Hazrat Peer Ghulam Jan Mujaddadi Sirhandi حضرت مولانا پیر غلام جان مجددی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا پیر غلام جان مجدد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ

نام ونسب: اسمِ گرامی:پیرغلام جان مجددی۔لقب:مجددی،سرہندی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:علامہ مولاناپیرغلام مجدد بن عبدالحلیم بن عبدالرحیم بن خواجہ محمد ضیاء الحق بن خواجہ غلام نبی بن خواجہ غلام حسن بن خواجہ غلام محمد بن خواجہ غلام معصوم بن خواجہ محمد اسماعیل بن خواجہ محمد بن خواجہ محمد معصوم بن امام ربانی شیخ احمد سرہندی۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔

تاریخِ ولادت:آپ کی ولادت باسعادت6/رجب المرجب 1300ھ،مطابق 14/مئی 1883ء،بروزپیربوقتِ صبح صادق علاقہ "مٹیاری"ضلع حیدرآباد میں ہوئی۔اب مٹیاری خودایک ضلع بن چکاہے۔



تحصیلِ علم: چار سال کی عمر میں آپ کی رسم بسم اللہ آپ کے جد امجد خواجہ عبدالرحیم نے کرائی، قرآن پاک آپ نے قاری عبدالرحمن متعلوی سے پڑھا، فارسی کی تعلیم جناب عزیز اللہ خان سلیمان خیل قندھاری سے اور عربی کی تعلیم علامہ محمد حسن اللہ صدیقی پاٹائی سے مٹیاری کی درگاہ شریف میں ہی حاصل کی ، سترہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔ آپ کے والدگرامی نے تین سو علماء کی موجودگی میں آپ کو دستار فضیلت عطا فرمائی۔ اسی (80)علماءکےاجتماع میں آپ نےپہلی بارتقریرفرمائی جس کو سن کرعلماءبھی عش عش کراٹھے۔مکۃ المکرمہ میں علامہ سید علی بن ظاہروتری اور حضرت مولانا عبدالحق الہ آبادی مہاجر مکی سے بطورِ برکت کتب حدیث پڑھیں اور سند حاصل کی۔عمدہ عمدہ کتابوں کا آپ کو بہت شوق تھا، یہی شوق تھا جس کے باعث آپ نے مدینہ منورہ سے اسی ہزار روپے کی نایاب کتابیں خرید فرمائیں۔ آج بھی آپ کے کتب خانے پرآپ کی خریدی ہوئی نایاب کتابوں کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے۔

بیعت وخلافت: آپ کو اپنے جد امجد خواجہ عبدالرحیم سے شرف بیعت حاصل تھا، اور اجازت و خلافت اپنے والد گرامی خواجہ عبدالحلیم سے حاصل تھی آپ کا سلسلہ طریقت اور سلسلہ نسب ایک ہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔

سیرت وخصائص: شیخ الوقت،عالمِ ربانی،عارف اسراریزدانی،صاحبِ علم وتقویٰ،خانوادۂ مجددالفِ ثانی کےبطلِ جلیل حضرت علامہ مولاناپیرغلام جان سرہندی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ ایک ہمہ گیراورہمہ جہت شخصیت کےمالک تھے۔آپ کی زندگی ایک مومنانہ ومجاہدانہ تھی۔سیرت وکردار،علم وعمل،تقویٰ وطہارت،ہمدردی واخوت تمام معاملات میں یادگارِاسلاف تھے۔جذبۂ حریت وغیرت آپ کی رگ وخون میں شامل تھا۔یہی وجہ ہےکہ آپ نےانگریزوں کےخلاف اورمسلمانوں کی حمایت میں تمام تحریکوں میں قائدانہ کردارادکیا۔

فرنگیوں سے نفرت:آپ کوفرنگیوں اور انگریزوں سے اور ان کی حکومت سےسخت نفرت تھی۔ آپ کوبڑی بڑی پیشکشیں کی گئیں ،لیکن آپ نے سب کوٹھکرا دیا۔تحریکِ خلافت کےدوران آپ بذریعہ ریل دورے پر جارہے تھے کہ راستے میں انگریز کلکٹرمسٹرگپس نے آپ کو دیکھ کر آپ کیلئے شربت منگوایا لیکن آپ نے اس کا منگایا ہوا شربت پینے سےانکارکردیا اور فرمایا:"کہ اگر اس گلاس میں شربت کی جگہ تمہارا خون ہوتا تو میں ضرور پیتا اسلئے کے تم ہمارے ترک بھائیوں کا خون پی رہے ہو"یہ سن کر انگریز کلکٹر کھسیانا سا ہو کر کہنے لگا کہ "شاید ان پر مذہبی جنون غالب آگیا ہے۔"

قید و بند: ترک موالات کی تحریک میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اور سندھ کے چپہ چپہ پر جلسے کرکے انگریزوں کے مکرو فریب سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ کراچی کی عظیم کانفرنس میں انگریزوں کے خلاف جو فتویٰ صاد ر کیا گیا تھا اس میں علی برادران ، مولانا نثار احمد کانپوری کے علاوہ چھٹے نمبر پر آپ کے دستخط بھی تھے۔ اس جرم کی پاداش میں خالق دینا ہال کراچی میں آپ پر مقدمہ چلایا گیا ار آپ کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی سزا سننے کے بعد آپ نے فرمایا کہ قید تو میرا ورثہ ہے کیوں کہ میں غلامِ مجدد اور اولاد ِمجدد ہوں جن کو جہانگیر بادشاہ نے قلعہ گوالیار میں نظر بند کردیا تھا۔ پھرارشادفرمایا:" کاش! آج مجھ پر یہ مقدمہ ہوتاکہ میں نے وقت کے انگریز بادشاہ جارج پنجم کو قتل کیا ہے اور اس کے خون سے میرے ہاتھ رنگے ہوتے"۔آپ نے بڑے تحمل سے یہ دوسال کا عرصہ جیل میں گزارا اور اس عرصہ میں قرآن پاک پورا حفظ کرلیا۔آپ نے جیل میں بڑی بڑی صعوبتیں برداشت کیں ، سردی کی راتوں میں آپ کی کوٹھڑی کے اندر ٹھنڈا پانی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ تاکہ آپ ساری رات کھڑے ہوکرگزاریں اور نماز نہ پڑھ سکیں، بتیاں بند کر دی جاتی تھیں تاکہ آپ تلاوت قرآن پاک نہ کر سکیں ۔

ملی خدمات:تحریک ہجرت ہو یا تحریک خلافت ، تحریک انجمن ہلال احمر ہو یا تحریک مسجد منزل گاہ ، تحریک ترک موالات ہویا تحریک پاکستان آپ نے ہر سیاسی اور مذہبی تحریک میں بھر پور کردار ادا کیا۔ انجمن ہلال احمر کے لئے صرف مٹیاری سے بارہ ہزار روپے جمع کروایا۔ انجمن خدام کعبہ کی تحریک کے لئے تمام سندھ سے ہزاروں روپے جمع کرکے بمبئی علی برادران کو بھیجوایا آپ ایک عرصہ تک جمعیت علمائے ہند کے سر کردہ رہنما رہے لیکن جب علماء اہل سنت نے جمعیت سے استعفی دیا تو آپ بھی مستعفی ہو گئے تھے ۔ آپ نے ہندووں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ہندوو ں کے کچھ قرض آپ کے ذمہ تھے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کانگریس میں شامل ہو جائیں تو ہم تمام قرضہ معاف کر دیں گے ورنہ ڈگری جاری کروادیں گے اس کے جواب میں آپ نے اپنی زمین فروخت کرکے ان کے قرضے اتار دیئے مگر اپنے ایمان کا سودانہ کیا۔

تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کی آپ نے ہر طرح سے بھر پور مدد کی اور اس کی ترقی کے لئے بھر چونڈی شریف کے پیرمولاناعبدالرحمن قادری اور عبدالرحیم شہید کے ہمراہ آپ نے پورے سندھ کا دورہ کیا۔ آپ نے اپنی ساری زندگی ر شدو ہدایت اور تبلیغ میں گزاری ہر مذہبی تحریک میں آپ پیش پیش نظر آتے تھے۔ مسجد کانپور کا جھگڑا ہوا تو مولانا محمد علی جوہر نے تار دےکر آپ کو بلایا آپ فورا ً کانپور پہنچے اورفیصلہ ہونے تک وہیں رہے اور ڈٹ کر حکومت وقت کا مقابلہ کیا۔

پاکستان بننےکےبعدہندوستان سے مہاجرین کی آمد پر آپ نے اپنا گھر خالی کر دیا اور اس میں ان کو بسایا حتیٰ کے سونے کیلئے بستر اور کھانے پینے کے برتن تک ان کے استعمال کیلئے دے دیئے ۔ ان کے لئے مکانوں کا بندوبست فرمایا ان کو رہائش کے لئے سہولتیں مہیا کیں ۔حیدر آباد میں سب سے پہلے "سلاوٹ پارے سے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس "کی ابتدا آپ ہی نے فرمائی ۔ حیدر آباد شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد آزاد میدان کی بنیاد بھی حضرت مفتی محمد محمود الوری کے ساتھ مل کر آپ ہی نے رکھی اور اس کی پہلی کمیٹی کے سب سے پہلے صدر بھی آپ ہی تھے۔الغرض آپ کی تمام زندگی ایک مجاہدانہ زندگی تھی۔خطۂ باب الاسلام سندھ آپ کی برکت وروحانیت سےفیض یاب ہوا۔

تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروزمنگل صبح نوبجے16/جمادی الاخری 1377ھ،مطابق 7/جنوری 1958ءکوحیدرآبادمیں ہوا۔پھرآپ کوحسبِ وصیت "مٹیاری"میں سپردِ خاک کیاگیا۔

وفات سےقبل اپنے جد امجد خواجہ ضیاء الحق کے یہ اشعار آپ کے وردِ زبان تھے۔

بصدیقیت خریدارم عمر را دوست میں دارم
چہارم حیدر صفدر کہ باشد ساقی کوثر

فدا سازم دل و جاں را بعثمان یارسول اللہ
اما ماں را شوم چاکر بایقاں یارسول اللہ

ماخذومراجع: انوارعلمائے اہلسنت سندھ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی