Biography Hazrat Molana Yar Muhammad Bandyalvi تعارف استاذ العلما مولانا یار محمد بندیالوی

یار محمد بندیالوی، استاذالعلما مولانا

اسمِ گرامی: یار محمد۔

نسب

آپ کا نسب اس طرح ہے:

یار محمد ابنِ جناب میاں سلطان محمد ابنِ میاں شاہنواز۔



ولادت:

فقیہِ جلیل اُستاذ العلما حضرت علامہ یار محمد ﷫ ۱۳۰۴ھ مطابق ۱۸۸۷ء میں بند یال شریف ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔

تعلیم:

موضع پکا ضلع میانوالی میں قرآنِ مجید حفظ کیا،فارسی کی ابتدائی کتابیں ایک مقامی عالم سے پڑھیں، صرف ونحو اور دیگر فنون کی کتابیں امام الصرف والنحو مولانا محمد امیر دامانی﷫ مصنّفِ قانونچہ عجیبیہ المعروف بہ قانونچہ امیر یہ سے پڑھیں،الفیہ ابن مالک پڑھنےکے لیے مولانا ثناء اللہ کی خدمت میں موضع پنجائن ضلع جہلم میں حاضر ہوئے،آپ کو الفیہ ابن مالک (ایک ہزار عربی اشعار کا مجموعہ جس میں صرف ونحو کے مسائل بیان کیے گئے ہیں) پر اس حدتک عبور حاصل تھا کہ جس مسئلے کی ضرورت ہوتی وہ مصرعہ پڑھ دیتے جس میں وہ مسئلہ ہوتا ۔

اِس کے علاوہ مولانا غلام احمد حافظ آبادی صدر مدرّس ﷫جامعہ نعمانیہ، لاہور سے استفادہ کیا،کچھ عرصہ جامع مسجد فتحپوری دہلی میں بھی رہے ،پھر اعلیٰ تعلیم کا شوق دل میں لیے ہوئے مرکزِ علم و عرفان بریلی شریف،اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا بریلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب امامِ اہلِ سنّت اپنا تمام وقت تصنیف و تالیف پر صرف فرما رہے تھے،علالتِ طبع اس پر مستزاد تھی،اس لیے اعلیٰ حضرت﷫ کے ایماء پر مولانا ہدایت اللہ جو نپوری﷫ تلمیذِ رشید حضرت مولانا علامہ محمد فضلِ حق خیر آبادی﷫ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منطق و فلسفہ کی انتہائی کتابیں (اُفق المبین،شرحِ اشارات وغیرہ) پڑھنے کے علاوہ تکمیل علوم کی۔ مصنّفِ بہارِ شریعت صدر الشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی آپ کے ہم درس تھے۔ آپ نے حکیم اجمل خاں کے مدرسے میں طب کا بھی با قاعدہ درس لیا۔

بیعت و خلافت:

آپ سلسلۂ عالیہ چشتیہ صابریہ میں مولانا صوفی محمد حسین الٰہ آبادی﷫ خلیفۂ اعظم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی﷫ کے دستِ حق پر ست پر بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے۔

درس و تدریس/ خدمتِ مسلک:

عُلوم سے فراغت کے بعد، آپ نے الٰہ آباد، رام پور، بھوپال اور ٹونک وغیر ہ مقامات میں بیس بائیس سال تک درس دیا، پھر بندیال تشریف لے آئے اور مسلکِ اہلِ سنّت کی بھر پور تبلیغ فرمائی۔ بڑے بڑے مخالفین آپ کے سامنے آنے سے گھبراتے تھے۔

تلامذہ:

سیکڑوں اجلہ اہلِ علم آپ سے مستفید ہوئے، جن میں سے یہ حضرات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:

۱۔ حضرت علامہ مولانا سیّد سلیمان اشرف (پروفسیر یونیورسٹی،علی گڑھ)﷫۔

۲۔ شیخ القرآن حضرت علامہ مولانا محمد عبد الغفور ہزاروی﷫۔

۳۔ سلطان المدرسین حضرت علامہ مولانا عطا محمد چشتی گولڑوی بندیالوی۔

صاحبزادگان:

آپ کے صاحبزادگان مولانا عبد الحق اور مولانا فضل حق متبحر عالم ہیں اور تدریس میں مصروف ہیں۔

جامعہ امدادیہ مظہر یہ،بندیال:

پاکستان کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ امدادیہ مظہر یہ(بندیال شریف) آپ کی یادگار ہے۔یہ مدرسہ آپ کے صاحبزادگان حضرت مولانا محمد عبد الحق بندیالوی اور حضرت مولانا محمد فضل حق بندیالوی کے زیرِ اہتمام نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔اس دار العلوم نے اہلِ سنّت و جماعت کو فضلاء اور مدرسین کی بہت بڑی جماعت مہیا کی ہے،سلطان المدرسین،استاذ العلماء الکاملین حضرت مولانا عطا محمد چشتی گولڑوی﷫ اس دار العلوم میں طویل عرصے تک علم و فضل کا در یا بہا تے رہے۔

تحریکِ پاکستان:

حضرت علامہ یار محمدبندیالوی﷫ نے تحریک پاکستان میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ ضلع سرگودھا کے اکثر امراء یونی نسٹ تحریک کے حامی ہونے یا خضر وزارت کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے تحریک ِپاکستان اور مسلم لیگ کے سخت خلاف تھے۔ اس کے باوجود آپ﷫ نے تحریکِ پاکستان کے حق میں زور دار تقریریں کیں۔

طبقۂ امراء کے ماتھے شکن آلود ہوئے لیکن آپ نے کسی کی پروا کیے بغیر فرمایا:

’’ایک طرف اسلام کا جھنڈا ہے اور دوسری طرف کفر کا،اب تمہاری مرضی ہے جسے چاہو اختیار کر لو۔‘‘

چنانچہ آپ کی تحریک پر ہزارہا افراد مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔

وصالِ پُر ملال:

۲۲؍ محرم الحرام ۱۳۶۷ھ مطابق ۶؍ دسمبر۱۹۴۷ء کو فقیہِ عصر مولانا یار محمد بند یالوی قُدِّسَ سِرُّہٗ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

مزارِ پُر اَنوار:

آپ کا مزار شریف بندیال (ضلع سرگودھا) میں ہے۔

عرس مبارک:

ہرسال ماہِ محرم میں آپ کا عرس منایا جاتا ہے جس میں ملک کے نامور مقررین اپنے خطابات سے حاضرین و سامعین کے قلوب کو منوّر فرماتے ہیں۔

مآخذ:

1۔ غلام مہر علی، مولانا: ’’الیواقیت المہریۃ‘‘۔

2۔ غلام رسول سعیدی، علامہ مولانا: ’’حیاتِ استاذ العلماء بند یالوی‘‘۔

3۔ عبدالحکیم شرف قادری، علامہ: ’’تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت‘‘۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی