Biography Hazrat Haji Shah Ji Muhammad Sher Mian Pilibhit
حضرت حاجی شاہ جی محمد شیر میاں
مختصر تعارف
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلسلہ ثقلینیہ کے پینتیسویں شیخ طریقت حضرت سیدنا الحاج
شاہ جی محمد شیر میاں قادری مجددی رحمةاللہ تعالی علیہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
از -: مفتی فہیم احمد ثقلینی ازہری ککرالہ
؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞
قطب الاقطاب مجدد زماں حضرت سیدنا الحاج شاہ جی محمد شیر میاں ملک خراسان کے ایک مشہور و معروف بزرگ شاہ دیوانہ بابا عرف جہان شاہ کی نسل سے ہیں- جن کا مزار شریف موضع باج کٹہ پر گنہ دولت زئی علاقہ سوات بنیر میں مرجع خلائق ہے-
شاہ جی میاں کے دادا ملک خراسان سے ہندوستان تشریف لائے اور شاہ جہاں پور میں قیام کیا- شاہ جی میاں کے والد حضرت شاہ محبت شیر خاں علیہ الرحمہ شاہ جہاں پور میں پیدا ہوئے- 1220ھ/ 2/اپریل 1805ء میں آپ شاہ جہاں پور میں پیدا ہوئے- جب آپ کے والد ماجد کا وصال ہو گیا تو آپ کی والدہ اپنے میکے پیلی بھیت آ گئیں- شاہ جی میاں نے اپنی تمام عمر والدہ کی خدمت میں صرف کی- شاہ جی میاں کے پانچ بھائی اور بارہ مامو تھے- آپ جامع شریعت و طریقت، واقف رموز حقیقت، متبع سنت، ماحی بدعت، مخزن جود و سخا، معدن حلم و حیا، بحر فتوت، کان مروت، مہبط انوار الہی، مصدر اسرار نامتناہی،غوث زماں اور قطب جہاں تھے- آپ امی نسبت تھے یعنی دنیا میں بظاہر کسی سے علم حاصل نہیں کیا مگر عالم الغیب والشہادہ کی بارگاہ سے آپ کو علوم و فنون کا وافر حصہ ملا تھا- آپ مشکل ترین علمی مسائل بڑی متانت و سنجیدگی سے حل فرما دیا کرتے تھے- آپ خود کو حضرت منصور حلاج کا شاگرد کہتے تھے- آپ کو قرآن،حدیث فقہ اور تفسیر وغیرہ پر کامل عبور حاصل تھا- مسائل فقہیہ کو روانی اور مطالب و معانی کے ساتھ بیان فرماتے کہ علما فقہا دنگ رہ جاتے- حضرت شیخ سعدی کی گلستاں، بوستاں اور مولانا روم کی مثنوی آپ کو از بر تھی- حسب ضرورت اشعار پڑھتے رہتے تھے، ایک بار آپ نے ایک کج فہم مولوی کے اصرار پر مسلسل تین دن سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان فرمائی تھی- حضرت شاہ احمد علی میاں پیلی بھیت شریف آتے جاتے رہتے تھے- شاہ جی میاں پیلی بھیت میں آپ سے مرید ہو گئے تھے- آپ اپنے شیخ کی محبت میں فنا تھے- 1298ھ میں آپ پا پیادہ سفر حرمین شریفین سے مشرف ہوۓ- جب مرشد کائنات سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری دی اور جبین نیاز جھکا کر صلاۃ و سلام کا نظرانۂ عقیدت پیش کیا- سنہری جالیوں سے دست اقدس برآمد ہوا، آواز آئی "لو یہ ہماری طرف سے ہندی تحفہ، یعنی پان کا بیڑہ بارگاہ رسالت سے عطا ہوا- آپ نے آنکھوں سے لگایا اور روضۂ مقدسہ سے رخصت ہو کر تناول کیا- حضرت شاہ جی محمد شیر میاں کے ہم عصر علما و مشائخ سے خوش گوار تعلقات تھے جو آپ کی ولایت و کرامت کے معترف تھے- رئیس المحدثین شیخ وصی احمد محدث سورتی، حضرت سید ابوالحسین احمد نوری میاں مارہروی، اعلی حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی، تاج الفحول مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی، شیخ العلما شاہ سلامت اللہ رامپوری، رئیس العلما علامہ شاہ سلیمان پھلواری شریف، شیخ احمد رحمانی بن مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی، شیخ المشائخ علامہ الطاف احمد ردولوی، اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی، حضرت مولانا شاہ عبدالمقدر قادری بدایونی، صدرالا فاضل مولانا سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی، رحمۃاللہ تعالی علیہم اجمعین-
5/ذی الحجہ 1324ھ/ 1906ء میں آپ نے عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ فرمایا- کسب فیوض و برکات کے لیے حضرت مولانا شاہ سلامت اللہ قادری رامپوری شاہ جی میاں کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے- ایک بار شاہ سلامت اللہ رامپوری بارگاہ شاہ جی میں حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا مولانا! آپ سے ایک کام لینا ہے- یہ بات آئی گئی ہو گئی، کافی عرصہ تک مولانا رامپوری بھی دریافت نہ کر سکے کہ کیا کام لینا ہے- ایک دن اتفاقاً صبح صبح پیلی بھیت شریف پہنچے- وصال کی خبر سن کر مولانا حیران ہوۓ، آپ نے تجہیز و تکفین کا کام انجام دیا- مولانا رامپوری فرماتے ہیں کہ جب میں نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑا ہوا- تو میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ شاہ جی میاں میرے دائیں جانب کھڑے ہیں- آپ کو دیکھ کر میں ادباً مصلے سے ہٹنے لگا تو شاہ جی میاں نے فرمایا مولانا آپ سے یہی کام لینا تھا- آپ اپنا کام کریں پھر میں نے نماز جنازہ پڑھائی- آپ کا روضہ شہر پیلی بھیت میں مرجع خلائق ہے-
تذکرہ مشائخ قادریہ مجددیہ شرافتیہ، صفحہ: 59،60
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭