Biography Hazrat Shafiq Balkhi تعارف حضرت ابو علی شفیق بلخی हज़रत शफ़ीक़ बल्खी Shaqiq al-Balkhi

 تعارف حضرت ابو علی شفیق بلخی علیہ الرحمہ


حضرت ابو علی شفیق بلخی قدیم مشائخ میں سے تھے۔ صاحب کرامات اور خوارق تھے روحانیت کے بلند مقامات پر فائز تھے۔ حضرت امام موسیٰ رضا اور سلطان ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہما کی مجالس میں شریک ہوئے، حضرت امام ابوحنیفہ کے مذہب پر زندگی بسر کی، توکل و قناعت پر کار بند رہے، مختلف علوم و فنون میں تصانیف بطور یاد گار چھوڑیں۔

آپؒ کا نام شفیق اور کنیت ابو علی ہے۔آپؒ ممتاز زمانہ مشائخ و متقین میں سے ہوئے اور امام جید و مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ پوری زندگی توکل میں گزار دی۔چناچہ آپؒ کی بہت سی تصانیف ہیں اور حضرت حاتم بن اصمؒ جیسے بزرگ آپؒ کے شاگردوں میں سے ہوئے۔ لیکن طریقت کی منزلیں آپؒ نے حضرت ابراھیم بن ادھمؒ کی صحبت میں طئے کیں اور کثیر مشائخین سے شرف نیاز حاصل کیا۔

Biography Hazrat Shafiq Balkhi تعارف حضرت ابو علی شفیق بلخی हज़रत शफ़ीक़ बल्खी Shaqiq al-Balkhi

آپؒ فرماتے تھے کہ میں نے ایک ہزار سات سو اساتذہ سے شریعت و طریقت کے علوم سے استفادہ کیا۔ لیکن نتیجہ میں یہ پتہ چلا کہ خدا کی رضا صرف چار چیزوں پر منحصر ہے۔

اول روزی کی جانب سے سکون حاصل ہونا۔

خلوص سے پیش آنا۔

ابلیس کو دشمن تصور کر لینا۔

توشہ آخرت جمع کرنا۔

آپؒ ایک خاص واقعہ سے متاثر ہوکر تائب ہوئے اور وہ یہ کہ جب آپؒ  بغرض تجارت ترکی پہنچے تو ایک مشہور بتکدہ دیکھنے پہنچ گئے۔اور وہاں ایک پجاری سے فرمایا کہ تجھے ایک قادر و زندہ خدا کو نظر انداز کرکے ایک بے جان بت کی پوجا کرتے ندامت نہیں آتی؟۔ اس نے عرض کیا کہ آپ جو دنیا بھر میں تجارت کی غرض سے گھومتے ہیں۔ اس سے ندامت نہیں ہوتی۔تو کیا آپ کا خدا آپ کو گھر بیٹھے رزق پہنچانے پر قادر نہیں ہے؟

تو اسی وقت اپنے وطن کے لئے روانہ ہو گئے اور راستہ میں کسی نے پیشہ دریافت کیا تو فرمایا کہ میں تجارت کرتا ہوں۔اس نے طعنہ دیا کہ آپؒ کے مقدر کا جو کچھ بھی ہے وہ گھر بیٹھے آپؒ کو میسر آ سکتا ہے۔لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شائد آپؒ خدا پر شاکر نہیں ہیں۔آپؒ اس واقعہ سے اور زیادہ متاثر ہوئے۔اور جب گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ شہر کے ایک سردار کا کتا گم ہو گیا ہے۔اور شبعہ میں آپؒ کے ہم سایہ کو گرفتار کر لیا گیا۔چناچہ آپؒ نے سردار کو یہ یقین دلایا کہ آپ کا کتا تین دن میں مل جائیگا۔اور اپنے ہمسایہ کو رہا کروایا۔اور جس نے کتا چوری کیا تھا  وہ تیسرے دن آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپؒ نے سردار کے یہاں کتا بھجوا کر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

ایک مرتبہ بلخ میں قحط سالی ہوگئی اور آپؒ نے بازار میں ایک غلام کو بہت خوش دیکھ کر پوچھا کہ لوگ تو قحط سے برباد ہو گئے ہیں اور تو اتنا خوش کیوں نظر آرہا ہے؟؟ اس نے جواب دیا کہ ہمارے آقا کے یہاں بہت غلہ موجود ہے۔اور وہ مجھے کبھی  بھوکا نہیں رکھیگا۔ تو آپؒ نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار کہ جب ایک غلام کو اپنے آقا پر اتنا اعتماد ہے؛ تو تیری ذات پر میں کیوں نہ اعتماد کروں؛ اے میرے اللہ جبکہ تو تو مالک الملک ہے۔بس اسکے بعد آپؒ نے دنیا سے سختی کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کر لی۔حتٰی کہ آپؒ کا توکل معراج الکمال تک پہنچا؛؛ اور آپؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میرا استاد تو ایک غلام ہے۔

ایک سال حضرت شفیق بلخی سفر حج کو روانہ ہوئے۔ بغداد پہنچے خلیفہ ہارون الرشید  نے آپ کو اپنے پاس بلایا، اور پوچھا کیا زاہد شفیق آپ ہی ہیں! آپ نے فرمایا: شفیق تو میں ہی ہوں، مگر زاہد نہیں ہوں، ہارون الرشید نے کہا: مجھے کچھ نصیحت کرو، آپ نے فرمایا: یاد رکھو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں حضرت صدیق اکبر کی جگہ بٹھایا ہے تجھ سے صدق کا مظاہرہ ہونا چاہیے اللہ نے تمہیں فاروق اعظم کی جگہ بٹھایا ہے لہٰذا حق و باطل میں تمیز کرو۔ حضرت عثمان ذوالنورین کی جگہ بیٹھے ہو، حیا اور کرم کو اختیار کرو۔ حضرت علی کی جگہ ہو۔ علم و عمل کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بناؤ۔ ہارون الرشید نے کہا مجھے مزید نصیحت فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک سرائے ہے جسے دوزخ کہتے ہیں تم اس کے دربان ہو، اللہ نے تمہیں تین چیزیں وہی ہیں۔ مال، تلوار، اور تازیانہ ان تینوں چیزوں سے لوگوں کو دوزخ سے دور رکھو، ضرورت مند کو مالی امداد دو سرکشوں کو تازیانے سے تادیب کرو، اور مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کے لیے تلوار کا استعمال کرو۔

ہارون الرشید  نے کہا مجھے اور نصیحتوں کی ضرورت ہے، آپ نے فرمایا تم ایک چشمہ ہو، تمہارے اعمال نہریں ہیں، اگر چشمہ صافی ہوگا تو نہروں کی تیرگی کا کچھ اثر نہیں ہوگا لیکن اگر چشمہ ہی تاریخ ہو تو نہریں کتنی ہی شفاف ہوں، لوگوں کو صاف پانی نہیں مل سکتا۔ ہارون نے کہا: مجھے مزید نصیحت فرمائیں، آپ نے فرمایا: اگر تم تنہا کسی بیابان میں جا رہے ہو، اور وہاں تمہیں شدت پیاس سے جان پر بن آئے، اور تمہیں جان بچانے کے لیے ایک پیالہ شربت خریدنا پڑے تو تم کتنی قیمت ادا کرو گے۔ ہارون الرشید نے کہا کہ اپنی نصف سلطنت دے کر جان بچالوں گا، آپ نے فرمایا: اگر تم وہ شربت نصف سلطنت دے کر خرید لو، اور اسے پی لو۔ اور اتفاقاً اس شربت کے پینے سے پیٹ میں درد شروع ہوجائے اور تمہاری جان پر بن جائے اور ایک شخص پہنچ کر کہے کہ میں تمہارا علاج کرسکتا ہوں، بشرطیکہ تم مجھے نصف سلطنت دے دو، تو تمہارا کیا فیصلہ ہوگا۔ہارون الرشید نے کہا: میں اسے دے دوں گا، تاکہ میری جان بچ جائے آپ نے فرمایا: پھر تم اس عظیم مملکت عباسیہ پر کیا ناز کرتے ہو، جو نصف پیالہ شربت پر فروخت ہوسکتی ہے اور نصف علاج معالجہ پر دی جاسکتی ہو۔ یہ بات سن کر ہارون الرشید رو پڑے۔ اور کہا آپ واقعی زاہد بھی ہیں اور سچے بھی ہیں! یہ دنیاوی سلطنتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

حضرت شفیق بلخی مکہ مکرمہ میں حضرت ابراہیم ادھم کو ملے۔ پوچھا، ابراہیم زندگی کا گزران کیسے کر رہے ہو کہا اگر مل جائے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اگر نہ ملے تو صبر کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: ہماری گلی کے کتے بھی یونہی کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ہمیں تومل جائے تو نثار کردیتے ہیں اگر نہ ملے پھر شکرکرتے ہیں حضرت ابراہیم فرمانے لگے:

ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند!

جب لوگوں نے آپؒ سے سوال کیا کہ خدا پر کامل اعتماد کرنے والا کون ہوتا ہے؟؟؟ فرمایا کہ جو دنیاوی زندگی کے فوت ہو جانے کو غنیمت تصور کرے۔اور جو انسانوں  کے وعدوں  کو خدا کے وعدوں  سے زیادہ اطمنان بخش سمجھے۔

فرمایا کہ تین چیزیں تقوٰی کی پہچان ہیں۔

فرستادن

منع کردن

سخن گفتن

فرستادن کا مفہوم یہ کہ آپ خدا کے فرستادہ ہو۔ لہذا اسی قسم کے امور انجام دو۔

اور منع کردن کا مفہوم یہ ہے کہ کسی سے کچھ طلب نہ کرو۔

سخن گفتن سے مراد یہ ہیکہ ایسی گفتگو کرو جو دین اور دنیا میں سود مند ہو۔ اور اس جملہ کا دوسرا مفہوم ہے کہ تم نے جس قدر نیک کام انجام دیئے اور جن کاموں کے لئے کنارہ کشی اختیار کی وہ دنیاوی بھلائی کے لیے ہیں۔کیونکہ ایک انسان اپنی زبان سے دین و دنیا دونوں کی باتیں کر سکتا ہے۔

پھر فرمایا کہ میں نے متعدد علماء سے کہ دانشور،دولت مند، دانا بخیل ، درویش کا  مفہوم دریافت کیا ہے؟؟؟ سب نے یہی جواب دیا کہ دانشور وہ ہے جو محب دنیا سے احتراز کرے۔ دولتمند وہ ہے جو قضاء و قدر پر مطمئن رہے۔ دانا وہ ہے جو فریب  دنیا میں مبتلاء نہ ہو سکے۔ درویش وہ ہے جو زیادہ طلب  نہ کرے۔ بخیل وہ ہے جو دولت کو مخلوق سے زیادہ عزیز تصور کرے اور کسی کو ایک دانہ بھی نہ دے۔

حضرت حاتم بن اصمؒ نے آپؒ سے نفع بخش نصیحت کرنے کے لئے درخواست کی  تو فرمایا کہ عام وصیت تو یہ ہے کہ  اپنے قول کا معقول جواب سوچے بغیر کوئی بات منھ سے نہ نکالی جائے۔ اور خاص وصیت یہ ہے کہ جب تک تمہارے اندر بات نہ کہنے کی طاقت موجود ہے تو خاموشی اختیار کرو۔

صاحب سفینۃ الاولیاء نے آپ کی شہادت کا سال ۱۹۴ھ لکھا ہے مگر مخبرالواصلین میں ۱۹۵ھ ہے۔ واقعہ شہادت کی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی