Muhammad Bin Ali Alauddin Haskafi Sahib e Durr e Mukhtar تذکرہ صاحبِ در مختار شیخ محمد بن علی حصکفی

 Muhammad Bin Ali Alauddin Haskafi Sahib e Durr e Mukhtar
تذکرہ صاحبِ در مختار شیخ محمد بن علی حصکفی

شیخ محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ علیہ(صاحبِ در مختار)

نام ونسب: اسمِ گرامی:شیخ فقیہ محمد بن علی حصکفی :لقب:علاؤالدین حصکفی۔ سلسلہ نسب اسطرح ہے: محمد بن علی بن محمد بن علی بن عبد الرحمٰن بن محمد بن جمال الدین بن حسن بن زین العابدین۔(علیہم الرحمہ)

حصکفی نسبت کی وجہ تسمیہ: دیارِ بکر میں ایک چھوٹا ساقصبہ"حصن کیفا"ہے۔جسے آجکل "شرناخ"کہا جاتا ہے،کی نسبت سے حصکفی کہا جاتاہے۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت 1025ھ بمطابق 1616ء کو دمشق میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی ،آپ کے والدِ گرامی اپنے وقت کے جید عالمِ دین تھے۔علامۂ زمان امام محمد محاسنی خطیب دمشق سے درسِ حدیث لیا۔اس کے بعد "رملہ" کی طرف تشریف لے گئے،وہاں شیخ الحنفیہ فقیہ خیر الدین رملی سے فقہ حاصل کی،ان کے علاوہ شیخ فخربن زکریا مقدسی حنفی ،شیخ صفی قشاشی،شیخ منصور بن علی السطوحی،شیخ ایوب خلوتی،شیخ عبد الباقی حنبلی (علیہم الرحمہ) سے استفادہ کیا۔

سیرت وخصائص: جامع معقول و منقول، فقیہ، محدث، عالم ،حضرت شیخ محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ حصنی اثری المعروف بہ حصکفی:فقیہ محدث،عالم،فاضل،نحوی، حافظ الاحادیث و مرویات،طلیق اللسان،فصیح البیان،جید التقریروالتحریر،جامع معقول و منقول صاحبِ تصانیف کثیرہ اور مصنفِ کتبِ مفیدہ تھے۔فقہ میں :در مختار ،اور شرح ملتقی الابحر۔اصول میں: شرح منار۔نحو میں: شرح قطر۔فتاویٰ میں:  مختصر فتاویٰ صوفیہ۔ حدیث میں: تعلیقات بخاری تیس حصوں میں ،اور تفسیر بیضاوی کا حاشیہ سورۂ بقرسے سورۂ اسرائیل تک اور حواشی در روغیرہ رسائل انیقہ اور کتبِ نمیقہ تصنیف فرمائیں اور فتاویٰ  ابن نجیم کو جو اس کےبیٹے اور تمر تاشی نے جمع کیا ،آپ کی فضیلت و تحقیق کا خود آپ کے مشائخ اور ہمعصروں نے اقرار کیا یہاں تک کہ شیخ خیر الدین رملی آپ کے استاد نے آپ کی سند اجازت میں یوں لکھا ہے کہ محمد بن علی نے پہلے مجھ سے ایسےلطیف اور پاکیزہ سوال کیے جن سے میں ان کے کمال روایت اور وسعت ملکہ پر واقف ہوا اور ان کو ان کے جواب مختصر طور پر دیے پھر انہوں نے مجھ سے اعلیٰ درجہ کے نکات پوچھے چنانچہ میں نے ان کے جوابات بھی ویسے ہی دیے،پھر انہوں نے ان سے بھی اعلیٰ درجہ کے سوال کیے پس میں نے ان کے علم و فضل کے تو سن کو مضمار کمال میں نہایت سبقت لےجاتا ہوا اور وہاں سے نہایت راحت و آرام سے بغیر کسی طرح کے اضطراب واضطرار کے لوٹتا ہوا دیکھا پس نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں نے ان سے اور انہوں نے مجھ سے حدیث کی روایت کی۔(مقدمہ حاشیہ ابنِ عابدین:ص53)

وصال: 63/سال کی عمر میں 10/شوال المکرم1088ھ بمطابق1677ء کو دمشق میں وصال فرمایا،اورمقبرہ بابِ صغیر میں دفن کیے گئے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی