Biography Hazrat Shah Makhdoom Muhammad Patna
ذکر خیرحضرت مخدوم محمد منعم پاک
پٹنہ ہرعہد میں صوفیو ں کاعظیم مرکز رہا ہے، یہاں بڑے بڑے صوفیو ں کی درگاہیں اور خانقاہیں آج بھی آباد ہیں، صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہبیرون ہندوستان سے بھی لوگ اِن صوفیوں کی خانقاہوں میں عقیدتوں کا سلام پیش کرنے آتے ہیں اور محبتوں کا پھول چڑھاکر خوش خوش واپس لوٹتے ہیں، مخدوم شہاب الدین پیر جگجوت، مخدوم منہاج الدین راستی دیوان شاہ ارزاں، حضرت پیر دمڑیا، مخدوم شاہ یٰسین دانا پوری جیسے بڑے صوفیوں کے درمیان قطب العالم حضرت مخدوم محمدمنعم پاک کا نامِ نامی بھی شامل ہے، جن کی زندگی کا مقصد انسان دوستی کو عام کرنا تھا، نفرتوں کے بازار میں محبتوں کا چراغ جلانا تھا،انسان کو انسان سے ملانا تھا تاکہ پوری دنیا محبتوں کے رنگ سے بھر جائے۔
مخدوم منعم پاک بہار کے ضلع شیخ پورہ کے پچنہ گاؤں میں 1671ء کو پیدا ہوئے اورابتدائی تعلیم کے بعد گھر سے باہر نکلے اور باڑھ پہنچے جہاں دیوان سید خلیل الدین قادری کے علم وعرفان کا شہرہ تھا، بڑے چھوٹے سب انہیں کے پاس تعلیم کی غرض سے آیا کرتے تھے لہٰذا مخدوم بھی یہیں آکربیٹھے اور دنیاوی علوم کے علاوہ روحانی علم بھی سے بھی مستفید ہوئے،دیوان خلیل الدین آپ کو بے حد عزیز رکھتے، دھیرے دھیرے دیوان خلیل کی نظرِ عنایت آپ پرہونے لگی اور روحانی مرتبہ ملنے لگا،اس طرح مخدوم آپ کے سب سے کامیاب مرید بن گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے خلافت سے نوازے گئے، مخدوم منعم پاک کے پیر ومرشدنے ان کی محنت،لگن اور شوق کو سراہتے ہوئے دہلی جانے کا حکم دیا لہٰذا بہار سے آپ دہلی پہونچے اوروہاں آپ نے مزید علم حاصل کیا،دہلی میں آپ کو خواجہ شاہ محمد فرہاد کی محفل میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور وہیں تیر عشق کا چبھ گیا پھر کیا تھا خواجہ فرہاد کو مرشدبنایا اورعلم باطن لینا شروع کر دیا،خواجہ فرہاد نے نقشبندیہ ابوالعُلائیہ سلسلے کی نعمت آپ کو سونپی اور پھر اپنے مرید و مجاز میر سید اسد اللہ دہلوی کے سپرد فرمایا یہاں تک کہ ایک دن آیا کہ میر اسداللہ نے آپ کو اپنا سب سے کامیاب خلیفہ بنالیا اور اعلان کر دیا کہ یہ ہمارا سب سے کامیاب خلیفہ ہے ہم نے اسے وہ سب کچھ عطا کیا جو ہمیں ہمارے مرشد خواجہ فرہاد سے ملا تھا۔ (تذکرۃ الابرار)
پھر مخدوم منعم پاک نے پچاس برس تک جامع مسجد دہلی کے پیچھے بیٹھ کر لوگوں کوعلم دینے لگے اور دھیرے دھیرے سینکڑوں لوگ آپ کو ماننے اور چاہنے لگے، اسی درمیان ایک مرید نے پوچھا کہ یا حضرت یہ بات مشہور ہے کہ اہلِ کمال اپنی صورتِ عنصری کو بدل سکتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ ہم تو اسے غلط جانتے ہیں، آپ نے جواب دیا کہ جب اہلِ دل کاجسم ریاضت سے لطیف ہوجاتا ہے تو کچھ شک نہیں کہ یہ بات ہو، کچھ دنوں کے بعد آپ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ پر مریدان کے ساتھ گئے، جس مرید نے سوال کیا تھا وہ جب درگاہ میں جانے لگا تو اس کو شیر نظر آیاوہ ڈرا اور الٹے پاوں واپس ہونا چاہا لیکن اچانک شیر کی جگہ پر آپ کھڑے نظر آئے اور مرید کو تب یہ بات سمجھ میں آئی کہ شیر کی صورت میں آپ ہی تھے اور اس طرح صورت عنصری کے بدلنے کی حقیقت سامنے آگئی،مخدوم منعم پاک پرغوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی اور مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی خاص نظرِعنایت تھی، ہر سال اسلامی مہینے کے شعبان کو بہار شریف جاتے اور عرس تک برابر وہیں مخدوم کی درگاہ پربیٹھے رہتے۔ (مراۃ الکونین، ص۱۳۴)
اسی درمیان مخدوم منعم پاک کو روحانی اشارہ ملا کہ تم پٹنہ چلے جاؤ لہٰذا وہ پٹنہ آگئے اور میتن گھاٹ میں ملا میتن کی جامع مسجد میں اپنا سجادہئ رشد وہدایت بچھایا اور دھیرے دھیرے پٹنہ شہر کے تمام چھوٹے بڑے، امیر غریب، کالے، گورے، عوام و خواص سب ان کے قدموں میں آگئے، کیا ان کے پاس مال و دولت تھی؟ یا زمین یا جائیداد تھی، نہیں نہ مال و دولت تھی نہ زمین وجائیداد تھی بلکہ ان کے پاس محبت تھی، غریبوں کے درد سننے کا وقت تھا، ان کے زخم پر مرحم لگانے کا نسخہ تھا یہی نہیں بلکہ ان کے پاس محبت کوپھیلانے کی ایک بہترین ترکیب تھی، اس زمانے کے چھوٹے بڑے سب مخدوم منعم پاک کے مریدوں میں شامل ہوتے گئے اور دنیاکی محبت سے دور اللہ پاک کی محبت سے قریب ہوتے چلے گئے، مخدوم منعم پاک کے مریدین و مسترشدین میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں اور آج ہندوستان کے علاوہ دوسرے ملک میں جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار میں ان کے مریدین اور ان کے مریدوں کے مرید کی بڑی بڑی درگاہیں ہیں جہاں سے سینکڑوں لوگ وابستہ ہیں۔
مخدوم منعم پاک کا سلسلہ اور ان کے بہترین خیالات ان کے خلفا مخدوم حسن علی، صوفی محمد دائم اور خواجہ رکن الدین عشقؔ سے کافی دور تک پھیلے۔ (مراۃ الکونین، ص۲۳۴)
مخدوم منعم پاک کرامت کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے لیکن کبھی کبھار مریدوں کی اصلاح اور ان کی تربیت کے خیال سے کچھ کرامت کا ظہور ہوجاتا تھا، مخدوم کی کتابیں مکاشفاتِ منعمی،الہاماتِ منعمی اور مشاہداتِ منعمی بھی کرامات و بلندیمرتبہ کی دلیل ہیں۔
آپ کے ایک مرید نے سوال کیا کہ اے حضرت!سنتے ہیں کہ غوث کے ہاتھ پاؤں الگ الگ ہوجاتے ہیں اورپھر مل جاتے ہیں،کیا کے اسلاف میں یہ طاقت بھی پائی جاتی تھی؟ میرے خیال سے اب تو یہ ممکن نہیں! اسی دن رات کے وقت جب وہ مریدتہجدکے لئے اٹھا تو آپ کے ہاتھ پاؤں الگ الگ دیکھا، یہ گمان کرتے ہوئے کہ کسی نے آپ کو شہید کردیا ہے شور مچاناچاہا، آپ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ نظارہ صرف تمہارے لئے تھا کسی دوسرے کے لیے نہیں۔
ایک بار ایک نانک شاہی جوگی آپ کے پاس آیا اور کشن جی کو دیکھنے کی خواہش کی، آپ مسکرائے اور اس کی جانب توجہ فرمائی، وہ جوگی بھی آنکھ بند کرکے گیان میں گیا اور تھوڑی دیر کے بعد جھومنے لگا جب اس کو ہوش آیا تو کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی بندرابن میں کشن جی کو اپنے گوپیوں کے ساتھ بانسری بجاتے دیکھا اور بانسری سے کلمہ لا الہ الا اللہ کی آواز سنی ہے پھر کیا تھا وہ جوگی آپ کا مرید ہوگیا۔
(مراۃ الکونین، ص۲۳۴)
جاننا چاہیئے کہ مخدوم نے پوری زندگی شادی نہیں کی،نہ ان کی کوئی اولاد تھی نہ ہی زمین وجائیداد، لوگوں سے بہت کم ملتے، ساری زندگی کوئی مکان نہیں بنایا،نہ کسی سے تحفہ تحائف لیتے اور نہ ہی نوابوں اور امیروں سے تعلقات رکھتے، اپنا زیادہ وقت اللہ کے ذکرو فکرمیں لگاتے، یہاں تک کہ آنکھیں کھولنا بھی پسند نہ کرتے، کم کھاتے اور کم بولتے، ان کا زیادہ وقت لوگوں کی پریشانی دور کرنے میں جاتا تھا، ہر ایک سے خوشی خوشی ملتے اور انہیں دعائیں دیتے، ان کے پاس بڑے،بوڑھے، جوان، نوجوان اور بچے سب آتے اور اپنی اپنی من کی مراد پاکر خوشی خوشی واپس لوٹتے۔ (تذکرۃ الصالحین)
حضرت مخدوم منعم نے 103سال کی عمر مبارک میں 11/ رجب 1185ھ / 1771ء کو وصال فرمایا اور جامع مسجد حضرت ملا میتن، پٹنہ سیٹی بہار، جہاں بارگاہ نبوت کے اشارے سے آپ نے تقریباً بیس سال تک فقر و درویشی کی مجلس کو زینت بخشی تھی آپ کا مزار مبارک بقعہ نور ہے اور آپ کی خانقاہ منعمیہ قمریہ میں ہر سال 11و 12/ رجب کو ہر مذہب و ملت کے ہزاروں لوگ عرس کے موقع پر حاضر ہوکر فیض پاتے ہیں۔
ریَّان ابوالعُلائی
خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ
شاہ ٹولی، داناپور