اشرف الفقہاء حضرت مفتی محمد مجیب اشرف رضوی Biography of Mufti e Azam Maharashtra Ashraf ul Fuqaha Hazrat Muhammad Mujeeb Ashraf AlaihirRahma

 اشرف الفقہاء حضرت مفتی محمد مجیب اشرف رضوی 



حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف صاحب قبلہ بیک وقت بہت سی خوبیوں کے جامع تھے۔آپ فضیح اللسان خطیب،مایہ ناز ادیب،قادرالکلام شاعر،کہنہ مشق مفتی،بے مثال مدرس، کامیاب منتظم، باکردار مہتمم، فقیدالمثال مناظراور حُسنِ اخلاق کے دھنی تھے۔آپ خطیب الہند، اشرف العلماء، اشرف الفقہاء، شارحِ کلامِ رضااور مفتیِ اعظمِ مہاراشٹرجیسے معزز القاب سے یاد کیے جاتے ہیں۔آپ کے دادیہال اور نانیہال دونوں ہی میں بڑے بڑے نامور علماوحفاظ گذرے ہیں۔

٭ولادت اور اسم گرامی :

حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف صاحب قبلہ کی ولادت باسعادت محلہ کریم الدین پور قصبہ وپوسٹ گھوسی ،ضلع اعظم گڑھ یوپی میںالحاج صوفی محمد حسن اشرفی ابن حافظ جمیع اللہ صاحب علیہم الرحمۃکے علمی گھرانے میں مورخہ ۲؍رمضان المبارک ۱۳۵۶ھ/۶؍نومبر۱۹۳۷ء بروز سنیچر کو بوقتِ سحر ہوئی۔

٭تعلیم وتربیت:

آپ کی ابتدائی ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم خدارسیدہ بزرگ حضرت میاں جی محمد تقی صاحب سے اور اُردو،فارسی اور عربی متوسطات کی تعلیم مدرسۂ اہل سنّت شمس العلوم ،گھوسی میں ہوئی۔پرائمری درجہ چار کامیاب کرنے کے بعد اسی مدرسہ میں فارسی کی ابتدائی کتابیں حضرت مولاناسمیع اللہ صاحب (امجد نگر،گھوسی)سے پڑھیں۔اس کے بعد کی فارسی کتابیں تین سال تک حضرت مولانامحمد سعید خاں اعظمی علیہ الرحمہ (فتح پور،گھوسی)سے پڑھیں۔عربی کی چند کتابیں اپنے عمِ محترم حضرت مولاناشمس الدین صاحب سے اور باقی کتابیں کافیہ تک حضور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے پڑھیں۔۱۹۵۱ء میں حضور حافظ ملت کے حکم پر حضرت شارح بخاری دارالعلوم فضلِ رحمانیہ ،گونڈہ،یوپی تشریف لے گئے تو آپ بھی اپنے استاذ محترم کے ساتھ آگئے اور یہاں دو سال رہ کر شرح جامی تک کی کتابوں کا درس حاصل کیا۔یہیں شہزادۂ 

صدرالشریعہ حضرت علامہ رضاء المصطفیٰ امجدی صاحب قبلہ بھی درس وتدریس کے انجام دے رہے تھے چنانچہ ان سے بھی چند کتابیں پڑھیں۔۱۹۵۳ء میں حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی طلبی پر حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ بریلی شریف تشریف لے گئے۔حضرت مفتی صاحب بھی آپ کے ہمراہ بریلی شریف حاضر ہوئے۔یہاں مرکزی ادارہ دارالعلوم مظہراسلام میں درسِ نظامیہ کی تکمیل کے بعد ۱۹۵۷ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔

٭اساتذہ کرام :

شیخ العلماء علامہ غلام جیلانی صاحب قبلہ(حضرت کے بڑے ماموںجان)، شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ،صدرالعلماعلامہ تحسین رضا بریلوی علیہ الرحمہ،شیخ المعقولات حضرت مولانامعین الدین اعظمی علیہ الرحمہ، شہزادۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ رضاء المصطفیٰ صاحب امجدی،محدث اعظمی مولاناثناء اللہ امجدی علیہ الرحمہ(شیخ الحدیث مظہراسلام ،بریلی)،حضرت مولانامحمد سعید خاں اعظمی علیہ الرحمہ ،حضرت مولاناسمیع اللہ علیہ الرحمہ اور حضرت میاں جی محمد تقی علیہ الرحمہ وغیرہ۔

٭بیعت وخلافت :

آپ نے ۲۴؍صفرالمظفر ۱۳۷۵ھ بمطابق ۱۲؍اکتوبر۱۹۵۵ء کو بریلی شریف میں شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم علامہ شاہ محمد مصطفی رضا قادری برکاتی نوری علیہ الرحمہ کے دست ِحق پر زمانۂ طالب علمی ہی میں بیعت ہوئے۔اسی روز پیرومرشد نے سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے جملہ تعویذات ،اوراد ووَظائف اور اعمال ونقوش کی تحریری اجازت عنایت فرمائی اور ۱۹۶۰ء میں ناگپور میں علماوعوام کی موجودگی میں سلسلۂ عالیہ قادریہ بارکاتیہ رضویہ کی خلافت وجازت سے نوازا۔علاوہ ازیں نائب مفتی اعظم شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی صاحب نے کل چودہ سلاسل طریقت کی خلافت عطافرمائی۔اس کے علاوہ بھی آپ کوکئی مقامات سے خلافت واجازت حاصل ہے۔

٭تدریسی خدمات:

۱۹۵۷ء میں آپ نے فراغت پائی۔جامعہ عربیہ اسلامیہ کی شاخ ’’کامٹی‘‘ میں منصب صدرات پر رہتے ہوئے دو سالوں تک تشنگان علوم دینیہ کی سیرابی کرتے رہے۔حضور مفتی اعظم ہند کی اجازت سے ناگپور کی کچھی میمن مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دینے پر مامور ہوگئے۔۱۹۶۰ء میں حضرت مفتی عبدالرشید فتح پوری علیہ الرحمہ نے آپ کو جامعہ عربیہ اسلامیہ ،ناگپور میں نائب شیخ الحدیث کے منصب پر متمکن فرمادیا۔۱۹۶۵ء تک آپ یہاں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔۱۹۶۶ء میں آپ نے ناگپور میں حضور مفتی اعظم اور حضور برہان ملت علامہ برہان الحق جبل پوری علیہم الرحمۃ الرضوان کی سرپرستی میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘کا سنگ بنیاد رکھا اور انتہائی محنت وجاں فشانی سے اس ادارہ کو پروان چڑھایااور تدریسی سلسلہ بھی جاری رکھاجو تا ہنوز غیرمستقل طور پر اب بھی جاری ہے۔

٭ممتازتلامذہ:

حضرت اشرف الفقہاء نے جامعہ عربیہ اسلامیہ کی شاخ کامٹی اور ناگ پور کے علاوہ دارالعلوم امجدیہ ناگ پور میں درس و تدریس کی مسند آراستہ کی جہاں ہزاروں تشنگانِ علومِ نبویہ نے اپنی علمی پیاس بجھائی،آپ کے تلامذہ کی فہرست کافی طویل ہے یہاں چند مشاہیر تلامذہ کے اسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں ۔

٭حضرت سید محمد حسینی اشرفی مصباحی(ایڈیٹر سنی آوازناگ پور)

٭حضرت مولانا عبدالغنی نصیر آبادی علیہ الرحمہ

٭حضرت مولانا عبدالستار صاحب اندوری

٭حضرت مولانامفتی حبیب یار خاں صاحب اندوری

٭حضرت مولانا مفتی محمد منصور صاحب (جامعہ برکاتِ رضا ،ناگ پور)

٭حضرت مولانا مفتی نسیم احمد صاحب (رضا دارالیتامیٰ، ناگ پور)

٭حضرت مولانا مفتی عبدالواحد جبل پوری المعروف بہ مفتی محمد قاسم جبل پوری

٭حضرت مولانا شمیم احمد صاحب (شیخ الحدیث منظرِ حق ٹانڈہ)

٭حضرت مولا نا سید علی ادونی(آندھراپردیش)
٭حضرت مولانا محمد احسان صاحب(مدرسہ حیدریہ،پوسد)
٭حضرت مولاناعبدالرشید جبل پوری
٭حضرت مولانا غلام مصطفی برکاتی(مہتمم انوارِ رضا، نوساری)
٭حضرت مولانا احسان الرحمن ا بن مفتیِ مالوہ مفتی رضوان الرحمن علیہ الرحمہ
٭حضرت مولانا سید قمر پیر صاحب (پرنسپل کرنول کالج ،آندھرا پردیش)
٭حضرت مولانا الحاج قلندر صاحب(شیخ الحدیث دارالعلوم رضائے مصطفی،رائچور )
٭حضرت مولانا الحاج عتیق الرحمن صاحب (مدرس دارالعلوم رضائے مصطفی،رائچور )
٭حضرت مولانا مفتی عبدالقدیر صاحب (مفتی جامعہ عربیہ اسلامیہ ،ناگ پور)
٭حضرت مولانا شفیق الرحمن صاحب(شیخ المعقولات دارالعلوم امجدیہ ،ناگ پور)
٭حضرت مولانا قاری محمد ہارون صاحب (شیخ التجویددارالعلوم امجدیہ ،ناگ پور)
٭حضرت مولانا مجیب الرحمن صاحب(مدرس دارالعلوم امجدیہ ،ناگ پور)
٭حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب(مدرس دارالعلوم امجدیہ ،ناگپور)
٭حضرت مولانا خورشید احمد رضوی صاحب (آپ پہلے غیر مسلم تھے اسلام لانے کے بعد حضرت مفتی مجیب اشرف صاحب قبلہ کی خدمتِ بابرکت میں رہ کر مکمل تعلیم حاصل کی )
٭حضرت مولانا عبدالحبیب رضوی صاحب (بانی دارالیتامیٰ ،ناگ پور)
٭حضرت مولانا سید مخدوم صاحب (ادونی)
٭حضرت مولانا سید عبدالقادر صاحب علیہ الرحمہ
٭حضرت مولانا حافظ خواجہ علی صاحب مرحوم و مغفور
٭حضرت مولانا حافظ غلام مصطفی صاحب(مدرس دارالعلوم امجدیہ ،ناگ پور)
٭حضرت مولانا مفتی محمد نذیر صاحب(ناگ پور)
٭حضرت مولانا سید محمد صفی صاحب (عربک کالج ،اننت پور)
٭حضرت مولانا محمد علی رائچوری(لکچرر فیض العلوم کالج، گلبرگہ)
٭حضرت مولاناسید محمد اشرف صاحب رائچوری(فیض العلوم کالج،گلبرگہ)
٭حضرت مولانافخر الدین صاحب(بانی و مہتمم مدرسہ جواری الفاطمہ،ناگ پور)
٭حضرت مولانا سید احمد میاں قادری عرف حامد میاں (صدر مدرس رضوان ہائی اسکول، گوکاک، بیلگام) وغیرہم۔
٭مشاہیرخلفا:
ملک بھر میں آپ کے خلفا پھیلے ہوئے ہیں ان میں ہر کوئی چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے ،چند مشاہیر خلفا کے نام ملاحظہ ہوں  :
٭حضرت مولا عبدالغنی نصیر آبادی  علیہ الرحمہ
٭حضرت مولانا سید محمد سلیم باپو صاحب(جام نگر ،گجرات)
٭حضرت مولانا عبدالستار ہمدانی صاحب(پوربندر،گجرات)
٭حضرت مولانا مفتی واجد علی یارعلوی صاحب (شیخ الحدیث دارالعلوم حنفیہ سنیہ ،مالیگاوں)
٭حضرت مولانا وقار احمد عزیزی صاحب
٭ حضرت مولاناغلام مصطفی صاحب(نوساری)
٭حضرت مولانا مفتی عابد حسین رضوی صاحب(بہار)
٭حضرت مولانا محمد احسان الحق صاحب (پوسد)
٭حضرت الحاج حافظ محمد تحسین اشرف رضوی صاحب (شہزادۂ حضور مفتیِ اعظم مہاراشٹر)
٭حضرت مولانا مفتی محمد رفیع الزماں صاحب مصباحی(شہزاد پور،یوپی)
٭حضرت مولانا سید محمد آصف اقبال صاحب(مہتمم مدرسۃ البنات الصالحات،ناسک)
٭حضرت مولانا محبوب عالم صاحب (جامعہ صادق العلوم ،شاہی مسجد،ناسک)
٭حضرت مولانا عبدالعزیزصاحب(نندوربار)
٭حضرت مولانا عبدالرشید جبل پوری صاحب(ناگ پور)
٭حضرت مولانا حافظ سعادت علی صاحب(پوربندر)
٭حضرت مولاناتفویض عالم صاحب (مالیگاوں)
٭حضرت مولانا ابولکلام مصباحی صاحب(کریم نگر)
٭حضرت مولانا جعفر الدین صاحب (ورنگل)
٭حضرت حافظ حسام الدین صاحب ،خطیبِ شہر ،ناسک
٭حضرت مولانا حافظ محمد احسان رضوی صاحب (کولمبو،سری لنکا)وغیرہم۔

٭حق گوئی وبے باکی :

٭تصنیف وتالیف:
آپ کی تحریر بہت عمدہ ،پُرکشش اور عام فہم ہوتی ہے۔اسلوب کی سادگی وصفائی کے سبب آپ کی تصانیف ہر خاص وعام کے لیے یکساں مفید ہیں۔آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں۔
(۱)تحسین العیادۃ (بیمارپُرسی کی خوبیاں)(۲)حضور مفتیِ اعظم پیکرِ استقامت وکرامت (۳) خطبات کولمبو(۲۰۰۲ء میں سری لنکا کے تبلیغی دورے میں ہوئے خطبات کامجموعہ)(۴)ارشاد المرشد یعنی بیعت کی حقیقت (۵)مسائل سجدۂ سہو۔ان کے علاوہ اور کئی کتب ورسائل طباعت کے منتظر ہیں۔ مثلاً:(۱)المرویات الرضویہ فی الاحادیث النبویہ(۲)تنویرالعین (انگوٹھابوسی کا شرعی ثبوت)(۳)تابشِ انوار مفتی اعظم(۴)تنویرالتوقیر ترجمہ الصلاۃ علی علی البشیر النذیراور ان کے علاوہ آپ کے نوکِ قلم سے نکلے ہوئے ہزاروں فتاوے ہیں جو دارالعلوم امجدیہ ناگپور کے رجسٹرمیں محفوظ ہیں۔
٭وعظ وخطابت:
تعلیم سے فراغت کے بعد ہی سے آپ اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے ملک وبیرون ملک میں تبلیغی اسفار کررہے ہیں۔ان اسفار میں متعدد جلسوں،کانفرسوں اور اجتماعات میں آپ خطاب فرماتے ہیں۔خطاب میںاچھوتااور منفرد لب ولہجہ آپ کی شناخت ہے جو سامعین کے قلوب پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔آپ ایک اچھے،کامیاب اور حاضرجواب مناظر بھی ہیں۔ باطل عقائد ونظریات کا قلع قمع کرنے کے لیے گستاخان رسول سے آپ کے بہت سارے مناظرے ہوئے ہیں۔جھریا،دھنباد(بہار)،بجرڈیہا(بنارس)،ناگپور، کٹیہار(بہار)،اٹارسی اور مدھیہ پردیش میں مفتی مطیع الرحمن رضوی اور دیگر علما کے ساتھ آپ بھی موجود رہے بلکہ اٹارسی کے مناظرے کی آپ نے صدارت فرمائی۔متعدد مرتبہ حج وعمرہ کی سعادت سے سرفراز ہوچکے ہیں۔
٭ شعر وادب:
حضرت مفتی مجیب اشرف صاحب کو شعر وادب کا کافی ذوق و شوق ہے ۔آپ ایک اچھے سخن سنج ،سخ داں،سخن شناس اور سخن کے نکتہ ور ہیں۔شارحِ کلامِ رضا کی حیثیت سے دنیائے سنیت میں مشہور ہیں۔ سفرِ حج کے دوران محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرِ پاک مدینۂ منورہ میں عین دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کے وقت اکثر نعتیں قلم بند فرمائی ہیں ۔ ایسی ۳۰؍۳۵؍نعتیں ہیں جو کہ آپ نے مدینۂ طیبہ میں رقم فرمائی ہیں۔ذیل میں آپ کے چند اشعار پیش ہیں جس میں ایک اچھی اور سچی شاعری کی تمام خوبیوں کی جلوہ گری ہے      ؎
ہائے تپش اعمال کی پرشش کوئی نہیں غم خوار
مایوسی کی سخت گھڑی ہے آجائیں سرکار
سر پہ گنہ کا بوجھ ہے بھاری چلنا ہے دشوار 
دستِ کرم کا دیدو سہارا ہوجائیں ہم پار
سخت اندھیرا ، وحشت آگیں ، تنہائی غمناک
ان کے کرم سے قبر بنے گی جنت کا گلزار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی قسمت پہ نہ کیوں رشک کریں اہلِ نظر
جو لگا تار ہو سرکار میں آتا جاتا
کاش طیبہ کے سفر میں کبھی ایسا ہوتا
موئے تن نعتِ نبی جھو م کے گاتا جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشاق کی یہ بزم ہے تشریف لائیے
سرکار اپنا جلوۂ زیبا دکھائیے
ظلم وستم کی دھوپ میں کب تک جلیں گے ہم
لطف و کرم کی چھاوں میں اب تو بلائیے
رہزن کھڑے ہیں تاک میں کوئی نہیں شہا
سرکار ان کمینوں سے ہم کو بچائیے
بادِ مخالف تیز ہے دریا ہے باڑھ پر
منجدھار میں ہے ناو کنارے لگائیے
صبحِ وطن سے دور شبِ غم نے آلیا
رنج و الم کے دام سے للہ چھڑائیے
زار و نزار حاضرِ دربار ہوں شہا
قلبِ حزیں سے بوجھ غموں کا ہٹائیے
بردِ یمانی رُخ سے ہتا کر مرے حضور
حرماں نصیب ہوں مری قسمت جگائیے
تھوڑی جگہ عطا کریں اشرفؔ کو پاس میں
جامِ غمِ فراق نہ اُس کو پلائیے

٭اعزاز:

٭اہم کارنامہ:
ناگپورکے محلہ شانتی نگر میں آپ نے ۱۹۸۵ء میں ’’امجدی مسجد‘‘کاقیام کیا۔ نوساری گجرات میں ۱۹۸۸ء میں ’’دارالعلوم انوارِ رضا‘‘کی بنیاد رکھی جو ریاست گجرات کی معیاری درس گاہ ہے اور جس کی خدمات سے پوراعلاقہ مستفیض ہورہاہے۔جامعہ نوریہ(بالا گھاٹ،مدھیہ پردیش)،دارالعلوم رضائے مصطفی(رائچور،کرناٹک)،جامعہ حضرت بلال(بنگلورکرناٹک)، دارا لعلوم غوث اعظم (پوربندر،گجرات)جامعہ اہلسنّت صادق العلوم (ناسک،مہاراشٹر)، دارا لعلوم غوث اعظم(ناسک،مہاراشٹر)،دارالعلوم حنفیہ غوثیہ (شیر پور، مہاراشٹر)، مدرسہ البنات الصالحا ت(ناسک، مہاراشٹر)اوردارالعلوم انوارِ مصطفی (سدّی پیٹھ، آندھراپردیش) جیسے ممتاز ادارے آپ کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔
٭وصال:
خلیفہ حضور مفتیٔ اعظم ہند، حضور اشرف الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف رضوی قادری اعظمی صاحب (بانی و مہتمم دارالعلوم امجدیہ ناگپور) اب ہمارے درمیان نہ رہے۔آج 6.اگست کو صبح 10 بج کر 30منٹ پروصال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
٭حوالہ جات:
(۱)تذکرۂ مجیب،مؤلف:ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی،آل انڈیاسنّی جمعیۃ العلما، مالیگائوں ۲۰۰۸ء
(۲)اہلسنّت کی آواز،خلفائے خاندان برکات،از:ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی، ص؍۶۴۴ تا ۶۵۳،جلد۲۱،ص؍۳۵۱،۲۰۱۴ء

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی