Ala Hazrat Hangal Sharif Full History | Kashmiri Ala Hazrat | Maqbool Ahmed Shah Qadri شمس العلما پیر سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ

 شمس العلماء کی حیات طیبہ کا اجمالی خاکہ



رازی دوراں غزالی زماں حامیٔ سنن ہادیٔ دکن آئینۂ ذات رضا شمس العلما پیر سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ  نے ہند و بیرون ہندمیں تبلیغ اسلام اور اشاعت اہلسنت و الجماعت کے فروغ اور خوابیدہ قوموں کو جادئہ حق سے ہمکنار کر نےمیں اپنی ساری متاع حیات صرف کی۔ بالخصوص صوبۂ کرناٹک کے ایک چھوٹے سے قصبہ ہانگل شریف میں اپنے دریائے علم و حکمت سے سنیت کا ایسا گلشن سجایا کے آج بھی جتنے پھول اس سرزمین میں کھل رہے ہیں ان سے اہلسنت و الجماعت کی خوشبو آرہی ہے جب کے ہانگل شریف سنیت کا مرکز اور قلع بن چکا ہے جو آج کل لوگوں کے درمیان چھوٹی بریلی سے مشہور و معروف ہے۔

آپ ایک متبحر عالم دین پابند شرع بامقصد مناظر اور باکرامت ولی اور عظیم عاشق رسول تھے ۔شمس العلماء اعلیٰحضرت علامہ پیر سید مقبول احمد شاہ قادری سہروردی علیہ الرحمہ ایثار و انسانیت، اخلاص و مروت، سادگی و شرافت، تقویٰ و طہارت، شریعت و طریقت کے ساتھ صبروتحمل حلم و بردباری کے عظیم پیکر تھے۔ آپ کے علمی اور اعلیٰ اخلاق سے اہل دکن رُشد و ہدایت کی طرف گامزن ہو ئے۔

ہانگل شریف میں آپ کی آمد کے وقت وہاں کے حالات یہ تھے کہ پورا ہانگل اور اطراف و اکناف بدمذہبیت کی جنگل میں دبا ہوا تھا آپ نے اپنے علم و فضل، حکمت و دانائی کے ذریعہ بدمذہبیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مناظروں میں انہیں شکستیں دے کر اس خطے کو دین و سنیت سے منور فرمایا آپ نے اس علاقہ میں پھیلائی دین و سنیت کوقائم رکھنے کیلئے خود کو وقف کردیا حتی کہ تلاشتے تلاشتے کشمیر سے ہانگل شریف تک یکے بعد دیگرے آپ کے بھتیجے، چچا، بھائی سبھی پہونچے کہ آپ کو کشمیر لے جائیں لیکن آپ نے سبھی کو پہچاننے سے انکار کردیا صرف اسلئے کہ اگر کہیں آپ وہاں سے چلے جاتے تو ممکن تھا بلکہ یقین کہ بدمذہبیت پھر سے اپنا کام کردیتی۔

آپ کا نام و نسب اس طرح ہے:

پیر سید مقبول احمد شاہ قادری ابن پیر سید نعمان شاہ قادری ابن پیر سید حضور شاہ ابن سید محمد نور الدین شاہ ابن سید غلام محمد شاہ ابن پیر سید غلام احمد شاہ ابن پیر سید حکیم شاہ ابن پیر سید احمد اللہ شاہ ابن پیر سید محمد صدیق شاہ ابن پیر سید محمد نور الدین شاہ ابن سید محمد لطیف شاہ ابن سید محمد یوسف شاہ ابن سید عبدالبدیع شاہ ابن سید محمد بہاء الدین شاہ ابن سید محمد اسماعیل شاہ (در ملک شام) رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔

آپ کے والد گرامی کا نام پیر سید نعمان شاہ قادری اور والدہ کا نام سیدہ عصمت بانو ہے۔

آپ ۱۳۱۲ ھ مطابق ۱۸۹۲ء میں سر زمین بہشت بے نظیر کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کوٹلری ہند واڑہ میں جلوہ بار ہوئے لیکن آپ کی پرورش و نشو نما ڈنگی وچھہّ تحصیل سوپور میں ہوئی۔ آپ اپنے خاندان میں سب سے حسین و جمیل فرزند دلبند اور حسن و جمال کے پیکر تھے ۔ اسی خوبصورتی کے سبب سارے گھر والے بڑے لاڈ و پیار سے آپ کو’’ لعل جان“ کے نام سے پکارتے تھے۔

آپ بچپن ہی سے صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے ۔ آپ عہد طفولیت میں لہو ولعب سے مکمل عاری اور عام بچوں کی صحبت سے دور رہا کرتے تھے ۔ جس کو دیکھ کر اہل وطن کسی عظیم انسان بننےکی نشاندہی کرتے تھے۔ آپ کم عمری ہی سے نماز کی مکمل پابندی فرماتے تھے۔ جب آپ ادائے نماز کے لیے مسجد جاتے ، جو گھر سے چالیس پچاس قدم دوری پر واقع ہے۔ تو چلتے وقت نگاہ ہمیشہ زمین کی طرف جھکی رہتی۔ دائیں بائیں اوپر نیچے کبھی دیکھتے نہ تھے۔ نہایت شرم و حیا سے گردنِ سعادت جھکی رہتی اور بچپن سے ہی آپ آئینہ ولایت و بزرگی بنے ہوئے تھے۔ کھانا نہایت کم اور بے ضرورت زبان ہی نہ کھولتے ۔

شیخ المشائخ شیخ طریقت تاجدار ولایت و کرامت سراج السالکين زبدۃ العارفين، قدوۃالسالکین ، حضرت سلطان شیخ سہروردی علیہ الرحمہ کے ایک طالب حضور پیر سید نصب الدین غازی سہر وردی کے مریدوں کی سنہری لڑیوں میں آپ نے اپنے کو پرو دیا اور خلعتِ بیعت و خلافت سے شرف یاب ہوئے ۔ اس کے علاوہ آپ دوسرے بزرگوں کے بھی طالب رہے جیسے پیر سید یوسف شاہ قادری علیہ الرحمہ وغیر ہم ۔

آغاز تعلیم:

کشمیری اعلیٰ حضرت نے پانچ سال کی عمر شریف میں اپنے والد بزرگوار ولی کامل حضرت سید نعمان شاہ قادری علیہ الرحمہ سے قرآن مجید پڑھنا شروع فرمایا ۔ تقریباً چھ سال کی عمر مبارک میں تکمیل قرآن مجید فرما کر احکام دین و فرائض اسلام کی واقفیت آپ کو اپنے والد بزرگوار ہی کی تعلیم و تربیت سے حاصل ہوئی تھی۔نحو وصرف کی ابتدائی کتابیں مثلاً نحو میر، صرف میر، میزان و منشعب، پنج گنج وغیرہ کتب کی تدریس اپنے برادر کلاں مولانا پیر سید یوسف شاہ قادری علیہ الرحمہ سے حاصل فرمائی۔ اس سے اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے ڈنگی و چھّہ کے ایک نامور بزرگ مولانا عزیز اللہ صاحب کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ابتدائی عربی کے چند نسخے اور علم فقہ میں کنز الدقائق کیدانی اور نحو وصرف کی چند کتا بیں پڑھیں۔ 

چھ۶ سالہ عمر شریف میں ہی آپ کو ڈنگی وچھّہ سے تین میل فاصلے پر آباد قصبہ’’ سیلو‘‘ میں ایک جلیل الشان عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ احمد اللہ صاحب کے پاس بغرض تعلیم لیجایا جاتا۔ ہر روز آپ کی آمد و رفت اپنے برادر کلاں کی گود میں ہوتی ۔ راہ میں پیاس و بھوک سے بچنے کے لیے دودھ زادِ راہ ہوا کرتا ، جہاں بھوک کا احساس ہوتا اس کو نوش فرما کر سیراب ہو جاتے۔ چند دنوں تک یہ معمول رہا بعدہ بعد مسافت کی وجہ سے حضرت شمس العلماء جاتے وقت خوب سیر ہوکر تناول فرمالیتے اور اس پر شام تک قناعت فرماتے ۔ 

علامہ احمد اللہ صاحب عالم جلیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے مشہور و معروف ماہر طریقت و شریعت اور صوفی باصفا بھی تھے، جن کے فیض بے پایاں نے آپ کو عروج و ارتقاء کی بلند منزل پر گامزن فرمایا ۔ آپ تحدیث نعمت کے طور پرخود ارشاد فرماتے ہیں کہ میں چار سالہ عمر میں اپنے اساتذئہ کرام ( جو اس وقت کے نامور اکابر علماء سے تھے ) سے اپنے بڑوں کی گود میں بیٹھ کر ہی صرفی نحوی صیغہ جات وغیرہ پوچھتا، جس سے اساتذہ تنگ آجاتے۔ آپ کے اساتذہ آپ کی ذہانت و ذکاوت پر حیرت زدہ رہ جاتے ، کہ یہ بچہ اچانک سوال کر بیٹھتا ہے۔

آپ حضرت علامہ شاہ کشمیری سیلو کے بعد مزید تعلیم کے لیے کشمیر کے شہر شیریں نگر کے مدرسہ ’’مدينۃ العلوم ‘‘ تشریف لے گئے،اس کے بعد امرتسر کا سفر کیا، امرتسر کے مفتی اعظم حضرت علامہ غلام مصطفیٰ صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر پورے چھ سال تک فضیلت کی تعلیم میں مصروف و منہمک رہ کر علوم و معارف کے خزانوں کو اپنے سینے میں سمو لیا۔دو دورانِ قیام دہلی حکیم اجمل خاں سے علم حکمت میں گراں قدر معلومات حاصل کیں ، اور علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ اور قیمتی سرمایہ اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ حتی کہ آپ امام الحکماء و حذقاء بن گئے ۔ پھر آپ اپنے استاذ گرامی محدث کبیر علامہ امجد علی صاحب قبلہ کے اشارہ پر شہر’’ مینڈو“ کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر مینڈو میں جامع معقولات و امام النحو علامہ ماجد علی صاحب قبلہ سے’’ افق المبین “ پڑھا اور اس کے اہم مباحث میں کامل رسوخ اور عروج بام حاصل فرمائی۔ نیز علم دین کی تشنگی بجھانے کے لیے حضرت مولانا عبد الصمد و حضرت مولانا غلام جیلانی میرٹھی کی بارگاہ میں سر زمین میرٹھ پر حاضر ہوئے اور علم منطق و قرآت کی ارتقاء کے لیے آپ حضرت مولانا حکیم محمد برکات احمد ٹونکی سے فیض حاصل کیا۔ آپ تعلیم و تعلم کے عظیم کمالات کے حامل تھے۔ 

شادی مبارک:

آپ کی شادی مبارک نوپورہ قرب بارہ مولہ تحصیل سوپور میں ۱۳۲۵ھ / ۱۹۰۵ء کو ہوئی۔ سُسر کا نام پیر سید عبدالعزیز شاہ قادری تھا۔ اور اعلیٰ حضرت کشمیری کی اہلیہ محترمہ کا اسم گرامی حضرت سیدہ مہتاب بانو علیہا الرحمہ تھا۔

دُختر ( صاحب زادی): 

اعلیٰحضرت کشمیری امرتسر وغیرہ میں زیر تدریس تھے ۔ اُس وقت آپ کو بذریعہ خط اطلاع ملی کہ آپ کے ہاں ایک دختر پیدا ہوئیں۔ جن کا طفولیت ہی میں وصال ہو گیا ۔ انا للہ وانا اليہ راجعون ۔ جنہیں اعلیٰحضرت کو دیدار کرنے کا موقع بھی نہ ملا محض خبرِ ولادت اور اطلاع انتقال ملی ۔ 

تدریسی زندگی :

آپ کی تعلیمی زندگی کے بعد تدریسی زندگی کا آغاز ہوتا ہے تو شاہ کشمیری نے سب سے پہلے بارگاہِ ہند الولی خواجہ غریب نواز اجمیری میں حاضری دی اور وہاں پر سب سے پہلے اپنی علمی کاوش کو بارگاہ خواجہ میں نذر کرنے کے لیے مدرسہ معینہ میں خدمت اختیار کرلی ۔

تبلیغ و ارشاد:

آپ میدان تبلیغ اور اشاعت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ بعد فراغِ علومِ دین، فی الہند و مصر۔ حاضرِ در بارِ خواجئہ اجمیری علیہ الرحمہ ہو کر دو ۲ سال وہاں قیام فرما کر پھر مخصوص اجازت و انعاماتِ خواجہ سے مشرف ہو کر برائے طلبِ دعائے سرکارِ مجدد چودھویں صدی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی مولیٰنا شاہ امام احمد رضا خانصاحب علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بریلی شریف حاضر ہوئے۔ بہرحال آپ کی نگاہِ شفقت و کرم سے سارے بلادِ ہند خصوصاً آسام، برما، رنگون ، کلکتہ، بنگال، حیدر آباد، مدراس، لنکا، سیلون، ساحلِ عرب کے سب صوبے پھر ممبئی پھر میسور، بنگلور ۔۔۔۔دوسرے لفظوں میں گل متحدہ ہندوستان بذات خود تبلیغی اسفار فرماتے رہے۔ ساری عمر شریف کسی سے ایک کوڑی نہ لی نہ طلب کیا اور نہ ہی کسی تنظیم کا تعاون لیا۔ 

  ہبلی میں اہلسنت کی عظیم پہلی کانفرنس جس میں دنیا ئے سنیت کے عظیم صف اوّل کے علماء و مفتیان کرام اور اصحابِ ولایت و کرامت موجود تھے۔ جیسا کہ حضور سید العلماء، حضور مفتی اعظم ہند، حضور محدث اعظم ہند، حضور برہان الحق خلیفہ اعلیٰحضرت وغیر ہم اکابرین امت نے جب دیکھا تو تعجب خیز انداز میں فرمایا’’ سبحان اللہ ! سید نا مقبول احمد اس قدر جلد اس منزل علیاء پر فائز ہو گئے ۔۔۔ اللہ اللہ ! ان بزرگوں میں جن کی ولایت مسلّم تھی وہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ۔ علماء و مفتیان اور دیگر بزرگان سنیت کی محفل میں شاہ کشمیری کو لایا گیا تو حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’یہ وہ ولایت و الے آفتاب و مہتاب ہیں جن کی نگاہ مہتابیت جس پر پڑ جائے وہ کرامت کا دھنی بن جائے۔ ہاں ہاں! خبر دار آپ پر کسی قسم کا اصرار یا آپ کے منشاء کے خلاف کام نہ کرو بلکہ ان کی رضا اور منشاء کے مطابق ان میں پڑے رہو ۔ ورنہ یہ وہ آفتاب ہے اگر اپنی جلالی شعاع غیظ و غضب والی نگاہ ڈالدے تو تمہارا شہر ہبلی کوئلہ بن جائے گا۔“

آپ نے عالمی پیمانے پر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ عالمی پیمانے پر آپ کی خدمات کے اثرات مرتب ہوئے۔آپ کا اصل مقصد یہ تھا کہ یہاں ایک عظیم جامعہ بنایا جائے جس میں معتمد علماء پڑھیں اور تحقیق فی الفقہ اور دیگران علوم کو کمال کی انتہا تک پہنچایا جائے اور آپ فرماتے تھے۔ علم الادیان کے ساتھ علم الابدان کی بھی تعلیم دی جائے جس میں علمائے کاملین کو آپ تعلیم دیں اور علماء اللہ پاک کی زمین پر علم دین کی اشاعت اور ابلاغ میں آٹھوں پہر سرگرداں رہیں۔بحمدہٖ آپ کے روضے کے سامنے آج  دارالعلوم اہل سنت مقبول احمدی کے نام سےایسا ادارہ موجود ہے۔

آپ کبھی کرسی یا اس طرح کی چوکی پر بیٹھ کر خطاب کرنا پسند نہ فرماتے ۔ چونکہ بسا اوقات بے احتیاطی سے پیر پر پیر بھول سے چڑھ جاتا ہے۔ جس سے دین متین کی محترم باتوں کو اس انداز سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی لیے گو کاک میں پیر مبارک میں شدید درد کے باوجود آپ نے خطاب کھڑے ہو کر فرمایا۔ ہرگز کرسی پر نہ بیٹھے۔

اکثر راتوں میں بعد نماز عشاء اور جاگنے والی مقدس اور نورانی راتوں میں اور بعض تفریحی مقامات میں نعتیہ محافل سجائی جاتی تھیں۔ جن میں اکثر شعراء کی حمد و نعت پڑھی جاتی ۔ مگر ہمیشہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کی ” حدائق بخشش ‘‘کے اقتباسات سے محفل کو نکھارا جاتا۔ان محافل میں عاشقان مصطفیٰ شریک رہتے اور شعرا میںملا مولیٰ علی گلشن، محمد عبد الرحمان بتخلص قربان وغیرہ بھی۔

آپ مذہب حنفی کے عالم جید اور اعلیٰ محقق و محدث بھی ہیں۔ اکثر احادیث کی وضاحت در پیش ہوتی تو صحیح احادیث ہی بیان فرماتے اور احادیثِ ضعیفہ سے مندوب و مستحب کے حصول کو کافی جانتے۔ عوام الناس کم علم لوگوں کو حدیث کے ظاہری معانی و مطالب پر غور و فکر سے منع کرتے۔آپ ہمیشہ قول امام مذہب امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ پر زور دیتے۔آپ کا یہ دستور تھا کہ آنے والے استفتاء کو پڑھ کر سنایا جاتا اور سماعت سوال کے بعد فتویٰ املا کرواتے ۔ فتویٰ کو بغور سنتے الفاظ، حروف متشابہت الصوت کہ ہمزہ اور عین ۔  ھ، ح، ز، ذ  وغیر ہم پر خاص نگاہ رکھتے۔ چونکہ محرّر سے کوئی خامی نہ ہو پائے۔

 بعض بیرونی مقامات کے آنے والے استفسار میں غیر ضروری سوالات کبھی آسان وستاروں کے بارے میں، کبھی اگلے ہزاروں سالوں کی حکایات وغیرہ وغیرہ ایسے سوالات کے جوابات ارشاد فرمانے سے پہلے چند تنبیہی الفاظ لکھتے کہ’’ ان باتوں میں اور لایعنی سوالات میں کیوں وقت ضائع کرتے ہو۔ تم کو تو عقائد، ایمانیات، صوم وصلوٰۃ وغیرہ کے ضروری لازمی علوم کو دریافت کرنا چاہے۔قیامت میں جن کا تم سے سوال ہوگا۔ ان باتوں میں کیوں لگے ہو۔ تم پر تو حکم یہ ہے۔’’ یکون فرض عين وھو بقدر ما يحتاج لدينيہ “ اس قدر علم دین سیکھنا فرض عین ہے اس قدر جتنے پر اپنے دین پانے کے محتاج ہو ۔ لایعنی باتوں اور کثرت سوال کے وبال میں کیوں پڑے ہو۔

  پیر سید مقبول شاہ کشمیری رحمہ اللہ تبلیغ دین متین اور اشاعت سنت نبویہ کے خاطر متعدد مقامات کا سفرطے کیا۔ اسی طر ح آپ نے بریلی کا رخ کیا جہاں آپ کو امام اہلسنت قاطع بدعت مجدد اسلام اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان سے شرف ملاقات نصیب ہوئی اور علم و عرفان سے مستفیض ہوئے۔دعوت و تبلیغ کے خاطر آپ نے ہندوستان کے مختلف مقامات کا سفر کیا بالخصوص کرناٹک کے بے شمار علاقوں میں تشریف لے گئے جیسا کہ بھٹکل، کمٹہ،سرسی،داونگیرہ، آلور، شیموگہ، میسور،ہاسن، چکمنگلور،ہبلی، مامب ہلی وغیرہ۔

شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ضلع میسور کے مامبھلی میں سب سے زیادہ قیام کیا تقریبا بارہ سال دین حق کی دعوت اور شریعت نبویہ کی تعلیم میں مصروف رہے۔ پھر1951ء کو آپ کا ارادہ ہانگل کی طرف ہوا جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک خدمت خلق اور اصلاح معاشرہ کرتے رہے۔بے شک آپکی آمدنے ہانگل جیسے جنگل کو نو ر علم و حکمت سے روشن کردیا اور پھر یہ ہانگل سے ہانگل شریف بن گیا۔ یہاں آپ نے تقریبا 19 سال قیام کیا اسی دوران بڑے علماء و حکماء کے بے شمار مسائل کا تشفی بخش جواب دیا۔

شہید محبت کشمیری اعلیٰحضرت کا سفر آخرت

آپ کا وصال شہر ہاگل میں  صبح سات بجکربیس  ۲۰۔۷  منٹ بروز اتوار ۵/ صفر المظفر ۱۳۹۵ھ مطابق ۱۲ / اپریل ۱۹۷۰ء تھا۔ 

یہ خبر ریڈیو میں بھی نشر کی گئی۔ دیگر ذرائع ابلاغ سے یہ خبر پورے دکن میں پھیل گئی۔ حتی کہ ہند ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اس کی خبر پہونچ گئی۔ جس کی مثال صدر پاکستان جناب ایوب خان نے بھی بی بی سی سے اعلیٰحضرت کا تعزیتی پیغام نشر کیا۔ اور اس طرح حضرت کے غم میں شریک ہوا۔ 

دوپہر میں آپ کےجسد اقدس کو غسل دیا گیا۔اس کے بعد چہرہ انور کے دیدار کے لیے صف آرائی کی گئی کہ ایک طرف دیدار رخ زیبا کرنے والوں کی قطار دوسری طرف دامن مراد بھر کر نکلنے والوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ دیدار کا یہ سلسلہ تقریباً عشاء تک چلتا رہا۔ پورا شہر صرف لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا پورے شہر میں تل دھرنے کی جگہ تک نہیں تھی۔ بعد عشاء جنازہ حجرہ اقدس سے نکلا۔ جنازہ کو بانس سے وسیع کر دیا گیا تا کہ لاکھوں عقیدت مندوں کی تمنا پوری ہو جائے۔ اور سب کو کندھا دینے کی سعادت نصیب ہو۔ 

رات کے تقریباً ایک بجنے والے ہیں نماز جنازہ کی تیاریاں شروع ہیں لوگوں کو صف درست کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ بعض حضرات پیچھے والے تالاب سے وضو فرما کر صفوں میں حاضر ہو رہے ہیں۔ امامت کے لیے مفتی غلام ربانی فائق صاحب (داماد صدر شریعہ) کو پکارا گیا۔ ادھر سے ایک آواز سنائی دی کہ ارے شیموگہ سے فخر درویشاں، صوفی باصفا، عاشق مقبول احمد، جناب درویش با با آگئے ۔ اب مفتی صاحب کی جگہ امامت کی ذمہ داری در ویش بابا کو سونپ دی گئی۔ درویش بابا نے امامت فرمائی۔نمناک آنکھوں کے ساتھ آپ کوسپرد خاک کیا گیا۔




ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی