Biography Hazrat Sheikh Dawood Tai | حضرت داؤد طائی کے حالات و واقعات | سوانح حضرت داؤد طائی

 حضرت دائود طائی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات ومناقب


تعارف:آپ علوم حقائق کے شناسا راہ طریقت کے عامل اورسالکین وعارفین کے پیشوا ومقتدا تھے اورامام ابوحنیفہ 

سے شرف تلمذ حاصل رہا حتیٰ کے مسلسل بیس سال امام صاحب سے علم حاصل کرتے رہے یوں تو تمام علوم پر آپ کو دستر س حاصل تھی لیکن علم فقہ میں اپنا نمونہ آپ ہی تھے۔آپ حضرت حبیب راعی کے ارادت مندوں میں داخل تھے ،لیکن حضرت فضیل وحضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہما جیسی برگزیدہ ہستیوں سے شرف نیاز حاصل رہا۔

واقعہ:آپ کے تائب ہونے کا واقعہ اس طرح منقول ہے کہ کسی گویئے نے آپ کے سامنے مندرجہ ذیل شعر پڑھا

بای خدیک تبدی البلا


وبای عینک ماذاسالا 

کون ساچہرہ خاک میں نہیں ملا


اورکون سے آنکھ زمین پر نہیں بہی

یہ شعر سن کر عالم بے خودی میں حضرت امام ابوحنیفہ کی خدمت میں پہنچ گئے اوراپنا پورا واقعہ بیان کر کے کہا کہ میری طبیعت دنیا سے اچاٹ ہوچکی ہے اورایک نامعلوم سی شے قلب کومضطرب کئے ہوئے ہے یہ سن کر امام صاحب نے فرمایا کہ گوشہ نشینی اختیار کرلو۔چنانچہ اسی وقت سے آپ گوشہ نشین ہوگئے ،پھر کچھ عرصہ بعد اما م صاحب نے فرمایا کہ اب یہ بہترہے کہ لوگوں سے رابطہ قائم کرکے ان کی باتوں پر صبروضبط سے کام لو۔چنانچہ ایک بر س تک تعمیل حکم میں بزرگوں کی صحبت میں رہ کر ان کے اقوال سے بہرہ ور ہوئے لیکن خود ہمیشہ خامو ش رہے تھے ۔اس کے بعد حضرت حبیب راعی سے بیعت ہوکرفیوض باطنی سے سیرا ب ہوتے رہے اور ذکرالٰہی میں مشغول رہ کر عظیم مراتب سے ہمکنار ہوئے ۔

قناعت:ورثہ میں آپ کوبیس دینار ملے تھے اور بیس سال سے اپنے اخراجات کی تکمیل کرتے رہے اورجب بعض بزرگوں نے کہا کہ دینار جمع کرکے رکھنا ایثار کے منافی ہے سوآپ نے فرمایا کہ یہی دینار زندگی بھر کے لئے باعث طمانیت ہیں لیکن قناعت کایہ عالم ہے کہ روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے اورفرمایا کرتے کہ جتنا وقت لقمہ بنانے میں صرف ہوتا ہے اتنی دیر میں پچاس آیتیں قرآن کی پڑھ سکتا ہوں ایک مرتبہ ابوبکر عیاش آپ کے یہاں پہنچے تودیکھاکہ روٹی کاایک ٹکڑا ہاتھ میں  لئے رورہے ہیں اورجب حضرت عیاش نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ اس کو کھالوں لیکن یہ پتہ نہیں کہ رزق حلال بھی ہے یانہیں ۔ایک شخص نے آپ کے یہاں پانی کاگھڑا دھوپ میں رکھا ہو ادیکھ کرعرض کیا کہ اس کوسایہ میں کیوں نہیں رکھا؟فرمایا کہ جس وقت میں نے یہاں رکھااس وقت سایہ تھا لیکن اب دھوپ سے اٹھاتے ہوئے ندامت ہوتی ہے کہ محض اپنی راحت کے لئے تضیع اوقات کرتے ہوئے ذکر الٰہی سے غافل رہوں۔

آپ کا مکان بہت وسیع تھالیکن جب اس کا ایک حصہ منہدم ہوگیاتوآپ دوسرے حصہ میں  منتقل ہوگئے اورجب وہ بھی منہدم ہوگیا تودروازے میں منتقل ہوگئے لیکن ا سکی چھت بھی بوسیدہ تھی اورجب لوگوں نے چھت ٹھیک کرانے کے لئے کہا تو فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرچکا ہوں کہ دنیا میں تعمیر کاکام نہیں کرائوں گا اورآپ کے انتقال کے بعد وہ چھت بھی منہدم ہوگئی ۔

کنارہ کشی:جب لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ صحبت مخلوق سے کنارہ کش کیوں رہتے ہیں ؟فرمایا کہ اگر کم عمر کے لوگوں میں بیٹھوں تووہ ادب کی وجہ سے دینی علم نہیں سکھائیں گے اوراگر معمر بزرگوں میں بیٹھوں تووہ مجھے عیوب سے آگاہ  نہیں کریں گے۔پھر میرے لئے مخلوق کی صحبت کیا سود مند ہوسکتی ہے ۔پھرکسی نے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟فرمایا کہ نکاح کے بعد بیوی کے روٹی کپڑے کی کفالت لینی پڑتی ہے اورحقیقت یہ ہے کہ خدا کے سواکوئی کسی کاکفیل نہیں ہوتا۔اس لئے میں کسی کو دھوکہ دینا نہیں چاہتا ۔پھرسوال کیا گیا کہ آپ داڑھی میں کنگھا کیوں نہیں کرتے؟فرمایا کہ ذکرالٰہی سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔آپ چونکہ مخلوق سے کنارہ کش رہ کرعبادت میںمصروف رہتے تھے اسی وجہ سے آپ کو عظیم مراتب عطا  کئے گئے۔

بے خودی:ایک مرتبہ چاندنی سے لطف اندوز ہونے کے لئے چھت پر پہنچ گئے لیکن مناظر قدرت کی حیرت انگیزیوں سے متاثرہو کر عالم بے خودی میں ہمسایہ کی چھت پر گر پڑے اورہمسایہ یہ سمجھا کہ چھت پر چور آگیا ہے چنانچہ وہ شمشیر برہنہ لئے ہوئے چھت پر چڑھا،لیکن آپ کو دیکھ کر پوچھاکہ آپ یہاں کیسے پہنچ گئے ؟فرمایا کہ عالم بے خودی میں نہ جانے کس نے مجھ کویہاں پھینک دیا۔

منقول ہے کہ آپ مداومت کے ساتھ روزہ رکھتے تھے اورایک مرتبہ موسم گرما کی دھوپ میں بیٹھے ہوئے مشغول عبادت تھے کہ آپ کی والدہ نے فرمایا کہ یہاں سایہ میں آجائو ،لیکن آپ نے کہا مجھ کو اس چیز کی ندامت ہوتی ہے کہ خواہش نفس کے لئے کوئی اقدام کروں ،پھرفرمایا کہ جب بغداد میں لوگوں نے مجھ کو پریشان کرنا شروع کیا تو میں نے یہ دعا کی اے اللہ! میری چادر لے لے تاکہ باجماعت نماز سے نجات حاصل ہوجائے اورمخلوق سے کوئی واسطہ نہ رہے ۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے میری چادر لے لی اس وقت سے ذکرالٰہی اورگوشہ نشینی کے سوا مجھ کو کچھ اچھا نہیں لگتا۔

نکتہ :آپ سدا غمزدہ رہتے تھے اورفرمایا کرتے کہ جس کو ہر لمحہ مصائب کاسامنا ہو اس کو مسرت کیسے حاصل ہو سکتی ہے لیکن ایک مرتبہ کسی درویش نے آپ کومسکراتے دیکھ کر وجہ پوچھی تو فرمایا کہ خدا نے مجھے شراب محبت پلادی ہے اس کے خمار سے مسرور ہوں اورجب کہیں آپ مجمع میں پہنچ جاتے تویہ کہہ کر لشکر آرہا ہے بھاگ پڑتے اورجب لوگوں نے پوچھا کہ کس کا لشکر؟فرمایا کہ قبرستان کے مردوں کالشکر ہے۔

نصیحتـ:جب حضرت ابوربیع نے آپ سے وصیت کی درخواست کی توفرمایا کہ دنیا سے روزہ رکھو اور آخرت سے افطار کرو تم پر کسی اورنے وصیت کی درخواست کی توفرمایا کہ بدگوئی سے احتراز کرو،مخلوق سے کنارہ کش رہو،دین کودنیا پر ترجیح دو،اوراگر ممکن ہو تومخلوق کاخیال ہی دل سے نکال دو،پھر کسی اور نے نصیحت کے لئے عرض کیا تو فرمایا کہ مردے تمہارے انتظار میں ہیں یعنی تمہیں بھی مرنا ہے اس لئے وہاں کا سامان کرلو۔پھرفرمایا کہ ترک دنیا سے بندہ خدا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ۔

حضرت فضیل نے دومرتبہ آپ سے شرف نیاز حاصل کیا اور فخریہ فرمایا کرتے تھے کہ پہلی ملاقات میں تو میں نے آپ کوشکستہ چھت کے نیچے بیٹھے ہوئے دیکھ کرعرض کیا کہ اس جگہ سے ہٹ جائیے کہیں ایسا نہ ہو کہ چھت گرپڑے۔لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے آج تک چھت کی طرف نظر ہی نہیں ڈالی اوردوسری ملاقات میں یہ نصیحت فرمائی کہ لوگوں سے 
تعلق منقطع کرلو۔
حضرت معروف کرخی سے روایت ہے کہ میں نے آپ سے زیادہ کوئی دنیا سے متنفر نہیں پایا اورنہ صرف فقراء کااحترام کرتے بلکہ ان سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے،حضرت جنید بغدادی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے حجامت بنوانے کے بعد حجام کو ایک دینار دے دیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ تواسراف بیجا ہے۔آپ نے فرمایا کہ دین کے لئے مروت ضروری ہے۔
جب امام ابویوسف اورامام ابومحمد میں کوئی اختلاف رونما ہوتا و ہ دونوں آپ کے فیصلے کوقبول کرتے لیکن آپ امام ابویوسف سے زیادہ امام محمد کااحترام کرتے اورفرماتے کہ امام محمد نے محض دین کے لئے علم حاصل کیا اورامام ابویوسف نے منصب وجاہ کے لئے اورقضا کاوہ عہدہ جس کوامام ابوحنیفہ نے کوڑے کھا کر بھی قبول نہیں کیا اس کو امام ابویوسف نے قبول کرکے اپنے استاد کی پیروی نہیں کی۔
بے نیازی:جب ہارون رشید امام ابویوسف کے ہمراہ آپ  کے پاس بغرض ملاقات حاضر ہوا تو آ پ نے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دنیا دار ظالموں سے نہیں ملتا لیکن جب ہارون الرشید کی والدہ نے بے حدا صرار کیا تو آپ نے اجازت دے دی اورجب ہارون رشیدرخصت ہونے لگا تو ایک اشرفی پیش کرنی چاہی مگر آپ نے واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اپنا مکان جائز دولت کے عوض فروخت کیا ہے اس لئے میرے پا س اخراجات کے لئے رقم موجود ہے اورمیں یہ دعا کرتاہوں کہ جب یہ رقم ختم ہوجائے تواللہ تعالیٰ مجھے دنیا سے اٹھالے ،ایک مرتبہ امام ابویوسف نے آپ کے خادم سے دریافت کیا کہ اب اخراجات کے لئے کتنی رقم باقی رہ گئی تواس نے بتایا کہ دس درہم چاندی باقی ہے چنانچہ امام ابویوسف نے اخراجات کاحساب لگاکر یہ اندازہ کرلیا کہ بس آپ اتنے دن اورحیات رہیں گے۔
ترکِ لذت:کسی بزرگ نے آپ کودھوپ میں قرآن خوانی کرتے ہوئے دیکھ کر سایہ میں آنے کی درخواست کی توفرمایا کہ مجھے اتباع نفس ناپسند ہے اوراسی رات آپ کا وصال ہوگیا۔
وصیت:آپ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ مجھے دیوار کے نیچے دفن کرنا چنانچہ آپ کی وصیت پوری کردی گئی اس سلسلہ میں مصنف کتاب فرماتے ہیں کہ آج تک آپ کی قبر محفو ظ ہے۔
وفات:کسی نے آپ کو خواب کے اندر ہوا میں پرواز کرتے ہوئے یہ کہتے سنا کہ آج مجھے قید سے چھٹکار امل گیا اوربیدار ہوکر جب وہ شخص تعبیر خواب دریافت کرنے آپ کے یہاں پہنچا تو آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی کہنے لگا کہ خواب کی تعبیر مل گئی اورروایت ہے کہ انتقال کے وقت آسمان سے یہ ندا آئی کہ دائود طائی اپنی مراد کو پہنچ گیا اوراللہ تعالیٰ بھی ان سے خوش ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی