اور حضرت میر قربان علی چشتی سے بیعت و اِرادت کی نسبت ،حاصل کرنے کے بعد خرقۂ خلافت سے نوازے گئے۔

یہاں سے آپ، ٹونک(راج پوتانہ ) آئے۔ نواب وزیر الدَّولہ کا عہدِ حکومت تھا۔ آپ ،وعظ و تذکیر کے ساتھ، بعد نمازِ عصر، محفلِ سماع بھی منعقد کیا کرتے تھے۔

یہ بات، وہاں کچھ لوگوں کو ناپسند آئی اور سماع کے اوپر ،سوال و جواب ،شروع ہوگیا۔

 آپ نے اپنے معترضین کو جواب دیا، مگر، ماحول اپنے حق میںنامناسب ونا مساعِد دیکھ کر آپ، ٹونک سے گوالیار(موجودہ صوبہ مدھیہ پردیش)چلے آئے۔ 

ٹونک ہی میں آپ، حضرت محراب شاہ قلندر، گوالیاری کا شُہرہ سن چکے تھے۔

یہاں آکر آپ نے حضرت محراب شاہ کی خدمت میں حاضری دی ۔

اور ان کے دامنِ کرم سے وابستہ ہونے کی خواہش، ظاہر کی۔ 

محراب شاہ نے فرمایا کہ :

’’سَودا، بڑا کٹھن ہے۔ میں تو عرصہ سے تمہارا منتظر ہوں۔ 

مگر ،تمہیں اِس کے لئے جان کی بازی لگانی ہوگی۔ ‘‘

مولانا مدراسی نے برضا و رغبت، جب سب کچھ قبول کیا 

تو آپ نے کچھ اَور ادو وظائف کی انھیں تلقین کی اور گلے لگاکر خلعتِ خلافت سے سرفراز کیا۔

 حضرت قربان علی شاہ، چشتی، جے پوری اور حضرت محراب شاہ قلندر، قادری، گوالیاری سے چشتی و قادری خلافت پاکر ،مولانا سیداحمدُاللہ شاہ، مدراسی، چشتیت و قادریت کا سنگم بن گئے۔

قادری نسبت نے آپ کے اندر ،انقلابِ عظیم برپا کردیا۔ 

محراب شاہ قلندر،قادری، گوالیاری نے آپ سے عہد لیا تھا کہ:

 وطنِ عزیز کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کراناہے۔ 

جسے آپ نے بسرو چشم قبول کیا تھا اور پھر اپنے مُرشد سے کیے گئے وعدہ کی تکمیل کے لئے آپ ،پورے طور پر سرگرمِ عمل ہوگئے۔

اِسی ارادہ سے گوالیار سے ۱۸۴۶ء میں دہلی پہنچے۔ جہاں، آپ نے عُلما و مشائخ سے ملاقات کرکے انہیں آمادئہ جہاد کرنے کی مُہم شروع کی۔

اور پھر جلد ہی حضرت مفتی صدرُالدین ،آزردہؔ دہلوی، صدرُالصُّدوردہلی(متوفی ۱۲۸۵ھ؍ ۱۸۶۸ء)کے مشورہ اور آپ کے تعارفی مکتوب کے ساتھ، آگرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ جو اُس وقت، نہایت اہمیت کا حامل، مقام تھا اورکثیرتعداد میںاہلِ علم وفضل کے اجتماع وقیام کی وجہ سے اسے متحدہ ہندوستان کے اندر،اس وقت ایک مرکزی حیثیت ،حاصل تھی۔

مفتی اِنعام اللہ، گوپا مئوی، سرکاری وکیل آگرہ(متوفی ۱۲۷۵ھ۔ ۱۸۵۹ء۔ مدفون، درگاہ ابوالعُلا، آگرہ) کے نام، مفتی صدرُالدین، آزردہؔ، دہلوی کے سفارشی مکتوب نے 

آگرہ میں مولانا سیداحمدُ اللہ شاہ ،مدراسی کے لئے روابط و تعلقات 

اور اپنے مقصد میں کامیابی کی راہیں کھول دیں۔

مفتی انعام اللہ، گوپامئوی، اُس وقت ،سرکاری وکیل آگرہ 

اورمعروف ومعزز ومقتدر شخصیت وحیثیت کے حامل ومالک تھے۔

 مولانا مدراسی کے وعظ و بیان میں ہزاروں مسلمانوں کا مجمع ہوتا تھا۔

 جگہ جگہ، آپ کے تبلیغی و اصلاحی دَورے ہوتے تھے۔

 ’’مجلسِ عُلما‘‘ کے نام سے نہایت سرگرمی کے ساتھ آپ نے اپنے منصوبہ کے مطابق اپنے کام کوآگے بڑھایا۔آپ کی شہرت ومقبولیت اور آپ کے تعلقات و اثرات کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا۔ بڑے بڑے عُلما وفُضَلا و اُدَبا و شُعَرا، آپ کے گرویدہ ہوگئے۔

 آپ کے عزائم اورآپ کی ہر دل عزیزی نے حکومتِ وقت کو چوکنا کردیا ۔

اور انگریز مخالف سرگرمیوں نے سرکاری کارِندوں کے ہوش اُڑا دیے۔

مولانا مدراسی کے مُرید،فتح محمد، تائبؔ لکھنوی نے اپنی مثنوی’’تواریخِ احمدی‘‘میں لکھا ہے کہ:

 اپنے مریدوںسے مولانا مدراسی ،جہاد کا عہد وپیمان لیا کرتے تھے۔

چنانچہ، تائبؔان کے بارے میں کہتے ہیں :

لیا ،ان سے پھر امتحانِ جہاد کہ کھینچیںنصاریٰ پہ تیغِ عناد

مولانا سیدمحمدمیاں ،دیوبندی لکھتے ہیں:

’’حضرت مولانا مفتی محمد صدرُ الدین صاحب جیسا اعلیٰ مدبِّر

 جس نے حضرت سیداحمدُاللہ شاہ صاحب کی سیاسی تگ ودَد کے لئے آگرہ کا میدان، منتخب فرمایا۔

آپ نے خود ہی اس کی ذِمِّہ داری بھی لی کہ:

حضرت مولانا شاہ احمدُ اللہ صاحب جیسے ہی آگرہ پہنچیں ،بِلا کدو کاوش، کلیدی حضرات تک ان کی رسائی ہوجائے اور، یہ ان کا اعتماد، حاصل کرلیں۔ چنانچہ، حسبِ روایت مفتی انتظام اللہ، شہابی:

’’مفتی انعام اللہ، خان بہادر، جو محکمۂ شریعت کے مفتی، رہ چکے تھے، اب سرکاری وکیل تھے۔ حضرت آزردہؔ کے خط کے ذریعہ ،شاہ صاحب (مدراسی) ان کے یہاں آکر مقیم ہوئے۔ ان کا گھر، عُلما کا مرکز بنا ہوا تھا۔ مفتی صاحب کے صاحبزادے 

مولوی اِکرامُ اللہ ،صاحبِ ’’تصویر الشُعَراء‘‘ مُرید ہوئے۔

عُلما وفُضَلا کا یہ گلدستہ ،جس کی شیرازہ بندی، اب تک علمی و ادبی ذوق نے کر رکھی تھی مولانا احمداللہ شاہ صاحب کے پہنچنے کے بعد، اس میں سیاسی رنگ ،پیدا ہونا، شروع ہوا ۔

اور ’’مجلسِ عُلما‘‘ کی شکل میں اس اجتماع کی تشکیل کی گئی۔ 

اس کے ارکان کی مختصر فہرست ،ملاحظہ ہو:

مولوی شیخ اعتقاد علی بیگ صاحب، مولوی امام بخش صاحب، سیدباقر علی صاحب ناظمِ محکمۂ دیوانی، مولوی نورُالحسن صاحب، سیدمراتب علی صاحب، مولوی خواجہ تراب علی صاحب سیدحسن علی صاحب، رحمت علی صاحب، مفتی ریاض الدین صاحب، مولوی غلام جیلانی صاحب، غلام مرتضیٰ صاحب، شیخ محمدشفیع صاحب، مولوی عبدالصَّمد صاحب، مولوی منصب علی صاحب، مولوی محمد عظیم الدین حسن صاحب، رسول بخش صاحب، باسِط علی صاحب، مومن علی صاحب، محمد قاسم صاحب، داناپوری، معین الدین صاحب، مولوی کریم اللہ خاں صاحب صدرُ الصُّدور، قاضی محمدکاظم علی صاحب، تاج الدین صاحب، طفیل احمد صاحب خیرآبادی

مولانا غلام امام شہیدؔ، مفتی عبدالوھَّاب صاحب ،گوپامئوی، ڈاکٹر وزیرخاں صاحب مولوی فیض احمد صاحب بدایونی، مفتی انعام اللہ صاحب۔

یہ حضرات، صدارت ،نظامت کے مختلف عہدوں پر فائز تھے ،یا ۔وُکلا تھے۔

جنھوں نے اس مجلس کی رکنیت، منظور کی۔ اور دامے، درمے، قدمے، سخنے

 شاہ صاحب کی تائید و اِعانت، شروع کردی۔‘‘

 (ص۴۱۸تاص۴۲۰۔ عُلماے ہند کا شاندار ماضی۔ جلدِ چہارم۔

مؤلَّفہ: سید محمدمیاں،دیوبندی۔ مطبوعہ: کتابستان ۔گلی قاسم جان۔دہلی۶)

مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں:مولوی احمدُاللہ شاہ اور پہلی جنگ آزادی، از مفتی انتظام اللہ شہابی، اکبرآبادی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی عُلما، از مفتی انتظام اللہ، شہابی۔ 

جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء۔ از پروفیسر محمدایوب قادری (کراچی)۔ جنگِ آزادی کے مسلم مشاہیر    از محمدصدیق قریشی، جہلمی۔ ۱۸۵۷ء کے مجاہد، از غلام رسول مہرؔ۔

 غدر کے چند عُلما، از مفتی انتظام اللہ شہابی، اکبرآبادی۔ 

سیدخورشید مصطفی رضوی لکھتے ہیں کہ :

مولانا سیداحمدُ اللہ شاہ مدراسی کو انگریز، انقلابِ ۱۸۵۷ء کا دل و دماغ اور دست و بازو سمجھتے تھے۔

’’تحریکِ ۱۸۵۷ء کے لئے پورے ملک کو تیار کرنے میں مولانا شاہ احمدُ اللہ، مدراسی کا نام ،سرِ فہرست آتاہے۔ وہ ملک کے گوشے گوشے میں دورے کرکے 

عوام کو بغاوت کے لئے آمادہ کررہے تھے۔

 میلسن (Malleson)لکھتاہے کہ:

 بے شک، اس تمام سازش کا رہنما، مولوی (احمد اللہ شاہ) تھا۔ اور یہ سازش، تمام ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ یقینی طور پر آگرہ ،جہاں اس مولوی نے کچھ عرصہ، قیام کیا تھا۔

 اور دہلی، میرٹھ، پٹنہ اور کلکتہ وغیرہ ،سازش کے مر کزتھے۔

مولانا احمدُ اللہ شاہ نے جو خط و کتابت کی، اس کا تذکرہ، فیض آباد میں

 ان کی گرفتاری کے وقت ،سرکاری کاغذات سے ملتاہے۔ جن میں لکھا ہے کہ:

جب ،مولوی کی تلاشی لی گئی، تو متعدد خطوط، برآمد ہوئے۔

 جن سے اِس سازش پر پوری روشنی پڑتی تھی۔‘‘

میلسن نے اپنی ایک دوسری کتاب ’’دی انڈین میوٹنی‘‘ (۱۸۹۱ء) میں

 مولانا مدراسی کو بغاوت کا دست و بازو بتایا اور چپاتیوں کی تقسیم کا بانی ،انھیں قرار دیاہے۔

 میلسن نے ۱۸۵۷ء کی پوری تاریخ، مرتَّب کی ہے اور بغاوت کے تیس (۳۰)سال بعد پوری چھان بین کے بعد ،یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کے الفاظ، یہ ہیں:

That this man (Moulvi) Waz the brain and the hand of the canspiracy there can, I think be little daubt. During his travels he divised the scheme Knaown as chapati scheme. (Malleson: Indian Mutiny PP.18)

ترجمہ: میں سمجھتا ہوں کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ:

 یہی شخص، بغاوت کی سازش کا دماغ اور دست و بازو تھا۔

 اپنے سفر کے دَوران، اسی نے ،وہ اسکیم تیار کی جو’’ چپاتی اسکیم‘‘ کہلاتی ہے۔‘‘

مولانا احمدُ اللہ شاہ کو اعلیٰ صلاحیت کا مالک

اور پختہ عزم و ہمت کا انسان قرار دیتے ہوئے میلسن ،مزید لکھتاہے کہ:

مولوی نے شمالی مغربی صوبوں کا دَورہ کیا۔ اس کے دَورے کا مقصد، انگریزوں کے لئے راز ہی رہا۔ وہ کچھ عرصہ، آگرہ میں ٹھہرا۔ دہلی، میرٹھ، پٹنہ اور کلکتہ گیا۔

 اس نے اس دورے سے واپسی کے بعد، باغیانہ اِشتہار، تمام اَوَدھ میں جاری کیے۔۔۔۔۔۔۔۔

 کلکتہ میں قیام کے دَوران، غالباً، مولوی نے وہاں کی دیسی سپاہ سے مسلسل رابطہ قائم کیے رکھا اور وہ طریقہ ڈھونڈھ نکالا، جس سے سپاہ کے فطری جذبات پر

خصوصی اثر ڈالا جاسکے۔‘‘ میلسن: انڈین میوٹنی (۱۸۹۱ء) ص۳۳۔ 

(ص۲۰۴و۲۰۵۔ تاریخِ آزادیِ ہند، ۱۸۵۷ء۔ مؤلَّفہ :خورشید مصطفی رضوی۔مطبوعہ :رضا لائبریری ،رام پور)

میلسن، آگے چل کر لکھتاہے:

 مولوی (احمدُ اللہ شاہ) اور اس کے ساتھیوں کے قاصدوں نے اپنا کام، پوری طرح انجام دیا تھا۔ سپاہیوں کی رہائش گاہوں پر، آدھی رات کی خفیہ کانفرنسیں، نہ صرف بارک پور (کلکتہ) بلکہ تمام شمالی مغربی ہندوستان میں ہورہی تھیں اور انھیں اچھی طرح، باوَر کرایا جارہا تھا کہ:

 غیر ملکیوں نے اَوَدھ کو ہضم کرلیا اور اب، وہ اپنا باقی منصوبہ

 سپاہ کو عیسائی بناکر پورا کریں گے۔‘‘ انڈین میوٹنی ص۵۳۔ 

(بحوالہ ص۲۰۹۔ تاریخِ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء۔ از خورشید مصطفی رضوی۔مطبوعہ :رام پور)

میلسن نے پوری تحقیق کے بعد ،اپنی کتاب میں میرٹھ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

’’ اگرچہ، بغاوت کے وقت، مولوی (احمدُ اللہ شاہ) یا اس کے ساتھی، غالباً، موجود نہیں تھے مگر، انھوں نے فوج کی تمام رجمنٹوں میں کمیٹیاں بنادی تھیں،جو اپنا کام کررہی تھیں۔

 انھیں کے آدمیوں نے آٹے میں ہڈیاں پیس کر ملائے جانے کی افواہ پھیلائی اورنئے کارتوسوں کے بارے میں معلومات ،دیسی سپاہ کو ،فراہم کیں۔‘‘

(Malleson: Indian Mutiny of 1857 P.66-Khaki Resala P.52-54)

واضح رہے کہ فوج میں کمیٹیاں بنانے کی تصدیق، جے سی ولسن کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، ایک اور انگریز افسر، رابرٹ ہنری ویلیس ڈنلپ ،جس نے اپنے چشم دید مشاہدات، کتابی صورت میں بیان کیے اور میرٹھ کے قرب و جوار کے حالات لکھے ہیں

 اعتراف کرتاہے کہ بغاوت کے لئے سازش ،پہلے سے موجود تھی۔

(Dunlop (R.H.W) Services and adwenturs with Sen P.67)

(ص۲۳۶ و ۲۳۷۔ تاریخِ جنگِ آزادیِ ہند ،۱۸۵۷ء۔ مؤلَّفہ :خورشید مصطفی رضوی۔مطبوعہ: رضا لائبریری، رام پور)

مفتی انتظام اللہ ،شہابی ،اکبرآبادی(متوفی ۱۹۶۸ء) لکھتے ہیں:

’’مولانا سیداحمدُ اللہ شاہ، دلاور جنگ، نواب چنیاپٹن کے صاحبزادے، ابوالحسن تاناشاہ بادشاہِ گولکنڈہ کی اولاد سے تھے۔ عالم فاضل اور فنونِ حرب کے ماہر، مشرق و مغرب کی سیاحت کی۔ 

میر قربان علی، جے پوری اور حضرت محراب شاہ قلندر، گوالیاری کے مرید و خلیفہ تھے۔

قلندر صاحب نے جاں بازی و سرفروشی کی بیعت لی ۔

اور انگریزوں کے اقتدار کے خلاف، جنگی مساعی کے لئے مقرر کیا۔

دلاور جنگ (احمدُ اللہ، مدراسی) دلی آئے۔ پھر آگرہ آکر قیام پذیر ہوگئے۔ بیعت کا سلسلہ جاری کیا۔ خان بہادر، مفتی انعام اللہ شہابی کے یہاں’’ مجلسِ عُلما‘‘کی تشکیل کی۔ 

جب ہزار ہا مُرید ہوچکے ،تو ان کو فنونِ حرب سے آگاہ کیا۔

امیر علی شاہ (امیٹھی، لکھنؤ) کی شہادت (۱۸۵۵ء)پر لکھنؤ آئے۔ فیض آباد گئے۔

حکومت نے نظربند کردیا۔ ۱۸۵۷ء رونما ہوا۔ جیل ٹوٹی۔ یہ بھی رہاہوکر مع مُحبانِ وطن کے

 لکھنؤ آئے اورنصف لکھنؤ پر قبضہ کرلیا۔ اور اپنا اقتدار بڑھانا ،شروع کیا۔ 

مَمَّوخاں نے،برجیس قدر کو تختِ اَوَدھ پر بٹھایا اور نگراں، ملکۂ اودھ، حضرت محل تجویز ہوئیں۔ اَفواجِ کمپنی اور حضرت محل کے خوب خوب مقابلے رہے۔

مَموخاں کی سِفلہ پروری اور سنِّی شیعہ کی پھوٹ نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔ 

مجبوراً، حضرت محل، شاہجہاں پور ،روانہ ہوگئیں۔ 

شاہ صاحب پھر بھی انگریزوں سے ٹکر لیتے رہے۔

 مگر مسلمان اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں ،تباہی کی راہ پر لگ رہے تھے۔

 شاہ صاحب نے بھی شاہجہاں پور کا رُخ، اختیار کیا۔

نواب خان بہادر خاں روہیلہ آپ کو بریلی بلارہا تھا۔

 پچاس ہزار روہیلہ آپ کے زیر عَلم رکھنے کی دعوت دی تھی۔

 آپ، لکھنو سے شاہجہاں پور گئے۔ محمدی (شاہجہاں پور) میں حکومتِ اسلامی، قایم کی۔ شاہزادہ، فیروز شاہ، وزیر، مقرر ہوئے۔ جنرل بخت خاں ،کمانڈر ،مقرر ہوئے۔ 

خلافتِ راشدہ کی اِتباع میں حکومتِ شرعیہ کا نقشہ، قائم۔ سِکَّہ، شاہ صاحب کے نام کا جاری ہوا۔

سِکَّہ زد، بر ہفت کِشور، خادمِ محراب شاہ

حامیِ دینِ محمد، احمدُاللہ بادشاہ

(ص۲۶و۲۷۔ ’’غدر کے چند عُلما‘‘۔مؤلَّفہ :مفتی انتظام اللہ شہابی۔ مطبوعہ: دہلی )

مفتی انتظام اللہ ،شہابی ،اکبرآبادی اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:،

’’(مولوی احمدُ اللہ شاہ) ہفتے میں تیسرے دن، بعد نمازِ عصر، قلعۂ اکبرآباد کے میدان میں مَردوں کو لے جاکر فنِ سپہ گری اور شہ سواری کی مشق کرایا کرتے۔

خود بھی ایسا نشانہ لگاتے، جس کا جواب، نہ تھا۔ 

تلوار کے ہاتھ ،ایسے جچے تُلے ہوتے ،جس کی دھوم تھی۔

 مریدین ،ثواب اور عبادت سمجھ کر یہ مشق کرتے تھے۔ 

مفتی انعام اللہ شہابی نے اپنی سواری کا گھوڑا اور بجلی سیف، شاہ صاحب کو نذر کی۔

آپ کا جلوس، جمعرات اور جمعہ کو باوقار اور نشان کے ساتھ، نکلا کرتا۔

 پالکی میں خود بدولت، سوار ہوتے اور آگے ،ڈنکا بجتا چلتا۔ ہزارہا آدمی، جلوس میں ہوتے۔

 جامع مسجد میں آپ کے زمانہ میں جتنے آدمی، جمع ہوگئے اتنے دیکھنے میں نہیں آئے۔ ڈنکے کی وجہ سے عوام میں’’ ڈنکا شاہ‘‘ کرکے بھی مشہورتھے۔‘‘

(ص۲۳۔’’ایسٹ انڈیاکمپنی اورباغی عُلما‘‘۔ازمفتی انتظام اللہ، شہابی۔دِینی بکڈپو ،اردو بازار۔ دہلی)

شاہ صاحب کے یہاں، محفلِ سماع کا اہتمام ،خاص طور سے ہوتا تھا۔

مریدین پر توجہ ڈالی اور ادھر لوہے کے کڑھائو میں کوئلہ کے انگارے بھرے رہتے 

وہ مجلس میں پھیلا دیے جاتے۔ اس پر مریدین، لوٹتے۔ آگ ،ان پر بالکل اثر نہ کرتی۔‘‘

 (ص۲۲۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی عُلما ۔مطبوعہ :دہلی)

’’حضرت شاہ صاحب ،قصبات میں دورے کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔ 

کچھ عرصہ کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔ حُکَّام نے ان عہدہ دارانِ صدر پر

 جن میں بڑا حصہ، عُلما کا تھا، رشوت کا مقدمہ چلایا۔

 اکثر لوگ ،شاہ صاحب کے مرید و مشیر و ہم نَوا تھے۔

مسٹر،وِلسن ،جج ضلع مرادآباد، سماعتِ مقدمہ کے لئے مقرر ہوا۔

 شاہ صاحب کو سفر میں اس واقعہ کی خبر لگی۔ آپ نے فرمایا:

’’ یہ امتحان کی گھڑی ہے۔ گھبرانا نہیں چاہیے۔ کسی کا بال، بیکانہ ہوگا۔ 

چند دن کی آزمائش ہے۔ استقلال اور پامَردی کو کام میں لایا جائے۔‘‘

چنانچہ، مقدمہ پیش ہونے پر ،جو گواہ آتے، ملزمین کی مقدس صورتیں دیکھ کرتَھرَّا جاتے۔ جھوٹی گواہی دینے کی جرأت ،نہ ہوتی۔ مگر ،اِنتقاماً ،کچھ لوگوں کو سزا دی گئی۔

 لوکل اخبار میں یہ خبر، اِس طرح، شایع ہوئی:

’’عُمَّالِ صدر کا مقدمہ ،جو مرادآباد میں دائر تھا، صاحب سیشن جج کے محکمے میں اس نہج سے فیصل ہوا۔ مولوی غلام جیلانی، وکیل صدر، مولوی غلام امام شہیدؔ، پیشکار، و منشی سراج الدین، پیشکار کے حق میں چار چار سال کی قید کا حکم ہوا۔ اور منشی محمد قاسم، داناپوری، مِسل خواں، تین سال اور مولوی بدرُالحسن ،مِسل خواں اور مولوی آلِ حسن صاحب، منصف صدر کو ،دو دو سال۔

اب، ان صاحبوں کی اپیل، صدر میں دائر ہوئی اور مِسل مقدمہ مرادآباد سے

 صدر میں طلب ہوئی۔ اللہ ،اپنے فضل و کرم سے ،سب صاحبوں کو بری کرے۔‘‘

 (اسعدُ الاخبار۔ نمبر ۱۴۸۔ جلد اول۔ ۱۷؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۲۶۶ھ۔ مولوی قمرالدین خاں ایڈیٹر۔ ۱۸۵۰ء)

’’دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ مولانا قاسم، داناپوری، جن کا شمار اولیائے کرام میں ہے۔

 اور ان کے ہزارہا مرید، صاحبِ ریاضت و مجاہدہ، اُن کو رشوت سے متہَّم کیا جانا، تعجب ہے۔

دوسرے صاحب، مولانا غلام امام شہیدؔ، جو عاشقِ رسول کہلاتے ہیں ۔

اور ان کے بھی ہزارہا مرید، آگرہ، حیدرآباد، مرادآباد میں تھے، وہ بھی رشوت میں ماخوذ۔

 یہ سب، سیاستِ ملکی تھی۔ ان عُلما کو منتشر کرنا تھا۔ کیوں کہ:

 جس مقصد کے لئے اٹھ رہے تھے، اس بہانے سے اس میں رکاوٹ ڈالنی تھی۔

غرض کہ حضرت احمدُ اللہ شاہ صاحب کی پیش گوئی، پوری ہوئی۔

 یہ سب حضرات، بری ہوئے۔ مِسل مقدمہ ،داخلِ دفتر ہوئی۔‘‘

 (ص۲۴ و ۲۵۔ ’’ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی عُلما‘‘ ۔از مفتی انتظام اللہ شہابی۔مطبوعہ :دہلی)

مولوی امیر علی شاہ (امیٹھی،لکھنؤ)کی شہادت (۱۸۵۵ء) در حادثۂ ہنومان گڈھی (اجودھیا) کی خبر، آگرے بھی پہنچی۔ حضرت احمدُ اللہ شاہ نے سن کر فرمایا:

 اب ،ہمارے کام کا وقت آگیا۔‘‘

اوَّلاً ،گوالیار گئے۔ اپنے پیر و مرشد، محراب شاہ قلندر،قادری ،گوالیاری سے ملے اور لکھنؤ کے سفر کی اجازت لی۔ سفرِ لکھنؤ میں کان پور پہنچے اور عظیم اللہ خاں سے ملاقات کی ۔

جو ،جذبۂ حبُ الوطنی کے ساتھ ،انگریزی زبان کے بھی ماہر تھے۔

کان پور سے اُناؤ ہوتے ہوئے لکھنؤ پہنچے اور گھاس منڈی میں قیام کیا۔ 

یہاں، مولانا فضلِ حق خیرآبادی سے ملاقات اور انگریزی اقتدار کے خلاف ،تفصیلی گفتگو ہوئی۔ 

اس کے بعد لکھنؤ سے فیض آباد پہنچے اور وہاں ،اپنی مُہم، شروع کردی۔

جس طرح ،قیامِ آگرہ کے دَوران، انگریزوں نے آپ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی شروع کی۔ مریدوں اور آپ کے ساتھیوں کو مشکوک قرار دیا۔ آپ کو گرفتار کرنے اور سزا دینے کی کوشش کی اس کے بعد آپ کئی مقامات کا دورہ کرتے اور اپنا کام کرتے ہوئے حادثۂ ہنومان گڑھی، اجودھیا  فیض آباد میں مولانا امیر علی، امیٹھوی کی شہادت (۱۲؍ذوالقعدہ ۱۲۷۱ھ؍ ۲۸؍ جولائی ۱۸۵۵ء) کی خبر سن کر، کان پور ہوتے ہوئے لکھنؤ پہنچے۔

 اُسی طرح، جب لکھنؤ کی زمین آپ پر تنگ ہونے لگی، تو آپ نے لکھنؤ چھوڑ کر فیض آباد کا رُخ کیا اور فیض آباد میں بھی آپ نے انگریزوں کے خلاف، اِس طرح، تقریریں کیں کہ ہزاروں آدمی آپ کے گرویدہ ہوگئے، اور انگریزوں کے خلاف، جذبۂ اِنتقام ان کے سینوں میں موجزن ہوگیا۔

 آپ نے اپنے ساتھیوں اور مریدوں کو حربی اصول و قواعد اور اسلحہ سے مسلَّح کیا۔

 شہر کوتوال، فیض آباد نے آپ کو روکنا اور بزورِ قوت و طاقت ،آپ کو زیر کرنا چاہا

 مگر، آپ اس کے سامنے ،سینہ سپر ہوگئے۔ 

ایک فوجی افسر سے آپ کی جھڑپ ہوئی تو ایک ہی وَار میں اسے زمین بوس کردیا ۔

مگر آپ ،خود، بھی زخمی ہوگئے۔ اور گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیے گئے۔

سیدخورشید مصطفی رضوی لکھتے ہیں:

اکتوبر، یا نومبر ۱۸۵۶ء میں مولانا احمدُ اللہ شاہ، لکھنؤ آئے۔ وہ فقیرانہ لباس میں تھے ۔

اور تمام ملک میں دَورے کر رہے تھے۔ لکھنؤ میں معتمد الدَّولہ کی سرائے اور پھر گھسیاری منڈی  میں ٹھہرے۔ بظاہر، قوالی کی محفل، منعقد کرتے۔ ارشاد و تلقین کرتے۔

 مرید اور عقیدت مند جمع ہوتے تھے۔ لکھنؤ کا رسالہ ’’طلسم‘‘ لکھتاہے:

’’دو شنبہ اور پنج شنبہ کو، وہاں، مجمع، کثیر ہوتا ہے۔ شہر کا، بَرناوپیر ہوتا ہے۔ مجلس، حال و قال کی ہوتی ہے۔ لیکن، نئی چال کی ہوتی ہے کہ عین جوشِ حال میں فرش پر آگ گراتے ہیں۔ 

نہ فرش پر دھبَّہ لگتا ہے ،نہ حلق میں چھالے نظر آتے ہیں۔‘‘ (طلسم ،لکھنؤ۔ ۲۱؍ نومبر ۱۸۵۶ء)

خفیہ انقلابی کا رکن بھی فقیرانہ لباس میں لکھنؤ میں ہر طرف، سرگرم تھے اور عوام میں بغاوت کی روح، پھونک رہے تھے۔ انگریز افسروں کو شبہ ہوا۔ ان فقیروں کو ہٹایا گیا اور پابندیاں لگائی گئیں۔

 مگر ،یہ اپنے کام سے باز نہ آئے۔ ایک جگہ سے ہٹائے جاتے ،تو دوسری جگہ، دھونی رما دیتے۔

 مولانا احمد اللہ سے بھی باز پرس ہوئی۔

 کوتوال نے آکر دھمکانا چاہا۔ (بتاریخ۲۰؍ جنوری ۱۸۵۷ء) مگر، انھوں نے کہا:

 ’’میں جہاد کو فرض جانتاہوں۔ بے سرو سامانی سے لاچار ہوں۔ اگر، سامان، بہم پہنچے، تو تیار ہوں۔‘‘

ان کی سرگرمیوں پر بھی پہرہ لگادیا گیا۔ انھوں نے تمام ملک میں خفیہ انقلابی تحریک کا جال بچھادیا تھا اور یہ سرگرمیاں، کم و بیش، دس سال سے جاری تھیں۔

 انھوں نے بغاوت سے تقریباً، دو سال پہلے، انگریزوں کے خلاف 

جہاد کا پرچار، شروع کیا اور دَورے کیے۔ ڈاکٹر وزیر خاں کا بیان ۔

بحوالہ فریڈم اسٹرگل اترپردیش (انگریزی) جلدِ دوم ۔ص۱۴۷۔ 

(ص۴۲۱۔ تاریخِ جنگِ آزادیِ ہند، ۱۸۵۷ء۔ از سید خورشید مصطفی رضوی۔

مطبوعہ رضالائبریری ، رام پور۔یوپی)

مولانا احمدُ اللہ شاہ، فروری ۱۸۵۷ء میں لکھنؤ سے فیض آباد چلے گئے۔

اور برابر، اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ آخر، مجبور ہوکر ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا۔ پولیس نے گرفتاری سے انکار کردیا ،تو مسلَّح دَستے ،روانہ کیے گئے۔

لیفٹیننٹ ،تھرمس بورن نے ان سے بات کی اور کہاکہ :

وہ ہتھیار ،جمع کردیں۔ جب ،فیض آباد چھوڑیں گے ،تو ہتھیار ،واپس مل جائیں گے۔‘‘

 اس پر مولانا احمدُاللہ شاہ نے جو فقیرانہ لباس میں تھے، مَردانہ جواب دیا کہ:

 ’’ہم، ہتھیار نہیں دیں گے۔ کیوں کہ، یہ ہمیں اپنے پیر سے ملے ہیں‘‘۔ 

اس جواب اور تکرار پر، سِوِل گارڈ کے سپاہی بلائے گئے۔ 

پھر، درخواست کی گئی کہ ہتھیار واپس کردو اور آزادی سے شہر سے باہر جاسکتے ہو۔

 جواب ،پھر، دو ٹوک پایا کہ ’’فقیر، اپنی مرضی سے شہر چھوڑے گا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۷؍ فروری کو ڈپٹی کمشنر فوربس مع چند افسروں کے، مولانا کے پاس گیا۔

 اس کی فہمائش اور سوالات کے جواب بھی اسی دلیری سے 

اور بے باکی سے ملے جوپہلے، ظاہر کی جا چکی تھی۔

 اس پر طے کیا گیا کہ ان فقیروں پر اچانک حملہ کیا جائے۔

 پہرہ دار دستہ، مددگار دستہ، جورائفل اور سنگینوں سے مسلَّح تھا اور دیگر سپاہ ،حملہ آور ہو۔

مگر، مولانا کے ساتھیوں نے یہ اشارہ سمجھ لیا اور وہ سب، تلواریں سونت کر سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے۔ لیفٹیننٹ، ٹامس ،بری طرح، زخمی ہوا، جس کو مولانا نے گھائل کیا۔

 مولانا کے تین ہمراہی ،شہید ہوئے۔ خود، مع چند جاں نثاروں کے، زخمی ہوکر گرفتار ہوئے۔‘‘

 (ص۴۲۴تا۴۲۶۔ تاریخِ جنگِ آزادیِ ہند ۱۸۵۷ء۔ از خورشید مصطفی رضوی۔مطبوعہ: رضالائبریری، رام پور)

فیض آباد، اَوَدھ میں مولانا سیداحمدُ اللہ شاہ، مدراسی کی اسیری کے

 چند ماہ بعد ہی انقلابِ ۱۸۵۷ء کا نقارہ بج اٹھا۔

 مولانا امیر علی، امیٹھوی اور مولانا احمداللہ شاہ، مدراسی کے مریدوں اور ساتھیوں نے مولانا سکندرشاہ ،فیض آبادی کی قیادت میں فیض آباد جیل پرحملہ کرکے

 اس کا دروازہ توڑ ڈالا اور سارے قیدیوں کو جیل سے باہر نکال لائے۔

 مولانا مدراسی نے بھی آزاد ہوکر ،دوبارہ اپنی فوج اکٹھی کرلی اور لکھنؤ کا رُخ کیا۔

 مقام چنہٹ ضلع لکھنؤ میں انگریزوں سے مقابلہ ہوا ۔

جس میں آپ، انگریزوں پر غالب آگئے۔ لکھنؤ میں آپ نے’’ریزیڈنسی ‘‘کی جنگ میں انگریزوںکا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔اس کے علاوہ بھی لکھنؤکے متعددمقامات پر آپ نے کئی بار، انگریزوں سے ،دو دو ہاتھ کیا، مگر انھیں، بِالآخر، لکھنؤ سے نکلنا پڑا۔

پہلے، آپ کا ارادہ، بریلی جاکر ،نواب خان بہادر روہیلہ کے ساتھ، مورچہ بنانے کا تھا۔ مگر، کسی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا ،تو آپ، شاہجہاں پور کی طرف نکل گئے۔

 یہاں آپ نے حملہ کرکے انگریزوں کو مغلوب کردیا۔ 

مگر ،انگریز، نئی تیاری کے ساتھ ،چھ ہزار کی فوج لے کر آپ پر حملہ آور ہوئے۔

آپ کے ساتھ، بارہ سو آدمی تھے، لیکن، نہایت بہادری کے ساتھ ،انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ 

گھمسان کی جنگ کے بعد، انگریز، غالب آگئے اور شاہجہاں پور شہر کے اندر داخل ہوگئے۔ ادھر، نواب، خان بہادر خاںروہیلہ، بریلی کے محاذ پر مغلوب ہوگئے۔ 

اس طرح، نواب خان بہادر و شاہزادہ فیروز شاہ وغیرہ نے

شاہجہاں پور کا رُخ کیا اورسولہ ہزار فوجی ان کے ساتھ ہوگئے۔

 مولانا مدراسی اور جنرل بخت خاں نے مل جل کر انگریزوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں انگریزشکست کھا گئے اور شاہجہاں پور ،دوبارہ، مولانا مدراسی کے قبضے میں آگیا۔ 

فتح و شکست اور اُلٹ پھیر کے مختلف حالات و نتائج کے بعد

آخر میں محمدی (ضلع شاہجہاں پور) پہنچ کر ایک باضابطہ ریاست کی تشکیل ہوئی۔

اور یہاں، مولانا سیداحمد اللہ شاہ و جنرل بخت خاں روہیلہ و شہزادہ فیروز شاہ و مولانا فیض احمد  بدایونی و مولانا ڈاکٹر وزیر، اکبرآبادی وغیرہ نے اپنی ایک عارضی حکومت ،قائم کرلی۔

 مگر، کچھ دنوں بعد ،سر،کالن کیمبل نے ایک بھاری فوج کے ساتھ ’’محمدی ‘‘پر حملہ کردیا جس کا مذکورہ حضرات نے جم کر مقابلہ کیا۔ تاہم ،اس بار بھی اور یہاں بھی انھیںپیچھے ہٹنا پڑا۔

جس کے بعد کئی عُلما و اُمَرا و قائدین نے مجبوری و مایوسی کے عالَم میں نیپال کا رُخ کیا اوروہیں بے نام ونشان ہوکر انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بَسر کیے۔

مولانا مدراسی نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور پوائیں (شاہجہاں پور) جاکر

از سرِنَو، منظم ہونے کا منصوبہ بنایا ۔مگر، راجہ پوائیں نے غداری کی اور مولانا مدراسی کی شہادت (جون۱۸۵۸ء) کے ساتھ ہی انقلابِ ۱۸۵۷ء کا یہ باب، ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔

مفتی انتظام اللہ ،شہابی،اکبرآبادی(متوفی ۱۹۶۸ء) لکھتے ہیں:

راجہ بلدیو سنگھ نے سرِمبارک، جسمِ اطہر سے اُتارااور کلکٹر صاحب بہادر شاہجہاں پور کے سامنے، پیش کردیا، جو عرصہ تک کوتوالی پر لٹکا رہا۔ نعش کو آگ میں پھونک دیا۔

اس پر، سرکارِ برطانیہ نے پچاس ہزار روپے نقد اور خلعتِ فاخرہ ،راجہ پوائیں کو عطا کیا۔

 یہ واقعۂ شہادت ۵؍جون ۱۸۵۸ء مطابق ۱۳؍ ذوالقعدہ ۱۲۷۴ھ کو پیش آیا۔ 

دریا پار محلہ ،جہان آباد، متصل احمدپور مسجد کے پہلو میں سر ،دفن کردیا گیا۔ 

(ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی عُلما۔ از مفتی انتظام اللہ، شہابی۔مطبوعہ: دہلی)

اِس آخر ی معرکہ کا ذکر کرتے ہوئے قائدِ انقلاب ۱۸۵۷ء 

علَّامہ فضلِ حق، خیرآبادی (متوفی۱۲۷۸ھ/ ۱۸۶۱ء ) تحریر فرماتے ہیں: 

(اس تحریر میں عامل سے مراد، مولانا سیدشاہ احمدُاللہ ،مدراسی ہیں۔ اور کافر زمیندار سے راجہ بلدیو سنگھ، پوائیں ضلع شاہجہاں پور،موجودہ ضلع لکھیم پور کھیری، یوپی، مراد ہے۔)

’’اس موقع پر قابض و مسلَّط نصاریٰ سے قتال کے لئے دوسری طرف کا ایک عامل، اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے خیرات و مبرَّات اور سعادات و حسنات کا کافی ذخیرہ اپنے اندر جمع کرلیا تھا۔

وہ بڑا ہی پاک طینت، صاف باطن، متقی، پرہیزگار، بہادر

 اور رسولِ ملاحم ونبیِ مراحم، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم کا ،ہم نام تھا۔

 اس نے نصاریٰ کے لشکر پر حملہ کرکے پہلے ہی حملہ میںاُسے شکست دے دی۔

اپنی ساری کوششیں ،ختم کرکے وہ بھاگے اور قصبہ کے ایک ہندو کے مضبوط و محفوظ مکان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 

اور عُظَماے نصاریٰ کے پاس، شہر میں پیغام بھیج کر مدد مانگی۔

 انھوں نے ایک لشکر اور منافقین و دَہاقین کا جمِ غفیر، جنھوں نے عہد شکنی کی تھی ان محصورین کی مدد کو بھیجا۔

ادھر، اس نیک سرِشت بہادر عامل سے ایک دیہاتی کا فر زمیندار نے بڑادائو کھیلا۔ اس نے قسمیں کھاکر ،اطمینان دلایا کہ:

’’ جب دونوں جماعتیں، مقابلہ پر آجائیں گی

 تو چار ہزار بہادروں کا گروہ لے کر مدد کو پہنچوں گا۔‘‘

جب، مقابلہ کی نوبت آئی، تو اس زمیندار کی قَسموں پر بھروسہ کرکے اس دیانت دار عامل نے اپنے تھوڑے سے بہادروں کے ساتھ دشمن پر حملہ کردیا۔

 نتیجہ یہ ہوا کہ سامنے سے بندوقوں اور توپوں سے چہروں اور سینوں پر نصاریٰ نے گولیاں برسائیں اور پیچھے سے اس غدار و مکار زمیندار کی جماعت نے پُشت و سُرِین کو، نشانہ بنانا، شروع کیا۔

وہ، در اصل، نصاریٰ کے اَعوان و اَنصار اور شیاطین کے اَتباع و اِخوان تھے۔ 

وہ خدا پرست عامل، معرکہ میں گرکر شہید ہوا۔ اور اس کی ساری جماعت نے بھی اسی کے نقشِ قدم پر چل کر، جامِ شہادت ،نوش کیا۔

 (ص۶۷،۶۸۔ ترجمہ اَلثَّوْرَ ۃُالْھِنْدِ یَّہ،بنام ’’باغی ہندوستان‘‘ از مولانا عبدالشاہد شیروانی،علی گڑھی۔ مطبوعہ :المجمع الاسلامی مبارک پورضلع اعظم گڑھ ۔۱۹۸۵ء ۔

طبعِ اول مدینہ پریس ،بجنور ۱۹۴۷ء ۔مع مقدمۂ مولانا ابوالکلام آزاد)

مولانا سیداحمدُاللہ، مدراسی کی شہادت (جون ۱۸۵۸ء)کے بعد

 انگریزوں کا عام تأثر ،یہ تھا کہ:

 شمالی ہند میں ہمارا سب سے بڑا دشمن اور سب سے خطرناک انقلابی سپہ سالار،ختم ہوگیا۔

پروفیسر محمدایوب ،قادری (متوفی نومبر ۱۹۸۳ء۔کراچی) لکھتے ہیں:

’’شاہ احمدُاللہ صاحب کی شہادت پر، روہیل کھنڈ کی ہی جنگِ آزادی نہیں بلکہ در حقیقت ،ہندوستان کی جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء ختم ہوگئی۔

 یہ، وہ بہادر جاں باز مجاہد تھا، جس نے جنگِ آزادی کی تحریک کا آغاز، اس کی تبلیغ کی اوراس کو پروان چڑھایا۔ اور آخر میں اپنی جان دے کر اپنے عزائم و مقاصد کی بلندی پرمہرِ تصدیق  ثبت کردی۔‘‘ (ص۳۰۳۔جنگِ آزادی۱۸۵۷ء۔ ازپروفیسرمحمدایوب قادری۔مطبوعہ کراچی۱۹۷۶ء )

مولانا احمدُ اللہ شاہ، مدراسی کے بارے میں

 جی ڈبلیو فارسٹر (ہسٹری دی انڈین میوٹنی ۔ مؤلَّفہ: جی ڈبلیو فارسٹر) لکھتا ہے:

’’اِس جگہ پر، جس کو فیض آبادی مولوی کہا گیا ہے، یہ بتا دینا، ضروری ہے کہ:

 وہ ،عالمِ باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا۔ روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی تھا۔

 اور جنگی مہارت کی وجہ سے ،وہ سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ 

مولوی فیض آبادی کا، احمد شاہ، نام تھا۔ ظلم، طبیعت میں ،نہ تھا۔ 

ہر انگریز ،اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔‘‘

چارلس بال، اپنی ایک کتاب کے نوٹ میں لکھتا ہے:

’’اَوَدھ کے باغیوں کی تجاویز اور سازش کی تحقیقات کی گئی ،تو معلوم ہوا کہ:

 اس مولوی کو انگریز حُکَّام بحیثیت ،احمد شاہ فقیر اور صوفی ،عرصے سے جانتے تھے۔

شمالی مغربی صوبہ جات میں ظاہراً ،مذہبی تبلیغ کی خاطر ،وہ دَورے کرچکے تھے۔

 لیکن ،فرنگیوں کے لئے یہ رازہی رہا۔

اپنے سفر کے دَوران، ایک عرصے تک ،وہ آگرہ میں مقیم رہے۔ حیرت انگیز اثر

 شہر کے مسلم باشندوں پر تھا۔ شہر کے مجسٹریٹ ،ان کی جملہ نقل و حرکت پر نظر رکھتے تھے۔ 

عرصہ بعد، یقین ہوگیا کہ:

 وہ برطانوی حکومت کے خلاف ،ایک سازش کر رہے تھے۔ 

لیکن، پھر بھی ان کو کسی باغیانہ جُرم میں ملوث، نہ پایا گیا۔ وہ آزاد ،رہے۔

آخر کار، جب بغاوت ،رونما ہوئی اور فیض آباد کے فوجیوں میں بھی یہ لوگ پہنچے 

تو یہ مولوی جو سابقاً غیر منظم طریقے پر اپنے مریدین کو اُبھار ،رہے تھے

گارد کی نگرانی میں تھے۔ ہنگامہ کرنے والوں نے ان کو چھڑا کر اپنا سردار بنالیا۔

 اس طرح، مولوی صاحب ،ایک طاقتور فوج کے سپہ سالار بن گئے۔

اگرچہ، کچھ عرصہ تک، دوسرے باغی سرداروں کی طاقت چھپی رہی

لیکن ،اس شخص کا اثر، باغیوں پر بھرپور تھا۔ چوں کہ، یہ قابل آدمی اور ظلم کے دھبَّے سے پاک تھا جو ،نانا صاحب کے انتقام کے جوش کی خصوصیت تھی، اس سے، یہ بالکل پاک و صاف تھا، اس لئے برطانوی حکومت بھی ایک حد تک اس کو اچھا جانتی تھی اور قابلِ نفرت، دل میں، نہیں سمجھتی تھی۔‘‘

 (ص۳۸ و ۳۹۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی عُلما ۔از مفتی انتظام اللہ شہابی ۔مطبوعہ: دہلی)

راجہ پوائیں، جگن ناتھ سنگھ کے بھائی، بلدیوسنگھ نے پچاس ہزار روپے کی لالچ میں مولاناسیداحمدُ اللہ شاہ کے ساتھ ،غداری کی تھی۔ خورشید مصطفی رضوی لکھتے ہیں:

۲۸؍مئی ۱۸۵۸ء کو انگریزوں کی طرف سے

 مولانا احمدُاللہ شاہ کو گرفتار کرنے والے کے لئے پچاس ہزار روپے انعام کا اعلان کردیا گیا۔ 

مولانا احمد اللہ نے اپنے ساتھیوں کے درمیان، یہ اشارہ بھی کردیا تھا کہ :

اب ہم، نگاہوں سے اوجھل ہوجائیں گے۔‘‘(ص۶۲۴۔ تاریخِ جنگ ِآزادیِ ہند، ۱۸۵۷ء)

(مولانا سیداحمدُاللہ شاہ کو) گولی لگنے کے بعد، راجہ اور اس کا بھائی، گڑھی سے باہر آئے۔ مولانا کے خون آلود سرکوتن سے جدا کیا اور قریب ہی تیرہ میل دور، انگریزی کیمپ (شاہجہاں پور) میں لے گئے۔ انگریز افسر،رات کا کھانا کھارہے تھے۔

اس وقت، راجہ نے اندر، داخل ہوکر ،یہ تحفہ پیش کیا۔

 اگلے دن ،جسم کو جلاکر ،راکھ، دریا میں بہادی گئی اور سرکو، کوتوالی پر لٹکایا گیا۔

جب، یہ خبر انگلینڈ پہنچی، تو انگریزوں کی خوشی کا ٹھکانہ ،نہ تھا۔ 

ہومز ،خوشی سے بے تاب ہوکر کہتا ہے: 

’’شمالی ہند میںبرطانیہ کا سب سے زیادہ خطرناک دشمن ،ختم ہوگیا۔‘‘(Holmes P.530)

وہ، یہ بھی اعتراف کرتاہے کہ:

اس پیمانے سے مناسبت دیکھی جائے

تو، تمام باغیوں میں وہی بادشاہت کے لئے سب سے زیادہ مستحق تھا۔‘‘

میلسن کی رائے ہے کہ:

 مولوی (احمد اللہ شاہ) بڑا عجیب انسان تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

فوجی لیڈر کی حیثیت سے اس کی صلاحیت کے بہت سے ثبوت ملے ہیں۔ 

کوئی اور شخص،یہ ناز نہیں کرسکتا کہ:

 اس نے سر،کالن کیمبل کو ،دو مرتبہ ،سرِ میدان، شکست دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اگر، ایک انسان کو ،جس کے وطن کی آزادی، بے انصافی سے چھین لی گئی ہو اورجو اسے پھر آزاد کرانے کی کوشش کرے اور اس کے لئے جنگ کرے، مُحبِّ وطن کہا جاسکتا ہے

 تو بیشک، مولوی، ایک سچا مُحبِّ وطن تھا۔ 

اس نے کسی بے کس کی موت سے اپنی تلوار کو، کلنک نہیں لگایا۔ نہتَّے اور بے قصوروں پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اس نے مَردانہ وار، آن بان کے ساتھ، ڈٹ کر، کھلے میدان میں 

اُن غیرملکیوں کا مقابلہ کیا ،جنھوں نے اس کا ملک چھین لیا تھا۔

 ہر ملک کے بہادر اور سچے لوگوں کو چاہیے کہ مولوی کو عزت سے یاد کریں ۔ ‘‘

(Malleson: Vo 4 P.381)

ایک اور مؤرخ، ٹامس سٹین نے لکھا:

 ’’وہ، بڑی قابلیت رکھتا تھا۔ وہ، ایسا شجاع تھا کہ خوف نہیں کرتا تھا۔ 

اپنے عزم کا پکا اور مستقل مزاج تھا۔ باغیوں میں اس سے بہتر، کوئی سپاہی نہ تھا۔

 کہا جاتاہے کہ اس نے ہی چپاتیاں ،تقسیم کرائیں۔ ‘‘

تاریخِ ہندوستان از ذکاء اللہ، دہلوی۔ جلد ۳۔ ص۹۲۔ (بحوالہ ص۶۲۶و ص ۶۲۷۔ تاریخِ جنگِ آزادیِ ہند ۱۸۵۷ء ۔مؤلَّفہ: سید خورشید مصطفی رضوی۔مطبوعہ: رضالائبریری ،رام پور۔یوپی)

علامہ احمدسعید، کاظمی،امروہوی (شیخ الحدیث،دارالعلوم انوار العلوم، ملتان، پنجاب) فرماتے ہیں:

’’۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں جن اکابر عُلما و مشائخِ اہل سنَّت نے

 انگریز کے خلاف ،جہاد کا فتویٰ،صادر کیا

 ان میں علَّامہ فضلِ حق خیرآبادی، مفتی عنایت احمد ،کاکوروی، مولانا کفایت علی ،کافیؔ مرادآبادی، مولانا احمدُاللہ شاہ ،مدراسی اور مولانا فیض احمد، بدایونی، پیش پیش تھے۔ 

یہی، وہ ،بزرگان دین تھے ،جن کی یلغار سے ایوانِ فرنگ میں تہلکہ مچ گیا۔‘‘

 (روزنامہ امروز۔ ملتان ۔ شمارہ ۱۷؍اکتوبر۱۹۷۸ء)

mmm


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی