-== حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ==-
Biography Sahabi Hazrat Talha bin Ubaidullah
تعارف صحابی رسول حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
نام ، نسب و خاندان
طلحہ رضی اللہ عنہ اللہ عنہ نام ، ابو محمّد کنیت ، فیاض اور خیر لقب ، والد کا نام عبیداللہ اور والدہ کا نام صحبہ تھا . پورا نسب یہ ہے ، طلحہ بن عبیداللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی ابن غالب القرشی التیمی . چونکہ مرہ بن کعب آنحضرت ﷺ کے اجداد میں سے ہیں ، اسلئے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا نسب چھٹی پشت میں حضرت سرور کائنات ﷺ سے مل جاتا ہے.
حضرت طلحہ رضہ کے والد عبیداللہ نے آنحضرت ﷺ کے بعثت سے پہلے یا کم سے کم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے قبل وفات پائی ، البتہ ان کی والدہ حضرت صحبہ رضی اللہ عناہ نے نہایت طویل زندگی پائی ، مسلمان ہوئیں اور امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محصور ہونے کے وقت تک زندہ تھیں ۔
چنانچہ ایک روایت ہے کے جب صحبہ رضی اللہ عنہا کو امیر المومنین کے محصور ہونے کی خبر ملی تو وہ گھر سے نکل آئیں اور اپنے صاحبزادہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے خواہش کی کے وہ اپنے اثر سے مفسدین کو دور کردیں ۔ اس وقت خود حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ برس سے زیادہ تھی ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ہجرت نبوی ﷺ سے چوبیس پچیس برس قبل پیدا ہوئے ، ابتدائی حالت نامعلوم ہیں ۔ لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کو بچپن ہی سے تجارتی مشاغل میں مصروف ہونا پڑا اور دور دراز ممالک کے سفر کہ اتفاق ہوا ۔
------------------
آپ رضی اللہ عنہ کا حُلیہ
------------------
قد میانہ بلکہ ایک حد تک پست ، چہرے کا رنگ سرخ و سفید ، بدن خوب گھٹا ہوا ، سینہ چوڑا ، پاؤں نہایت پُر گوشت اور ایک ہاتھ غزوہ اُحد میں شل ہوگیا تھا ۔
----
اولاد
----
محمّد ، عمران ، عیسیٰ ، اسماعیل ، اسحاق ، زکریا ، یعقوب ، موسیٰ ، یوسف ان کے علاوہ چار صاحبزادیاں بھی تھیں : ام اسحاق ، عائشہ ، صعبہ اور مریم ۔
-----------------
آپ رضی اللہ عنہ اسلام
-----------------
غالباً سترہ یا اٹھارہ برس کی عمر تھی ۔ تجارتی اغراض سے بصرہ تشریف لے گئے ۔ وہاں ایک راہب نے حضرت سرور کائنات ﷺ کے مبعوث ہونے کی بشارت دی ۔ مکہ واپس آئے تو خلیفة الرسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وساطت سے دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا ۔ اسطرح حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اُن آٹھ آدمیوں میں سے ہیں جو ابتداۓ اسلام میں اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگئے اور آخر کار خود بھی آسمان اسلام کے روشن ستارے بن کر چمکے ۔
اسلام لانے کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی عام مسلمانوں کی طرح کفار کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ رہے ۔ عثمان بن عبیداللہ نے جو نہایت سخت مزاج اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا حقیقی بھائی تھا ، ان کو اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کو ایک ہی رسی میں باندھ کر مارا کہ اس تشدد سے اپنے نئے مذہب کو ترک کردیں ۔ لیکن توحید کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا ۔ مکہ میں آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ان کا بھائی چارہ کرادیا .
----
ہجرت
----
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے مکہ میں نہایت خاموش زندگی بسر کی اور اپنے تجارتی مشاغل میں مصروف رہے ۔ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کیساتھ مدینہ کیطرف ہجرت فرما رہے تھے ، اس وقت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے تجارتی قافلے کیساتھ شام سے واپس آرہے تھے ۔ راہ میں ملاقات ہوئی ، انہوں نے ان دونوں کی خدمت میں کچھ شامی کپڑے پیش کئے اور عرض کی کے اہل مدینہ نہایت بے چینی اور اضطراب کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے مکہ پہنچ کر اپنے کاروباری معاملات سے فراغت حاصل کی اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال کو لیکر مدینہ پہنچے ۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنا مہمان بنایا اور آنحضرت ﷺ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ان کا بھائی چارہ کرادیا .
---------------
غزوات اور دیگر حالات
---------------
ہجرت مدینہ کے دوسرے سال سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا ، کفر و اسلام کا پہلا معرکہ بدر کی صورت میں ظاہر ہوا ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ کسی خاص مہم پر مامور ہوکر ملک شام تشریف لے گئے تھے ، اسلئے شریک نہ ہوسکے ۔ واپس آئے تو دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوکر غزوہ بدر کے مال غنیمت میں سے اپنے حصے کی درخواست کی ۔ سرور کائنات ﷺ نے مال غنیمت میں حصہ دیا اور فرمایا کہ تم جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہیں ہو ۔
-------
غزوہ اُحد
-------
غزوہ احد میں پہلے مسلمانوں کی فتح ہوئی اور کفار بھاگ کھڑے ہوئے ، لیکن مسلمان جیسے ہی اپنی اپنی جگہ سے ہٹے تو کفار نے پلٹ کر حملہ کردیا ۔ اس ناگہانی حملے نے مسلمانوں کو ایسا بدحواس کیا کہ جو جس طرف تھا ، اسی طرف بھاگ کھڑا ہوا ۔ میدان جنگ میں صرف دس بارہ آدمی ثابت قدم رہ گئے تھے ۔ لیکن وہ سب نبی پاک ﷺ سے دُور لڑائی میں مصروف تھے ۔ اس وقت صرف حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جان نثاری کے حیرت انگیز مناظر دکھا رہے تھے ۔ کفار کا ہر طرف سے نرغہ تھا ، تیروں کی بارش ہورہی تھی ۔ اس نازک وقت میں تیروں کی بوچھاڑ کو ہتھیلی پر روکنا ، تلوار اور نیزہ کے سامنے اپنے سینہ کو ڈھال بنانا ، پھر اسی حال میں کفر کا نرغہ زیادہ ہوجانا ، تو شیر کیطرح حملہ کرنا اور دشمن کو پیچھے ہٹادینا ، یہ سب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ تن تنہا ہی کر رہے تھے ۔ ایک بدبخت نے جب نبی پاک ﷺ پہ تلوار سے وار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ پہ وار روکا ، جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی انگلیاں شہید ہوگئیں ۔ اسی اثناء میں دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی پہنچ گئے اور نبی پاک ﷺ کو محفوظ مقام پر منتقل کیا ۔
حضرت طلحہ نرضی اللہ عنہ کا تمام بدن زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے جسم پہ پچھتر زخم شمار کئے ۔ دربار رسالت ﷺ سے اسی جانبازی کے صلے میں “خیر” کا لقب مرحمت ہوا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غزوہ احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے کہ یہ طلحہ کا محسوس دن تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو صاحب اُحد فرمایا کرتے تھے ۔
-== متفرق ==-
اُحد سے فتح مکّہ تک جس قدر غزوات ہوئے ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سب میں نمایاں طور پر شریک رہے ۔ بیعت رضوان کے وقت بھی موجود تھے ۔ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین پیش آیا ، اس معرکہ میں بھی ثابت قدم اصحاب کی صف میں تھے ۔
۹ ہجری میں آنحضرت ﷺ کو خبر ملی کہ قیصر روم بڑے سازو سامان کے ساتھ عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے ، اس کیلئے آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تیاری کا حکم دیا اور جنگی اسباب و سامان کے لئے مال و زر صدقہ کرنے کی ترغیب دی ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر بڑی رقم پیش کی اور بارگاہ رسالت ﷺ سے فیاض کا لقب حاصل کیا ۔ ۱۰ ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے آخری حج کیا ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے ۔
----------
عہد صدیقی
----------
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق ہوا تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ دنوں کے بعد بیعت کی اور مختلف امور میں رائے اور مشورے کے لحاظ سے جانشین رسول ﷺ کے ہمیشہ دست و بازو ثابت ہوئے ۔
---------
عہد فاروقی
---------
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مجلس شوریٰ کے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اعانت کی ۔ اختلافی مسائل میں ساتھ دیا اور اہم امور میں نہایت مخلصانہ مشورے دیئے ۔
امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عہد خلافت کیلئے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا ، ان میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے لیکن انہوں نے نہایت فراخ دلی کیساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اور ان کا نام اس منصب کیلئے پیش کیا ۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی کوشش اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی تائید سے وہی خلیفہ منتخب ہوئے ۔
---------
عہدعثمانی
---------
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ سال تک خلافت کی لیکن آخری کچھ سال میں فتنہ و شورش کا بازار گرم رہا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم مزاجی کیوجہ سے باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور آخرکار آُ رضی اللہ عنہ شہید کردیا گیا ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا تو افسوس کے ساتھ فرمایا کہ اللہ عثمان پر رحم کرے ۔ لوگوں نے کہا مفسدین اب اپنے فعل پر نادم ہیں تو فرمایا اللہ انہیں ہلاک کرے ۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی :
(اس وقت) وہ نہ کوئی وصیت کر سکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف واپس جا سکیں گے ۔ ( یٰسین : 50 )
----------
عہد مرتضوی
----------
حضرت زبیر و طلحہ رضی اللہ عنہما نے قصاص عثمان کے مطالبے پر حضرت علی رضی اللہ کی بیعت کی ۔
خلیفۂ وقت کا قتل کوئی معمولی حادثہ نہ تھا ، اس سے تمام علاقے میں شورش اور بدنظمی پھیل گئی ۔
جب مدینہ منورہ کے حالات قابو میں نہ آئے تو زبیر رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ مکہ چلے گئے ۔ وہاں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب مدینہ کے حالات کے بارے پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہما نے انہیں سیدنا عثمان کی مظلومانہ شہادت اور مدینہ کی یرغمالی کے بارے آگاہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلہ کو سلجھائیں ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا تیار ہوگئیں اور انہوں نے بصرہ جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے باغیوں کی رسد وغیرہ کو ختم کر سکیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نہیں چاہتے تھے کہ جنگ ہو اور اسی لئے مصالحت کی گفتگو ترقی پر تھی اور فریقین جنگ کے تمام احتمالات دلوں سے دور ہوچکے تھے ۔ رات کے سناٹے میں ہر فریق آرام کی نیند سو رہا تھا لیکن اللہ پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ شر پسندوں کو اپنا انجام صاف نظر آرہا تھا ، اسلئے انہوں نے خود کو بچانے کے لئے رات کو ہی دونوں لشکروں میں گھس کر جنگ شروع کردی ، جس سے ہر فریق نے سمجھا کہ دوسرے نے اس سے دھوکہ کیا ہے اور جنگ شروع ہوگئی ۔ علی رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو روکتے رہے اور زبیر رضی اللہ عنہ جنگ سے علیحدہ ہوگئے ۔
------
شہادت
------
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو روکتے رہے ، اسی اثناء میں زہر میں بجھا ہوا ایک تیر کہیں سے آکر ان کے پیر میں لگا جس سے ان کا بہت سا خون ضائع ہوا اور اسی سے وہ شہید ہوئے ۔
----------
تجہیزو تکفین
----------
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے باسٹھ یا چونسٹھ برس کی عمر میں شہادت حاصل کی اور اسی میدان جنگ کے کسی گوشہ میں مدفون ہوئے ۔ لیکن یہ زمین نشیب میں تھی ، اسلئے پانی میں ڈوبی رہتی تھی ۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص نے مسلسل تین دفعہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی لاش کو اس قبر سے منتقل کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خواب کا حال سنا تو حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ صحابی کا مکان دس ہزار درہم میں خرید کر ان کی لاش کو اس میں منتقل کردیا ۔ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اتنے دنوں کے بعد بھی جسم بالکل محفوظ تھا ، یہاں تک کہ آنکھوں میں جو کافور لگایا گیا تھا وہ بھی بعینہ موجود تھا ۔ آپ کا مزار پر نور بصرہ عراق میں ہے جسکی تصاویر پوسٹ میں موجود ہیں
-----------
اخلاق و عادات
-----------
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا اخلاقی پایہ نہایت ارفع و اعلٰی تھا ۔ خشیت الٰہی اور رسول الله ﷺ کی محبت سے ان کا سینہ معمور تھا ، اس راہ میں ان کو جان کیساتھ مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا ۔
چنانچہ انہوں نے نذر مانی تھی کہ غزوات کے مصارف کے لئے اپنا مال راہ خدا میں دیا کریں گے ۔ اس نذر کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے نبھایا کہ خاص قرآن پاک میں ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی :
کچھ آدمی ایسے ہیں جنہوں نے الله سے جو کچھ عہد کیا اس کو سچا کر دکھایا ، چنانچہ بعض ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنی نذر پوری کی ۔ ( احزاب : ۲۳ )
حضرت طلحہ اقلیم سخاوت کے بادشاہ تھے ۔ غزوہ زی العسرہ میں تمام مجاہدین کی دعوت کی .
ایک دفعہ حضرت عثمان کے ہاتھ اپنی جائداد سات لاکھ درہم میں فروخت کی اور سب راہ خدا میں صرف کردیا . آپ کی بیوی سعدی بنت عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے انہیں غمگین دیکھا ، پوچھا : آپ اس قدر اداس کیوں ہیں ، مجھ سے کوئی خطا تو سرزرد نہیں ہوئی ؟ بولے : نہیں ! تم بہت اچھی بیوی ہو ، تمہاری کوئی بات نہیں ہے ۔ بات یہ ہے کے میرے پاس ایک بہت بڑی رقم جمع ہوگئی ہے ، اس وقت اسکی فکر میں ہوں کہ کیا کروں ؟ میں نے کہا : اس کو تقسیم کردیجئے ۔ یہ سن کر اسی وقت لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم تقسیم کرادی.
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بنو تیم کے تمام محتاج و تنگدست خاندانوں کی کفالت کرتے تھے . لڑکیوں اور بیوہ عورتوں کی شادی کرادیتے تھے. جو لوگ مقروض تھے ، کا قرض ادا کردیتے تھے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی خاص عقیدت تھی اور ہر سال دس ہزار درہم پیش خدمت کرتے تھے .
رسول الله ﷺ کے اسوہ حسنہ کو طرز عمل بنانا ہر مسلمان کی سب سے بڑی سعادت ہے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس سعادت کے حصول کو اپنے فرائض میں شامل کرلیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رسول الله ﷺ کی مختلف اوقات میں کہی گئی بات کو ہمیشہ یاد رکھتے اور اگر اتفاق سے کبھی کوئی بات بھول جاتے تو سخت مغموم و رنجیدہ نظر آتے ۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغموم دیکھ کر پوچھا : تمہارا حال کیسا ہے ، کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا ؟ کہنے لگے : نہیں ! میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا تھا کہ اگر کوئی بندہ موت کے وقت ایک کلمہ زبان سے ادا کرے تو نزع کی مصیبت دُور ہوجائے گی اور اس کا چہرہ چمکنے لگےگا ۔ مجھے اُس وقت وہ کلمہ یاد تھا لیکن اب یاد نہیں آتا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تم اس کلمہ سے بھی زیادہ باعظمت و پر اثر کلمہ جانتے ہو جس کا رسول الله نے حکم دیا تھا یعنی لا الہ الا الله ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سن کر اچھل پڑے فرمایا : ہاں الله کی قسم یہی کلمہ ہے ۔
-----------
حسن معاشرت
-----------
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے حسن معاشرت کے باعث بیوی بچوں میں نہایت محبوب تھے . اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ کی لڑکی ام ابان سے اگرچہ بہت سے معزز اشخاص نے شادی کی درخواست کی لیکن انہوں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو سب پر ترجیح دی ۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا : میں انکے اوصاف حمیدہ سے واقف ہوں ۔ وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے ، باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے ۔ کچھ مانگو تو بُخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے ۔ اگر کوئی کام کردے تو شکر گزار ہوتے ہیں اور کسی سے خطا ہوجائے تو معاف کردیتے ہیں ۔
---------
ذریعۂ معاش
---------
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے معاش کا اصل ذریعہ تجارت تھا ۔ نبی پاک ﷺ کی بعثت سے متعلق خبر بھی ایک تجارتی سفر کے دوران ہی ملی تھی ۔ جب مدینہ پہنچے تو زراعت کو بطور معاش اپنایا اور رفتہ رفتہ اس کو نہایت وسیع پیمانے پر پھیلا دیا ۔ انکی کاشتکاری کا نہایت وسیع اہتمام تھا ، صرف ایک مقام کے کھیتوں پر بیس اونٹ سیرابی کا کام کرتے تھے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی روزانہ آمدنی اوسطاً ایک ہزار دینار تھی ۔