Biography Hazrat Syed Shah Abul Hussain Ahmed Noori Marharvi نور العارفین ،سراج السالکین ،مرشد مفتی اعظم ہندحضرت علامہ الشاہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ العزیز

 نور العارفین ،سراج السالکین ،مرشد مفتی اعظم ہندحضرت علامہ الشاہ سید ابو الحسین احمد نوری  مارہروی قدس سرہ العزیز

Biography Hazrat Syed Shah Abul Hussain Ahmed Noori Marharvi 
 نور العارفین ،سراج السالکین ،مرشد مفتی اعظم ہندحضرت علامہ الشاہ سید ابو الحسین احمد نوری  مارہروی قدس سرہ العزیز

:حضرت جلیل البرکات نورالعارفین مولانا سید شاہ ابولحسین احمد نوری مارہروی علیہ الرحمہ بالخصوص خاندانِ برکات اور بالعموم عالمِ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھے۔آپ وہ شخصیت ہیں جنکی تربیت ،وقت کے ایک ولیِ کامل کے ذریعے ہوئی ۔چھوٹی سی عمر میں آپکی تربیت ،ریاضت ومجاہدہ کی کثرت دیکھ کر آپکی دادی صاحبہ،شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ سے فرماتیں!"کیا اس بچے کو بھی اپنی طرح فقیر کردوگے؟" حضور فرماتے،ہاں!فقیر کردونگا!"اور ایسا فقیرہوگا کہ بڑے بڑے بادشاہ اور امراء اس کے آگے سر جھکا دیں گے"۔ آپ نے اپنے پوتے کو تمام علوم ظاہری و باطنی کی تعلیم دیکر جملہ رموز واسرار اور اپنے اسلاف ِ کرام کا سچا جانشین اور خانوادہ برکاتیہ کی تمام روحانی نعمتوں کا وارثِ کامل بنادیا۔ آپ علیہ الرحمہ سرورِ عالم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کا پر تو تھے۔ میراثِ مصطفیٰ ﷺ (علوم ِ نبویہ)کےسچےوارث تھے۔عقیدے میں حد درجہ تصلب تھا۔شریعت کی پوری پابندی تھی۔محرمات تو دور مکروہات سے بھی حد درجہ احتیاط فرماتے تھے۔ ریاضت ومجاہدہ، سخاوت وکرم،مخلوقِ خدا کی حاجت روائی ،غرباء و مساکین کی مشکل کشائی ،اور ان سے انس ومحبت ،بالخصوص سنی مسلمانوں کی خیر خواہی،اور ہر وقت انکے لئے دست بَدُعا رہنا،بد مذہبوں سے دوری ،فساق وفجار سے وحشت ،اوراہلِ سلسلہ کی خیر خواہی سرکار نور کے اخلاقِ نورانی کے صرف چند گوشے ہیں۔

ولادت شریف :

              آپ کی ولادت باسعادت  ۱۹شوال المکرم ۱۲۵۵ھ۔ مطابق ۲۶ دسمبر ۱۸۳۹ء بروز پنج شنبہ۔ مارہرہ مطہرہ،ضلع ایٹہ میں ہوئی۔(1)


نام ونسب :   

            آپ کا نام  سید ابو الحسین احمد نوری ہے اور تاریخی نام ، مظہر علی ہے المقلب میاں صاحب قدس سرہ آپ کے والد ماجد  کا نام حضرت سید ظہور حسن مارہروی قدس سرہ ہے۔(2)


تعلیم و تربیت :

            آپ کی عمر شریف جب ڈھائی سال کی ہوئی تو والد ماجد کا وصال ہوگیا اس لیے آپ کی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری جدد امجد حضرت سید آل رسول مارہروی قددس سرہ کی آغوش تربیت میں ہوئی آپ کے درس کا آغاز حضرت سید آل رسول مارہروی قدس سرہ نے حسب قاعدہ اقراء شریف کی چند آیات سے فرمایا بعدہٗ سینہ مبارک سے لگایا اور رب یسر و تمم بالخیر کے ساتھ دعائیں دیں اور درگاہ شریف کے مکتب فارسی میں داخل فرمایا۔مکتب میں باقاعدہ داخلہ کے بعد فارسی، عربی، فقہ، تفسیر، حدیث، لغت، منطق و دیگر علوم و فنون کو حاصل فرمایا۔(3)


*  اساتذہ کرام :*

             آپ کے اساتذہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں :

• حضرت میاں جی علیہ الرحمہ

•حضرت جمال روشن شاہ علیہ الرحمہ 

•حضرت عبد اللہ  علیہ الرحمہ

•حضرت شیر یار خاں مارہروی علیہ الرحمہ

•حضرت اشرف علی مارہروی علیہ الرحمہ

• حضرت امانت علی مارہروی علیہ الرحمہ

 •حضرت امام بخش مارہروی علیہ الرحمہ

•حضرت سید اولاد علی مارہروی علیہ الرحمہ

•حضرت احمد خاں جلیسری علیہ الرحمہ •حضرت محمد سعید عثمانی بدایونی علیہ الرحمہ

•حضرت الٰہی خیر مارہروی  علیہ الرحمہ

•حضرت حافظ عبد الکریم پنجابی علیہ الرحمہ

•حضرت حافظ قاری محمد فیاض رامپوری علیہ الرحمہ

•حضرت فضل اللہ جالیسری علیہ الرحمہ

•حضرت نور احمد عثمانی  بدایونی علیہ الرحمہ

•حضرت مفتی حسن خاں عثمانی بریلوی علیہ الرحمہ

•حضرت حکیم سعید بن حکیم امداد حسین مارہروی علیہ الرحمہ

•حضرت ہدایت علی بریلوی علیہ الرحمہ

•حضرت محمد تراب علی رامپوری علیہ الرحمہ

•حضرت محمد حسین شاہ ولایتی علیہ الرحمہ

•حضرت محمد حسین بخاری کشمیری علیہ الرحمہ 

•حضرت مولانا عبد القادر  عثمانی بدایونی قدست اسرارہم۔(4)



 بیعت و خلافت :

        حضرت سراج السالکین سید شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہ کو خلافت و اجازت اپنے پیر ومرشد شیخ طریقت حضرت سید آل رسول مارہروی قدس سرہ سے تھی راہ معرفت کی تکمیل کے بعد آپ کو اجازت عام مرحمت فرمائی۔

اس کے علاوہ حضور خاتم الاکابر قدس سرہٗ نے آپ کو اجازت قرآن مجید ، صحاح ستہ و مصنفات شاہ ولی اللہ، محدث دہلوی و حصن حصین دلائل خیرات و اسماٗ اربعینہ و حزب البحر و حدیث مسلسل بالادلیہ و حدیث مسلسل بالاضافہ ومصافحات اربعہ و مصفاحہ و مشابکہ اور تمام علوم کی سندیں جو آپ کو اپنے اساتذہ سے پہنچی تھیں مرحمت فرمائیں۔(5)


فضائل ومناقب :

            سراج السالکین، نور العارفین، شیخ طریقت، عالم شریوت، حضرت سید الشاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ سلسلہ قادری کے ۳۸۔اڑتیسویں امام و شیخ طرقت ہیں سیدی سرکا را علیٰ حضرت قدس سرہ آپ کے فضائل و مناقب میں لکھتے ہیں


برتر قیاس سے ہے مقام ابو الحسین

سدرہ سے پوچھو رفعتِ بام ابوالحسین


آپ کا وہی مسلک و مشرب تھا جس پر حضرت تاج الفحول اور اعلیٰ حضرت بریلوی تھے۔ آپ شیعیت، رافضیت کا تحریری رد فرمایا، اور انسداد میں کوشس بلیغ فرمائی۔جب آپ کی عمر شریف سات سال کی تھی کہ خاتم الاکابر سید آل رسول مارہروی قدس سرہ کے حکم کے مطابق صوم و صلوٰۃ ، خلوت و اشغال، اور اوراد میں مصروف ہوئے۔اٹھارہ سال کی کم عمری میں ذکر جلالی و جمالی اور خلوت گزیں رہے اور سلوک کو باقاعدہ حاصل  کرکے فنائے معنوی سے بقائے حقیقی کے مقام پر فائز ہوئے۔ آپ کے بچپن کی ریاضت کو دیکھ کر آپ کی دادی گھبرا جاتیں اور روکنا چاہتیں لیکن آپ کے دادا ارشاد فرماتے رہنے دو یہ دنیا میں عیش و آرام کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ دین متین کی خدمت و ترویج اشاعت کے لیے پیدا ہوا ہے اور انہیں بہت کچھ کرنا ہے۔  اور آپ اقطاب سبعہ یعنی سات قطب میں سے ایک قطب ہیں جنکی بشارت حضرت شاہ بوعلی قلندری پانی پتی، حضرت شاہ بدیع الدین قطب مداری نے دی تھی۔(6) 


شب وروز کے مشاغل :

         سراج السالکین حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ العزیز کی عادت کریمہ تھی کہ طہارت فرما کر  نمازتہجد ادا فرماتے، بعدہٗ اوراد و اشغال معمولہ خاندان میں مشغول ہو جاتے نماز صبح کے لیے تازہ وضو فرماتے اور سنن پڑھ کر بحالت صحت مسجد میں تشریف لے جاتے۔

َباجماعت نماز پڑھتے اور ابتداء ذکر بالجہر اور عہد آخر میں بالاخفا فرماتے۔ پھر اوراد  و وظائف معمولہ پڑھ کر صلوٰۃ اشراق و چاشت سے فارغ ہوکر خفیف ناشتہ فرماتے۔ بعدہٗ ضروری معروضات کا حل اور نقوش وادعیہ  مرحمت فرماتے، پھر کسی سلوک، فقہ و تاریخ کی کتاب کا مطالعہ فرماتے اور حاضرین سے فوائد ضروریہ کا بیان بھی فرماتے ۔ ہمیشہ باوضو کھانا تناول فرماتے مریضوں کو اپنا بچا ہوا کھانا عنایت فرماتے۔کھانے سے فارغ ہو کر پان کھاتے اور پھر فورا ہی کلی و غرارہ کر کے منہ صاف کر لیتے  جو لوگ موجود ہوتے اپنے اپنے معروضات پیش کرتے سب کے جوابات مرحمت فرماتے ،کبھی مطالعہ اور کبھی کچھ دیر آرام فرماتے۔ اور تازہ وضو کرکے باجماعت ظہر کی نماز پڑھتے، بعد نماز قرآن مجید کی ایک پوری منزل تلاوت فرماتے  ، اور پھر دلائل الخیرات، حصن حصین اور بعض ادعیہ پڑھنے کے بعد دربار عام ہو جاتا، اور خدام حاضر ہو کر معروضات پیش کرتے، ڈاک سے آئے خطوط کے جوابات لکھتے یا لکھواتے۔ اور حاجت روائی اور مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف ہوجاتے۔ اور علمی و عمدہ نصیحت فرماتے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوجاتا۔نمازعصر باجماعت تازہ وضو سے پڑھتے بعد نماز اوراد مخصوصہ پڑھتے۔اور عصر تک وہی خدمت خلق کرتے اور دریائے رحمت و کرم کی طغیانی ہوتی۔ نماز مغرب ادا فرما کر بہت قلیل سا کھانا تناول فرماتے اور نماز عشاء باجماعت ادا فر ماکراخص الخواص کچھ اوراد عرض کرتے انہیں کچھ ہدایات دیتے اور رخصت  فرماتے اس طرح صبح سے رات تک  عبادت و ریاضت کے ساتھ مخلوقِ  خدا کو راحت پہنچانے میں لگے رہتے اور رات کو  حضور خاتم الاکابر سید شاہ آل رسول مارہروی قدس سرہ کا ذکر سنتے اور استراحت فرماتے۔(7)


عقد مبارک :

        حضرت نوری میاں قدس سرہ کا عقد اپنے عم مکرم کی دختر نیک اختر سے ہوا ان کی وفات کے بعد شاہ اولاد رسول قدس سرہ کی نواسی سے عقد ہوا ۔ ان دونوں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔مگر آپ کی روحانی اولادوں کی تعداد بے شمار ہیں جو آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہو کر عالم اسلام کی عظیم خدمت انجام دی ہیں جن سے تا قیامت آپ کا سلسلہ زندہ و تا بندہ رہے گا ان شاء اللہ عزوجل۔(8)


آپ کے چند خلفاء کرام :

        آپ علیہ الرحمہ کے خلفا کی تعداد کثیر ہے چند کے اسماے گرامی یہ ہیں :

•مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی قدس سرہ۔

• حضرت شاہ مہدی حسن قدس سرہ۔ 

•حضرت سید شاہ ظہور حیدر قدس سرہ۔

 •حضرت حاجی سید شاہ حسن قدس سرہ۔ 

•حضرت مولانا قاضی مشیر اسلام عباسی قدس سرہ۔

•حضرت مولانا طاہرالدین قدس سرہ۔

•حضرت مولانا مشتاق احمد سہارنپوری قدس سرہ۔ 

•حضور تاجدار اہل سنت قطب عالم مفتئ اعظم ہند شاہ محمد مصطفےٰ رضا قادری قدس سرہ۔

• حضرت مولانا عبد الرحمٰن قدس سرہ۔

•حضرت مولانا مفتی احمد حسن خاں قدس سرہ۔

•حضرت مولانا عزیز الحسن بریلوی قدس سرہ۔

•حضرت مفتی بدر الحسن قدس سرہ۔(9)


تصنیف وتالیف :

گوناگوں مصروفیات کے باوجود آپ نے چند کتب بھی تصنیف فرمائی جن کے مطالعہ سے آپ کی فقید المثال شخصیت کا دل میں مزید احترام پیدا ہو جاتا ہے۔ چند کتب کے نام یہ ہیں :

•دلیل الیقین من کلمات العارفین(یہ روافض کے رد میں ہے جو تفضیل مولیٰ علی کے قائل ہیں) 

•الجفر (یہ علم جفر میں جامع کتاب ہے) 

•سراج العوارف فی الوصایا و المعارف (یہ آپ کی وصیتوں پر مشتمل ہے) 

• النجوم (یہ علم نجوم پر مشتمل رسالہ ہے) وغیرہ (10)


سفر آخرت :

        آپ نے ۱۱ رجب المرجب ؁۱۳۳۴ھ مطابق ۳۱ اگست ؁۱۹۰۶ء میں وصال فرمایا۔درگاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے برآمدۂ جنوب میں  مزار مقدس زیارت گاہ خلائق ہے۔(11)


ماخد ومراجع :

(1)تذکرہ نوری ص:54

(2) تذکرہ مشائخ قادریہ ص:414

(3) تذکرہ مشائخ قادریہ ص:416

(4)تذکرہ مشائخ قادریہ ص:417

(5)تذکرہ مشائخ قادریہ ص:417

(6)تذکرہ نوری ص:55 ،56

(7)تذکرہ نوری ص:121-123

(8)تذکرہ مشائخ قادریہ ص:427

(9)تذکرہ مشائخ قادریہ ص:427

(10)تذکرہ نوری ص:140/131

(11)تذکرہ مشائخ قادریہ ص:428


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی