Biography Hazrat Imam Ahmad Ghazali تعارف حضرت امام احمد غزالی


Biography Hazrat Imam Ahmad Ghazali تعارف حضرت امام احمد غزالی

مجدالدین ابوالفتح احمد بن محمد غزالی پانچویں صدی ہجری کے شافعی فقہا و صوفیا میں سے تھے وہ امام غزالی کے برادرِ اصغر بھی تھے۔

ایک عرصہ تک مدرسہ نظامیہ بغداد میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔


تصوف 

تصوف کا غلبہ ہوا تو سب چھوڑ چھاڑکراپنے بڑے بھائی امام محمد غزالی صاحب "احیا ءالعلوم"کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ ان کے وصال کے بعد ان کے مشن کو کامیابی سے چلاتے رہے۔ وعظ ونصیحت تصنیف وتألیف کا سلسلہ جاری رکھا آپکے وعظ میں بیحد تأثیر تھی۔ آپکے وعظ کی برکت سے ہزاروں لوگ راہِ راست پر آئے۔ آپ فصیح اللسان اور صاحب ِکرامت تھے ۔


وفات 

احمد غزالی 520ھ میں ایرانی شہر قزوین میں وفات پاگئے۔


تالیفات 

آپ نے امت مسلمہ کو مفید کتب سے نوازا ہے،ان میں سے چند کتب یہ ہیں!


الذخيرة في علم البصيرة» تصوف میں ہے

لباب الإحياء» مختصر كتاب«إحياء علوم الدين»، اپنے بڑے بھائی امام غزالی کی کتاب کو مختصر کیا۔

سوانح العشاق» فارسی،

بوارق الإلماع في الرد على من يحرِّم السماع»، ہندوستان میں 1317ھ طبع ہوئی

تفسير سورة يوسف وقصة يوسف عليہ السلام»

التجريد في كلمة التوحيد»،

كتاب الحق والحقيقة».

مدخل السلوك إلى منازل الملوك»

لطائف الفكر وجوامع الدرر»، [1]



آپؒ کا نام احمد اور والد کا نام محمد تھا۔ آپ کی کنیت بعض نے ابوالعباس ، بعض نے ابوالفتح جبکہ کچھ مورخین نے ابوالفتوح لکھا ہے ۔ مورخین اور سیرت نگارو ں نے آپ کو زین الدین، شمس الدین ، شہاب الدین اور مجدالدین کے القاب سے یاد کیا ہے ۔ تا ہم سب سے زیادہ احمد غزالی کے نام سے مشہور رہے ، آپ مشہور عارفی و فلسفی امام محمد غزالی کے چھوٹے بھائی تھے ۔

آپ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے بھی اختلاف پایا جاتا ہے تا ہم تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی ولادت ۴۵۱ھ سے ۴۵۵ھ کے درمیان ہوئی ۔ آپ کی پیدائش اپنے بھائی کی طرح طابران طوس ایران ہے ۔ آپ اور آپ کے بھائی نے ابتدائی تعلیم امام احمد رادکانی کے پاس حاصل کی ، اس کے بعد اس زمانے کے مایہ ناز علماء سے کسب فیض کیا ۔

جوانی کے ایام میں علم فقہ کے حصو ل کے ساتھ ریاضت اور سیر و سلوک کے طرف بھی راغب بھی ہوئے ۔ سب سے پہلے اس زمانے کے مشہور عارف شیخ ابو بکر نساج طوسی سے طریقت کے رموز سیکھے۔ آپ کا شمار ان عارفوں میں ہوتے ہیں جو ایک عارف باللہ ہونے کے ساتھ فقیہ بھی تھے ۔

حصول علم کے بعد آپ نے بغداد کا سفر کیا اورمدرسہ نظامیہ بغدادمیں تدریس کا فریضہ بھی انجام دیا ۔

عمر کے آخری حصے میں قزوین میں اقامت پذیر ہوئے ۔ آپ اپنے استاد شیخ ابو بکر نساج کی وفات کے بعد سے مسند ارشاد پر فائز ہوئے اور تقریباً ۳۳ سال اس اہم مسند پر سالکان طریقت کی رہنمائی کرتے رہے ۔ آپ ۵۲۰ یا ۵۲۵ ھ کو قزوین میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے.


محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ اور احمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ دو بھائی تھے یہ اپنے لڑکپن کے زمانے میں یتیم ہوگئے تھے ، ان دونوں کی تربیت ان کی والدہ نے کی ان کے بارے میں ایک عجیب بات لکھی ہے کہ ماں ان کی اتنی اچھی تربیت کرنے والی تھی کہ وہ ان کو نیکی پر لائیں حتیٰ کہ عالم بن گئے مگر دونوں بھائیوں کی طبیعتوں میں فرق تھا ۔

امام غزالی رحمتہ ا…للہ علیہ اپنے وقت کے بڑے واعظ اور خطیب تھے اور مسجد میں نماز پڑھاتے تھے ان کے بھائی عالم بھی تھے اور نیک بھی تھے لیکن وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے اپنی الگ نماز پڑھ لیا کرتے تھے توایک مرتبہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی والدہ سے کہا امی لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں تو اتنا بڑا خطیب اور واعظ بھی ہے اور مسجد کا امام ہے مگر تیرا بھائی تیرے پیچھے نماز نہیں پڑھتا امی آپ بھائی سے کہیں وہ میرے پیچھے نماز پڑھا کرے ماں نے بلا کر نصیحت کی چنانچہاگلی نماز کا وقت آیا امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نماز پڑھانے لگے اور ان کے بھائی نے بھی پیچھے نیت باند لی لیکن عجیب بات ہے کہ جب ایک رکعت پڑھنے کے بعد دوسری رکعت شروع ہوئی تو ان کے بھائی نے نماز توڑ دی اور نماز کی جماعت سے باہر نکل آئے اب جب امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے نماز مکمل کی ان کو بڑی سبکی محسوس ہوئی وہ بہت زیادہ پریشان ہوئے لہٰذا مغموم دل کے ساتھ گھر واپس لوٹے ، ماں نے پوچھا بیٹا بڑے پریشان نظر آتے ہو کہنے لگے امی بھائی نہ جاتا تو زیادہ بہتر رہتا ۔ یہ گیا اور ایک رکعت پڑھنے کے بعد دوسری میں واپس آگیا اور اس نے آکر الگ نماز پڑھی تو ماں نے اس کو بلایا اور کہا بیٹا ایسا کیوں؟ چھوٹا بھائی کہنے لگا میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے لگا پہلی رکعت انہوں نے ٹھیک پڑھائیمگر دوسری رکعت میں اللہ کی طرف دھیان کے بجائے ان کا دھیان کسی اور جگہ تھااس لئے میں نے ان کے پیچھے نماز چھوڑ دی اور آکر الگ پڑھ لی ۔ ماں نے پوچھا امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ سے کہ کیا بات ہے؟کہنے لگے کہ امی بالکل ٹھیک بات ہے میں نماز سے پہلے فقہ کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا اور نفس کے کچھ مسائل تھے جن پر غور وخوض کر رہا تھا جب نماز شروع ہوئی تو پہلی رکعت میں میری توجہ الی اللہ میں گزری لیکن دوسری رکعت میں وہی نفس کے مسائل میرے ذہن میں آنے لگ گئے ان میں تھوڑی دیر کے لیے ذہن دوسری طرف متوجہ ہوگیا اس لیے مجھ سے یہ غلطی ہوئی تو ماں نے ایک وقت ایک ٹھنڈا سانس لیا اور کہا افسوس کہ تم دونوں میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہ بنا اس جواب کو جب سنا دونوں بھائی پریشان ہوئے ۔ امام غزالی رحمتہ اللہ نے تو معافی مانگ لی امی مجھ سے غلطی ہوئی مجھے تو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مگر دوسرا بھائی پوچھنے لگا امی مجھے تو کشف ہوا تھا اس لیے کشف کی وجہ سے میں نے نماز توڑ دی تو میں آپ کے کام کا کیوں نہ بنا؟تو ماں نے جواب دیا کہ “تم میں سے ایک تو نفس کے مسائل کھڑا سوچ رہا تھا اور دوسرا پیچھے کھڑا اس کے دل کو دیکھ رہا تھا ، تم دونوں میں سے اللہ کی طرف تو ایک بھی متوجہ نہ تھا لہٰذا تم دونوں میرے کام کے نہ بنے”


امام یافعی اپنی تصنیف "مرآۃ الجنان میں فرماتے ہیں" کہ الشیخ ،الامام العالم ،العلامۃ عمدۃ الفہامۃ،شیخ الحقیقۃ والطریقۃ،شیخ شہاب الدین، ابو الفتاح احمد ،بن محمد ،بن محمد، طوسی غزالی حجۃ الاسلام امام محمد غزالی صاحب ِ   "احیا ءالعلوم"کے برادرِ اصغر تھے۔اپنے وقت کے عظیم محدث فقہ شافعی کےمشہور فقیہ تھے ۔ایک عرصہ تک مدرسہ نظامیہ بغداد میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔پھر تصوف کا غلبہ ہوا تو سب چھوڑ چھاڑکراپنے بڑے بھائی کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ان کے وصال کے بعد ان کے مشن کو کامیابی سے چلاتے رہے ۔وعظ ونصیحت تصنیف وتألیف کا سلسلہ جاری رکھا آپکے وعظ میں بیحد تأثیر تھی۔آپکے وعظ کی برکت سے ہزاروں لوگ راہِ راست پر آئے۔آپ فصیح اللسان اور صاحب ِکرامت تھے ۔آپ نے امت مسلمہ کو مفید کتب سے نوازا ہے،ان میں سے چند کتب یہ ہیں!


الذخيرة في علم البصيرة» فيالتصوف. 

    «لباب الإحياء» اختصر فيه كتاب«إحياء علوم الدين»

، وقد نسبه آخرون إلى أخيه أبي حامد.   

  «سوانح العشاق» بالفارسية،

 ذكر المستشرقفستنفلد وجود نسخة مخطوطة في المكتبة الأهلية بباريس.

 وذكر صاحب الذريعة أنه «الفه لتلميذه ومريده عين القضاة الهمداني 

    «بوارق الإلماع في الرد على من يحرِّم السماع»،

 طُبع في الهند ،سنة ١٣١٧ هـ  

   «تفسير سورة يوسف وقصة يوسف عليه السلام» وذكرهبروكلمان بإسم «

سر العالمين في تفسير سورة يوسف». طُبع في بومباي سنة ١٨٩٤ م بإسم 

«بحر المحبة في اسرار المودة في تفسير سورة يوسف» وفي دهلي سنة ١٩٠٠ م بإسم «أحسن القصص»، كما طبع بطهران سنة ١٣١٢ هـ

     «التجريد في كلمة التوحيد»، طُبع مؤخرا بتحقيق أحمد مجاهد    

 «كتاب الحق والحقيقة». 

    «مدخل السلوك إلى منازل الملوك».  

   «لطائف الفكر وجوامع الدرر»،

 والكتابين الأخيرين ذكرهماالبغدادي۔۔۔۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی