Biography Hazrat Sheikh Muhammad Mazharullah Shah Delhvi تعارف حضرت مظہر اللہ دہلوی مجددی نقشبندی

 مفتی اعظم حضرت شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

 نام ونسب:اسم گرامی: شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی۔کنیت:ابو مسعود۔لقب:مفتیِ اعظم۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: مفتی اعظم حضرت شاہ محمد مظہراللہ دہلوی بن مولانا محمد سعید بن مولانا مفتی محمد مسعودعلیہم الرحمہ۔سلسلہ نسب  سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔آپ کاتعلق مغلیہ دور حکومت میں عہدۂ وزارت پر فائز جناب سالار بخش بزرگ سےہے۔یہ خاندان علم وفضل میں صاحبِ کمال تھا،لیکن اس خاندان کوجوعظمت وفضیلت  حضرت شاہ مفتی محمد مسعود علیہ الرحمہ کی ذات گرامی سے حاصل ہوئی وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔شاہ محمد مظہر اللہ کےدادا حضرت مفتی محمد مسعود علیہ الرحمہ اپنے وقت کےجیدعالم دین،قطب الوقت،اور غوث زماں تھے۔(حیات پروفیسر محمد مسعود احمد:65)۔ ماہر رضویات،مجدد وقت،محسن ملت، حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی علیہ الرحمہ آپ کے فرزند ارجمند ہیں۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 15/رجب المرجب 1303ھ،مطابق 21/اپریل/1886ءکودہلی میں ہوئی۔(ایضا:68)

تحصیلِ علم: حضرت مفتی اعظم شاہ محمد  مظہر اللہ چار سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تو جد امجد مفتی محمد شاہ محمد مسعود علیہ الرحمہ  نے کفالت فرمائی دو سال بعد وہ بھی وصال فرما گئے تو عمِ محترم مولانا عبد المجید نے اپنی کفالت میں لے لیا۔ اس طرح ابتداء ہی سے مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی حیات طیبہ میں سیرت نبویﷺ کی جھلک نظر آنے لگی۔(ایضاً61:)۔آپ نے حفظ قرآن کریم کے بعد معاصرین علماء سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل فرمائی۔  آپ کا سلسلہ ٔحدیث شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے ملتا ہے۔ آپ نے ذاتی مطالعہ سے وہ کمال حاصل کیا کہ باید و شاید۔ آپ کو فقہ اصول فقہ،علم الفرائض،علم المواقیت میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ دیگر علوم مثلاً تجوید و قرات،تفسیر،عقائد و تصوف،منطق و فلسفہ،صرف و نحو،ادب و شاعری، خطاطی اور عملیات وغیرہ میں بھی آپ کو بڑی دستگاہ  حاصل تھی۔ ہر مکتبۂ فکر اور ہر مسلک کے علماء آپ کے وسعت مطالعہ اور تبحر علمی کے دل  سےمعترف تھے۔

بیعت وخلافت: آپ  حضرت سید صادق علی شاہ علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ  نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے، اور آپ کے جد امجد کے خلیفۂ مجاز صوفیِ با صفا حضرت شاہ محمد رکن الدین  علیہ الرحمہ نے آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔ علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد حضرت مفتی اعظم نے سلسلۂ بیعت و ارشاد کا آغاز فرمایا۔ بے شمار لوگ آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے آپ کے خلفاء کی تعدادکافی ہے۔

سیرت وخصائص: امام العلماء والفضلاء،سید الاولیاء،سندالاصفیاء،مرجع الخلائق،صاحبِ تقویٰ وفضیلت،فاضلِ اکمل،عالم متبحر،جامع علوم نقلیہ وعقلیہ،صاحبِ تصانیفِ کثیرہ،مفتیِ اعظم دہلی حضرت علامہ مولانا شاہ محمد شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ پاک و ہند کےسربر آور دہ علماء و صوفیاء میں سے تھے۔ آپ دارالسلطنت دہلی کے ممتاز عالم و فقیہ حضرت شاہ محمد مسعود علیہ الرحمہ کے نامور پوتے اور مولانا محمد سعید علیہ الرحمہ کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ کے دست حق پر بے شمار غیر مسلم مشرف با سلام ہوئے سیرت مبارکہ کے اسی حسین پہلو کو دیکھ کر جناب کوثر صدیقی صاحب آپ کی مدح میں فرماتےہیں:

نگاہیں فیض کا چشمہ رخ انور ہے نورانی۔۔۔۔بُرے انسان کو بھی بہتر سے بہتر کر دیا جس نے۔

حضرت مفتی اعظم مسجد جامع فتح پوری کے شاہی امام تھے۔ خطابت و امامت کا یہ سلسلہ حضرت کے جد امجد شاہ محمد مسعود علیہ الرحمہ سے آپ تک پہنچا تھا تقریباً ستر 70 سال آپ اس منصب جلیلہ پر فائز رہے آپ کی ذات گرامی سے مسجد فتح پوری کی عظمت و شوکت دوبالا ہو گئی اور علوم ظاہری و باطنی کا ایک ایسا مرکز بن گئی جو اپنی نظیر آپ تھی۔ 

 آپ کے خاندان میں  شاہی مسجد  کی امامت و خطابت کا یہ سلسلہ شاہان مغلیہ کے عہد سے چلا آرہا ہے۔  مسجد فتح پوری اہلیان پاک و ہند  کا مرجع ِنظر و مرکزِ نگاہ تھا۔ دور دراز علاقوں سے فتوے آتے تھے اپنے اور بیگانے سب آپ کے تعمق نظر، تدبر و تحمل اور تفقہ فی الدین کے معترف تھے۔ آپ نے ساری عمر اتباع سنت نبوی کا قدم قدم پر اہتمام رکھا۔ آپ کی زندگی  عشق مصطفوی کی آئینہ دار تھی۔ آپ نے ہمیشہ عزیمت پر عمل کیا، عزیمت  پسندی آپ کی سیرت مبارکہ کی امتیازی صفت تھی۔

1947ء میں فسادات کے دوران آپ نے جس عزم و استقلال کا اظہار فرمایا وہ تاریخِ عزیمت  میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ 1958ء تک مسجد فتح پوری میں غیر  مسلم دشمنوں نے تقریباً چھ سات  بم پھینکے لیکن کسی مرحلے پر بھی آپ کے کے پایۂ  ثبات  میں لغزش نہیں آئی۔ سب  سے کٹھن اور دشوار ستمبر 1947ء کا وہ دن تھا  جب چاروں طرف سے مسجد شریف   دشمنانِ دین کے نرغے میں تھی۔ ہر شخص سہما ہوا  موت کا منتظر تھا۔ لیکن اس اضطراب و بے چینی کے عالم میں جب اس مرد کامل کو حجرہ شریف میں دیکھا  گیاتو سکونِ قلبی کے ساتھ اپنے علمی مشاغل میں مصروف پایا۔ اسی قیامت خیز گھڑی میں محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لئے فوجی ٹرک مسجد شریف کے صدر دروازے پر پہنچے،جب آپ کے عقیدت مندوں نے آپ سے منتقل ہونے کے لئے عرض کیا تو  آپ نے فرمایا:"آپ حضرات کو اجازت ہے جہاں چاہیں جا سکتے ہیں فقیر کو یہیں رہنے دیں کل قیامت کے دن اگر مولیٰ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہم نے اپنا گھر تیرے سپرد کیا تھا تو اس کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلایا گیا تو فقیر کیا جواب دے گا"۔(ایضاً:71) 

 دینی سر گرمیاں: آپ کی ساری زندگی تبلیغِ دین متین سے عبارت ہے، آپ دوبارپاکستان تشریف  لائے۔پہلی اکتوبر  1961ء میں،دوسری بار جولائی 1964ء میں۔ ہر بار آپ کا  شایان شان استقبال کیا گیا۔ پاکستان میں آپ کے بکثرت مریدین و معتقدین ہیں۔ قیامِ پاکستان کے دوران آپ کراچی، حیدر آباد،لاہور،میر پور خاص،بہاول پور،ملتان،خانیوال،ساہیوال،شرق پور،راولپنڈی،مری وغیرہ مختلف مقامات تبلیغی دورے پر تشریف لے گئے۔(ایضاً:71)

1945ء  میں حج بیت اللہ شریف کے لئے حرمین شریفین حاضر ہوئے۔ عشق نبویﷺکشاں کشاں پہلے  آپ کو مدینہ منورہ لے گیا،دیار حبیب میں  ایک ماہ قیام فرمایا پھر مکہ معظّمہ حاضر ہوئے۔ "شاہ سعود"(بادشاہ حجاز)کی طرف سے شاہی دعوت پر مدعو کیا گیا مگر آپ نے فرمایا "جو شہنشاہ حقیقی کے دربار میں آیا ہے اس کو کسی اور دربار میں حاضری کی ضرورت نہیں"(ایضاً:72)۔آپ کی بہت سی تصانیف ہیں جن میں سر فہرست ترجمۂ قرآن ہے جو آپ نے شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے فارسی ترجمے سے اردو میں منتقل فرمایا۔ تقسیمِ ہند  سے قبل یہ ترجمہ مع حواشی دھلی سے  شائع ہوا تھا۔ اب ضیاء القرآن پبلی کیشنز (لاہور، پاکستان) اس کو شائع کر رہا ہے۔ ترجمہ قرآن کے بعد وہ فتوے ہیں جو تقریباً ستر 70 سال تک آپ تحریر فرماتے رہے۔ ڈاکٹر محمد مسعود احمد  علیہ الرحمہ نے ان کو" فتاویٰ مظہریہ" کے نام سے شائع کیاہے۔ان کےعلاوہ آپ کی تقریباً بارہ کتب   مختلف موضوعات پر ہیں۔جو بہت ہی مفید ہیں۔ادارہ مسعودیہ نے شائع کیاہے۔آپ کاسب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپ نے ملت اسلامیہ کوحضرت مسعود ملت علیہ الرحمہ جیسا عظیم محقق،اور مرد ِکامل  عطا فرمایا۔ جنہوں نے ظلمت  وضلالت کے اندھیروں کو اپنے نور کی ضیاء پاشیوں سےدور کردیا،اور آسمان ِ علم وتحقیق میں نیر اعظم بن کر چمکے،اور جو ان کےدامن سےوابستہ ہوئے ان  کوبھی چمکادیا۔  


تاریخِ وصال: آپ کا وصال 14/شعبان المعظم 1386ھ،مطابق 28/نومبر/1966ءبروز پیر شام پانچ بج کر،بیس منٹ پر دہلی میں ہوا۔آپ کامزار اپرانوار جامع مسجد فتح پوری دہلی کےصحن کےمشرقی جانب درگاہ حضرت نوشاہ کےاحاطے میں ہے۔

ماخذومراجع: پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد حیات،علمی اور ادبی خدمات۔( پی ایچ ڈی مقالہ،ڈاکٹر محمد اعجاز انجم لطیفی صاحب)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی