Biography Hazrat Allama Muhammad Afroz Qadri Chirya Koti Iتعارف حضرت علامہ محمد افروز قادری چریاکوٹی

 فاضل نوجوان حضرت مولانا محمد افروز قادری چریاکوٹی

Biography Hazrat Allama Muhammad Afroz Qadri Chirya Koti 
تعارف حضرت علامہ محمد افروز قادری چریاکوٹی


فاضل نوجوان حضرت مولانا محمد افروز قادری چریاکوٹی-زیدمجدہ- ،-ماشاء اللہ- بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے حسن صوری کے ساتھ جمالِ معنوی سے بھی بہرہ ور فرمایاہے۔ بہترین عالم دین، شان دار قاری قرآن، باذوق قلم کار، نکتہ رس ادیب، ژرف نکاہ محقق اور اچھے شاعرتو ہیں ہی ؛ اس پر مستزاد یہ کہ ان کا مزاج تعمیری، فکر صالح اور روش عالمانہ اور دین دارانہ ہے ۔ عمرکے لحاظ سے توابھی جواں سال ہیں لیکن تحریر ایک تجربہ کار،منجھے منجھائے پختہ عمر قلم کار کی طرح پختہ،بے جھول، شستہ اور رواں دواں ہوتی ہے۔ طرزِ بیان نہایت مؤثر اور دلچسپ ہوتا ہے۔ جو بھی لکھتے ہیں تحقیق کا حق اَدا کردیتے ہیں۔ 

آپ نے تدریس کا باضابطہ آغاز جامعۃ الرضابریلی شریف سے کیا۔ پھر ۲۰۰۶ء میں دلاص یونیورسٹی، کیپ ٹائون(جنوبی افریقہ)میں بحیثیت لکچرار مدعو کیے گئے، اوراب تک وہیں خدمت علم وادب انجام دے رہے ہیں۔ یہ آپ کے تاریخی کارناموں میں سے ہے کہ آپ نے کیپ ٹائون کی سرزمین سے پہلا اُردواخباربنام’چراغِ اُردو‘ جاری کیا۔ آپ تقریباً پانچ درجن کتابوں کے مصنف، مترجم اور مرتب ہیں۔

1979 ء کی کسی ساعت میں اپنے وطن مالوف چریاکوٹ کے اندر الحاج محمد مظہر صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ ’اَفروز احمد‘نام رکھا گیا؛ (پھر آگے چل کر یہی نام ’محمد افروز قادری چریاکوٹی‘ کے قلمی روپ میں ظاہر ہوا)۔

چند پشتوں تک شجرۂ نسب یوں جاتاہے: افروز احمد ابن الحاج محمد مظہر ابن الحاج حمید اللہ سردار٭ ابن عبدالحلیم ابن محمد جانو ابن محمد گیسو۔(آپ کے جدد امجد 84 گاؤں کے بادشاہ تھے۔ ان کی خدمات اور طرز حکومت کے شاندار قصوں آج بھی گاؤں باقی رہ جانے والے بزرگ حضرات بڑے شوق و حسرت سے بیان کیا کرتے ہیں۔)

جس وقت انہوں نے شعور کی آنکھیں کھولیں، پیر طریقت رہبر شریعت مبلغ اسلام حضرت علامہ مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری مدظلہ کی کڑی نگرانی میں دارالعلوم قادریہ، چریاکوٹ کو علم و اَدب کے موتی بکھیرتے دیکھا۔دوروقریب سے طالبانِ علومِ نبویہ حضرت کا نام سن کر اپنی تشنگی شوق بجھانے یہاں کشاں کشاں چلے آتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب چریاکوٹ اپنے علمی کاروان سے بچھڑ چکا تھا، اُس کاروانِ علم وحکمت کے آخری شہسواروں میں ابوالجمال مولانااحمد مکرم چریاکوٹی، سیف الاسلام مجاہد سنیت مولانا یٰسین چریاکوٹی، ابوالمعانی مولانا مبین کیفی چریاکوٹی اور شمس العلماء مولانا امین عباسی چریاکوٹی کی سجیلی یادیں اور رسیلی باتیں ابھی تک کچھ دماغوں کی زینت ہیں۔

جب انہوں نے ہوش کے ناخن لیے اورپڑھنے لکھنے کی عمرکو پہنچے تو تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کرنے کے لیے گائوں کے مشہور اِدارہ دار العلوم قادریہ میں داخل کردیاگیا جہاں مشفق اساتذۂ کرام کے زیر نگرانی میں نے پرائمری تعلیم امتیازی نمبروں کے ساتھ مکمل کی۔

والدین  کی خواہش ہوئی کہ وہ حافظ بنیں چنانچہ ایک بار پھر انہیں دار العلوم قادریہ میں داخل ہونا پڑا،جہاں انہوں نے حافظ صاحب کی سخت وکرخت تربیت میں حفظ قرآن کا آغاز کردیا، ابھی کوئی ایک پارہ بھی حفظ نہ کرنے پاےہوں گے کہ ایک اَنہونی واقعہ نے حالات کا رخ بدل دیا، اورحافظ صاحب کی جارحیت و زیادتی نے انہیں حفظ قرآن کی دولت بیدار سے بہرہ افروزہونے سے محروم کردیا۔

 اس حادثے کے بعد والدین کی خواہش ہوئی کہ اگرحافظ نہیں بن سکے تو چلو عالم ہی بن جائو۔ پھر کیا ہوا کہ مجبورانہ نہایت کچی عمر میں علامہ کو والدین کی شفقتوں اور محبتوں کو داغِ مفارقت دے کر گھوسی جانا پڑا۔ وقت کی مایۂ ناز دانش گاہ جامعہ امجدیہ رضویہ میں کوئی دس گیارہ سال کی عمر میں انہیں اِعزازی طورپرداخل کر دیاگیا۔ 

وجہ یہ تھی کہ چوں کہ جامعہ میں ’اِعدادیہ‘ کا اس وقت تک کوئی اہتمام نہ تھا؛ مگر صرف ان کی دیرینہ آرزو کی وجہ سے علامہ صاحب [محدث کبیرعلامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی صاحب ] نے ناظم صاحب [مولانا علاء المصطفیٰ صاحب] کو خصوصی حکم دے رکھا تھا کہ مختلف اَساتذہ کے وہاں ان کے لیے پرائیوٹ کلاسیزکا انتظام کریں؛ چنانچہ انھوں نے اپنی بھرپور ذمہ داری نبھائی اور پھر وہ چندمخصوص اَساتذہ کی نگرانی میں فارسی کی ابتدائی کتابوں سے خود کو مانوس کرنے میں لگ گئے۔

پھر 1990ء میں باضابطہ جماعت اُولیٰ میں ان کا داخلہ منظورہوا، اور وہ پورے طور پر تحصیل علم میں جٹ گیے۔ ان کے اساتذہ ان  پر بطورِ خاص اِکرام و نوازش فرماتے، اور ان کی تشنگی علم بجھانے کے لیے ہمہ وقت اپنا درِفضل و کمال وا‘ رکھتے۔ اس عنایت خصوصی کی وجہ ان کی آتش شوق تھی، نیز ان کے بہنوئی (جناب محمد فرید الحق صاحب) کے اَثرو رسوخ کا بھی اس میں یک گونہ دخل تھا۔

اِس طرح بے تکان تگ و دو کے ساتھ ان کاروانِ علم و اَدب آگے بڑھتاگیا اور 1996ء آتے آتے انھوں نے دستار عالمیت حاصل کرلی۔ ازاں بعد ہندوستان کی مایہ ناز اسلامی یونیورسٹی جامعہ ثقافہ کالیکٹ کیرلا پہنچ گئے۔ جہاں 1998ء تک کا یادگار زمانہ گذارا اور ثقافی کامل کی سند لے کر گھر پلٹے۔ 

پھر مرشد گرامی علامہ محمد عبد المبین نعمانی قادری  حکم ہوا کہ وہ علم قراء ت اور کمپیوٹر میں بطورِ خاص مہارت حاصل کریں؛ لہٰذا اِس حکم کی تعمیل کی خاطر سن 1998ء میں ممبئی تشریف لے گئے، جہاں 2000ء تک قیام پذیر رہ کر انہوں نے ہندوستان کے مشہور قاری و مقری حضرت محب الدین کے بلاواسطہ شاگرد قاری صدیق قریشی صاحب قبلہ کی خدمت میں تجویدوقراءت کے اَسرار و رموز سیکھے، ساتھ ہی میڈیاپرنٹ سے بھی خود کو وابستہ رکھا، اور گاہے بگاہے روزنامہ اِنقلاب اوراُردو ٹائمزکی رپورٹنگ بھی کرتے رہے۔

رمضان المبارک میں نعمانی صاحب ہی کے حکم پر جامعہ امام احمد رضا رتناگیری جانے کا اِتفاق ہوا۔ جہاں 2001میں جامعہ امام احمد رضا میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے، اور چھ ماہ کے یادگار دن گزارنے کے بعد جب گھر لوٹےتوحضرت قبلہ نعمانی صاحب کا حکم ہوا کہ پٹنہ چلے جائو اور مناظر اعظم علامہ مفتی محمدمطیع الرحمن کی بافیض صحبت میں رہ کر ’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘ کی ترتیب و تبویب جدید میں اُن کا ہاتھ بٹائو؛ لہٰذا اسی سال پٹنہ چلےگئے، اور تقریباً ڈیڑھ سال کی مدت گزار کر حیاتِ اعلیٰ حضرت کے تاریخ ساز شاہ کار کی حروف سازی کرنے کی سعادت وعزت پائی۔ 

رتناگیری کے دورانِ قیام ایک روز وہابیوں کی طرف سے اُٹھائے گئے ایک اِعتراض واقعہ اِفک پر گرماگرم بحث ہوئی، اور اس تعلق سے بہت سے شکوک وشبہات تشنہ تحقیق معلوم ہوئے، تو انہوں نے چاہاکہ اس سلسلہ میں اگرکچھ بن پڑے تو کرناچاہیے؛ چنانچہ ’چندلمحے ام المومنین کی آغوش میں‘ کے نام سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت طیبہ کے حوالے سے ایک جاندار وتحقیقی کتاب لکھی، اور مقصد صرف اتنا تھا کہ آپ پر ہوئے اعتراضات کا عقلی و نقلی تصفیہ اور لوگوں کے ذہنوں میں جو فتنے پنپ رہے ہیں ان کا سد باب کیا جائے۔ پٹنہ آنے کے بعد اِس موضوع پر کام کرنے کا بھی سنہراموقع ہاتھ آگیااور باربار خدابخش لائبریری کی سیر کرکے بالآخر وہ کتاب مکمل کرلی، اور یہ ان کی زندگی کی پہلی تصنیف تھی، جو نعمانی اکیڈمی، چریاکوٹ کی زیرنگرانی طباعت پذیر ہوئی۔

پٹنہ سے لوٹ کر جب گھرآیے تو والدین کا اِصرار ہوا کہ کہیں قریب ہی رہ کر خدمت دین متین کرو؛ تاکہ گھر کے مسائل میں بھی اپنا Contributionپیش کرسکو؛ چنانچہ 2003ء کے اوائل میں جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے شعبہ کمپیوٹر میں ان کی تقرری ہوگئی؛چونکہ ابھی حال ہی میں مجلس برکات کا قیام عمل میں آیا تھا جس کی تحریک پر بہت سی شروحات و حواشی لکھی جاچکی تھیں؛ لہٰذا وہاں ایک سال رہ کر مجلس برکات کی بہت سی کتابوں کی حروف سازی کی سعادت نصیب ہوئی۔ 

ساتھ ہی ماہنامہ اَشرفیہ، سنی دنیا، کنزالایمان اورسہ ماہی امجدیہ وغیرہ میں باقاعدگی سے اپنے رشحاتِ قلم بھیجتے رہے، اور لوح وقلم سے ہرممکن اپنارشتہ اُستوار کیے رکھا۔ انھیں دنوں اپنے عم محترم جناب راہی چریاکوٹی کا فکری اَثاثہ جمع کرکے ’بزم گاہِ آرزو‘ کے نام سے ڈاکٹر امجد رضا امجد کے مقدمہ کے ساتھ طبع کروایا۔ اُسی سال جناب رومی صاحب گورکھ پوری کے اصرار پر معروف عارف باللہ اور صوفی بزرگ علامہ آسی غازی پوری کے احوال ومعارف پر مشتمل ’ذکرآسی‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جو ہنوزتشنہ تکمیل ہے۔

سال کے اِختتام پر گھر لوٹے۔ تعطیل کلاں کے دن گزارنے کے بعد پھر اشرفیہ لوٹنے کا خیال تھا؛ مگر پھر اُسی دوران کسی ماہنامے میں یہ خبر پڑھی کہ تاج الشریعہ حضرت علامہ اختررضا خان بریلوی معروف بہ اَزہری میاں کے قائم کردہ جدیدو قدیم کا سنگم ’جامعۃ الرضا‘ میں تقرریِ اَساتذہ کے سلسلے میں اِنٹرویو ہونے والاہے؛ تو انہوں نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے فاتحہ کے بہانے؛ نیز طبع آزمائی کے طور پر محض اِنٹرویومیں شامل ہونے کے لیے بریلی شریف کا سفرکیا۔

سیکڑوں اِنٹرویو دینے والے علماو قرا میں آپ ہی سب سے کم عمر اور کم ریش نظر آرہےتھے، شاید اِسی لیے نمبر بھی اخیر میں آیا۔ جس وقت اِنٹرویو ہال میں پہنچے تو مفتی شعیب رضا قادری، علامہ بہاء المصطفیٰ قادری اور دیگر ممتحن حضرات نے سوالات کی بوچھار کردی۔

خیر! اللہ اللہ کرکے انٹرویو ختم ہوا۔ اس کا تو ایک ذرا اِمکان نہیں تھا کہ وہ  بازی مار لے جائیں گے مگر گھرپہنچنے کے بعد جب انہوں نے جامعہ اشرفیہ جانے کی تیاری مکمل کرلی تو انھیں دنوں بریلی شریف سے صاحبزادہ قائد ملت علامہ عسجدرضاصاحب کا فون آیاکہ انٹرویو qualifyکر جانے کے باعث مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا میں آپ کی تقرری کی جاتی ہے، جتنا جلد ہوسکے سازوسامان لے کر بریلی آنے کی زحمت کریں؛ تاکہ آپ کے ذریعہ جامعہ کا آغاز ہوسکے۔ یہ خبر سن کر  چنددنوں کے بعد میں بریلی پہنچ گیا۔

کیرالا کا پورا نظامِ تعلیم و تربیت نگاہوں کے سامنے تھا تو بس اُسی منہاج پر آپ نے جامعۃ الرضا کو بھی بک ٹٹ دوڑا دیا، نتیجے میں بہت جلد اُس کی شہرت دورو قریب تک پھیل گئی؛ مگر پھر اِختتام سال آتے آتے کچھ رقیبوں کی کشمکش کا سامنا ہوگیا تو آپ نے اپنی عزت دائوں پر لگانے سے مستعفی ہوجانابہترسمجھا؛ لہٰذا 2004ء کا پورا سال گزارنے کے بعدتعطیل کلاں میں گھر لوٹتے وقت وہ اِستعفا لے کر حضور ازہری میاں کی بارگاہ میں پہنچ گیے۔

ہر چند کہ حضرت نے کسی طور اُسے قبول نہ کیا؛ تاہم انہوں نے مستعفی ہوجانے ہی کو غنیمت جانا؛

بریلی شریف کا یہ مختصر سا زمانہ ان کےلیے بڑا نفع رساں رہا، حضور ازہری میاں کے دروسِ بخاری میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی، خلوت و جلوت میں اُن سے اِستفادہ رہا، اعلیٰ حضرت کی کچھ کتابوں کی تعریب کا اِملا بھی حضرت کی خاص آرام گاہ میں بیٹھ کر کرنے کا موقع ملا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت نے اپنی اجازت و خلافت سے موصوف کو سرفرازی بخشی ، اپنا جبہ و عمامہ بھی پیش فرمایا، نیز قصیدۂ بردہ وغوثیہ کی خصوصی تحریری اجازت مرحمت فرمائی۔

  خیر الاذکیاء علامہ محمد احمد مصباحی صاحب قبلہ، پرنسپل جامعہ اشرفیہ کو معلوم ہوا کہ علامہ کو بریلی نہیں جانا تو انھوں نے پھر مبارک پور بلوالیا، اوراشرفی دار المطالعہ،نیز امام احمدرضا لائبریری کی کتابوں کی جدید انداز میں فنون وائز کیٹلاگنگ کے لیے اشرفیہ میں دوبارہ تقرری فرمالی، ساتھ ہی کچھ ابتدائی درجات کی کتابیں بھی پڑھانے کے لیے دیں۔ اس طرح 2005ء میں دوبارہ اشرفیہ کی علمی فضائوںمیں رہنے کا سنہرا موقع میسرآیا۔

اس کے بعد  چند ہی ماہ بعد اِسلامک لیڈرشپ کے حوالے سے معروف ’دلاص یونیورسٹی‘ کا ایک انٹرویو Quilifyکرکے وہ  ۲۵؍مئی 2006ء کو دنیا کے دوسرے سب سے خوبصورت شہرکیپ ٹائون پہنچ گئے،مستقل لکچرر کے طورپر آج تک اُسی یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

۱۳؍دسمبر 2005ء کو ام رفقہ جویریہ قادریہ  کے ہمراہ شادی ہوئی۔

۱۱؍رمضان۱۴۲۹ھ مطابق ۱۱؍ ستمبر2008ء کو اللہ تعالیٰ نے ’’رفقہ نوال قادری‘‘ کی شکل میں علامہ کی زندگی میں خوشیوں کے ایک نئے باب کا اِضافہ کیا ۔ پھر ۲۲؍محرم الحرام ۱۴۳۶ھ مطابق۱۶؍ نومبر2014ء ’احمد یعفور مظہری‘ کے روپ میں ایک بیٹا مبدأ فیاض کی طرف سے عطا ہوا۔ 2009ء میں پروردگار نے والدین کی معیت میں حرمین شریفین کے حج و زیارت سے مشرف فرمایا۔ اس کے بعد 2013ء میں بیوی بچوں سمیت عمرہ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

کیپ ٹائون، سائوتھ افریقہ آکر بھی انہوںنے لوح وقلم کی پرورش کی، اور مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ 2007ء میں براعظم افریقہ کی تاریخ میں کیپ ٹائون کی سرزمین سے شائع ہونے والاپہلا اُردو ماہانہ اَخبارشائع کیا،جسے بے پناہ مقبولیت ملی، اور جو دوسال تک تسلسل کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتا رہا، نیٹ پر بھی اس کی کچھ کاپیاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی عقائد ومعمولاتِ اہلسنّت پرلکھی گئی اکلوتی کتاب ’انوارِ ساطعہ‘ کی تسہیل و تجدید اور تحقیق وتخریج شروع کردی، اور اسی سال اسے مکمل بھی کردیا۔ 

2008ء میں سینٹرل ایشیاکے مشہور قلم کار اورنظریۂ اِرتقا کے پرخچے اُڑادینے والے معروف ترین اسکالر ’ہارون یحییٰ ‘کی بہت سی انگلش کتابوں اور مقالہ جات کا اُردومیں پروفیشنل ترجمہ کیا۔اور کچھ کتابیں اُردوسے انگلش میں منتقل کیں۔ 

2009ء میں بہت زیادہ مصروفیات کے باعث ’چراغِ اُردو‘ کو مجبوراً خاموش کردینا پڑا۔اورپورے طور پر تصنیف و تالیف میں جٹ گیے۔ خدا کی شان کہ دو تین سالوں میں پانچ ہزار کے قریب صفحات لکھ ڈالے ہیں،جن میں کچھ اشاعت پذیر ہوگئے، اور بیشتر مناسب وقت اشاعت کے اِنتظار میں ہیں۔

  2012 ،میں  دوست اَحباب کی دیرینہ خواہش اور فروغِ مذہب ومسلک کی شدیدضرورت کے باعث گڈوڈ میں’جامعۃ المصطفی‘نامی ایک دینی اِدارے کا قیام عمل میں لایا۔اللہ و رسول کی بے پناہ عنایتوں کے طفیل پانچ شیوخ کی نگرانی میں اِدارہ چل پڑا ہے، اور مقامی لڑکوں کے علاوہ تنزانیہ دار السلام، جوبرگ، اور ڈربن وغیرہ کے طلبہ بھی زیر تعلیم ہیں۔

آپ کے کچھ تصانیف کے نام کچھ یوں ہیں 

 تصنیف، تالیف 

نوجوانوں کی حکایات اِنسائیکلوپیڈیا 05

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی! 05

آئینۂ مضامین قرآن 05

طوافِ خانۂ کعبہ کے روح پرورواقعات 06

مرنے کے بعد کیا بیتی؟ 06

’وقت‘ ہزار نعمت 07

برکاتُ الترتیل (اِضافہ شدہ ) 07

بولوں سے حکمت پھوٹے 08

علامہ فاروق چریاکوٹی اور ان کے تین عظیم بیٹے 08

کاش! نوجوانوں کو معلوم ہوتا!! 08

کلامِ الٰہی کی اَثر آفرینی 09

چالیس حدیثیں بچوں کے لیے (اُردو، ہندی، انگلش) 09

چند لمحے اُم المومنین کی آغوش میں (تذکرۂ عائشہ صدیقہ ث) 10

مصطفی جانِ رحمت ا پرالزام خود کشی! 10

فرشتے جن کے زائر ہیں 11

اربعین امام حسین ص(مرویات وتعلیمات امام حسین) 11

قرآنی علاج 11

کتاب الخیر[منتخب سورتیں، اَدعیہ اوراَذکارِ مسنونہ] 12

باتیں جو زندگی بدل دیں  مع  اُن کے بول بہاروں جیسے 12

امام احمد رضا اور ذکر ودعا کی بہاریں 13

مقامِ غوثِ اعظم ص اور اتباع اُسوۂ مصطفیٰ ا 13

شیعہ! آستین کے سانپ  (انگلش) 14

عقائد علماے چریاکوٹ  (اُردو،ہندی) 14

اربعین مالک بن دینار 14

خطباتِ نسواں  15


ترجمہ، تہذیب، تذہیب 

بستان العارفین  (اُردو) 15

ایسے تھے مرے اَسلاف! 16

آئیں دیدارِ مصطفیٰ کرلیں 16

محرم الحرام، اہمیت وجامعیت اور اعمال ووظائف 17

ربیع الاوّل ، معارف ونکات اور اعمال ووظائف 17

تاجدارِ کائنات اکی نصیحتیں براے حضرت ابوہریرہ ص 17

موت کیا ہے؟ 18

اور مشکل آسان ہوگئی 18

یارسول اللہ! آپ سے محبت اور آپ پردرود کیوں؟ 19

مذاق کا اِسلامی تصور 19

ترجمانِ اہل سنت (آئیں سنت کا دفاع کریں) 20

چار بڑے اَقطاب [الجیلانی، الرفاعی، الدسوقی، البدوی] 20

اپنے لخت جگر کے لیے! 20

پیارے بیٹے! 21

اے میرے عزیز! 21

جامعۃ الازہر کا ایک تاریخی فتویٰ(اُردو ،ہندی) 22


ترتیب،تدوین، تسہیل،تخریج، تحقیق 

اَنوارِ ساطعہ در بیانِ مولود وفاتحہ  (تسہیل وتخریج) 22

برکات الاولیاء  (تسہیل وتقدیم) 23

تذکرۃ الانساب (تذکرۂ مشاہیر وسادات) 23

شیعیت کا پوسٹ مارٹم  (دمِ چار یار) 23

اِثباتِ شفاعت اور اَنبیا کی عصمت  (ترتیب وتقدیم) 24

دولت بے زوال  (اُردو،ہندی)  (تسہیل وترتیب) 24

وفیات مشاہیر الفقیہ (ترتیب وتدوین) 25

رسائل حسن  (جمع وترتیب) 25

کلیاتِ حسن  (جمع وترتیب) 26

رسائل محدثِ قصوری  (جلد اوّل ودوم) 26

تحفۂ رفاعیہ  (تسہیل وتخریج) 26

الباقیات الصالحات ’میلاد نامہ‘ (ترتیب وتقدیم) 27

راندیر میں اہل سنت کی فتح عجیب (ترتیب وتقدیم) 27

بزم گاہِ آرزو  (دیوانِ عم محترم راہیؔ چریاکوٹی) 28

دعاے ناصری 28

حیاتِ اشرف گلشن آبادی  (اُردو  ،  ہندی) 29

یسرنا القرآن جدید 29

دلائل الخیرات شریف

حزب البحر شریف

قاموس ناموس سیدنا امیر معاویہ 

ناموس ختم نبوت اور رد قادیانیت


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی