Biography Munazire Ahlesunnat Mufti Muti Ur Rehman | مفتی مطیع الرحمٰن نوری مناظر اہل سنت



مدیر عام الادارۃ الحنفیہ کشن گنج بھار

ولادت

فقیہہ ملت مولانا مفتی محمد مطیع الرحمٰن رضوی بن محمد ایوب محمد فدوی ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو بچھلا گاؤں کشن گنج ضلع پورنیہ بہار میں پیدا ہوئے۔

تعلیم وتربیت

مولانا مفتی مطیع الرحمٰن رضوی نے قرآن کریم کی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور ابتدائی تعلیم کے لیے گاؤں پچھلا کے ایک مقامی مدرسہ میں داخلہ لیا۔ جہاں فارسی کی پہلی، آمدنامہ پڑھ کر ۱۹۶۰ء میں اسکول چلے گئے اور جو نیر ہائی اسکول میں انگریزی تعلیم پائی۔ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ محی الاسلام بجر ڈیہہ بائسی ضلع پورنیہ میں داخل ہوکر گلستان بوستاں وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ پھر دارالعلوم کٹہیار میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تشریف لے گئے وہاں پر امتحان لیا گیا۔ جو عجیب و غریب ہے۔ مولانا مطیع الرحمٰن کو دارالعلوم کٹیہار میں وہ مراعات حاصل ہوئیں جو ایک مدرس کو ملتی تھیں۔

مولانا مفتی مطیع الرحمٰن کے والد گرامی کا اسی اثناء میں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالحکیم پور نوی کی رغبت سے جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے آپ دوسرے مدارس میں بھی بطور سماعت کے لیے جاتے۔ چونکہ قوت حافظہ، یاد داشت بہت عمدہ ہے۔ اس لیے اس میں اٹھنے والے اعتراضات کو ان اساتذہ سے سوالات کرتے مشکوٰۃ شریف کی سماعت کر رہے تھے۔ علم غیب رسول اللہﷺ پر بحث کرنا شروع کردی، ابتداً ان لوگوں کو جواب بن نہ پڑے پر مولانا مطیع الرحمٰن کے داخلہ پر پابندی لگادی گئی۔

آپ نے جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے دارالعلوم مظہر اسلام میں جاکر داخلہ لیا اور شرح جامی، نور الانوار اور شرح تہذیب وغیرہ کتب مظہر اسلام کے اساتذہ سے پڑھیں، ا ور تکمیل علم کیا۔

اساتذۂ کرام

۱۔ حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ

۲۔ حضرت مولانا حاجی محمد مبین الدین رضوی محدث امروہوی

۳۔ حضرت مولانا خواجہ مظفر حسین رضوی پور نوی

۴۔ حضرت مولانا نعیم اللہ خاں رضوی بستوی

بیعت وخلافت

مولانامحمد مطیع الرحمٰن رضوی نے دورانِ تعلیم جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں حضور مفتی اعطم کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ کچھ دن حضور مفتی اعظم کے سفر وحضر میں بھی ساتھ رہے۔ یہ عالم تھا کہ رضوی دارالافتاء بریلی کے مفتیان کرام جن استفتاء کا جواب نہ لکھ سکتے تھے، وہ سارے سوالات جمع کردیئے جاتے، جب مفتی اعظم سفر کے لیے تشریف لے جاتے تو وہ سارے سوالات ساتھ میں ہوتے اور ساتھ ہی ساتھ مولانا مطیع الرحمٰن بھی ہوتے درمیان سفر حضور مفتی اعظم فرماتے

‘‘مولوی مضطر لاؤ وہ سوالات کہاں ہیں؟’’

آپ سوالات حاضر کرتے حضرت مفتی اعطم بولتے جاتے اور آپ لکھتے جاتے۔ اس طرح فتاویٰ لکھنے کی مشق بھی ہوجاتی اور حضور مفتی اعظم سے علمی ا ستفادہ کو موقع بھی کما حقہ مل جاتا تھا۔ ایک زمانہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

خود حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے فتاویٰ اپنی سر پرستی میں لکھواکر صح الجواب تحریر فرمایا۔ نیز سند افتاء، سند بخاری، سند فتاویٰ رضویہ اور سلاسل کی اجازت وخلافت سے سر فراز فرمایا۔

تصانیف

حضرت مولانا مطیع الرحمٰن درس نظامیہ پر عبور رکھتے ہیں۔ آپ کی تصانیف بھی علمی اور تحقیقی ہوتی ہیں۔ خصوصاً فقہی جزئیات پر آپ کو اچھا خاصا عبور حاصل ہے۔ اکثر مضامین ماہنامہ نوری کرن بریلی شائع ہوتے تھے۔ اب ماہنامہ سنی دنیا بریلی میں شائع ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل کتابیں مولانا مطیع الرحمٰن کی علمی قابلیت کابین ثبوت ہیں:

۱۔ شیخ کی تصویر

۲۔ چاندکا مرحلہ نئےمرحلے میں

۳۔ الدین ا لمظفر (عربی مع ترجمہ)

۴۔ اسکاۃ المئتدی (رودیانبہ)

۵۔ مراسم اہلسنت

۶۔ فیصلہ کن مناظرہ کا جواب

۷۔ اظہر منطق (علم منطق میں آسان کتاب)

۸۔ اظہر قواعد (فارسی کے قواعد)

۹۔ حرف آخر (مسئلہ ٹیلی ویژن پر منصفانہ جائزہ)

۱۰۔ لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم کے رد میں آپ ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمارہے ہیں۔ جس کا نام ‘‘قول فیصل’’ رکھا ہے۔

نمونۂ کلام

حضرت مولانا مطیع الرحمٰن کو شاعری سے بھی دلچسپی ہے۔ مضطر تخلص فرماتے ہیں، اپنے کلام کی اصلاح اعظم مولانا مصطفیٰ رضا بریلوی سے لی، نمونہ کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں؎

خوشا خلد کا پر کیف منظر
زہے سبز گنبد کے دلکش نظارے
کبھی شیخ دیکھیں طیبہ کا منظر
تو بھولیں وہ جنت کےرنگیں نظارے

وہ عالم کو مہکا دیا آج کس نے
عرب سے چلا کون زلفیں سنوارے
بہائے جو عشق محمد میں آنسو
سمٹ آئے دامن میں لاکھوں ستارے

دل میں تھا دیکھیں یہیں شکل رضاؔ
غارسا کتنا ہوں قسمت تو دیکھئے
غیب سے ہاتف نے دی صدا مضطر
مفتئ اعظم کی صورت دیکھئے

چند تلامذہ

۱۔ مولانا نور شاد عالم حنفی رضوی

۲۔ مولانا آل مصطفیٰ اشرفی کٹیہار

۳۔ مولانا منظر نواز نوری مدرس تنظیم المسلمین بائسی

۴۔ مولانا بدر العلیٰ ادارہ الحنفیہ کشن گنج

۵۔ مولانا شفیق عالم ناگپوری مدرس دارالعلوم امجدیہ ناگپور [1]



[1] ۔ مفتی مطیع الرحمٰن رضوی مدرسہ الجامعۃ الاسلامیہ رام پور تشریف لائے تھے اس موقع پر راقم نے بالمشافہ حالت حاصل کیے۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی