Biography Mufti Muhammad Yameen Razavi Muradabadi تعارف حضرت علامہ حافظ و قاری مفتی محمد یامین رضوی مرادآبادی

 تعارف حضرت علامہ حافظ و قاری مفتی محمد یامین رضوی مرادآبادی 


Biography Mufti Muhammad Yameen Razavi Muradabadi  

تعارف حضرت علامہ حافظ و قاری مفتی محمد یامین رضوی مرادآبادی 

آسمان ولایت کے ان درخشندہ ستاروں کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اصل تصوف تصفیہ قلب اور شریعت پر استقامت ہی ہے۔ اور سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ شریعت مصطفے کی پیر وی کی جائے۔

خداے بزرگ وبرتر نے حضرت علامہ حافظ و قاری مفتی محمد یامین رضوی مرادآبادی  کو علم وعمل دونوں طرح کی دولت سے حظ وافر عطا فرمایا تھا۔ حضرت علامہ حافظ و قاری مفتی محمد یامین رضوی مرادآبادی  دعوت وتبلیغ کے رموز واسرار اور اس کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ آپ نے جہاں تحریر وتقریر کے ذریعہ دین کی نشرو اشاعت کا فریضہ انجام دیا وہیں اپنے کردارو عمل سے بھی ہزاروں گم گشتگان راہ کو ساحل مراد سے ہم کنار فرمایا۔

حضرت علامہ حافظ و قاری مفتی محمد یامین رضوی مرادآبادی  موصوف ایک جید عالم دین ، ماہر مدرس اور اور عظیم و وسیع النظیر مفتی تھے۔آپ سادہ وضع قطع رکھتے تھے ۔یہی سادگی آپ کو اپنے معاصرین میں ممتاز ومنفرد کرتی ہے۔ آپ کے علم میں گیرائی اور گہرائی تھی ، جو فرماتے کامل تحقیق اور اعتماد سے فرماتے۔ آپ علم کے حریص و دلدادہ تھے ۔آپ قوی الحافظہ اور ذہین و محنتی شخص تھے۔ آپ کا انداز گفتگو آسان اور سلیس تھا۔ آپ کا انداز تفہیم بھی صاف ستھرا اور شستہ تھا۔ ان اوصاف حمیدہ کے ساتھ ساتھ آپ صاحب ذوق شاعر اور عمدہ نثر نگار تھے، لیکن تدریس و افتا ان کا خصوصی میدان تھا ۔ آپ نے عربی واردو اور فارسی میں شعر گوئی فرمایا کرتے تھے۔

حضرت علامہ حافظ و قاری مفتی محمد یامین رضوی مرادآبادی  کی ولادت جناب الحاج صوفی ظہیر الحسن صاحب کے گھر 1952 میں معصوم پور میں ہوئی۔

آپ نے ناظرہ قرآن و حفظ قرآن اپنے ہم نام حافظ و قاری محمد یامین صاحب بھوجپوری سے حاصل کی۔ اس کے بعد حضور حافظ ملت کے وطن مالوف  قصبہ بھوجپور ضلع مرادآباد میں واقع مدرسہ فاروقیہ عزیز العلوم میں داخل ہوئے اور اسی مدرسہ میں فارسی کی پہلی سے بخاری شریف تک تعلیم حاصل کی۔

آپ نے یہ  پورا نصاب مفتی محمد رفیق قادری مصباحی کے زیر سایہ عاطفت مکمل کیا۔ درجۂ فضیلت کی کتب کا امتحان مفتی محمد اعظم صاحب استاذ دارالعلوم مظہر اسلام نے لیا ۔اور 1391بمطابق 1971 میں استاذ الاساتذہ جلالۃ العلم مرشد برحق حضور حافظ ملت اور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی صاحب کے مبارک ہاتھوں سے دستار فضیلت و سند فراغت سے سرفراز کیے گئے۔

پھر آپ کے استاذ گرامی مفتی محمد رفیق قادری مصباحی صاحب مسجد رضا میں تروایح پڑھانے کے لیے گیے پھر وہیں کے ہو کے رہ گئے ۔ مفتی یامین صاحب اپنے قریبی ساتھی مفتی عبد السلام رضوی کے ہمراہ دارالعلوم مظہر اسلام میں مشق افتا کی غرض سے حاضر ہو گئے۔مظہر اسلام میں حضرت مفتی محمد اعظم صاحب کے زیر نگرانی فتویٰ نویسی کی مشق کی نیز حضرت حاجی مبین الدین امروہوی علیہ الرحمہ سے حدیث و بخاری کا درس لیا۔ حضرت حاجی مبین الدین سے میبذی ، علامہ تحسین رضا خاں سے ملا حسن اور مفتی محمد اعظم صاحب سے شرح معانی الآثار کا درس لیا۔ساتھ ہی معین المدرسین کے طور پر ایک کتاب کی تدریس بھی سونپی گئی۔

1973 میں حضرت مفتی محمد اعظم اور دارالعلوم مظہر اسلام کے مہتمم حضرت مولانا محمد ساجد علی خاں کے مشورے پر حضرت مفتی یامین صاحب کو جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس میں مصنف قانون شریعت مولانا شمس الدین جعفری کی خدمت بابرکت میں  پہنچے، مقصد تو تھا کہ علم توقیت حاصل کریں مگر مقصد حاصل نہ ہوا۔ حضور شمس العلما کے مشورے پر جامعہ میں داخلہ لے کر درس نظامی کی متہیٰ کتب کا درس لیا بالخصوص حضرت کی خدمت فیض درجت میں رہ کر عظیم علمی فیوض و برکات سے اپنی دامن کو مالا مال کیا۔پھر اسی جامعہ میں مدرس رکھ لیے گئے۔ اور افتا کی خدمت بھی آپ کے سپرد کی گئی۔ 30 جون 2015 میں ریٹائرڈ ہوگئے لیکن اس کے بعد بھی اراکین کی خواہش پر افتا و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔

بتاریخ 17 شوال المکرم 1437 ھ بمطابق 2 اگست 2015  کوجامعہ حمیدیہ رضویہ بنار س میں تقریباً شب ایک بجے دل کا دورہ پڑنےکی وجہ سے دارفانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گیئے۔3 اگست کو بوقت شام جنازہ آپ کے وطن معصوم پور پہنچا اور 4 اگست کو تدفین عمل میں آیا۔ خطیب شہیر مولا نا سعید اختر صاحب بھوجپوی نے نے نماز پڑھائی ۔ علما و مشائخ و ہزاروں عوام اہل سنت نے نمناک آنکھوں اور سوگوار دلوں کے ساتھ تہہ خاک سلا دیا ۔

مزید معلومات کے لیے  سہ ماہی عرفان رضامرادآباد اپریل تا جو ن 2022 میں مفتی عبدالسلام رضوی صاحب کا مضمون ضرور ملاحظہ کیجیے۔ جس کا لنک ڈسکرپشن میں دیا گیا ہے ۔

Download


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی