Biography Mufti Ghulam Sarwar Lahori تعارف مفتی غلام سرور لاہوری چشتی نظامی



حضرت مولوی مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ 

۱۲۴۴ھ۔۔۔۱۳۰۷ھ

حضرت علّامہ الحاج حکیم مفتی غلام سرور قریشی اسدی الہاشمی سہروردی چشتی لاہوری﷫ مفتی غلام محمد عارف باللہ قدس سرہٗ کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ اپنے آبائی شہر لاہور محلہ کوٹلی مفتیاں میں ۱۲۴۴ھ/ ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے عظیم والد بزرگوار سے حاصل کی۔ طب بھی اُنھی سے پڑھی۔ سلسلۂ سہروردیہ میں بھی اُنھی سے بیعت تھے۔ پھر حضرت مولانا غلام اللہ فاضل لاہوری کے حلقۂ درس میں شامل ہوکر علوم تفسیر و حدیث، فقہ و ادب، صرف و نحو، معانی و منطق، اصول و فروع اور تاریخ و لغت کی تکمیل کی اور اپنے زمانے کے عالمِ نبیل، فاضلِ جلیل، بے مثال ادیب، بلند پایہ شاعر، بے نظیر تاریخ گو، مستند مورّخ، شہرۂ آفاق سوانح نگار، ماہر علم لغت اور معلم اخلاق ہوئے۔ سرزمین پاک و ہند میں ایسے طباع، عالی دماغ، جامع علوم و فنون، حاملِ کمالاتِ صورت و معنوی شاذ ہی پیدا ہوئے ہوں گے۔ آپ نے اپنی بیش بہا اور بلند پایہ تصانیف سے علم و ادب کے ہر شعبہ کو مطالب و معانی اور حقائق و معارف کے گل ہائے رنگا رنگ سے بھر دیا۔

تمام عمر تصنیف و تالیف میں گزاری۔ زندگی کا کچھ اوائل حصّہ ملازمت میں بھی گزرا۔ چنانچہ پہلے کچھ عرصہ سردار بھگوان[1] سنگھ رئیس لاہور و جاگیردار فتح گڑھ چونیاں کی جائداد کے نگران و مہتمم رہے۔ پھر رائے بہاور کنھیا[2] لال ایگزیکٹو انجینئر لاہور ڈویژن نے جو آپ کے ارشد تلامذہ میں سے تھا۔ اپنے محکمہ میں ایک معقول مشاہرہ پر ملازمت دلادی تھی مگر آپ نے تھوڑے ہی عرصے میں یہ ملازمت بھی چھوڑ دی۔ درحقیقت آپ ایسی طبیعت لے کر آئے تھے جو تصنیف و تالیف اور شعر و ادب ہی کے لیے موزوں تھی۔ چنانچہ اسی فن میں شہرت حاصل کی اور اسی شغل میں عمر عزیز صرف کردی۔

آپ کو حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد اشتیاق تھا۔ چنانچہ آپ نے جو نعتیں عشقِ رسولﷺ میں ڈوب کر کہی ہیں وہ آپ کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہیں۔

آخر آپ کی یہ دیرینہ آرزو بر آئی اور آپ ماہ جون ۱۸۹۰ء کو اپنے حقیقی برادرزادہ مفتی جلال الدین خلف حضرت مولانا مفتی سید محمد کی معیت میں حج کے لیے روانہ ہوگئے۔ حج کے بعد ۲۰؍ذی الحجہ کو آپ مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ تیسری منزل پر پہنچ کر مسافروں میں اچانک وبائے ہیضہ پھوٹ پڑی۔ پانچویں منزل میں آپ بھی اس مرض میں مبتلا ہوگئے اور ساتویں منزل کے قریب پہنچ کر جمعرات کے روز ۲۴؍ذی الحجہ ۱۳۱۷ھ/ مطابق ۱۴؍اگست ۱۸۹۰ء کو دارالبقاء کا سفر اختیار کیا۔

 

[1]۔ لاہور میں آنریری مجسٹریٹ تھے۔ ان کا والد راجہ ہرنبس سنگھ خلف راجہ تیجا سنگھ رنجیت سنگھ کے امراء میں سے تھا۔ جس کے سپرد کچھ عرصہ نظامتِ کشمیری بھی رہی تھی۔

[2]۔ کائستھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اصل وطن جلیسر ضلع ایٹہ تھا۔ ہندی تخلص کرتے تھے۔ شعر و سخن میں کچھ عرصہ مولوی احمد بخش بیدؔل سے بھی اصلاح لی تھی۔ فارسی و اردو میں بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مثلاً:

۱۔  رنجیت نامہ منظوم فارسی میں ہے۔ رنجیت سنگھ کے حالات و واقعات بیان کیے ہیں۔

۲۔ نگاریں نامہ (قصہ ہیرو رانجھا) یہ بھی فارسی نظم میں ہے۔

۳۔ تاریخ پنجاب

۴۔ تاریخ لاہور اردو نثر میں ہیں اور زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ اخلاق ہندی، بندگی نامہ، نصیحت نامہ، گلزار ہندی، فارسی و اردو نظم میں ہیں۔ زبان سیدھی سادی ہے۔ خیالات اتنے بلند نہیں۔ فارسی کلام اوسط درجے کا ہے اور تصوف و اخلاق کا رنگ غالب ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی