منصب نبوت کے بارے میں عقیدہ مومن
خالق کائنات جل جلالہٗ ارشاد فرماتا ہے:
اَللّٰہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ … اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کس جگہ پہ رکھے ۔
(القرآن الکریم، سورۃالانعام، سورہ نمبر:6، آیت نمبر:124)
شان نزول:
کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ فلاں شخص کو نبی بنا دیا جائے اور کچھ کہتے تھے ولید بن مغیرہ کو نبی بنا دیا جائے، کچھ کہتے تھے عروہ بن مسعود کو نبی بنا دیا جائے، ولید بن مغیرہ مکہ شریف کا ایک بڑا مالدار آدمی تھا، وہ کہتا تھا میری عمر بھی زیادہ ہے اور میرے پاس مال بھی زیادہ ہے، لہذا مجھے نبی بنایا جائے ، لوگوں کے مختلف زاویے تھے اور اس بارے میں اپنی تجاویز پیش کر رہے تھے کہ فلاں نبی ہونا چاہیئے، فلاں نبی ہونا چاہیے۔
تو خالق کائنات جل جلالہٗ نے یہ آیت نازل کر کے اس بات کو واضح کیا کہ میں جانتا ہوں منصب نبوت کیا ہے؟ اور اس کا اہل کون ہے؟ اس پر میں نے کس کو فائز کیا ہے، یہ حقیقت میں ہی جانتا ہوں ۔
(تفسیر روح المعانی، سورۃ الانعام، رقم الآیۃ: 124، ج:8، ص:20)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالق کائنات جل جلالہٗ نے جب یہ حکم دے دیا کہ آپ اعلان نبوت فرمائیں تو اُس وقت کفار مکہ کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آ رہی تھی، جس کو قرآن مجید نے ذکر کیا ہے کہ:
لَوْلَا نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ … وہ کہتے کہ قرآن مجید دو شہروں میں سے ایک بڑے آدمی پر کیوں نہیں اتارا گیا۔
(القرآن الکریم، سورۃ الزخرف، رقم السورۃ: 43، رقم الآیۃ: 31)
’’قریتین‘‘ سے مراد مکہ شریف اور طائف ہیں ۔
طائف میں ان کے نزدیک نبوت کا امیدوار عروہ بن مسعود تھا اور مکہ شریف میں نبوت کا امیدوار ولید بن مغیرہ تھا، تو ان کے نزدیک نبوت کے لیے جو qualification چاہیئے تھی، وہ سمجھتے تھے کہ یہ دونوں پوری کر رہے ہیں اور ان پر قرآن مجید کو نازل کرنا چاہیئے تھا، یہ زیادہ مالدار ہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کہاں نازل کر دیا؟
وہ جو اپنے طور پر ایک نبوت کا منصب سمجھے ہوئے تھے، خالق کائنات جل جلالہٗ نے ان کی بات کو ردّ کیا اور واضح کر دیا کہ میں جانتا ہوں میری یہ ذمہ داری کتنی بڑی ہے اور کتنے بڑے آدمی کو یہ دی جاتی ہے اور اُس کے اندر کتنی صلاحیتیں ہونی چاہئیں، ان سب چیزوں کا مجھے علم ہے اور اُسی کے مطابق میں اپنی رسالت عطا کرنے والا ہوں ۔
کفار کے ہاں منصب الوہیت:
اُس ماحول میں لوگوں کو منصب نبوت کا کیا پتہ ہو گا جبکہ منصب الوہیت سے وہ اتنے غافل تھے، بخاری شریف میں ہے کہ جب وہ ایک پتھر کی پوجا کرتے تھے، اگر اُن کو اُس پتھر سے کوئی خوبصورت پتھرمل جاتا تھا تو وہ پہلے کو پھینک دیتے تھے اور نئے پتھر کی بندگی شروع کر دیتے تھے تو جن کے نزدیک معیار الوہیت اتنا گرا ہوا ہو ،وہ منصب نبوت کو کیا پہچان سکیں گے؟، وہ اپنی طرف سے لا ف زنی کر رہے تھے، خالق کائنات نے قرآن مجید میں منصب نبوت کو بیان بھی کر دیا اور واضح کر دیا کہ میں نے جن کو یہ تاج پہنایا ہے ، میں نے ازل سے اُن کو منتخب کر رکھا تھا اور اُن کے اندر یہ صلاحیتیں موجود ہیں کہ انہیں ہی یہ تاج پہنایا جائے اور یہ نبوت کا آخری تاج ہے جو اُن کے سر پر سجایا گیا ہے اور اُن کو نبوت عطا کر دی گئی ہے ۔
(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب: وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن أثال، ج:4، ص:1589، رقم الحدیث: 4117)
مبارک عُمر کی قسم:
قرآن مجید کی آیات کا اگر سرسر ی جائزہ مرتب کیا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اس بات کو معین کرتا ہے کہ معیارِ نبوت اور منصب نبوت کتنا بڑا ہے اور اس کے لیے مومن کو کس طرح محتاط رہنا چاہیئے اور اس کے بارے میں اپنا عقیدہ کیا رکھنا چاہیئے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان اور آپ کا منصب نبوت میں جو مقام ہے، اُس کے لیے اس آیت کریمہ میں غور کیا جائے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:
لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ … اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے تمہاری عمر کی قسم ،بے شک وہ لوگ اپنے نشے میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔
(القرآن الکریم، سورۃ الحجر، رقم السورۃ: 15، رقم الآیۃ: 72)
لفظ’’ عَمر‘‘ اور لفظ’’ عُمر‘‘ آپس میں دونوں مترادف ہیں، ہم اپنی زبان میں عمر کا لفظ بولتے ہیں کہ فلاں کی عمر اتنی ہے اور عَمر کی لغت بھی موجود ہے۔
لَعَمْرُک … اللہ تعالیٰ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کی قسم اٹھا رہا ہے، اس پر امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ انسانوں میں سے صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ایک ذات ہے کہ جن کی حیات کی قسم اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔
(التفسیر الکبیر، سورۃ الحجر، رقم السورۃ: 15، رقم الآیۃ: 72، ج:19، ص:161)
لَعَمْرُک … مجھے تمہاری عمر کی قسم ہے، یہ قسم اس بات کو واضح کرتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کتنی تابناک تھی اور اُس کی کتنی عظمتیں تھیں ۔
خالق کائنات جل جلالہٗ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رضا کتنی عطا فرما رکھی تھی، اللہ تعالیٰ قسم اٹھا رہا ہے اور جس عمر کی قسم اٹھا رہا ہے، اُس عمر کے ہر سال، اُس عمر مبارک کے ہر مہینے اور اُس عمر مبارک کے ہر ہفتے کی قسم اٹھا رہا ہے ۔ اُس عمر کا ہر سال، اُس عمر مبارک کا ہر مہینہ اور اُس عمر مبارک کا ہر ہفتہ اور اُس کا ہر گھنٹہ اور اُس کا ہر منٹ اور اُس کا ہر سیکنڈ اس لائق ہونا چاہیئے کہ رب اُس کی قسم اٹھا سکے، اگر اُس عمر کا معاذ اللہ کوئی دن،کوئی گھنٹہ، کوئی لمحہ ایسا ہو کہ جس میں اللہ تعالیٰ ناراض ہو تو پھر اُس عمر کی قسم کیسے اٹھائی جاسکے گی؟۔
خالق کائنات جل جلالہٗ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری عمر مبارک کی قسم اٹھا کر اپنی
طرف سے یہ واضح کر دیا کہ یہ وہ ذات ہے کہ جن سے میں ایک لمحہ بھی ناراض نہیں ہوا اور یہ وہ ذات ہے کہ جس نے ایک دن تو کیا، ایک گھنٹہ تو کیا، ایک سیکنڈ بھی میرے حکم کی نافرمانی نہیں کی، یہ وہ ہیں کہ ہر وقت جنہوں نے میری خوشنودی کے کام کئے ہیں ۔
ان کی زندگی اتنی عظیم ہے کہ میں خالق ہو کر بھی ان کی قسم اٹھا سکتا ہوں، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اور زندگی کا جو لفظ میں بول رہا ہوں لفظ’’ عَمر‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے،تو اس میں یہ بھی ہے خواہ وہ (زندگی) اعلان نبوت سے پہلے کی ہے یا اعلان نبوت کے بعد کی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی کی خالق کائنات جل جلالہٗ نے قسم اٹھا کر یہ واضح کر دیا کہ ان کے بارے میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ فلاں موقع پر ان کو فلاں جھڑکی میری طرف سے ملی، یا معاذ اللہ اس طرح کا کوئی سلسلہ ہوا، نہیں، بلکہ پوری کی پوری زندگی اتنی عظیم ہے اور مومن کے لیے ماننا لازم ہے کہ ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو رب ذوالجلال نے اتنا مقام دیا ہے کہ زندگی کے ہر لمحے کے اندر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول بھی ہو رہا ہے اور خالق کائنات صرف اُن پر خوش ہی نہیں بلکہ اُن کی زندگی کے ہر لمحے کی قسم بھی اُٹھا رہا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مقدس زندگی جس کو خالق کائنات نے اس انداز میں بیان کیا، اب ہمارے لئے اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ ہم کبھی بھی زبان کھولتے ہوئے اس مقدس زندگی کے کسی لمحے پر تنقید نہ کریں اور یہ کتنا بڑا ظلم ہو گا کہ اللہ اُن کی زندگی کی قسم اٹھائے اور ہماری زبانوں سے ان کی زندگی کے کسی لمحے پر تنقید ہو کہ فلاں وقت یہ ہو گیا تھا، فلاں وقت وہ ہو گیا تھا۔ خالق کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی قسم اٹھا کر منصب نبوت کی عظمت کو واضح کر دیا ہے اور قیامت تک کے لیے مسلم امہ کے ہر فرد کے لیے یہ لازم کر دیا ہے کہ کبھی بھی ان کی زندگی،ان کی ذات، ان کی صفات اور ان کی کسی بھی حالت کے بارے میں کوئی نازیبا لفظ نہ بولو، اگر کوئی ایسی چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ قسم ہی نہ اٹھاتا، اللہ تعالیٰ خالق ہو کر جو ہر وقت، ہر جہت سے واقف ہے اور ہر لمحے کے پیچھے جو محرکات ہیں وہ بھی جانتا ہے، جب اُس نے ان کی زندگی کو اتنا عظیم قرار دے دیا ہے کہ اس کی قسم اٹھا رہا ہے، مومن تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہے، جب وہ خالق ہو کر اس کی قسم اٹھاتا ہے تو مومن کو اس مقدس زندگی کے ہرلمحے کے بارے میں ہر وقت یہ عقیدہ رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر لمحے کو عظمت والا بنایا ہے اور کوئی سیکنڈ بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی
عیب کی نسبت کی جا سکے۔
بے حساب اجر:
دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ جل جلالہٗ نے ارشاد فرمایا:
وَ اِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ … بے شک تمہارے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہونے والا ہی نہیں۔
(القرآن الکریم، سورۃ القلم، رقم السورۃ: 68، رقم الآیۃ: 3)
’’ غیر ممنون‘‘ کا مطلب ہے :غیر مقطوع ، غیر منقوص جس میں کبھی نقصان نہیں ہو گا ،کبھی کوئی کمی نہیں ہو گی۔
خالق کائنات جل جلالہٗ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا اجر عطا فرمانے والا ہے اور ایسے جملے اور ایسی آیت کے ساتھ اللہ نے اس بات کو بیان کیا ،جس میں تاکید بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے معاملات کو بھی خالق کائنات جل جلالہٗ نے یوں بیان کیا ہے:
ایک تو ہے ایمان والوں کے لیے اجر:
اِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ
(القرآن الکریم، سورۃ التین، رقم السورۃ: 95، رقم الآیۃ: 6)
ایمان والوں کے لیے بھی اجر غیر ممنون کو بیان کیا گیا ہے، لیکن بالخصوص ایک ذات کو معین کر کے یہ بتا دیا کہ تمہارے اجر میں کوئی کمی نہیں ہے اور تمہارا اجر بے حساب ہے۔
وہ غیر مقطوع ہے، کبھی اس کا اختتام ہو گا ہی نہیں اور کبھی اس کی انتہا ہی نہیں ہو گی، یہ وہ خالق کائنات کا اعلان ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام نبوت کے لحاظ سے ،کہ خالق کائنات اتنی عظمتیں دینے والا ہے کہ جن عظمتوں کا کنارہ کوئی انسان معلوم کر ہی نہیں سکتا ، واضح اور کثیر عظمتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کر دی گئیں ہیں۔
تو کسی بندے کی کیا مجال کہ ان عظمتوں کے انقطاع کے لحاظ سے بات کرتا ہوا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی تنقید کرے یا کسی عیب کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف کرے۔
خالق کائنات نے اس آیت کریمہ کے اندر بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور صفات
اور آپ کے کردار اور آپ کے افعال کے لحاظ سے جو ہر قسم کے عیب کی نفی ہے ،اس نفی کو رب ذوالجلال نے واضح فرما دیا ہے۔
بالخصوص اس مقام پر یہ بات بھی بڑی قابل غور ہے کہ خالق کائنات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی بڑی شان عطا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے اس مقام پر یہ فرما رہا ہے:
وَ اِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ
تویہ اصل میں جواب تھا ،
نٓ وَ الْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ ۔ مَا أَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ … (ترجمہ: قلم اور ان کے لکھے کی قسم۔ تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں)
(القرآن الکریم، سورۃ القلم، رقم السورۃ: 68، رقم الآیۃ:1-2)
وَ اِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ :آپ اللہ کی نعمت کی وجہ سے مجنون نہیں ہیں۔
مطلب کیا تھا کہ آپ کی صفتیں جب بیان ہو رہی ہیں، اُس وقت بھی آپ کے اجر میں کوئی کمی نہیں لیکن جب آپ کسی کے اعتراض کا بوجھ اٹھاتے ہیں، کوئی شخص آپ یہ تنقید کرتا ہے، اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! اُس کی گور، گردن اس تنقید سے جہنمی بن جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس میں بھی تمہاری شان رکھی ہے کہ وہ جتنی آپ پر تنقید کرے گا، اللہ تعالیٰ اتنا ہی آپ کو بے حساب اجر عطا فرمائے گا ، چونکہ پیچھے تنقید کا معاملہ تھا کہ کچھ لوگوں نے جب آپ کو مجنون کہہ کر آواز دی تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ہم نے آپ کی شان اتنی عظیم بنا دی ہے کہ یہ معاملہ تو ایسا ہے کہ یہ شخص اپنی طرف سے کوئی بات کرتا ہے تو اُس کے لیے جو وعید ہو گی اور جو عذاب ہو گا وہ اپنی جگہ لیکن تمہارے لیے اس میں کوئی خسارہ نہیں ہے، ہم نے اس پر بھی تمہارے لیے ایسے اجر کا اعلان کر رکھا ہے کہ بے حساب اور بغیر اعداد و شمار تمہیں عطا ہونے والا ہے، جس میں کبھی بھی کوئی کمی واقع نہیں ہو گی اور جس کا کبھی بھی اختتام نہیں ہو گا ۔
صاحبِ خلق عظیم:
خالق کائنات جل جلالہٗ نے اسی کے فوراً بعد فرما دیا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ … اور بے شک آپ خلق عظیم پہ ہیں۔
(القرآن الکریم، سورۃ القلم، رقم السورۃ: 68، رقم الآیۃ: 4)
حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ خلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یوں ہے جیسے مولیٰ کے لیے مملوک کی حیثیت ہوتی ہے ۔
(التفسیر الکبیر، سورۃ القلم، رقم السورۃ: 68، رقم الآیۃ: 4، ج:30، ص:71)
خالق کائنات نے تمام اچھے اخلاق کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یوں بیان فرما دیا ہے۔
اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا:
یٰس۔ وَ الْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
(القرآن الکریم، سورۃ یس، رقم السورۃ: 36، رقم الآیات: 1-2-3-4)
یہاں پر جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت ہے، اس کو خالق کائنات جل جلالہٗ نے حتمی طور پر بیان فرما دیا، آپ سیدھے راستے پر ہیں، ہر وقت آپ کو ثبات حاصل ہے اور دوسرے مقام پر خالق کائنات جل جلالہٗ نے یہ بھی فرما دیا:
اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍ
(القرآن الکریم، سورۃ الحج، رقم السورۃ: 22، رقم الآیۃ: 67)
آپ صراط مستقیم پر بھی ہیں اور ہدایت مستقیم پر بھی ہیں، تو ان آیات کے اندر اُس شان کا اظہار کیا جو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے ۔
اور صرف یہ ہی نہیں سینکڑوں آیات بلکہ پورا قرآن مجید ہی ایسا ہے جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کو بیان بھی کر رہا ہے اور اس چیز کو بھی ہمارے لئے واضح کر رہا ہے کہ ہمارا عقیدہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت کے لحاظ سے کتنا واضح ہونا چاہیئے کہ نہ تو آپ کی ذات پر کوئی تنقید ہو اور نہ ہی آپ کی صفات پر کوئی تنقید ہو، نہ ہی آپ کی تعلیمات پر تنقید ہو، اور نہ ہی تنقید واضح لفظوں میں ہو اور نہ ہی اشارہ اور کنایہ کے لحاظ سے ہو، اور کسی طرح بھی کوئی ایسا انداز ہی نہیں ہونا چاہیئے کہ جس سے یہ لگے کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت پر کوئی کلمہ کہا جا رہا ہے، اس انداز میں ہر وقت ماننا لازم ہے کہ کسی بھی عیب کی نسبت، کسی بھی معمولی سے عیب کی نسبت ،آپ کی ذات و صفات اور کردار کی طرف نہ ہونے پائے، تو یہ وہ عقیدہ ہے جو قرآن و سنت نے مومن کے لیے واضح کیا ہے۔
اب اس سلسلے میں مسلم شریف کی ایک حدیث شریف عرض کرتا ہوں، جس سے یہ ثابت اور واضح ہو گا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس پر کسی کو تنقید کرنے کی کوئی گنجائش مل جائے۔
فرمانبردار شیطان:
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ:
مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ وَ قَدْ وُکِّلَ بِہ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے اجتماع میں بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ کرام سے ارشاد فرما رہے تھے اور یہ خطاب پوری انسانیت کو تھا کہ اے انسانو ! تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان بھی ہوتاہے اور ایک فرشتہ بھی ہوتاہے ۔فرشتے کی ڈیوٹی بھی انسان کے ساتھ لگا دی گئی ہے اور جن کی بھی ڈیوٹی انسان کے ساتھ لگا دی گئی ہے۔
یہاں ’’جن‘‘ سے مراد: شیطان اور اُس کی ذریت ہے۔ ہر بندے کے ساتھ شیطان کی بھی ڈیوٹی ہے اور فرشتے کی بھی ڈیوٹی ہے ۔ فرشتہ اُس کو نیکی کی طرف مائل کرتا ہے اور شیطان اُس کو بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر وقت یہ دونوں انسان کے لیے قرین ہیں، جو انسان کے ساتھ رہتے ہیں ۔
اگر فرشتہ غلبہ پاجاتا ہے تو وہ بندہِ مومن اچھی عادات والا ہوتا ہے اور اگر شیطان کے کہنے کو انسان زیادہ مانتا ہے تو وہ فاسق و فاجر ہوتا ہے، یا کافر بن جاتاہے ،جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صحابہ کرام کے سامنے بیان کی تو عجیب سوال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا:
وَ اِیَّاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم
اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ منصب نبوت کو کتنا حساس سمجھتے تھے۔آج کا کوئی شخص ہو سکتا ہے یہ کہہ دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کے لیے یہ بیان کر دیا ہے تو پھر آپ کا بھی یہی حکم ہو گا
۔
صحابہ کرام نے پہلے جملے سے یہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ باقاعدہ پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ کی ذات مبارکہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ آپ کے ساتھ کسی شیطان کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے، جو آپ کے ساتھ رہتا ہو اور معاذ اللہ آپ کو وسوسے ڈالتا ہو۔
جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَ اِیَّایَ … ہاں،میرے صحابہ! میرے ساتھ بھی ایک شیطان کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی،
اِلَّا أَنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِیْ عَلَیْہ … لیکن میرے صحابہ پھر کیا ہوا، شیطان میرے پاس آیا تو تھا لیکن شیطان ہو کے بھی میرے قرب کی وجہ سے وہ شیطان رہ نہیں سکا ۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف میری مدد کی، اُس کی میرے ساتھ ڈیوٹی لگی تو تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی پاور دی ہے، اتنی طاقت دی ہے، اتنا رعب دیا ہے کہ:
فَأَسْلَمَ … وہ شیطان ہو کے بھی میرا کلمہ پڑھ گیا ۔
فَأَسْلَمَ … اُس نے کلمہ پڑھ لیا، وہ بھی مطیع ہو گیا اور فرمانبردار ہو گیا، وہ تھا تو شیطان لیکن جب میرے پاس آیا تو میری صحبت اس پر بھی اثر کر گئی۔ وہ اور ہیں کہ جن پر شیطان کے تیر چلتے ہیں اور شیطان وسوسات ڈالتا ہے اور راستے سے بھٹکاتا ہے اور اللہ کی اطاعت سے دور لے جاتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے ساتھ شیطان کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور یہ تقاضا تھا تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہ محبوب وہ ہیں جن کے خلاف شیطان حملہ کرنے نکلا تھا لیکن اللہ نے ان کو اتنی طاقت دی ہے کہ وہ شیطان کافر نہیں رہ سکا بلکہ اس نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے ۔
فَلَا یَأْمُرُنِیْ اِلَّا بِخَیْرٍ … اب مجھے شیطان مشورہ تو دیتا ہے مگر نیکی کا مشورہ دیتا ہے ، کبھی بھی مجھے مشورہ برائی کا نہیں دیتا، کبھی بھی مجھے مشورہ غفلت کا نہیں دیتا، کبھی بھی مجھے بھٹکانے کی بات نہیں کرتا، کبھی بھی مجھے راہ راست سے ہٹانے کی بات نہیں کرتا، وہ میرے ساتھ لگایا گیا تھا، جو فرشتے میرے ساتھ ہیں اُن کی عظمتیں اپنی جگہ پر ہیں کہ انہیں میری وجہ سے اتنی عظمتیں ملی ہیں لیکن وہ شیطان جس کی میرے
ساتھ ڈیوٹی لگائی گئی تھی، اس نے میری اطاعت کو قبول کر لیا ہے اور اُس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب: صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، باب: تحریش الشیطان و بعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس و أن مع کل انسان قرینا، ج:8، ص:138، رقم الحدیث:7286)
اب شیطان ہونے کے باوجود جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تو اب صورتحال یہ ہے کہ اب یہ مجھے اچھائی کا مشورہ دیتا ہے، کبھی بھی مجھے برائی کا مشورہ نہیں دیتا، اب اس حدیث صحیح سے وہ سارے وسوسات دور ہو گئے جو آج کے کچھ لوگوں کی اختراع ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی معاذ اللہ ہم جیسے ہیں، اُن پر بھی شیطان کا حملہ ہو جاتا ہے، وہ بھی یہ کر سکتے ہیں، وہ بھی فلاں کام کر سکتے ہیں، اُن سے بھی فلاں صغیرہ ہو سکتا ہے یا فلاں مقام پر بھٹکنے کا احتمال موجود ہے، جب میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ ڈیوٹی تو اُس کی میرے ساتھ تھی اور وہ بھی تقاضا خداوندی کے مطابق تھی، لیکن اللہ نے مجھے اتنی طاقت اور اتنی توفیق دی ہے کہ میں نے اس پر اپنے ایسے اثرات مرتب کر دئیے ہیں کہ:
فَأَسْلَمَ … اب اُس نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔
جس نے بھٹکانا تھا اب وہ خود راہ راست پہ آ چکا ہے تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ آپ کی ذات و صفات اور آپ کے کردار اور آپ کے افعال اور معمولات میں ایسی کمی ہو، جو دوسرے عام لوگوں میں معمولی، خلاف اولی باتیں آ سکتی ہیں ۔ ایسا اب وہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، اس واسطے کہ جو بھٹکانے والا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کے عکس کی وجہ سے راہ راست پہ آ چکا ہے۔
صحیح مسلم میں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
فَأَسْلَمَ
اس کو محدثین کرام نے دو طرح پڑھا:
٭… ایک طریق:
فاُسْلَمُ: مضارع کے صیغے کے ساتھ مجہول پڑھا گیا، اب اس وقت اس کا معنی یہ ہو گا کہ میرے ساتھ شیطان تو لگایا گیالیکن میں اس سے محفوظ رکھا گیا، اُس کا کوئی بس مجھ پر نہیں چلتا، میں سلامت رکھا گیا ہوں، میں اس سے سالم ہوں، مجھ پر اُس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
Tags:
others