Biography Hazrat Molana Peer Ghulam Dastageer Nami
تعارف حضرت پیر غلام دستگیر نامی
مؤرخ اہل سنت حضرت مولانا پیر غلام دستگیر نامی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت علامہ مولاناغلام دستگیر رحمۃ اللہ علیہ۔کنیت: ابوالافضل۔لقب:مؤرخ اہلسنت۔تخلص:نامی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت مولانا پیر غلام دستگیر نامی بن پیر حامد شاہ رحمہا اللہ تعالی۔آپ کانام نامی اسم گرامی محسن اہلسنت حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر قصوری دائم الحضوری علیہ الرحمہ کےنام پررکھاگیا۔ آپ اپنےنام کےبارےمیں خودفرماتےہیں:
زادم و گشتم غلام دستگیر۔۔۔۔من شدم نامی بنام دستگیر
بنام نیک مولانا قصوری۔۔۔۔۔۔ غلام دستگیر نام کر دند
تاریخ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 23/جمادی الاخری 1300ھ،مطابق یکم مئی 1883ء،بروزمنگل،بوقت گیارہ بجےدن،اپنےناناغلام محی الدین کےگھر"رتہ پیراں"ضلع شیخو پورہ پاکستان میں ہوئی۔
تحصیل علم: نومبر 1890ء میں مولانا می کو مسجد ملا مجید محلہ چلہ بیبیاں لاہورمیں مولانا محمد بخش بلبل برادر اکبر مولانا غلام دستگیر قصوری کے پاس قرآن مجید پڑھنے کے لئے بٹھایا گیا ، نومبر 1891ء میں آپ نے قرآن ختم کرلیا ، پھر والد ماجد نے اسلامیہ سکول کی برانچ واقع حویلی کا بلی مل کی دوسری جماعت میں دخل کرادیا ۔ کچھ عرصہ بعد پیر حامد شاہ کا تبادلہ قصور ہو گیا چنانچہ مولانا نامی 1894ء کے درمیانی ربع میں گورنمنٹ اسکو ل میں پڑھتے رہے ، وہیں 11اکتوبر 1894ء میں آپ کے والد گرامی کا وصال ہو گیا اور آپ داغ یتیمی لیکر رتہّ پیراں چلے گئے ۔
1895ء میں آپ اسلامیہ سکول شیرا نوالہ گیٹ لاہور میں پانچویں جماعت میں داخل ہوئے اور 1903ء میں فرسٹ ڈویژن میں انٹرنس پاس کیا ، اسکول کی تعلیم کے دوران لاہور کےممتاز فضلاء مثلاً پروفیسر شجاع الدین صدر شعبۂ تاریخ دیال سنگھ کالج لاہورکے نانا محمد نجم الدین اور مولانا علامہ اصغر علی روحی سے اکتساب فیض کیا ، ان کے علاوہ دیگر متعد د اہل علم کے فیض صحبت سے مستفید ہوئے جن کی صحبت نے آپ کے ذوق علمی کو نکھار عطا کیا۔اسی طرح علماء سےاستفادہ کرتےرہے۔مولانا نامی نے کسی دینی درس گاہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی،لیکن اس کے با وجود اردو،فارسی اور انگریزی میں مہارت کے ساتھ ساتھ عربی سے بھی اچھی طرح آشنا تھے ، چونکہ قدرت نے آپ کو ابتداء سے ہی ذہانت و فطانت کے جوہر اعلیٰ سے نوازا تھا اس لئے بہت جلد بہترین مضمون نگار،مصنف،شاعر،تاریخ گو،ماہر قانون وراثت اور ماہر علم الانساب کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔
بیعت وخلافت: آپ اپنےوالدگرامی کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اوران کےبعدسجادہ نشین منتخب ہوئے۔
سیرت وخصائص: مؤرخ اہل سنت،محسن اہل سنت،مصنفِ کتبِ کثیر،عارف اسرارربانی حضرت علامہ مولانا پیر غلام دستگیر نامی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ کوتاریخ وانساب پرکامل دسترس حاصل تھی۔اسکول کی تعلیم باقاعدہ حاصل فرمائی تھی،لیکن دینی تعلیم باقاعدہ کسی مدرسےمیں حاصل نہیں کی البتہ مختلف علمی شخصیات سےاستفادہ کرتےرہے۔اسی طرح مطالعےکابچپن سےشوق تھا،اسی مطالعےاورسچی لگن کی بدولت وقت کےعظیم مؤرخین اورماہرین علم الانساب میں شمارہونےلگے۔
آپ لاہور کے قدیم علمی و روحانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے مورث اعلیٰ قطب العالم حضرت شیخ عبد الجلیل چوہڑ بندگی علیہ الرحمہ لاہور کے اولین مبلغ اسلام سہر وردی بزرگ ہیں جن کی بدولت پنجاب میں سلسلۂ عالیہ سہر وریہ کو بہت فروغ حاصل ہوا اور کئی قبائل مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان کے علاوہ اس خاندان میں اور بھی متعدد صاحب علم و فضل روحانی پیشوا ہوئے ہیں۔
مولانا نامی کو بچپن ہی سے اپنے خاندانی بزرگوں کے حالات،علمی کمالات اور نسب معلوم کرنے کا شو ق تھا ۔اس سلسلے میں آپ نے اپنے بزرگوں کے نادر مخطوطات اور دیگر کتب تاریخ کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا حتٰی کے تاریخی تجسس اور کتب بینی کا ذوق لازمی زندگی بن گیا ، بارہا رکاوٹیں پیدا ہوئیں مگر ہر بار آپ کے پہاڑ جیسے عزم و اسقلال سےٹکراکر پسپا ہوگئیں اور آپ کے تصنیف و تالیف اور مطالعہ کے ذوق میں بدستور اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ملازمت کے زمانہ میں فارغ وقت تالیف اور مضامین نویسی میں صرف کرتے اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد تو گویا آپ اس کام کے لئے وقف ہو گئے۔ آپ نے ایک سو سے زائد کتابیں اور رسائل لکھے جنہیں قدرو وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
ان میں سے بعض تصانیف تو لازوال اہمیت کی حامل ہیں ۔ مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے ۔جناب نامی کو شعر گوئی کا ملکہ ورثے میں ملاتھا ۔ابتداءً غزل نگاری کی جانب میلان تھا پھر نعت ، منقبت اور تاریخ گوئی سے لگاؤ پیدا ہو گیا، تاریخ گوئی میں آپ کو کمال حاصل تھا ، بلاشبہ آ پ نے اپنی زندگی میں ہزاروں منظوم تاریخیں کہی ہیں۔
شرفِ ملت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ فرماتےہیں: جب آپ شیخ عبدالجلیل بندگی علیہ الرحمہ کےمزارشریف کےاوقاف کےمتولی ہوئے توآپ نے اس ذمہ داری کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا اور نہ صرف بزرگوں کے مزارات کی دیکھ بھال کی بلکہ ان کے علمی تبر کات کو شائع کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا،الغرض جناب نامی نے ایک پیر زادہ او مزارات کا متولی ہونے کی حیثیت سے وہ کارہائے نمایا ں انجام دئے کہ ان کا طرزعمل موجودہ دور کے بعض مشائخ کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 7/رجب المرجب 1381ھ،مطابق 16/دسمبر 1961ءکوہوا۔آپ کی تدفین "رتہ پیراں"ضلع شیخوپورہ میں حضرت قلندرشاہ کےمزارکےاحاطےمیں ہوئی۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابر اہلسنت۔