Biography Hazrat Molana Syed Ahmed Sarikoti بانی جامعہ احمدیہ سنیہ بنگلا حضرت علامہ سید احمد سریکوٹی

زبدۃ الاصفیاء حضرت مولانا سید احمد سری کوٹی رحمۃ اللہ علیہ

نامونسب: اسم گرامی:حضرت علامہ مولانا سید احمد۔لقب:عمدۃ العلماء،زبدۃ الاصفیاء۔موضع’’سری کوٹ‘‘علاقہ کی نسبت سے’’سری کوٹی‘‘کہلاتےہیں۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:مولانا سید احمد شاہ بن سیدصدرالدین شاہ علیہماالرحمہ۔آپ خاندان ِ ساداتِ کےچشم وچراغ تھے۔آپ کاعلاقہ موضع سری کوٹ ہری پور ہزارہ سےپینتیس کلومیٹرمغرب کی جانب واقع ہے،آپ کی جائے ولادت ومدفن بھی یہی ہے[1]۔

تاریخِ ولادت: آپ کی تاریخِ ولادت کسی کتاب میں نہیں ملی۔تقریباً اٹھارویں صدی عیسوی کےوسط میں ہوئی ہوگی۔

تحصیلِ علم: ابتدا ءً تجوید کےساتھ قرآ ن کریم حفظ کیا،بعد ازاں اپنےعلاقےکےجیدفضلاءسےتحصیل علم کیا،اوردارالعلوم دیوبندجاکردرس حدیث لیا۔مولوی محمودالحسن دیوبندی کےاول تلامذہ میں سےتھے،وہ ان پر فخر کیاکرتےتھے[2]۔مگر وہاں سےجلدہی واپس ہوئے،دیوبند کےغلط ماحول کاآپ نےمشاہدہ کرلیاتھا۔اس لئے دیوبندیوں سےسخت بےزارہوگئے تھے،اور اپنی مجلس میں ان کاشدیدرد فرماتےتھے[3]۔آپ ﷫اپنے وقت کےجیدعالم اور شیخ طریقت تھے۔



بیعت وخلافت:آپ غوث زماں حضرت خواجہ عبدالرحمن چھوہروی﷫(بانیِ دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ،ومصنف مجموعہ صلوٰۃ الرسول)کے

دستِ حق پرست پرسلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔کچھ عرصہ بعد خلافت واجازت سےمشرف ہوئے۔

سیرت وخصائص:جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،عارف اسرار ربانیہ،قدوۃ العلماء،زبدۃ الاصفیاء،حامیِ دینِ سیدالانبیاء حضرت علامہ سید احمدسری کوٹی﷫۔آپ﷫وقت کےاجل عالم اور نہایت متقی اور پرہیز گارصوفی تھے،علم و فضل کے با وجود اپنے شیخ طریقت غوث زماں حضرت خواجہ عبد الرحمن چھو ہروی ﷫سےبے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لئے آپ اپنے مرشد کامل کی خد مت میں کوئی وقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے۔تکمیلِ علوم کےبعدایک عرصہ تک افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤ ن،زنجبار،اورممباسہ میں عرصہ ٔ دراز تک تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ 1339ھ/1920ءمیں پھر تبلیغ دین کے لئے رنگون( موجودہ نام یانگوں،برماکاسب سےبڑاشہر،اور سابق دارالخلافہ)تشریف لے گئے اور مرکزی مسجد،مسجد نا خدا میں امام وخطیب مقررہوئے۔آپ کی شخصیت اس قدر پر کشش تھی کہ وہاں کے لوگ جوق درجوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرراہِ ہدایت سیکھنےلگے۔آپ کی تبلیغ وتلقین کایہ اثرہواکہ شراب وکباب کےرسیا،نہ صرف فسق و فجورسےتائب ہو گئےبلکہ نمازی اورتہجدگزاربن گئے[4]۔آپ کو اپنے شیخ سے بڑی عقیدت تھی چنانچہ آپ اکثر و بیشتر محبت بھرے الفاظ میں مرشد ِکامل کا تذکرہ فرماتےرہتے،اس کااثریہ ہواکہ بہت سے لوگوں نےدرخواست کی کہ آپ حضرت خواجہ چھوہری قدس سرہ کو دعوت دیں تاکہ ہم ان کی زیارت مشرف ہوں اور حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کریں ۔آپ نے یہ صورت حال حضرت خواجہ چھوہروی قدس سرہ کی خدمت میں لکھ بھیجی۔انہوں نے جو اباً اپنا ایک رو مال بھجوادیااورفرمایاجوشخص سحری کےوقت باوضو ہوکراس پر ہاتھ رکھےگاوہ میرامریدبن جائےگا۔اس طرح بے شمار افراد حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے،تین سال بعد آپ نےاجازت و خلافت سے مشرف فرمایا[5]۔

1344ھ/1925ء میں آپ نے چٹا گانگ میں انجمن شوریٰ قائم کی اور جامعہ احمدیہ سنیّہ کی بنیاد رکھی۔جامعہ کی سہ منزلہ حسین و جمیل عمارت میں سینکڑوں طلباء کیلئے رہائش کا انتظام کیاجہاں جدیدنصاب کےمطابق علومِ دینیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔بعدازاں آپ کےفرزندارجمند حضرت مولاناصاحبزادہ سیدمحمدطیب صاحب﷫کی سرپرستی میں جامعہ طیبہ ڈھاکہ کی تعمیر بڑی تیزی سے جاری تھی کہ غداروں کی غداری کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان ہم سے جداہوگیااوربنگلہ دیش کےنام سےایک علیحدہ ملک بن گیا۔ نہ معلوم اس وقت وہاں دینی مدارس اور مساجد کی کیا حالت ہوگی[6]۔(اِس وقت2017ء میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجدایک عورت کی حکومت ہے،وہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،لیکن نظام سیکولرازم کاہے،مذہبی لوگوں کوتختۂ دارپرلٹکادیاجاتاہےاورظالمانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔تونسوی ؔغفرلہ)۔

مولانا سیداحمد﷫چٹاگانگ میں مدرسہ قائم کرنےکےباوجوداپنےشیخ و مرشد کےقائم کردہ دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور میں دلچسپی لیتےرہے۔چنانچہ دار العلوم کی موجودہ بلند و بالا عمار ت میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔اسی طرح پیرومرشدکی کتاب’’مجموعہ صلوٰ ۃ الرسول‘‘کثیر رقم خرچ کرکےاسےپہلی بارچھپوایا۔ورنہ نامعلوم یہ کتاب بھی دیگراکابرین کےمخطوطات کی طرح ناپید ہوجاتی۔آپ نےتقریباًسولہ سال تک مشرقی پاکستان میں قیام کیا۔اس عرصےمیں بلا مبالغہ لاکھوں افراد حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔آپ کےمریدین کا امتیازی نشان مسلک اہل سنت پر ثابق قدمی،پاکستان سےسچی محبت اور دین ِمتین کے ساتھ گہرا لگاؤتھا۔اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہےکہ شہید ِو فاجناب فضل القادر چودھری مرحوم آپ کے نیاز مندوں میں سے تھے[7]۔انہوں نےدارالعلوم رحمانیہ کاحسن انتظام دیکھا تو محکمہ تعلیم سےپچاس ہزارروپے کی گرانقدر رقم دارالعلوم کومرحمت فرمائی۔سابق صدرپاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں مرحوم نےدارالعلوم کاوزٹ کیااورایک جم غفیرسےخطاب فرمایا،اور دولاکھ رقم عطیہ دیا[8]۔

آپ﷫نےتمام عمر ذکر الہی،عبادات،تبلیغ اسلام،اقامتِ دین،خدمتِ خلق اور اشاعت سلسلہ عالیہ قادریہ میں گزاری۔تقریباً سوبرس عمر پائی مگر وفات تک ایک لمحہ بھی غفلت وسستی میں نہیں گزرا۔آپ ہمت،استقلال،صبراور شکرکےپیکرتھے۔آپ سےسینکڑوں کرامات کاظہور ہوا۔مگرآپ استقامت فی الدین کوکرامت پر ترجیح دیتےتھے۔آپ کےدوفرزندہوئے۔بڑےفرزندحافظ سیدمحمد طیب صاحب﷫،شریعت وطریقت میں بلندمقام رکھتےتھے۔والدکےحقیقی جانشین اور ملت اسلامیہ کےنقیب تھے۔

تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروزجمعرات،11/ذیقعدہ1380ھ،مطابق 27/اپریل1961ءکوہوا۔آپ کی آخری آرام گاہ ہری پورشہرسے

مغرب کی جانب اٹھارہ میل کےفاصلےپر’’شتالو شریف،سری کوٹ‘‘میں ہے۔

[1] تذکرہ علماء ومشائخِ سرحدجلد دوم:289/تذکرہ اکابرعلماءِ اہل سنت:169

[2] تذکرہ علماء ومشائخِ سرحدجلددوم:289

[3] تذکرہ علمائے اہل سنت:48/تذکرہ اکابر اہل سنت:169

[4] راریخ محمد مظہر صدیقی قادری ، مولانا : مجموعہ شجرئہ عالیہ قادریہ حافظیہ ، مطبوعہ ۱۳۹۵ھ ، ص ۹

[5] تذکرہ علماء ومشائخ سر حد جلددوم:290

[6] تذکرہ اکابر اہل سنت:170

[7] تذکرہ اکابر اہل سنت:170

[8] تذکرہ علماء ومشائخِ سرحد جلد دوم:290/تذکرہ علمائے اہل سنت:48

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی