Biography Hazrat Sheikh Saifuddin Mujaddadi Sarhandi خواجہ سیف الدین فاروقی

شیخ محمد سیف الدین مجددی سرہندی، 



خواجہ سیف الدین فاروقی خانوادہ مجددیہ کے اہم رکن ہیں (19یا 26 جمادی الاولی 1049ھ۔ بمطابق 1096ھ )

ولادت

محی السنۃ خواجہ سیف الدین عروۃ الوثقیٰ حضرت خواجہ محمد معصوم نقشبندی کے پانچویں صاحبزادے اور خلیفہ ارشد ہیں۔ آپ کی ولادت 1049ھ میں سرہند شریف میں ہوئی۔

علوم ظاہری و باطنی

آپ کو فطرۃِ سلیمہ کے ساتھ نیکی، اتباع شریعت اور اعلاء کلمۃ الحق کے انعامات ترکہ میں حاصل تھے۔ کمال یہ کہ محض گیارہ سال کی عمر میں دینی تعلیم حاصل کرکے فارغ التحصیل عالم و فاضل بن چکے تھے۔ اسی عمر میں والد محترم (حضرت قیومِ ثانی) نے فناء قلب کی بشارت دی تھی۔

سنت کی پابندی

سلطان اورنگزیب عالمگیر جو نظامتِ ملتان کے زمانہ سے حضرت عروۃ الوثقیٰ کے حلقہ ارادت میں داخل تھے، جب پورے ہندوستان کے والی بن گئے تو ان کی تربیت کے لیے حضرت عروۃ الوثقیٰ نے آپ کا انتخاب فرمایا۔ آپ جیسے ہی شاہی قصر معلّیٰ کے پھاٹک پر پہنچے تو دو ہاتھیوں کے مجسمے دیکھے۔ پہلے انکو تڑوایا پھر اندر داخل ہوئے۔ اسی طرح شاہی باغ میں جواہر اور موتیوں کی آنکھوں والی مچھلیوں کو تڑوادیا۔ سلطان اورنگزیب عالمگیر عروۃ الوثقیٰ کے اس حسنِ انتخاب پر ہمیشہ آپ کے مشکور رہے۔ سلطان صالح کی للہیت اور حضرت محی السنۃ کی کمال روحانی تربیت تھی جس نے سلطان کو سالکِ طریقت بنادیا۔

القابات

سلطان الاولیاء،قطب الاقطاب ،قدوۃ اربا ب الکشف والیقین وسلطان الاولیاء و المتقین، آپ کے والد ماجد نے آپ کا نام "محتسبِ امت" رکھا تھا۔[1]

اولاد

شیخ محمد اعظم، شیخ محمد شعیب،شیخ محمد حسین،شیخ محمد عیسی، شیخ محمد موسیٰ،شیخ کلمۃ اللہ،محمد عثمان عبد الرحمن،جنت بانو، حبیبہ،سائرہ شہری،رفیع النساء۔[2]

معمولات

اس قدر قرب سلطانی کے باوجود اہل دنیا کی صحبت سے ہمیشہ محترز (بچتے)رہے۔ یہاں تک دولت مندوں کے ساتھ کھانا نہ کھاتے تھے۔ کبھی بھی بادشاہ یا کسی امیر سے شرعی معاملہ میں رو و رعایت نہیں کی۔ خلافِ شرع کام سے بہت سختی سے روکتے تھے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ ظہر و عصر کے درمیان خواتین کو درس حدیث دیا کرتے تھے۔ مرشد کامل (جو آپ کے والدِ گرامی بھی تھے) اور جد امجد حضرت مجدد الف ثانی سے آپ کو فنائیت کے درجہ کی والہانہ عقیدت و محبت تھی جس کی ایک جھلک درج ذیل اشعار میں نظر آتی ہے، جو آپ رات کے وقت ان دونوں بزرگوں کے مزارات پر روتے اور گڑگڑاتے ہوئے پڑھتے تھے:

من کیستم کہ باتو دمِ دوستی زنم

چندیں سگانِ کوئے تو یک سگ منم

ترجمہ: میری کیا مجال کہ آپ سے دوستی کا دعویٰ کروں؟ میں تو بس آپ کے دربار کے کتوں میں سے ایک کتا ہوں۔

وصال

آپ کا وصال 47 سال کی عمر میں 19 یا 26 جمادی الاولیٰ 1096ھ میں ہوا۔ مزار پر انوار سرہند شریف میں ہے۔[3]



بیرونی روابط

  • http://naqshbandia-mujadadia-alayeia.110mb.com/Golden-Chain-Halat-in-Urdu.htm



حوالہ جات

  1. ↑گلزار اولیاء،ا بو الحسنات سید عبد اللہ شاہ محدث دکن
  2. ↑اذکار معصومیہ نور الحسن تنویر صفحہ 22،مکتبہ انوار مدینہ سیالکوٹ
  3. ↑ جلوہ گاہِ دوست

شیخ محمد سیف الدین مجددی سرہندی، 

سیف الدین بن شیخ محمد معصوم بن شیخ احمد سرہند ی : عالم فاضل،جامع علوم نقلیہ و عقلیہ صاحبِ کمالات ظاہری وباطنی و کرامات تھے،علوم اپنے والدِ ماجد سے پڑھے اور انہیں سے طریقت کو حاصل کیا اور متبع شریعت نبوی کے یہاں تک تھے کہ محی السنہ کے نام سے مخاطب تھے،جو شخص کفار و فساق وغیرہ سے آپ کی زیارت کو آتا،تائب ہوتا۔آپ کو دنیا اور اہل دنیا سےنہایت نفرت تھی،جب کوئی اللہ کا نام آپ کے سامنے زبان پر لاتا آپ بمجرو سننے بہوش ہوکر زمین پر مثل مرغ نیم بسمل کے لوٹتے۔

کہتے ہیں کہ ایک روز آپ رات کو واسطے ادائے تہجد کے اٹھ کر حجرہ پر چڑھے کہ اتنے میں بانسلی کی آواز آپ کے کان مبارک میں پڑی جس کو سن کر آپ بیہوش ہوکر زمین پر گر پڑے جس سے آپ سخت ضرب آئی۔وفات آپ کی ۱۰۹۸؁ھ میں واقع ہوئی۔<[1] ’’شیخ صالح جہاں‘‘ تاریخ وفات ہے۔

1۔ مقاماتِ خیر میں تاریخ وفات ۲۰؍جمادی الاولیٰ ۱۰۹۶؁ھ بیان کی گئی۔۱۲(مرتب)

 (حدائق الحنفیہ)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی