استاذ القراء حضرت علامہ مولانا قاری محمد یحییٰ صاحب علیہ الرحمہ کے حیات و کارنامے سے متعلق
نام۔محمد یحییٰ
ولدیت۔محمد بشیر ابن حاجی نعمت اللہ گرہست ابن عبد اللہ (مرحومین)
وطن۔محلہ پورہ رانی، مبارک پور، اعظم گڑھ،یوپی
وفات۔۱۵/ مئی ۱۹۹۶ء مطابق ۲۶/ذی الحجہ ۱۴۱۳ھ بروز بدھ صبح ۴:۳۰
فراغت۔۱۳۵۸ھ دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
بعد فراغت۔پیکر اخلاص حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز صاحب علیہ الرحمہ سابق صدر المدرسین دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور نے درس و تدریس کے لیے منتخب فرمالیا۔
شعبۂ قرأت اور درس نظامی جلالین شریف وغیرہ کے باکمال مدرس رہے یہ سلسلہ ۱۹۶۲ء تک رہا۔
انگلش کی تعلیم۔اپنے پڑوس کے جنگی بابو اگروالٓ محلہ پورہ رانی مبارک پور سے باقاعدہ حاصل کی۔
۱۹۶۲ء سے ۱۹۷۸ء تک دارالعلوم اشرفیہ کے عہدۂ نظامت پر فائز رہے۔(کل مدت ۱۶/سال)
۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء تک دارالعلوم اشرفیہ کے نائب صدر رہے۔
۱۹۷۴ء میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ نے مرکزی جامع مسجد راجہ مبارک شاہ علیہ الرحمہ میں جمعہ کی نماز کے لیے خطیب و امام مقرر فرمایا۔یہ خدمت حضرت ممدوح نے عمر کے آخری جمعہ تک بحسن و خوبی انجام دیا آپ کی رحلت کے بعد مسجد کے منبر و محراب اداس ہیں (ماہنامہ اشرفیہ جون ۱۹۹۶ء)
۱۹۷۴ء میں زیارت حرمین شریفین کے لیے تشریف لے گیے۔
۱۹۷۸ء میں دوسری بار کعبتہ اللہ اور روضتہ النبی ﷺکے لیے دوبارہ تشریف لے گیے۔
۱۳۶۷ء میں ٹرین ہی میں صدر الشریعہ حضرت العلام مولانا شاہ(مفتی امجد علی علیہ الرحمہ مصنف بہار شریعت متوفی ۱۹۴۸ء مطابق ۱۳۶۷ھ) سے مرید ہوے اور انہیں سلسلۂ امجدیہ کے آخری مرید ہونے کا شرف ملا۔
حضرت ممدوح نے اپنے نام کے ساتھ امجدی لکھنے کا اہتمام تو نہیں فرمایا مگر اپنی ایک صاحبزادی کا نام امجدی ہی رکھ دیا۔
۱۹۴۷ء میں حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے حضرت قاری محمد یحییٰ صاحب علیہ الرحمہ کو حضرت استاذ القراء قاری محب الدین احمد علیہ الرحمہ کے مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں قرأت حفص و تجوید کی تکمیل کے لیے تعطیل کلاں میں بھیجا۔قبل اس کے استاذ القراء قاری محمد عثمان صاحب علیہ الرحمہ گھوسی کے درس میں رہے اور تقریباً ۲/ سال امام النحو علامہ سید غلام جیلانی صاحب علیہ الرحمہ کے مدرسہ اسلامیہ میرٹھ میں درس نظامی اور شعبۂ قراءت کے متعلم رہے۔
۱۹۶۲ء حضور محدث اعظم ہند علامہ سید شاہ محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے کولمبو (سری لنکا) جانے کے لیے حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ سے گفتگو کی آپ اس کی تیاری میں لگ گیے جُبّہ کے لیے بریلی شریف کا سفر فرمایا جب حضرت حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ سے قاری صاحب کو بھیجنے کی اجازت چاہی تو حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ نے فرمایا آپ اشرفیہ ہی کے نہیں ہم سب کے سرپرست ہیں۔قاری صاب ہمہ جہت خوبیوں کے مالک ہیں اشرفیہ کی یہ اہم ضرورت ہیں۔مستقبل قریب میں ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔یہ سننے کے بعد حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ خاموش ہو گیے اور سفر کولمبو ملتوی ہوگیا۔
حضرت قاری محمد یحییٰ صاحب علیہ الرحمہ کے دور نظامت کے زریں کارنامے
اشرفیہ مارکیٹ (گولہ بازار) ، شعبۂ نسواں کی تعمیر اور زمین کی خریداری، یونین بینک کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیر متصل دارالعلوم اشرفیہ، جامعہ مسجد راجہ مبارک شاہ کی دوسری منزل نیز پلاسٹر کا کام اور دونوں گیٹ مع تزئین کاری ، الجامعتہ الاشرفیہ (درس گاہ)، ۳۰/ بیگھہ زمین کی خریداری،سنٹرل بالڈنگ و عزیزی ہاسٹل، انجمن اہل سنت و اشرفی دارالمطالعہ کی زمین(بڑی ارجنٹی مبارک پور)،اس کے علاوہ ۱۰/ بیگھہ زمین متفرق جگہ کل ۴۰/ بیگھہ ۔ حضرت ممدوح نے اتنی وسیع و عریض زمین الجامعتہ الاشرفیہ کے لیے مہیا فرما کر دنیاۓ سنیت کو یہ ذہن دیا کہ تعمیر سے زیادہ زمین کی فراہمی مقدم ہے۔
۱۹۷۱ء میں جب اشرفیہ اقتصادی مشکلات اور مالی بحران سے دو چار تھا تو حضرت ممدوح نے قیادت کا حق ادا کرتے ہوۓ ادارہ کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔
معتمدین حضور حافظ ملت
۱۔حضرت علامہ مولانا حافظ عبد الرؤف صاحب بلیاوی
۲۔علامہ مولانا قاری محمد یحییٰ صاحب مبارک پوری
۳۔علامہ مولانا مفتی عبد المنان صاحب مبارک پوری
۳۔علامہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مبارک پوری
۴۔علامہ مولانا مفتی علی احمد صاحب مبارک پوری
حضرت حافظ ملت اور قاری محمد یحییٰ صاحب علیہ الرحمہ کے ارادت مندوں میں الحاج حفیظ اللہ صاحب عزیزی رئیس کلکتہ کا نام بہت نمایاں ہے۔خریداری زمین و مشکلات اشرفیہ میں آں جناب کی بے مثال قربانیاں ہیں۔