نمونہ اسلاف، محقق اعظم، مورخ اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی صاحب قبلہ
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی صاحب اہل سنت کی ایک عظیم درسگاہ کے شیخ الحدیث ہونے کے ساتھ بلند پایہ مصنف و محقق بھی ہیں آپ کے نوک قلم سے درجنوں علمی، ادبی، تاریخی، اور سوانحی کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں، جن کی قدر و منزلت علمی حلقوں میں نیم روز کی طرح بالکل عیاں ہے.
جس موضوع پر قلم اٹھایا کما حقہ تفتیش کی، تلاش و جستجو کے بعد جو کچھ لکھا خوب لکھا آپ کے سیال قلم نے جس وادی کا رخ کیا اسے سیراب کردیا جس میدان کی طرف آپ کا رہوار قلم چلا اسے اشہب فکر و نظر کی مدد سے پامال کرتا گیا. آپ کے دل آویز محققانہ بیان کی عطر بیز فضاؤں میں علوم و معارف کے امڈتے ہوئے چشمے دیکھ کر عقلیں محو حیرت ہیں اور زبانیں مدح سرا ہیں.
حضور مورخ اسلام نے لمحہ حیات ایک ایک پل کو اتنی خوبصورت سے استعمال کیا کہ وہ سارے قیمتی لمحات زرین اوقات ، انمول موتیوں کی لڑی نظر آتی ہیں۔زمانہ طالب علمی کا ہو یا تدریس کا ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ سنہرا دور ہے۔ اپنے ذوق و شوق سے علم وفن کے ایسے قیمتی لعل و گوہر تراشے ہیں کہ جس کی چمک ان شاء اللہ تا دم قیامت اہل علم کی آنکھوں کو خیرہ وروشن کرتی رہیں ۔
مدینۃ العلما قصبہ گھوسی کی ایک عظیم علمی،دینی، ادبی، اور تصنیفی شخصیت نازش علم و فن شہریار تحریر و قلم مفکر اسلام حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی صاحب قبلہ مدظلہ العالی کو بیسویں عرسِ شارح بخاری علیہ الرحمہ کے موقع پر شارح بخاری ایوارڈ سے نوازا گیااور ساتھ ہی بحر العلوم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ولادت: ڈاکٹر عاصم اعظمی صاحب حفظہ الله ( شیخ الحدیث جامعہ شمس العلوم گھوسی) کی ولادت با سعادت ٢٩ محرم الحرام 1368کو محلہ کریم الدین پورہ قصبہ گھوسی ضلع اعظم گڑھ (ثم بعدہ ضلع مئو) میں ہوئی۔
والد: حضور مورخ اسلام عاصم اعظمی کے والد مولانا محمد سالم امجدی صاحب علیہ الرحمہ حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے خاص مریدین میں سے تھے، ١۵ صفر ١۴٢۴ھ (٢٠٠٣ء) کو مولانا سالم امجدی صاحب کا وصال ہوا۔اور آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی محترمہ کبیر النسا بنت جناب عبد الاحد
تعلیم: حضور مورخ اسلام ڈاکٹر عاصم اعظمی نے 1954یا 1953 میں علامہ ڈاکٹر محمد رسول صاحب اعظمی نے جب سن شعور میں قدم رکھا اور لکھنے پڑھنے کے قابل ہوئے۔تو خاندانی روایات کے مطابق آپ کا داخلہ وطن کے قدیم اور مرکزی ادارہ دارالعلوم اہل سنت جامعہ شمس العلوم گھوسی میں کرادیا گیا۔ جہاں آپ نے قاعدہ بغدادی اور قرآن مجید ناظرہ خوانی کے ساتھ درجات پرائمری میں چہارم تک اردو ، ہندی ، ریاضی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی، پھر فارسی وقواعد فارسی اور ابتدائی عربی کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے ، گلستاں ، بوستاں ، میزان و منشعب ، صرف میر ، دروس الادب اور اخلاق محسنیٰ کا درس وہاں کے مایہ ناز اساتذہ سے حاصل کیا۔
1963 میں جماعت منشی میں داخل ہوئے ۔کورس کی کتابوں کے ساتھ ریاضٰ ، الجبرا، تاریخ اور جغرافیہ بھی پڑھا، اسی دوران خارجی کتابوں کے مطالعے کا احساس ہوا، اور خارجی اوقات میں غیر درسی کتابوں کے مطالعے کے عادی ہو گیے۔ منشی کے بعد کامل، مولوی اور عالم کی باقاعدہ تعلیم اسی ادارے میں ہوئی، چونکہ اس وقت جامعہ شمس العلوم کا معیار تعلیم بہت بلند نہ تھا، اسی لیے عالم کی باقاعدہ تعلیم اسی ادارے میں ہوئی۔ چونکہ اس وقت جامعہ شمس العلوم کا معیار بہت بلند نہ تھا اسی لیے عالم پاس کرنے کے بعد تعلیمی کچھ رسمی سا رہا اور باضابطہ دورہ حدیث نہ ہو سکا۔پھر بھی آپ نے ذاتی ذوق و شوق جدوجہد ، محنت ولگن اور مخلص ومہربان اساتذہ کی خصوصی توجہ وعنایات سے بخاری شریف۔ بہضاوی شریف اور ہدایہ اول ین وغیرہ کے متعدد اسباق پڑھے اور تحصیل علوم وفنون سے اعلیٰ پوزیشن پر فارغ ہو کر1969 میں سند فضیلت سے سرفراز کیے گئے۔
آپ کے کچھ اساتذہ کے اسما گرامی یوں ہیں۔
حضرت قمر الدین صاحب قمر اشرفی، مفتی وکیل احمد اعظمی، مولانا محمد رمضان، مولانا سمیع اللہ صاحب، مولانا عبد السلام ، مولانا شمس الدین، مولانا محمد یوسف، جناب ماسٹر اعجاز صاحب، جناب حافظ قمر الحق صاحب، جناب منشی شرف الدین صاحب، جناب ڈاکٹر محی الدین صاحب وغیرہم سے آپ نے اکتساب علم وفن کیا۔
اس کے علاوہ آپ نے جامعہ اردو علیگڑہ سے ادیب، ماہر، ادیب کامل، معلم اردو، اور عربی وفارسی بورڈ الٰہ آباد سے منشی ، مولوی، عالم، کامل، فاضل دینیات، فاضل ادب اور فاضل طب کی اسناد حاصل کی ۔پھر گورکھپور سے بی، اے۔ ایم اے کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی ایچ، ۔ایچ ایم ٹی کی تعلیم مکمل کی اورپٹنہ یونیورسٹی سے حدیث نبوی کے اردو تراجم پر پی ایچ ڈی کی۔ان سب امتحانات کے لیت تدریسی خدمات اور گھریلو مصروفیات پابند سلاسل نہ کر سکیں۔
تدریس: علامہ اعظمی نے جن مدارس اسلامیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں ان مدارس کے نام یہ ہیں:
● دارالعلوم اسحاقیہ جودھپور
● دارالعلوم فیض الاسلام گھوسی
● دارالعلوم اہلسنت شمس العلوم گھوسی
○ برج تقویٰ کی پہچان تو ہے عاصم
○ علم میراث کی شان تو ہے عاصم
حضور مورخ اسلام. آپ کے قلم سے کتنوں کو ایمان جیسی دولت نصیب ہوئی حضور مورخ اسلام جب بخاری شریف کا درس دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آج صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس لگی ہوئی ہے وہ مورخ اسلام جنہوں نے اپنی زندگی کے اکثر لمحات شریعت کے مطابق گزاری فقیر نے خود اس کا مشاہدہ کیا کہ ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتے تھے. جو شریعت کے خلاف ہو اور جب مورخ اسلام کو راستے سے گزرتے دیکھا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے وقت کا صوفی ملت جا رہا ہے ایسا لگتا ہےکہ مُتَبَحِّرالْعِلْم و بحر المعرقۃ جا رہا ہے
تلامذہ: آپ کے چند شاگردوں کے نام یہ ہیں۔
● مولانا عبد الرشید اعظمی صاحب (سابق نائب شیخ الحدیث جامعہ لطیفیہ سراج العلوم نہال گنج)۔ مفتی محبوب عالم صاحب (سابق شیخ الحدیث الجامعۃ الصابرہ گوپی گنج)۔ مولانا فیضان المصطفیٰ قادری صاحب (شیخ الحدیث جامعہ امجدیہ گھوسی)، ● مولانا محمد حنیف مصباحی صاحب (شیخ الحدیث دارالعلوم مجاہد ملت دھام نگر)، ۔مولانا رفیق احمد شمسی (شیخ الحدیث دارالعلوم اشرفیہ ٹنکایہ بھروچ)۔ مولانا خورشید عالم صاحب شیخ الادب (جامعہ عربیہ مدرسۃ العلوم بھدوہی)، ۔ مولانا قاسم ضیاء صاحب (شیخ الادب دارالعلوم حبیبیہ گوپی گنج)،۔ مولانا وصی احمد صاحب (شیخ الادب جامعہ شمس العلوم گھوسی)، مولانا فروغ احمد اعظمی صاحب (سابق پرنسپل جامعہ علیمیہ جمداشاہی بستی)، پروفیسر خواجہ اکرام صاحب (پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی)،۔ مولانا شہباز عالم صاحب (پرنسپل دارالعلوم امیر العلوم کچھوچھہ شریف)۔مولانا جسیم رضا شمسی. مولانا نوشاد عالم (مہراج گنجوی) مولانا سید نصیر رضا قادری شمسی. (سیتا پور). فقیر ... شمسی (کشی نگر) مولانا شاکر رضا (نیپال) مولانا صاحب اکرم مرکزی (بنگال) مفتی افضل شمسی (بہار)
تصانیف: آپ کی چند تصانیف و تالیف اور تراجم کے نام درج ذیل ہیں:
حدیث نبوی چند مباحث و مسائل۔ حدیث نبوی کے اردو تراجم۔ داستان حرم۔ ائمہ اربعہ۔ خواجہ غریب نواز۔ محبوب الٰہی۔ تذکرہ خلفائے راشدین۔ تفہیم الفرائض۔ تذکرہ مشائخ عظام۔ مشاہیر حدیث۔ تاریخ داؤدی۔ محدثین عظام کی حیات و خدمات۔ داستان کربلا۔ تذکرہ مولانا علیم اللہ شاہ۔ مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی۔۔احوال و افکار۔ ترجمہ مرآۃ مداری۔ ترجمہ منتخب اللغات۔ ترجمہ فتحوات فیروز شاہی۔ نگار شات۔تذکرہ دانشوران گھوسی تذکرہ شعرائے گھوسی وغیرہ۔
حضور مورخ اسلام. آپ کے قلم سے کتنوں کو ایمان جیسی دولت نصیب ہوئی حضور مورخ اسلام جب بخاری شریف کا درس دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آج صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس لگی ہوئی ہے وہ مورخ اسلام جنہوں نے اپنی زندگی کے اکثر لمحات شریعت کے مطابق گزاری ۔
آپ ایسا ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتے تھے. جو شریعت کے خلاف ہو اور جب مورخ اسلام کو راستے سے گزرتے دیکھا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے وقت کا صوفی ملت جا رہا ہے ایسا لگتا ہےکہ مُتَبَحِّرالْعِلْم و بحر المعرقۃ جا رہا ہے.
ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم آپ کو عمر خضر عطا فرمائے،آمین ثم آمین۔