تذکرہ حضور مفکر ملت شہزادہ محدث اعظم ہند علامہ سید حسن مثنیٰ انور اشرفی کچھوچھوی
آج کی اس ویڈیو میں ہم حضور شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی اشرفی ، حضور غازی ملت سید محمد ہاشمی میاں کے بڑے بھائی حضور مفکر ملت شہزادہ محدث اعظم ہند علامہ سید حسن مثنیٰ انور اشرفی کچھوچھوی کا ذکر خیر کر رہے ہیں۔ حضور مفکر ملت کی حیات و خدمات روز روشن کی طرح ظاہر وباہر ہیں۔ آپ کا اسلوب تحریر ، طرز بیاں، ندرت فکر ، نکتہ سنجی اور تحقیقی جواہر پارے ، تقوی شعاری، وفاداری ، اکابر کے اقدار کے امین یہ سب آپ کے شش جہات شخصیت کے ادنیٰ سے جواہر پارے تھے۔ آپ کی شخصیت میں خدا ترسی نمایاں وصف تھا۔ زہد وتقویٰ آپ کا وظیفہ، خدمت خلق اور خوش خلقی آپ کا وطیرہ تھا۔حضور محدث اعظم ہند کے وصال کے بعداپنے چھوٹے بھائیوں اور بہن کی کفالت والدہ کی جو خدمت کی آپ کے حصے میں آئی۔
آپ کا اسم گرامی ۔سید حسن مثنیٰ۔ تخلص انور تھا۔
آپ کی ولادت 27 جولائی 1931 کو بمقام کچھوچھہ مقدسہ میں ہوئی۔
آپ کی ولادت کے بارے میں حضور جیلانی میاں اشرفی رقمطراز ہیں۔
حضور محدث اعظم ہند کے سب سے بڑے صاحبزادے کا نام سید محامد اشرف ہے۔ آپ معذور تھے آپ کے بعد (حضور محدث اعظم ہند کے یہاں) کئی اولادیں ہوئی زندہ نہیں بچیں ۔لہٰذا اولادِ نرینہ کے لیے منتیں مانگی گئیں ، اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی دعا ءِ مستجابانہ اور حکیم الاسلام سید نذر اشرف کی طبابت ماہرانہ نے کام کیا۔ اور بڑی منتوں و سماجت کے بعد جو فرزند تولد ہوا، اس کا نام سید حسن مثنی رکھا گیا اور جب 1947 میں وہ فرزند جلیل بیمار ہوا تو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا ، ادھر شفیق و غمزدہ باپ تڑپ اٹھا پوری شب منتی بیٹے کی صحت یابی کےلیے بارگاہ رب العزت میں درد بھرا استغاثہ پیش کرتے رہے ، محبوب بندے کی استدعا شرف قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے اور فجر ہوتے ہوتے صحتمندی کے آثار ظاہر ہونے لگے ، اہل خانہ نے شکرانہ نماز ادا کی۔
آپ کے والد گرامی کا نام سید المحدثین مخدوم المت محدث اعظم ہند سید محمد کچھوچھو ی ہے اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی حضرت سیدہ فاطمہ بنت سلطان الواعظین سید احمد اشرف اشرفی جیلانی ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب 26 واسطوں سے حضور غوث اعظم سے اور 37 واسطوں سے رسول اکرم رحمۃ اللعالمینﷺ تک پہنچتا ہے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھی اور ناظرہ قرآن کی تکمیل حافظ درگاہی سے کیا ۔اور ابتدائی مکتب کی تعلیم حضرت سید حبیب اشرف سےحاصل کی۔استاد گرامی حضرت سید حبیب اشرف نے وہی طریقہ تدریس کو اپنا جیسا حکیم الاسلام سید نذر اشرف علیہ الرحمہ کا تھا۔عبارتوں کو رٹنے اور ذہن میں محفوظ کرنے پر خصوصی توجہ دیتے رہے اسی لیے خاندان اشرفیہ کے باوقار مدرس کا مقام آپ کو حاصل ہے۔ ساتھ ہی فارسی ودیگر علوم کی تکمیل اپنے عظیم دادا حکیم الاسلام حضرت سید نذر اشرف علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔
اس کے بعد آپ نے پرائمری اسکول کچھوچھہ مقدسہ میں 1936 میں داخلہ لیا۔
جب 1936 میںاعلیٰ حضرت اشرفی میاں کا وصال ہوا توجنازے کو خادم کے سہارے کاندھا دینے کی سعادت حاصل تھی۔
اپنے آباواجداد سے دینی ، روحانی ، اخلاقی و علمی تربیت و ہدایت آپ کے حصہ میں آئی۔ خاندان اشرفیہ کے آپ ہی پہلے فرد ہیں، جنہیں حضور محدث اعظم نے اعلیٰ عصری تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھیجا ۔آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1949 میں داخلہ لیا۔ جہاں آپ نے انٹرمیڈیٹ، بی اے، اور 1959 میںایم اے کی تکمیل کیا۔
آپ نے جامعہ علی گڑھ میں ڈاکٹر مختار الدین آرزو، پروفیسر خلیق احمد نظامی ، پروفیسر آل احمد سُرور ، پروفیسر رشید احمد صدیقی، مولانا ضیاء بدایونی، ڈاکٹر معین احسن جذبی، پروفیسر اسلوب احمد انصاری وغیرہ جیسے شہرہ آفاق اساتذہ سے اکتساب علم و فن کیا۔
حضور مفکر ملت نے مخدوم المشائخ سرکار کلاں سید شاہ مختار اشرف علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ حضور سرکار کلاں، اعلیٰ حضرت اشرفی، حکیم الاسلام علامہ سید نذر اشرف، سلطان الواعظین سید احمد اشرف ، سید الاصفیا حضرت سید شاہ فضل حسین اشرفی، اعلیٰ حضرت اشرفی میاں وغیرہ جیسے عظیم شخصیتوں کے بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کیا اور فیض صحبت سے سعادت پائی۔
آپ نے نکاح مسنونہ خاندان اشرفیہ کی معتبر ومحترم ذات مولانا حکیم سید خلیل احمد پورے شاہ کامگار بارہ بنکی کی صاحبزادی سے 1954 میں ہوا۔اور رخصتی 1957 میں عمل میں آئی۔
اللہ نے حضور مفکر ملت کو پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی سے نوازا۔ جن کے نام یوں ہیں۔
اشرف الشعرا سیدخالد انور، خطیب اعظم علامہ سید مکی راشد، جناب سید فاخر اشرف، جناب شاہد انور، مولانا سید احمد رضا کچھوچھوی ، اور صاحبزادی سیدہ انیس فاطمہ۔
آپ کی نمایاں خدمات میں 1970 میں ماہنامہ المیزان کےآغاز میں اپنی کوششیں اور محدث اعظم اکادمی کا قیام ہے۔ ساتھ ہی آپ نے تجلیات سخن مجموعہ کلام حضور شیخ الاسلام و فرش پر عرش مجموعہ کلام حضور محدث اعظم ہند کی اشاعت کی بساط بھر کوشش کی۔
آپ کی تصنیفی خدمات کی تفصیل نہ مل سکی۔آپ سے میں درخواست کروں گا کہ حضور مفکر ملت حیات وخدمات، ان کی شش جہات شخصیت کو سمجھنے کے لیے ’’رحمت دوام ‘‘ کا مطالعہ لازمی کیجئے۔
آپ کا وصال 21 شوال المکرم 1435 ھ بمطابق 17 اگست 2014 کو ہوا۔ آپ کا مزار مقدس کچھوچھہ مقدسہ میں واقع ہے۔