Hazrat Mufti Sayed Ul Ulma Aale Mustafa Syed Mian Maharvi تعارف سید العلماء شاہ آل مصطفی سید میاں

 🕯تعارف سید العلماء حضرت علامہ مفتی شاہ آل مصطفی سید میاں مارہروی علیہ الرحمہ🕯

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

Hazrat Mufti Sayed Ul Ulma Aale Mustafa Syed Mian Maharvi تعارف سید العلماء شاہ آل مصطفی سید میاں

نام و نسب: سید العلماء ، سید آل ِمصطفی ٰبن سید آل عباء ،بن سید شاہ حسین، بن سید شاہ محمد حیدر۔الیٰ آخرہ(علیہم الرحمہ)


تاریخ ِ ولادت: 25 رجب المرجب 1333ھ/9 جون 1915ء بروز بدھ، مارہرہ مطہرہ، (انڈیا) میں ہوئی۔


تحصیل ِعلم: آپ جب چار سال چار ماہ چار دن کےہوئے تو سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ مبارک کی تحریر کی ہوئی بسم اللہ شریف سےتسمیہ خوانی کا آغاز کیا جو کہ مارہرہ خاندان میں موجود ہے۔حفظ قرآن سات آٹھ برس کی چھوٹی سی عمر میں والدہ ماجدہ اور حافظ عاشق علی صاحب برکاتی اور حافظ سلیم الدین صاحب علیہ الرحمۃ سے مکمل کیا۔ فارسی کی پہلی کتاب اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھی۔ نانا جان اور خالو محترم سید شاہ اولاد رسول محمد میاں صاحب علیہ الرحمۃ سے علوم درسیہ مروجہ کا اکتساب کیا ۔بقیہ جمیع علوم کی تکمیل اجمیر مقدس میں حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے کی۔ آپ دینی علوم کیساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ طبیہ کالج ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادویہ ہندی و یونانی وغیرہ اور عمل جراحی میں ڈی آئی ایم ایس میں ڈپلومہ حاصل کیا ۔


بیعت و خلافت: نانا جان حضور سید شاہ ابو القاسم اسماعیل حسن شاہ جی میاں قدس سرہ۔


سیرت و خصائص: جلیل القدر، دوربین، دور اندیش، نکتہ داں، حق گو، حق آگاہ، حق بیں، حق شناس، حقیقت بیان، صداقت شعار، سراپا ایثار، پرتوِ حیدر کرار ،حق بیانی، شیریں مقالی یہ تمام صفات جن کی ذات کا جزو لاینفک تھیں وہ ہیں حضرت سید العلماء شاہ آل مصطفی ٰ (علیہ الرحمۃ والرضوان)۔ 

آپ بیک وقت عظیم محدث، مفسر، مفتی، نعت گو شاعر، حاذق حکیم، مدبر، اسلامی سیاست داں اور اعلیٰ تنظیمی صلاحیتوں کے مالک ،عابد شب زندہ دار ولی ِ کامل تھے۔


شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں! دقیق سے دقیق علمی مباحث میں وہ نکتہ سنجیاں فرما تے کہ عقل دنگ رہ جاتی، اس وقت اعتراف کرنا پڑتا کہ " سید العلماء " کا خطاب ان کے قامت زیباہی کے لیے وضع ہوا ہے۔آپ کے مبارک سینے میں علوم وفنون کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، مناظرہ میں امام المناظرین، گفتگو میں سید المتکلمین، تحریر وتقریر کے مانے ہوئے بادشاہ اور قادر الکلام تھے، ایک ہی موضوع پر مختلف عنوانات اور متعدد پیرائے سے بیان آپ کے لیے معمولی بات تھی۔ (حضورسید العلماء،ص:۱۲)


خلفائے کرام:

حضور سیدالعلماء علیہ الرحمہ نے جن اشخاص کو سلاسل عالیہ قادریہ برکاتیہ کی اجازت وخلافت سے نوازا، ان میں کل سات افراد کے اسما راقم کو دست یاب ہوسکے وہ درج ذیل ہیں:

(۱) سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی(جانشین حضور سید العلماء)

(۲) سید محمد اشرف برکاتی مارہروی (شہزادۂ حضور احسن العلماء)

(۳)مولانا سخاوت علی برکاتی (مگہر بستی)

(۴) شیر نیپال مفتی جیش محمد قادری (نیپال)

(۵) حضرت مولانا عبد القادر کھتری (ممبئی)

(۶) حضرت مولانا غلام عبد القادر علوی (براؤں شریف)

(۷)حاجی غلام احمد صاحب برمو والے (بہار)


حضور سید العلماء کی ہمہ جہت دینی خدمات اور مثالی شخصیت کا عمومی جائزہ:

ممدوح گرامی حضور سید العلماء سید آل مصطفی قادری مارہروی علیہ الرحمۃ والرضوان کی اولوالعزم ذات اور ہر اعتبار سے مثالی شخصیت کے جن پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے وہ ہیں تصلب فی الدین، استقامت علی المذہب، علمی جلالت، تنظیمی صلاحیت، فتویٰ نویسی، تقریر وخطابت، تصنیف وتالیف، ذوق شعر وادب، بحث ومناظرہ، امام احمد رضا سے عشق ومحبت، مسلک رضا کی کامیاب ترجمانی، احترام علما ومشایخ، مدارس اسلامیہ کی سرپرستی اور تحریک اشرفیہ سے وابستگی وغیرہا۔

بمبئی میں وردو:

ہم نے ماقبل کی سطور میں لکھا ہے کہ آپ نے تقریر وخطابت کا آغاز خانقاہ ہی سے کردیاتھا اور اس فن میں بہ تدریج کمال حاصل ہوتا گیا، کامیاب مطب کے بعد آپ کی باقاعدہ عملی زندگی اور دینی خدمات کا آغاز سرزمین بمبئی میں تشریف آوری سے ہوتا ہے، بمبئی کے اہل سنت اور مسلک حق بلکہ پورے ہندوستان کی سنیت کے لیے ایک مؤثر آواز کی شکل میں ممبئی میں وردومسعود سب کے لیے نیک فال ثابت ہوا، جس ستارے کو خانقاہ برکاتیہ کے اکابرین نے رشک قمر بنایا تھا اس کی چمک دمک سرزمین بمبئی میں آکر نکھرنے لگی اور دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ بمبئی آمد سے متعلق سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی رقم طراز ہیں:

’’حضور سید العلماء سید شاہ آل مصطفی سید میاں علیہ الرحمہ ۱۹۴۹ء میں بمبئی تشریف لے گئے یہاں کی جماعت بکر قصابان نے سید میاں کو بمبئی کی مسجد کھڑک کی امامت کی پیش کش کی جو سید میاں نے قبول کرلی۔ اس طرح مارہرہ کا سید شہر ممبئی کی گہما گہمی کا ایک جزو بن گیا۔‘‘

یقینا یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ایک عظیم خانقاہ کا پروردہ خانقاہ کے عیش وآرام کو چھوڑ کر بمبئی جیسی سنگلاخ زمین کا رخ کرتا ہے اور ایک چھوٹی مسجد کی امامت وخطابت کو ترجیح دیتا ہے لیکن ایسا ممکن ہوا اور دنیا نے دیکھا کہ سید العلماء علیہ الرحمہ نے جس نیک نیتی اور جذبۂ دروں کے ساتھ خدمت دین اورفروغ اہل سنت کے جس میدان میں قدم رکھ دیا اس میں انہیں بے پناہ کامیابیاں میسر آئیں اورجماعت اہل سنت کو سربلندی نصیب ہوئی، رفیق ملت سید شاہ نجیب حیدر مارہروی (شہزادۂ حضور احسن العلماء) رقم طراز ہیں:

’’کیا ہماری جماعت حضور سید العلماء کی اس قربانی کو فراموش کرسکتی ہے کہ وہ ذات اپنی خانقاہ اور حلقۂ مریدین کو چھوڑ کر جماعت کی شیرازہ بندی کی خاطر ممبئی کی ایک مسجد کی امامت کو فوقیت دے دی ہے۔ نیت ثابت اور صاف تھی، محنت رنگ لائی، پورے اہل سنت وجماعت کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئے، نتیجتاً جماعت اہل سنت کا قد اونچا ہوا، ہمیں ایک نئی شناخت حاصل ہوئی۔

علمی جلالت:

حضور سید العلماء علیہ الرحمہ کو اللہ عزوجل نے غضب کی قوت حافظہ عطا فرمائی تھی، اس اعلیٰ درجے کی ذہانت وذکاوت پر حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ جیسے مربی استاذ کی استاذانہ مہر لگ جائے تو پھر کیا پوچھنا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات علوم جدیدہ وقدیمہ کی سنگم اور ظاہری اور باطنی جامعیت کا منبع نظر آتی ہے، مفتی ظفر احمد قادری بدایونی آپ کے وفور علم اور جلالت شان کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آپ کے مبارک سینے میں علوم وفنون کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، مناظرہ میں امام المناظرین، گفتگو میں سید المتکلمین، تحریر وتقریر کے مانے ہوئے بادشاہ اور قادر الکلام تھے، ایک ہی موضوع پر مختلف عنوانات اور متعدد پیرائے سے بیان آپ کے لیے معمولی بات تھی۔ قوت حافظہ کا یہ عالم کہ آٹھ نو سال کی عمر شریف میں آپ نے قرآن پاک حفظ کرلیاتھا۔ جب مدارس عربیہ کے طلبا کے امتحان لیتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مسند تدریس کے بادشاہ ہیں، دورۂ حدیث شریف کا امتحان لیتے تو احادیث نبویہ خود سناتے کہ حافظ حدیث کا گمان ہوتاتھا۔‘‘

(اہل سنت کی آواز، شمارہ۶، اکتوبر، ۱۹۹۹ء ص:۲۳۲، بحوالہ آہ سید العلماء بدر الفضلاء، ص:۸)


فتویٰ نویسی:

حضور سید میاں قدس سرہ کے علمی تبحر اور جلالت فن کا مشاہدہ آپ کے تحریر کردہ فتاویٰ اور کتب ومقالات میں کیا جاسکتاہے بالخصوص’’اہل سنت کی آواز‘‘ اور ’’ملفوظات مشایخ مارہرہ‘‘ میں شامل شدہ علمی اور ٹھوس مضامین کو ضرور مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے جن کا مطالعہ آج بھی دور رس نتائج کا حامل ہے۔ آپ کو فقہ وافتا میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ جزئیات فقہ پر کامل عبور رکھتے ہوئے جب کوئی محققانہ فتویٰ تحریر فرماتے تو اس کے استناد میں ذرہ بھر شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، آپ کا قول قول فیصل مانا جاتا بلکہ آپ کے فتاویٰ ممبئی ہائی کورٹ تک میں تسلیم کیے جاتے تھے۔ شہزادۂ سید العلماء حضور نظمی میاں مارہروی آپ کی فتویٰ نویسی سے متعلق رقم طراز ہیں:

’’سید میاں نے فتویٰ نویسی میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی سنت پر عمل کیا، وہ جب تک مسئلے کی گہرائی کو نہ سمجھ لیتے اس وقت تک کوئی حکم نہ لگاتے۔ ‘‘ (سیدین نمبر، ص:۵۱۳)

ایک دوسرے مقام پر آپ کی فقہی بصیرت وژرف نگاہی کا انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سید العلماء نے ہزاروں فتاویٰ قلم بند کیے، آج کے مفتیان کرام اپنے فتوؤں کی نقلیں تیار کرکے رکھتے ہیں تاکہ زندگی کے کسی موڑ پر فتاویٰ کے مجموعے شائع کرسکیں مگر سید میاں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی، اگر چہ ان کے میراث کے فتوے ممبئی ہائی کورٹ تک میں تسلیم کیے جاتے تھے۔ سید میاں کے کاغذات میں بہت کم فتوؤں کی نقلیں ملیں۔‘‘ (اہل سنت کی آواز، شمارہ۶، اکتوبر ۱۹۹۹ء ص:۳۵)

استاد گرامی محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب قبلہ نے حضور سید العلماء کی فتویٰ نویسی پر آپ کے چند مختصر اورتفصیل فتاویٰ کی روشنی میں قریب ۳۰؍ صفحات میں مفصلاً گفتگو کی ہے۔ (ملاحظہ ہو سال نامہ اہل سنت کی آواز، خصوصی شمارہ، اکابر مارہرہ مطہرہ (حصہ دوم) ص:۴۶۶ تا ۴۹۵)

تصنیف وتالیف:

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

’’مارہرہ کے قیام کے دوران آپ نے متعدد کتابیں لکھیں۔ انہی ایام میں مارہرہ شریف سے ماہانہ رسالہ ’’اہل سنت کی آواز‘‘ جاری فرمایا جس میں انتہائی اہم مفید مضامین لکھتے رہے۔‘‘

(سیدین نمبر، ص:۴۶۶)

حضور سید العلماء سید آل مصطفی قادری مارہروی علیہ الرحمہ کی بے پناہ مصروف زندگی نے انہیں اتنا موقع نہ دیا کہ پوری توجہ تصنیف وتالیف کی جانب کر پاتے، آل انڈیا سنی جمعیۃالعلماء کی صدارت، جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت وخطابت، دوروں کی کثرت، اوردیگر مسائل اس قدر زیادہ تھے کہ تحریر وقلم کے میدان کو زیادہ مالا مال نہ کرسکے لیکن جتنا بھی لکھا وہ اپنے کیف وکم ہر دو اعتبار سے انتہائی جامع اور وقیع تسلیم کیا جاتاہے، آپ کے تحریر کردہ مضامین ومقالات اور چندقلمی نگارشات جو یادگار ہیں ان سے آپ کی تحریری مہارت اور جودت فکر کا اندازہ ہوتاہے۔ ڈاکٹر محمد ارشاد ساحلؔ شہ سرامی لکھتے ہیں:

’’حضرت سید العلماء قدس سرہ کو نثر ونظم، تقریر وتحریر کے اصناف سخن پر یکساںد سترس حاصل تھی۔ لیکن قدرت نے خدمت اسلام کا کام آپ کی لسانی خوبیوں سے زیادہ لیا۔‘‘

آگے مزید رقم طراز ہیں:

’’لیکن آپ کی جو بھی قلمی یادگاریں ہیں ان سے آپ کی تحریری مہارت، زبان وبیان پر پوری دسترس، قلم کی برق رفتاری، زبان کی سلاست، فکر کی جولانی، اسلوب کا اچھوتا پن اور نثر ونظم کی اعلیٰ خوبیوں کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘ (اہل سنت کی آواز، اکتوبر ۱۹۹۹ء ص:۲۳۳)

اس کے بعد ساحل صاحب نے نو صفحات میں آپ کی مستقل تین تصنیف (۱)فیض تنبیہ (۲)نئی روشنی (۳)مقدس خاتون اور ایک خطبۂ صدارت پر وقیع تبصرہ وتجزیہ پیش کیا ہے اور اخیر میںآپ کے چند علمی مضامین کی نشان دہی کی ہے۔

ذوق شعر وادب:

حضور سید العلماء قد س سرہ کا ذوق شعر وسخن بھی بڑا ستھرا، نکھرا اور پاکیزہ تھا، آپ فن ادب اور نعت گوئی میں کامل مہارت رکھتے تھے اور زبان دانی کے عظیم جوہر سے مالا مال تھے، آپ کا اردو کلام اہل سنت کی آواز کے مختلف شماروں میں شائع ہوتا رہتا تھا۔ حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے مرتب کردہ رسالہ ’’مدائح مرشد‘‘ میں بھی آپ کی متعدد منقبتیں شامل ہیں۔ سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی لکھتے ہیں:

’’حضور سید العلماء سید شاہ آل مصطفی سید میاں علیہ الرحمہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ مرزا داغؔ دہلوی مرحوم کے شاگرد رشید اورفرزند معنوی سید شاہ احسنؔ مارہروی کے تلامذہ میں سے تھے۔ سید میاں نے بہت کم سنی میں شاعری شروع کردی تھی۔ بہاریہ شاعری کا الگ انداز تھا اور نعتیہ شاعری کے تیور کچھ اور۔ سیدؔ تخلص فرماتے تھے۔ ایک دیوان بھی ترتیب دے رکھا تھا مگر وہ شعری بیاض سفر پاکستان کے دوران سامان کے گم ہوجانے کے ساتھ ضائع ہوگئی اور ہم اردو والے ایک روایت سے محروم ہوگئے۔‘‘ (سیدین نمبر، ص:۵۰۰)

ان کے اشعار کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو کسی اچھے شعر کا طرۂ امتیاز ہیں، برجستگی، روانی، تغزل، شعریت، نغمگی، شوخی سب کچھ نظر آتا ہے، غزلیں ہوں، یا نعت ومنقبت کے اشعار ان کا رنگ وآہنگ الگ ہی تاثر دیتاہے۔ ذرا یہ شعر دیکھیں:

ہونا تھا جس کو پیر خرابات میکدہ

اس کو رہین جبہ ودستار کردیا

خیال یار نے بستر لگایا قلب مضطر میں

یہ مہمان عزیز اترا ہے کس اجڑے ہوئے گھر میں

نعت کے چند اشعار بھی پڑھ لیں:

خدا نے خود تمہیں ایسا سنوارا یارسول اللہ

نہیں ممکن کوئی ثانی تمہارا یارسول اللہ

اور اس نعت کا یہ مقطع تو زبان زد خاص وعام ہوچکا ہے:

کسی کی جے وجے ہم کیوں پکاریں کیا غرض ہم کو

ہمیں کافی ہے سیدؔ اپنا نعرہ یارسول اللہ

ان کے علاوہ امام حسین سید الشہدا، خواجۂ اجمیری، نوری میاں اور امام احمد رضا علیہم الرحمہ کی شان میں لکھی گئی منقبتیں تو بڑی دھوم سے مذہبی مجالس میلاد میں پڑھی جاتی ہیں۔ بس ایک شعر امام عالی مقام کی شان میں:

تمہارے سجدے کو کعبہ سلام کہتا ہے

جلال قبۂ خضرا سلام کہتا ہے

بحث ومناظرہ:

مذکورہ تمام خوبیوں کے ساتھ حضور سید العلماء علیہ الرحمہ ایک باکمال اور بلند پایہ مناظر تھے۔ اپنی تقریر میں بدمذہبوں کا رد وتعاقب تو کرتے ہی تھے باقاعدہ تحریری طور پر بھی ان کا تعاقب فرمایا اور بدمذہبوں کے ایوان میں زلزلہ برپا کردیاتھا۔ آپ کے ایک تحریری مناظرے کی روداد و تفصیل’’اہل سنت کی آواز‘‘ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے شمارے میں صفحہ ۳۴؍ پر دی گئی ہے جس کے مطالعے سے آپ کی مناظرانہ شان نمایاں نظر آتی ہے، جس کے آغاز میں آپ کے بلند اقبال فرزند سید نظمی میاں لکھتے ہیں:

’’حضور والد ماجد سرکار سید میاں علیہ الرحمہ نے بمبئی کے قیام کے ا بتدائی دور میں وہابیت سے کافی مچیٹے لیے۔ بھیونڈی کامناظرہ ایسی ہی ایک اہم کڑی تھی، ان دنوں وہابی لابی کا ایک سرگرم رکن مولوی محمد یونس بگھیروی بمبئی کی سرزمین پر بڑا فعال تھا اور چاہتا تھا کہ بمبئی کے سنی عوام کو اپنے مکر وفریب سے صراط مستقیم سے بہکادے اور شیطان کی راہ پر لگادے۔ حضور سید میاں نے ابھی نہیںتو کبھی نہیں، یہ سوچ کر یونس بگھیروی کا تعاقب کیا اور جھوٹے کو جھوٹے کے گھر تک پہنچا کر دم لیا۔ ایک دن یوں ہی میں ابا حضور کے کاغذات کو دیکھ رہاتھا کہ ان میں یونس بگھیروی سے متعلق خط وکتابت نظر آئی، ابا حضرت نے جس طرح اس کا پیچھا کیا اسے آپ بھی پڑھ لیں۔‘‘

(اہل سنت کی آواز، شمارہ۶، ص:۳۵، اکتوبر، ۱۹۹۹ء)

سید نظمی میاں کا یہ تفصیلی مقالہ ’’ حضور سید العلماء: مناظر بے نظیر‘‘ کے عنوان سے ۶۳؍ صفحات میں شائع ہوا ہے، جس کے اخیر میں ایک تمثیلی مناظرہ بھی درج ہے جو حضور سید العلماء کی کتاب ’’مقدس خاتون‘‘ سے ماخوذ ہے جو انتہائی علمی رنگ لیے ہوئے ہے، اس کے مطالعہ کے بعد حق کی صداقت اور باطل کا بطلان آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہوجاتا ہے اور جس سے حضور سیدالعلماء کی مناظرانہ شان تاباں ودرخشاںہوجاتی ہے۔ یہی مقالہ بعد میں سیدین نمبر میں بھی شامل کیا گیا جو مذکورہ نمبرکے صفحہ ۵۹۷ تا ۶۴۶ پر پھیلا ہوا ہے اور قارئین کو دعوت مطالعہ پیش کر رہا ہے۔

امام احمد رضا سے عشق ومحبت:

مجدد اعظم، فقیہ اسلام، امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ تو چشم وچراغ خاندان برکات ہیں اور مارہرہ مطہرہ امام احمد رضا کا پیر خانہ ہے، ساتھ ہی امام احمد رضاقدس سرہ نے دین متین اور مسلک حقہ کی جس ذمہ داری کے ساتھ ترجمانی کی اور عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جیسی بیش بہا پونجی کا زندگی بھر تحفظ کرتے رہے۔ ایسے ان گنت کمالات وروابط نے حضور سید العلماء علیہ الرحمہ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا سچا شیدا بنادیاتھا اور آپ کے دل میں امام عشق ومحبت کی پاکیزہ عقیدت اتنی رچ بس گئی تھی کہ ان کے خلاف ذرا بھی سننا گوارا نہیں کرتے تھے، سید نظمی میاں مارہروی رقم طراز ہیں:

’’سید میاں مارہرہ مطہرہ کے اس مقدس خانوادے کے فرد تھے جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کا پیر خانہ تھا۔ اتنا ہی نہیں، وہ اس گدی کے وارث تھے جس سے ارادت ووابستگی امام احمد رضا اپنے لیے دنیا وآخرت کی سب سے بڑی نعمت سمجھتے تھے۔ سید میاں نے امام احمد رضا کا پیر زادہ ہونے کا حق ادا کردیا۔ انہوں نے دنیا کو ایک جاندار نعرہ دیا   ؎

یا الٰہی مسلک احمد رضا خاں زندہ باد

حفظ ناموس رسالت کا جو ذمہ دار ہے

(سیدین نمبر، ص:۵۰۴، ۵۰۵)

شہزادۂ صدر الشریعہ علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی دام ظلہ رقم طراز ہیں:

’’حضور سید العلماء کو اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت سے بہت والہانہ لگاؤتھا، جب آپ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا ذکر فرماتے تو اندازبیان اس قدر مؤثر اور رقت انگیز ہوتا کہ آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔‘‘ (سیدین نمبر، ص:۳۴)

امام احمد رضا کا نام آتے ہی سید میاں بے قرار ہوجاتے اور اگر کہیں ان کی مخالفت سامنے آتی تو پوری جواں مردی کے ساتھ اس کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ سے سید میاں علیہ الرحمہ کی والہانہ محبت کا ثبوت آپ کا وہ رسالہ ہے جو ’’فیض تنبیہ‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۹۷۴ء میں دارالاشاعت برکاتی مارہرہ سے شائع ہوا جس میں امام احمد رضا کے قصیدہ معراجیہ پر کی گئی تنقید کا وافی وشافی جواب دیا گیا ہے۔ اور اس قصیدے پر کی گئی گرفت کا سخت محاسبہ کیاگیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

امام احمد رضا کے مشن کو عام کرنے میں سید میاں علیہ الرحمہ نے زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کردیاتھا، انہوں نے اپنی پوری حیات مستعار مسلک برکاتیت کے نقیب اور مسلک رضا کے علم بردار کی حیثیت سے گزار دی، شہزادۂ امام احمد رضا حضور مفتی اعظم ہند علامہ شاہ محمد مصطفی رضا نوری علیہ الرحمہ سے بھی سید میاں کو بے حد گہرا لگاؤ تھا اور دونوں بزرگوں میں ایک دوسرے کا حد درجہ احترام وادب باقی رہا، آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے سلسلے میںدونوں حضرات ایک دوسرے کے اور بھی قریب آگئے اور جماعت کا کام کرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کے رفقائے کار بن گئے، بہ قول نظمی میاں:

’’حضور مفتی اعظم ہند کا یہ معمول رہا کہ آخری فیصلہ سید میاں کا ہی مانتے تھے۔‘‘

(سیدین نمبر، ص:۵۰۵)

ماقبل کی سطور میں گزرا کہ چند وجوبات کی بنیاد پر آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کی صدارت سے سید میاں کا استعفا دینا اور مفتی اعظم ہند کابریلی سے بمبئی آکر استعفا واپس لینے پر مجبور کرنا اسی محبت ووارفتگی کا ثبوت تھا۔ ان دونوں بزرگوں میں خط وکتابت کاسلسلہ عرصۂ دراز سے قائم تھا، اسی پس منظر میںسید نظمی میاں مارہروی کے دو اشعار پڑھ لیں:

مفتی اعظم جنہیں خط میں لکھیں یاسیدی

ہاں وہی فخر سیادت حضرت سید میاں

مفتی اعظم سے پوچھا آپ کا پیارا ہے کون

آگیا ان کی زباں پر برملا سید میاں

احترام علما ومشایخ:

خانوادۂ برکاتیہ کے مشایخ کرام اور سجادہ نشینان کی دیرینہ روایت رہی ہے کہ وہ علماے اہل سنت کا بے حد احترام کرتے ہیں اور انہیں دل کے نہاں خانے میں جگہ دیتے ہیں، اعراس کے مواقع پر بھی یہ منظر خوب دیکھنے کو ملتا ہے۔حضور سید العلماء قدس سرہ کو احترام علما کا یہ بیش قیمت جوہر وافر مقدار میں عطا ہواتھا آپ اپنے معاصر علمائے اہل سنت ومشایخ طریقت کا حد درجہ ادب واکرام کرتے تھے، حضور مفتی اعظم سے متعلق اوپر کی سطور پر اجمالاً روشنی ڈالی جاچکی ہے، استاد محترم حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے سید میاں قدس سرہ غایت درجہ عقیدت ومحبت فرماتے اور ادب واحترام سے آپ کا ذکر فرماتے، اس ضمن میں حضرت مولانا عابد حسین مصباحی لکھتے ہیں:

’’۴؍ ذو الحجہ ۱۴۱۵ھ کو مولانا مبین الہدیٰ صاحب نورانی خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند نے ایک ملاقات پر راقم سے یہ واقعہ بیان فرمایا: کہ ایک مرتبہ سیدالعلماء حضرت سید آل مصطفی مارہروی قدس سرہ بیت الانوار ایک جلسہ کی بابت تشریف لائے، خواص وعوام کی ایک مجلس میں حضرت صدرالشریعہ کا تذکرہ چھڑ گیا تو حضرت سید العلماء نے برجستہ فرمایا کہ ’’حضرت صدر الشریعہ کا وہ مقام ہے کہ اگر آپ کی جوتیاں مجھے مل جائیں تو میں اپنے سر پر رکھنے کو باعث فخر وانبساط سمجھوںگا اور انہیں سر پر لیے گھومتا رہوں گا۔ ‘‘

ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہ خدا

وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے

(ماہ نامہ اشرفیہ کا صدر الشریعہ نمبر، اکتوبر، نومبر ۱۹۹۵ء ص:۱۹۲، ۱۹۳)

سید العلماء سید آل مصطفی مارہروی حضور صدر الشریعہ کی مجسم کرامت کا نام ہیں جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی اور سید میاں علیہ الرحمہ کے مابین قلبی روابط اور دینی تعلقات کو بھی اس خصوص میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ جس کا واضح ثبوت ۶؍ مئی ۱۹۷۲ء میں الجامعۃ الاشرفیہ کے سنگ بنیاد کے موقع پر کل ہند تعلیمی کانفرنس میںحضور سید میاں کا مفتی اعظم ہند کے ساتھ شرکت، خطبہ صدارت اور تعاون کا وعدہ آج بھی اشرفیہ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا ہوا ہے، سید میاں کے چھوٹے بھائی احسن العلماء سید شاہ مصطفی حیدر حسن مارہروی قدس سرہ کے روابط اور دونوں بزرگ بھائیوں کے تعلقات اور گہری قلبی وابستگی کے گواہ آج بھی سیکڑوں لوگ زندہ مل جائیں گے اس سلسلے میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی اور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی کے تاثرات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

خطابت کی منفرد آواز:

تبلیغ دین کے کار آمد ذرائع میں تحریر وقلم اور تدریس وافتا کے ساتھ تقریر وخطابت کی افادیت وضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ بڑا منظم اور انتہائی مفید فن ہے، اس فن کو انتہائی آسان اور بے حد منافع بخش تصور کرلیاگیا ہے، آسان ضرور ہے لیکن اس کے لیے جو اس فن کو پیشہ بنالے اور یہی اس کا ذریعۂ معاش ہو لیکن جو تقریر وخطابت کو اشاعت مذہب حق کا مؤثر وسیلہ گردانتا ہو اور حقائق ومعرفت سے لبریز اور اخلاص وجذبۂ دروں سے ہم آہنگ خطبات پیش کرتا ہو اس کے مشکل اور دقت طلب ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ میدان انبیا ومرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کا مرغوب میدان رہا ہے، ان کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیرے اور جواہرات ہیں، ان کا اثر براہ راست دل پر ہوتا تھا اور دل کی دنیا زیر وزبر ہونے لگتی تھی۔ حضور سید العلماء سید آل مصطفی قادری مارہروی قدس سرہ نے بھی اس میدان کو چنا اور یہ عظیم فن اختیار کیا تو اس لیے نہیں کہ وہ دور دور تک مشہور ہوجائیں اور ان کا سکہ دلوں پر قائم ہو اور نذرانوں سے جیب وزنی ہوجائے بلکہ آپ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپ کی خطابت دین وسنیت کے لیے وقف تھی، کبھی بھی اس فن کو حصول زر اور دنیا طلبی کا ذریعہ نہ بنایا، آپ اپنے اس اصول پر تا حیات قائم رہے۔ اللہ عزوجل نے آپ کو جو جوہر خطابت اور حسن تقریر عنایت فرمایاتھا اسے آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں تو آبدیدہ ہوجاتے ہیں، دل ودماغ عش عش کرنے لگتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ براہ راست جن سماعتوں نے آپ کی خطابت کی لذت پائی ہے اور آپ کی تقریر کی حلاوت جن کانوں میں آج بھی رس گھول رہی ہے ان کے چند تاثرات پیش کردوں جس کو پڑھ کر قارئین خود اندازہ لگا سکیں گے کہ خطابت کی اس منفرد آواز میں کتنا دم خم تھا۔

تاج العلماء سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری قدس سرہ نے ’’زمانۂ قدیم میں عرس قاسمی کی تقریبات‘‘ میں حضور سید العلماء کی ایک تقریر ’’تفسیر سورۂ فاتحہ‘‘ (یہ تقریر اس مجموعے میں شامل ہے) پر درج ذیل تبصرہ فرمایا ہے:

’’مولانا عبد السلام صاحب کے بیان کے بعد مولانا حافظ قاری حکیم سید شاہ آل مصطفی میاں صاحب سلمہ نے سورۂ فاتحہ مبارکہ کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے اتباع شریعت مطہرہ اور صورۃً سیرۃً، ظاہر وباطن میں سچی کامل اطاعت وغلامی محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام جہاں وجہانیاں سے زائد حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو محبوب رکھنے کی ضرورت واہمیت بتائی اور روشن کیا کہ جو آقائے دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سچا پکا فرماں بردار محب ومخلص غلام ہے وہ اپنے آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے دشمنوں، معاندوں، تمام اگلے اور پچھلے کفار ومشرکین مرتدین ومبتدعین سے حتی الوسع قطعاً دور ونفور رہتا ہے۔ جو ایک طرف سردار دو جہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی محبت وغلامی کا دعویٰ کرے دوسری طرف ان کے دشمنوں، مخالفوں، معاندوں کی مدح وتعریف کے گیت گائے، ان کو اپنا مقتدا اور پیشوا، رہبر ورہنما، محبوب قائد اعظم اور بڑا پرہیزگار، روح اعظم وغیرہ وغیرہ بڑے القاب وخطاب سے سرا ہے، ان سے گھال میل، الفت ومحبت رکھے وہ ضرور اپنے دعویِ ایمان اور غلامی ومحبت آقائے دو عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام میں جھوٹا اور کھوٹا ہے۔‘‘

(اہل سنت کی آواز، مارہرہ مطہرہ، خصوصی شمارہ اکابر مارہرہ نمبر، حصہ سوم، ۲۰۱۱ء ص:۱۹۹)

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:

’’حضرت سید العلماء قدس سرہ خطابت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے، دلکش، بلند آواز، ساحرانہ طرز بیان، نکات ودقائق سے بھرپور تقریر ایسی کہ گھنٹوں سنتے رہیے، مگر جی نہ بھرے، بمبئی میں ایام محرم میں وعظ کی سیکڑوں مجالس منعقد ہوتیں، لیکن ہمیشہ سب سے زیادہ مجمع حضرت سید العلماء کی محفل میں ہوتا تھا، ویسے تو حضرت بہت نحیف ونازک نظر آتے تھے لیکن تقریر کے وقت ہمیشہ جوان معلوم ہوتے تھے۔ پانچ پانچ گھنٹے مسلسل وعظ فرماتے مگر ذرا بھی تکان کا نام نہ ہوتا، نہ کبھی حضرت کی آواز بیٹھتی، یکساں مسلسل تقریر فرماتے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ صبح نماز فجر تک وعظ ہوتا رہتا اور لاکھوں لاکھ کا مجمع محویت کے ساتھ سنتا رہتا، ذکر شہادت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔‘‘

(سیدین نمبر، ماہ نامہ اشرفیہ، ۲۰۰۲ء ص:۴۶۷)

ایک دوسرے مقام پر شارح بخاری مزید فرماتے ہیں:

’’تقریر وخطابت کے سلسلے میں دنیا ان کا لوہا مانتی تھی، کوئی بھی موضوع ہو، کتنا ہی خشک ہو، اس کو بلا تکلف ایسی شگفتگی کے ساتھ بیان فرماتے کہ بے پڑھے لکھے عوام پر بھی بار نہ ہوتا تھا۔‘‘

(کتابچہ، حضور سید العلماء، ص:۱۳)

شہزادۂ سید العلماء سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی لکھتے ہیں:

’’سید میاں علیہ الرحمۃ والرضوان نے کبھی تقریر سے پہلے تیاری نہیں کی۔ کیسا ہی موقع ہو، کیسا ہی ماحول ہو، کیسا ہی موضوع ہو، سید میاں موقع ومحل کے اعتبار سے اپنا موضوع طے کرتے اور بیان کرنے لگتے، نپے تلے الفاظ، مسحور کن پیرایہ، قرآن وحدیث اور اقوال اسلاف سے حوالہ جات سید میاں کی تقریروں کی خصوصیت تھی۔‘‘ (سیدین نمبر، ص:۵۰۳)

مفتی مظفر احمد قادری بدایونی تحریر فرماتے ہیں:

’’اس فرزند رسول اللہ میں بیک وقت شجاعت حیدری، سیادت حسنی، اور شہادت حسینی سب ہی چیز جمع تھی، اس مرد خدا کو دین وملت کی خدمات میں نہ دن کو چین آتا نہ رات کو آرام۔

سرکار سید العلماء سید الحکماء قدس سرہ کی ذات ستودہ صفات سے کون واقف نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ خطابت وبلاغت کا یہ شہ سوار جس وقت منبر پر رونق افروز ہوتا تو زمین کی خوش بختی پر آسمان کے تاروں کو بھی رشک ہوتا۔ زور بیانی پر جس وقت اتر جاتا تو فارابی وارسطو کے ماتھے پر بھی پسینہ آجاتا۔ خاموشی میں تکلم کی حلاوت، الفاظ دل نشیں، خوب صورت وبارعب چہرہ، کشادہ پیشانی، موزوں قامت، چھریرا بدن، حاضر جوابی ایسی کہ ہزاروں لاکھوں کے مجمع پر کنٹرول کرلینا ان کا ادنیٰ کام تھا، آپ کی ایک آواز پر حاضرین گوش بر آواز ہوجاتے تھے۔‘‘

(اہل سنت کی آواز، ۱۹۹۹ء ص:۲۳۱، ۲۳۲)

خطیب البراہین حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدین خلیفۂ حضور احسن العلماء لکھتے ہیں:

’’رئیس الخطباء مقتداے اہل سنت حضور سید العلماء کی ذات گوناگوں خوبیوں کی مالک تھی۔ آپ اعلیٰ درجے کے خطیب، بہترین نثر نگار اور خوش فکر شاعر بھی تھے۔ آپ کی خطابت کی پورے ملک میں دھوم تھی۔ ‘‘ (سیدین نمبر، ص:۳۶۸)

شہزادۂ حضور صدر الشریعہ محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی رقم طراز ہیں:

’’حضور سید العلماء ایک بلند پایہ فکر انگیز خطیب، معاصرین علما میں بے مثال مفکر، طبیب حاذق، زاہد شب زندہ دار، نخبۃ الصوفیہ، قادر الکلام شاعر اور نقاد بھی تھے، جماعتی شیرازہ بندی کے ماہر، شکل وصورت دلوں کو موہ لینے والی، آواز میں گھن گرج، بہت خوش مزاج، مگر شخصیت سے ہیبت حق کا جلوہ نمایاں، دنیا سے بے نیاز اور اصول کے پابند تھے، جب تک آپ بمبئی میں قیام پذیر رہے کسی بدمذہب کو پر مارنے کی بھی مجال نہ ہوئی۔‘‘ (سیدین نمبر، ص:۳۴)

حضرت علامہ بدر القادری مصباحی ارقام فرماتے ہیں:

’’حضرت سید العلماء سید الخطباء اور امام المقررین تھے۔ ان کے خطبوں اور تقریروں کے آہنگ پر ایک زمانے میں شہر ممبئی کی فضائیں بدلا کرتی تھیں، وہ سید برکاتیت جب حق کی للکار کے لیے گرجتا تھا تو سیاست کے ایوان میں زلزلہ آجاتا تھا۔‘‘ (سیدین نمبر، ص:۶۶۱)

ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی لکھتے ہیں:

’’حضور سید العلماء کو تاریخ پر بڑا عبور حاصل تھا۔ آپ کی تقریریں بڑی پُرجوش ہوتی تھیں، کبھی کبھی آپ مقفیٰ ومسجع تقریر بھی کرتے تھے، محرم الحرام کی دس گیارہ روزہ تقریریں تو یادگار تقاریر ہوا کرتی تھیں۔ شب عاشورہ کی تقریر خصوصیت کے ساتھ بہت ہی معلوماتی، اصلاحی، پرجوش اور ساتھ ہی ساتھ رقت آمیز ہوتی تھی۔ راقم نے آپ کی بمبئی کی تقریروں کی کیسٹیں سنی ہیں اور استقامت ڈائجسٹ کان پور کے شہید اعظم نمبر میں شب عاشورہ کی جو تقریر پڑھی ہے وہ ایک یادگار اور تاریخی تقریر ہے اور آج کے لفاظ مقررین اس تقریر سے کئی تقریریں تیار کرسکتے ہیں، البتہ وہ قابلیت، انداز، لب و لہجہ اور جذبۂ صادق کہاں سے لائیں گے۔‘‘ (حوالہ سابق، ص:۳۸۳)

مولانا بشیر احمد بشیر القادری لکھتے ہیں:

’’(حضور سید العلماء نے) اپنے زور خطابت سے بمبئی جیسے عظیم شہر کو ایسا مسخر کردیا کہ اپنے تو اپنے، غیروں نے بھی اعتراف کیا کہ سید العلماء کا بمبئی شہر میں وہ وقار واقتدار ہے کہ بمبئی کے سنی مسلمانوں کو جدھر چاہیں جھکادیں، ان کے دلوں پر قبضہ تھا۔‘‘

آگے مزیدایک تاریخی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ایک بار شب عاشورہ میں چھ گھنٹے ذکر شہادت بیان فرمایا، بمبئی شہر کی چہل پہل، ٹرافک، گلی کوچہ سب جام تھے، مجمع کا یہ عالم تھا کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آرہاتھا، شہادت اکبر پر جو بیان فرمایا کہ سارا مجمع آہ ونالے بھر رہاتھا ، رقت کا یہ عالم تھا کہ سامعین کے آنسوؤں سے دامن تر تھے اور کتنے سکتہ وبے ہوشی میں اٹھائے گئے۔‘‘ (حوالہ سابق، ص:۵۷۶)

مندرجہ بالا تأثرات اور وضاحتوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حضور سید العلماء کو فن خطابت پر کامل عبور حاصل تھا۔ وہ میدان تقریر کے بادشاہ تھے، ان کے تمام کمالات وجواہر میں تقریر وخطابت کا جوہر کھل کر نمایاں ہوتا تھا، اور دلوں کو مسحور کرلیتاتھا، جذبات وکیفیات قلبی کو نئے رنگ وآہنگ سے آشنا کرتا تھا اور اپنی فتح ونصرت کا علم بند کرتا تھا، اس میں آپ کی خداداد صلاحیتوں، روحانی امانتوں، علمی بصیرتوں، تاریخی حوالوں اور زبان وبیان، انداز تکلم اور لب و لہجے کی انفرادیت سب کو دخل تھا جو انہیں یقینا ’’سید الخطباء‘‘ کے منصب پر فائز کرتا ہے۔


کشف وکرامت:

کشف وکرامت، اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے محبوب اور مخصوص بندوں کے لیے خاص عطیہ ہے، اللہ نے اس عطیۂ بیش بہا سے حضرت سید العلما ء کو بھی مالا مال کیا تھا۔ آپ کے دفتر فضیلت وکرامات سے چند ناظرین کی خدمت میں پیش ہے۔ حضرت شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں:

’’میں خود اپنی معلومات کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت سید العلماء مستجاب الدعوات صاحب کشف وکرامات بزرگ تھے، خود میرے اوپر بارہا ایسی افتاد پڑی کہ میں پریشان ہوگیا۔ حضرت سید العلماء سے دعا کی درخواست کی، حضرت نے دعا فرمائی دعا کے بعد بشارت بھی دے دی تمہاری مصیبت ٹل گئی اور پھر ویسا ہی ہوا۔

(۱) بلرام پور میں دیوبندیوں نے اپنے پیسے اور حکام رسی کے بل بوتے پر مجھ پر اور میرے احباب پر ایک جھوٹا کیس دائر کردیاتھا، میں سخت پریشان تھا۔ عرس قاسمی میں حاضری ہوئی، دعا کی درخواست کی، دعا فرمائی اور فرمایا: مفتی صاحب جاؤ اب آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا کچھ نہ ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔

(۲) کالپی شریف حاجی دین محمد صاحب کے صاحب زادے خفا ہوکر گھر سے چلے گئے تھے اور کئی دن سے لاپتہ تھے۔ رات کو بعد جلسہ حاجی دین محمد صاحب نے حضرت سید العلما ء سے عرض کیا۔ حضور دعا فرمائیں وہ آجائے۔ حضرت سید العلماء نے فرمایا کہ صبح کی گاڑی سے آجائے گا۔ میں اس وقت وہاں حاضر تھا، صبح جب گاڑی کی سیٹی ہوئی، اورئی کے مولوی بشیر القادری صاحب موجود تھے، ان سے فرمایا: دروازہ کھولو دیکھو وہ آگیا۔ انہوں نے دروازہ کھولا، دیکھا تو صاحب زادے دروازے پر کھڑے تھے۔ (کتابچہ، حضور سید العلماء ، از: شارح بخاری، ص:۱۶،۱۷)

(۳) مولانا بشیر احمد بشیر القادری اورئی بیان کرتے ہیں:

۱۹۵۶ء میں اورئی میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ جس میں ہمارے اور مسلمانوں کے مکانات اور دکانیں جلا دی گئیں، سب کچھ لٹ گیاتھا، ہمارے ساتھیوں کو اور اورئی کے بااثر مسلمانوں کو پولس نے گھروں سے پکڑ پکڑ کر جیل میں بند کردیاتھا، میری بھی پولس کو تلاش تھی۔ میں بمبئی چلا آیا، یہاں حضور سید العلماء رضی اللہ عنہ کی شہرت تھی وہ اپنے وقت کے عارف باللہ، درویش کامل، قطب زمن اور روشن ضمیر بزرگ تھے۔ ان کی کرامت کا خوب چرچاتھا۔ خادم اپنے دوست عبد القادر بابا کے ساتھ مسجد کھڑک نماز پڑھنے جاتا، سرکار کی خدمت میں اور مسجد کھڑک میں اپنا وقت گزارتا، قلب کو سکون ملتا۔ لیکن جب اورئی کی یاد آتی، کسی پولس والے کو دیکھتا، دل گھبرانے لگتا، چہرے پر پسینہ آجاتا، کئی بار دل میں آیا کہ اپنے حالات حضور سید العلماء کی بارگاہ میں عرض کروں مگر ہمت نہیں پڑتی، آخر دل پر جبر کرکے اٹھا اور سرکار سید العلماء کی دست بوسی ومصافحہ کیا، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، حضور نے فرمایا: کیوں روئے، کیا بات ہے؟ غلام نے اپنا حال عرض کیا، فرمایا: بیٹے بشیر! گھبراؤ مت، اللہ پر بھروسہ رکھو، ہم نے تمہارا معاملہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں عرض کردیا ہے، ان شاء اللہ کچھ نہ ہوگا جاؤ۔ خادم سلام وقدم بوسی کے بعد واپس چلا آیا، مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے سر پر بوجھ تھا کسی نے اتار لیا، اسی وقت سے میرے دل میں ڈر، خوف ختم ہوگیا اور بمبئی میں اطمینان وسکون سے رہنے لگا۔ پولس والوں کے سامنے سینہ تان کر نکل جاتا، دل یہ کہتا اب ڈرنے کی کیا بات ہے۔ حضور سید العلماء رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ ہیں، ان کے کرم سے ہم محفوظ ہیں، ہمارا کچھ نہ ہوگا اور یہی ہوا، تقریباً چھ ماہ بعد اورئی سے اطلاع ملی کہ تمہارا نام پولس نے جانچ میں خارج کردیا ہے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے سید العلماء کی، میرے آقا! تمہارے کرم کا کیا کہنا جو فرمایا وہ ہوکر رہا۔

(سیدین نمبر، ص:۵۷۸، تا ۵۸۰، ملخصاً)


(۴) مولانا بشیر القادری اورئی رقم طراز ہیں:

دوسری بار حضور سید العلما ء رحمۃ اللہ علیہ جب ۱۹۶۶ء میں اورئی تشریف لائے ،دارالعلوم برکات محمدیہ کا سالانہ جلسہ تھا، چیت کی فصل کٹ رہی تھی، باہر کے مہمانوں کے آنے کی امید کم تھی، لہٰذا کھانا کم بنوایاتھا مگر مہمان بکثرت آگئے۔ میں بہت پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا؟ میری پریشانی کو دیکھ کر حضور نے فرمایا بیٹا بشیر! کیا بات ہے؟ عرض کیا: سرکار! مہمان زیادہ ہیں کھانا کم بنوایا ہے۔ جلسہ کا وقت شروع ہونے کا ہے۔ اتنی جلدی کھانا بن نہیں سکتا، سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیا کروں؟ فرمایا گھبرانے کی کیا بات ہے، جاؤ کھانے پر چادر ڈال دو، دیکھنا مت۔ کھانا کھلانا شروع کردو، خادم نے کھانا کھلانا شروع کردیا، واللہ سارے مہمان کھا گئے، ہم خوش خوش سرکار کی بارگاہ میں حاضر ہوئے حضور نے پوچھا سب مہمان کھا چکے، میں نے کہا جی۔ حضور نے فرمایا جاؤ چادر ہٹا کر دیکھو کتنا کھانا ہے اب ہم نے چادراٹھا کر دیکھا تو آدھا کھانا موجود تھا خادم نے کل دس کلو گوشت اور بیس کلو آٹے کی روٹی بنوائی تھی جس میںتقریباً تین سو حضرات نے کھانا خوب سیر ہوکر کھایا اور آدھا بچ رہا۔ کیوں نہ ہو شاہ برکت اللہ کی برکتیں ہیں ان کے ہاتھ میں۔ (سیدین نمبر، ص:۵۸۶، ۵۸۷)

وفات حسرت آیات:

حضرت سید العلماء کی وفات ممبئی میں یکم جولائی ۱۹۷۴ء/ ۱۰؍ اور ۱۱؍ جمادی الآخرہ ۱۳۹۴ھ کی درمیانی شب ۱۱؍ بج کر ۴۰؍ منٹ بروز دو شنبہ ہوئی، وصال کے وقت حضرت سید العلماء کی عمر ساٹھ برس کی تھی۔ انہیں سرکاری توپوں کی سلامی دی گئی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ بذریعہ طیارہ مارہرہ شریف لے جایاگیا، جہاں آپ کے صاحب زادے سید آل رسول حسنین میاں نظمی دام ظلہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ خانقاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف میں پیرومرشد کے پہلو میں آپ کی آخری آرام گاہ زیارت گاہ خلائق ہے۔

حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری دام ظلہ العالی حضرت سید العلماء علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد حضرت سیدی مفتی، اعظم ہند مولانا مصطفی رضا اورحضور حافط ملت علیہما الرحمۃ والرضوان کے قلوب پر ہونے والے گہرے صدمے کی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’آپ کے وصال کی خبر سے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا۔ جب یہ اندوہ ناک خبر بذریعہ تار اشرفیہ پہنچی تو فوراً حضور حافظ ملت نے تعزیت وایصال ثواب کا اجلاس طلب فرمایا اور مجھے اس سلسلہ میں تقریر کا حکم دیا۔ پھر حضرت نے عالم رقت میں فرمایا: ’’سید العلماء علیہ الرحمہ کا الجامعۃ الاشرفیہ پر بہت بڑا احسان ہے۔‘‘ حضور سیدی مفتی اعظم ہند قبلہ اس دور میںبستر علالت پر اکثر عالم محویت میں ہوتے، شاید آپ کو حضرت سید العلماء کی رحلت کی خبر شدت مرض کی بنیاد پر نہ دی گئی۔ ایک روز جب آپ کو باہر دارالافتا میں لایا گیا تو آپ کی نظر ایک پرشکوہ پوسٹر پر پڑی۔ عنوان تھا: ’’عرس چہلم سید العلماء‘‘ آپ پر رقت طاری ہوگئی فرمایا: آہ! یہ بھی رحلت فرما گئے، اور فوراً فاتحہ خوانی فرمائی۔‘‘

(سیدین نمبر، ص:۳۴،۳۵)


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی