Hazrat Allama Molana Rehmatullah Kiranwi
مجاہد آزادی تعارف علامہ رحمت اللہ کیرانوی مکی
مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی۔لقب: فخر العلماء،مبلغ اسلام،شیخ العرب والعجم،مجاہد جنگ آزادی۔والد کااسم گرامی: مولانا خلیل الرحمن۔سلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے حضرت عثمان بن عفان سے ملتاہے۔(مہر منیر:398)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت جمادی الاولیٰ/1233ھ،مطابق مارچ/1818ء کو’’محلہ دربار کلاں ‘‘کیرانہ ضلع مظفر نگراترپردیش (انڈیا) میں ہوئی۔(ایضا:310/مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی:2)
تحصیلِ علم: بارہ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ مکمل کیا،اور فارسی وعربی کی ابتدائی کتب پڑھیں،پھر تحصیل علم کےشوق میں دہلی گئے،وہاں زیادہ تر حضرت مولانا محمد حیات دہلوی(خلیفہ حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی) سے پڑھا،ان کے علاوہ حضرت مولانا عبدالرحمن چشتی،حضرت مولانا احمد علی مظفر نگری،حضرت مفتی سعد اللہ مرادآبادی( مرید حضرت آل احمد اچھے میاں)حضرت مولانا امام بخش اصبہانی سے درس نظامی کی تکمیل کی،اور دورۂ حدیث حضرت شاہ عبدالغنی نقشبندی سے کیا۔حکیم فیض محمد سے طب اور مصنف لوگاثم سے ریاضی پڑھی۔(علیہم الرحمۃ)
بیعت وخلافت: غوث الاسلام،فاتحِ قادیانیت حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں مکۃ المکرمہ میں طالب ہوئے۔(مہرِ منیر:120/مہر انور:333)
سیرت وخصائص:فاتحِ عیسائیت،حامیِ اہل سنت،دافعِ اہل بدعت،قاطعِ وہابیت ودیوبندیت،مبلغ اسلام،شیخ العرب والعجم،جامع شریعت وطریقت،فخرالعلماء،سندالاصفیاء،محدث ِحرم،محسنِ اہل حرم،مجاہدِجنگ آزادی حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی۔آپگذشتہ صدی کی اہل اسلام کی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ نےساری زندگی فروغ اسلام ،اشاعتِ اسلام،اور ترقی اسلام میں گزاری۔اس وقت اہل اسلام انتہائی کرب وتکلیف کی زندگی گزاررہے تھے۔حکومت پہلے چھن گئی تھی،اورایمان پر بھی فرنگیوں نے ڈاکے ڈالنا شروع کردیئے تھے۔انگریز نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کےلئےملک کےطول وعرض میں مشن اسکولز،اور مشن ہسپتال،اور مشن فنڈز قائم کیے۔پادریوں کی جماعتیں اہل اسلام کے خلاف سرگرم ہوگئیں،بازاروں،شاہراہوں،محلوں میں اسلام کےخلاف زہر اگلتے،دل آزار لٹریچر تقسیم کرتےپھرتے۔پادری فنڈر شاہی مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑا ہوکر علماء اسلام کو چیلنج کرتا کہ ’’مناظرہ کرکے مجھے مسلمان بنالو،یا خود عیسائی ہوجاؤ‘‘۔پادری فنڈر عربی فارسی اور علوم اسلامیہ میں باظابطہ مہارت رکھتا تھا،اورہندوستانی مسلمانوں کو عیسائیت سے دور کاواسطہ بھی نہیں تھا۔علماء بھی اس مذہب سے ناواقف تھے،اور انہون نے اس طرف کبھی توجہ نہیں کی تھی۔پادری مذکور نےجگہ جگہ علماء سے گفتگو کی لیکن اسےمطمئن نہ کرسکے،اور تسلی بخش جواب نہ دےسکے،جس سے عوام کےایمان کا خطرہ پیداہونے لگاتھا۔البتہ چند محققین تھےان میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویبھی تھے۔آپ نے عیسائیت کے رد میں ایک کتاب’’ازالۃ الاوہام‘‘ تالیف کی۔اس کتاب کی تصنیف پر خاتم النبیین،سید المرسلینﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے۔تاہم پادریوں کی یلغار ہندوستان کےقریہ قریہ اور بستی بستی تک پہنچ چکی تھی۔(مہر انور:310)
فنڈر پادری سےمناظرہ اور اس کو شکست فاش: محلہ عبدالمسیح آگرہ میں 11/رجب المرجب 1270ھ،مطابق 10/اپریل 1854ء کو علی الصبح مناظرہ طےہوا۔اہل اسلام کی طرف سے مناظر ِاول مولانا کیرانوی،مناظر دوم ڈاکٹر وزیر خان،اور مولانا فیض احمد بدایونی مقرر ہوئے۔عیسائیوں کی طرف سے مناظر اول پادری فنڈر،مناظر دوم پادری فرنچ تھے۔اس مناظرے میں علماء،عوام وحکام کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔پہلے پادری فنڈر نے اسلام کےبارے میں گفتگو کی۔اس کےجواب میں مولانا کیراانوی کھڑے ہوئے اور انجیل کےنسخ وتحریف پر بڑی فاضلانہ بحث کی اور عیسائیوں کی کتب سے نسخ وتحریف ثابت کردی،چنانچہ پادری فنڈر سات آٹھ جگہ تحریف کا قائل ہوگیا۔اور اس سے تحریر لےلی گئی۔مناظرہ تین دن جاری رہا۔دوسرےدن تعداد بہت زیادہ تھی۔پادری اور اس کےحواری جواب دینےسے قاصررہے،اورٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔یہ دن بغیر اختتامی بحث کےختم ہوگیا۔تیسرے روز حتمی فیصلے کےلئےاجلاس رکھا گیا۔لیکن تیسرے روز رسول اللہﷺکےشیر کےسامنے اسے آنے کی جرأت نہیں ہوئی اور وہ ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گیا۔
ترکی میں پادری کا فرار: اس دور میں حجاز مقدس ترکی کی خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور سلطان عبد المجید خلیفہ تھے۔ ہندوستان میں مولانا رحمت اللہ کیرانویکےہاتھوں شکست کھانےوالےپادری فنڈرنےترکی کارخ کیا،اوراستنبول جو اس دور میں قسطنطنیہ کہلاتا تھا،خلافتِ عثمانیہ کا دارالخلافہ اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا۔فنڈرنےوہاں یہ تاثردیاکہ ہندوستان کےعلماء اسلام کےبارے میں ان کےاعتراضات کا جواب نہیں دےسکےاس لیےوہ عالم اسلام کےمرکزقسطنطنیہ میں آئے ہیں تاکہ یہاں کےعلماءمیں سےاگرکسی میں ہمت ہوتو ان کے اعتراضات کا سامنا کرے۔
سلطان عبد المجیدمرحوم نےحالات کی تحقیق کےلیےحرمین شریفین میں علمائےکرام کولکھا کہ حج کےموقع پرہندوستان سےلوگ آئے ہوں توان سےصورت حال معلوم کر کےانہیں صحیح رپورٹ دی جائے۔ جب سلطان کاپیغام مکہ مکرمہ پہنچاتومولاناکیرانوی ہجرت کرکے مکہ مکرمہ میں بسیراکرچکے تھے۔ علمائےکرام نےسلطان کو لکھا کہ جس ہندوستانی عالم دین سےپادری فنڈرکامقابلہ ہواتھا وہ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں۔ چنانچہ سلطان عبد المجید مرحوم نےمولانارحمت اللہ کیرانوی کوقسطنطنیہ بلالیااورپادری فنڈرکودعوت دی کہ وہ مولانا سےجس موضوع پرچاہےمناظرہ کرلیں۔ پادری فنڈرکوجب معلوم ہوا کہ ان سےمناظرےکےلیےوہی آگرہ والےمولانا رحمت اللہ آگئے ہیں تو اس نےترکی سےبھی راہِ فراراختیارکرنےمیں عافیت جانی اور فرار ہوگئے۔خلیفہ سلطان عبد المجید مرحوم بہت متاثر ہوئےاورمولانا رحمت اللہ کیرانویسےفرمائش کی کہ وہ اسلام اورمسیحیت کے حوالے سےمتعلقہ مسائل پرمبسوط کتاب لکھیں جو سرکاری خرچے پر چھپوا کر پوری دنیا میں تقسیم کی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر سلطان ترکی نےاسےتقسیم کرایا۔یہ آپ کابہت بڑا کارنامہ ہے،اس سےزیادہ جامع کتاب اس موضوع پر نہیں لکھی گئی۔یہ کتاب عربی زبان میں ہے۔(مہر منیر:399)
جنگِ آزادی میں روشن کردار: جہاد آزادی 1857ء میں مولانا فضل حق خیرآبادی،مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی،مولانا کفایت علی کافی ،مفتی عنایت احمد کاکوروی،مفتی صدرالدین دہلوی،مولانا رحمت اللہ کیرانوی،حاجی امداداللہ مہاجر مکی،مولانا رضا علی خان بریلوی علیہم الرحمہ۔ان علماء کرام نے جہاد آزادی میں وہ کارنامے انجام دئیے کہ قرون اولی ٰ کے مسلمانوں کی یا د تازہ ہوگئی۔اگر ان علماء کرام کی قربانیاں نہ ہوتیں توقیام پاکستان کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔مولانا کیرانوی کی عظمت ومقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب جہاد آزادی شروع ہوا تو جامع مسجد کیرانہ کی سیڑھیوں پر نقارہ پر لوگوں کوجمع کیا جاتااور یہ اعلان ہوتا۔’’ملک خداکا،اور حکُم مولانا رحمت اللہ کا‘‘۔اس کےبعد آپ کی تقریر ہوتی لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی جاتی۔آپ نےانگریز کوناکوں چنے چبوادئیے تھےلیکن اپنوں کی مخبری وغداری،اورعدم مرکز وتنظیم کی وجہ سے ناکامی پرحجاز مقدس کی طرف ہجرت فرمائی۔آپ کےوارنٹ گرفتاری جاری ہوئےایک ہزار انعام مقررکیاگیا۔تلاش میں ناکامی پر آپ کی جائیداد نیلام کردی گئی۔(مہر انور:317)
اہل حرم پر احسان: جب آپ مکۃ المکرمہ تشریف لےگئے توآپ نےمحسوس کیا کہ یہاں ایک ایسی درسگاہ ہونی چاہیے کہ جہاں پوری دنیا سےمتلاشیانِ علم آکر علم حاصل کرسکیں،کیونکہ مکۃ المکرمہ کوئی ایسی درسگاہ موجود نہیں تھی۔چھوٹے چھوٹے مکتب تھے۔چنانچہ کلکتہ کی ایک صاحب حیثیت خاتون ’’صولت النساء بیگم‘‘کی رقم سےایک عظیم درسگاہ بنام’’مدرسہ صولتیہ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔جہاں پوری دنیاسےتقریباً چھ،سات سو طلباء قیام وطعام کی سہولت کےساتھ مدرسے میں تعلیم حاصل کرتےتھے۔(مہرانور:318)
تلبیس ذریت ِابلیس: علماء دیوبند کاآج تک یہی پروپیگنڈہ ہے کہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہمارےہم نواتھے،اور ان کےنام پر لوگوں کوگمراہ کرنےکےلئےمختلف مقامات پر ان کےنام کےمدارس ومساجد بنائے ہوئے ہیں۔یہ ایک مولانا کیرانوی کیا،علماء دیوبند نےہراس شخص کو’’دیوبندیانے‘‘کی صف میں لانے کی کوشش کی جس نے کھلم کھلا ان کی تضلیل وتکفیر نہیں کی حالانکہ اس وقت حالات مختلف تھے۔چنانچہ ان کےمشہور عالم مولوی خلیل احمد سہارنپوری لکھتے ہیں:’’اس آخر وقت میں اب مولوی رحمت اللہ صاحب تمام علماء مکہ پر فائق ہیں،اور باقرار علماء ِ مکہ اعلم ہیں‘‘۔(مہر انور:321/بحوالہ براہین قاطعہ:263)۔یہ تعریف وتوصیف اس لئے کی جارہی ہے تاکہ عام مسلمانوں میں مولانا کیرانوی سےہماری وابستگی کا چرچہ رہے۔ورنہ حقیقت میں مولانا عبدالسمیع رام پوری،مولانا غلام دستگیر قصوری،مولانا کیرانوی ایک ہی صف اور عقیدہ کےآدمی ہیں۔
حقیقت: قارئین کرام!مولانا کیرانوی کاعقیدہ ان کی ان تقریضات اورہماری آنےوالی تحریرات سےخوب واضح ہوجائے گا۔جشن ِ دیوبند،جشن جمعیت وغیرہ منانےوالے،اور جشن عید میلادالنبیﷺکوشرک وبدعت کہنے والے دیکھیں! کہ حضرت مولانا کیرانویمیلاد النبیﷺکےبارے میں کیامشرب رکھتےتھے۔فرمایا:’’میرے اساتذۂ کرام(آپ شاہ ولی اللہ،شاہ عبدالعزیز علیہمالرحمہ کےشاگردوں کےشاگرد ہیں)کا اور میراعقیدہ مولد شریف (میلادالنبیﷺ منانے)کےباب میں قدیم سےیہی تھااور یہی ہے بلکہ بحلف سچ سچ ظاہر کرتاہوں کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ ؏:بریں زیستم ۔۔۔ہم بریں بگزرم‘‘۔کہ اسی پر جیوں اور اسی عقیدے پر دنیا سے جاؤں۔
انوار ِساطعہ اور تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل پر جوآپ نےتقریظیں تحریر فرمائی ہیں۔وہ ان کےلئے ’’تازیانہ عبرت ہیں‘‘ لیکن اس کےباوجود یہ دجل وفریب،اور کذب بیانی سےعوام کو گمراہ کررہے ہیں۔چند اقتباسات پر اکتفا کرتاہوں۔آپ فرماتے ہیں:’’سو کہتاہوں کہ میں مولوی رشید کو رشید سمجھتا تھا۔مگر میرے گمان کےخلاف کچھ اور ہی نکلے‘‘۔پھر فرمایا:’’ میں بھی اس زمانے کے حالات اور حضرت رشید اور ان کےچیلوں چانٹوں کی تقریر اور تحریر سے پناہ مانگتاہوں‘‘۔مزید تفصیل کےلئے انوار ساطعہ،تقدیس الوکیل،اور مہر انور ،مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا مطالعہ نہایت مفید ہوگا(تونسویؔ غفرلہ)
غوث الاسلام حضرت سید نا پیر مہر علی شاہ گولڑوی سےعقیدت: مولانا رحمت اللہ کیرانویکےشاگرد قاری عبداللہ الہ آبادیکےایک خط میں تحریرہے کہ مولانا کےوصال کےوقت میں موجود تھا۔وہ اپنی بیماری کےدوران فرماتےتھے:’’ گولڑہ جانے کوجی چاہتاہے،اور وصال سے تھوڑی دیر قبل فرمایا کہ میری آنکھوں کے سامنےپیر صاحب کاوہ سبز رومال پھر رہاہے‘‘۔اس وقت دیگر افراد آپ کی خدمت میں موجود تھے سب ان باتوں کی تصدیق کرتےتھے۔(مہر منیر:120)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 22/رمضان المبارک 1308ھ مطابق یکم مئی 1891ءکوہوا۔جنت المعلیٰ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کےجوار میں دفن ہوئے۔آپ کےساتھ مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی،شیخ الدلائل مولاناشاہ عبدا لحق مکی علیہم الرحمہ آرام فرماہیں۔
ماخذ ومراجع: مہر منیر۔مہر انور۔مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو
تاریخ اسلام میں ایک ایسا سنہرا دور بھی آیا تھا جب تن تنہا ایک شخص کا نام سن کر عیسائیت کے نام نہاد بادشاہوں کے قلعوں کی مضبوط دیواریں ہل جایا کرتی تھیں۔ جن کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ نے عیسائیوں کی نیندیں حرام کردیں تھیں۔ جن کے عزم و استقلال کے سامنے ہزاروں لاکھوں کی فوج روئی کی مانند ھباءا منثورا ثابت ہوتی تھی۔ بعینہ اسی طرح انیسویں صدی میں ملک ہندوستان میں ایک ایسی عظیم شخصیت نے جنم لیا، جن کے نام سے عیسائی راہبوں اور کلیسا کے رکھوالوں کے ہوش اڑ جایا کرتے تھے۔ جن کی آمد کی اطلاع پر عالم عیسائیت کا سب سے بڑا پادری ( فنڈر) راتوں رات شہر چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگیا۔ جس نے عیسائیوں کے کچھار میں گھس کر ان کے دجل و فریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کا قلع قمع کیا ہے۔ یہ اس زمانہ کی داستان ہے جب لندن کے پارلیمنٹ میں ہندوستان کو عیسائیت کے رنگ میں رنگنے کے لئے قانون پاس کیا جاچکا تھا۔ جب دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزی فوج کی پشت پناہی میں پادری مسلمانوں کے مذہب کو للکارا کرتے تھے۔ جب فنڈر کی لکھی ہوئی کتاب ( میزان حق) کو معیار سمجھا جانے لگا تھا۔ ہندوستان کے باشندوں کو عیسائیت مذہب قبول کرنے کیلئے ورغلانے کے علاوہ ڈرانے دھمکانے کا دور شروع ہوچکا تھا۔ جب دہلی کی شاہجہانی مسجد کو گرجا میں تبدیل کرنے کی خبر جنگل کے آگ کی مانند پھیل چکی تھی۔ جب سرکاری ملازمین کیلئے پادریوں کی مجلسوں میں شرکت کو ضروری قرار دیا جاچکا تھا۔ یہ سب کچھ ہورہا تھا اور ایسے وقت میں ہورہا تھا جب برائے نام ہی سہی لیکن دہلی کے تخت پر سلطنت مغلیہ کا آخری چراغ بہادر شاہ ظفر اپنے آخری ایام اور نتائج کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ پادریوں کی اس دیدہ دلیری اور انگریزی فوج کی پشت پناہی کی وجہ سے مسلمانوں میں شکوک وشبہات پیدا ہونے شروع ہوگئے تھے۔ عام مسلمان خود کو بے سہارا سمجھنے لگے تھے۔ ہندوستان میں اندلس کی تاریخ دہرانے کی مکمل تیاری کی جاچکی تھی ایسے وقت میں کیرانہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہونے والے رحمت اللہ کیرانوی نے عیسائیت کے شیش محل کو چکنا چور کیا ہے۔ لن ترانیاں بکنے والوں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کیا ہے۔ اور ہزاروں انگریزوں کے سامنے آگرہ کے مناظرہ میں اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے ابطال کو ثابت کیا ہے، اور ہندوستان میں پھیلتے ہوئے فتنہ ارتداد پر لگام لگایا تھا۔
ولادت با سعادت
آپ کی ولادت باسعادت مظفر نگر میں واقع قصبہ کیرانہ میں مولوی خلیل اللہ عرف خلیل الرحمٰن کے گھر 1817 میں ہوئی۔ آپ کیرانہ کے سب سے معزز گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ آپ کے اجداد میں حکیم بینا ( حکیم عبد الکریم) کو مغلیہ سلطنت کے فرمانروا اکبر نے کیرانہ اور اس کے ملحقات کی جاگیر عطا فرمائی تھی۔ آپ کا علاقہ آپ کے وسیع و عریض محلات کی بنا پر ( دربار کلاں) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آپ نسباً عثمانی ہے۔ آپ مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمعصر تھے۔
تعلیم و تربیت
آپ کے والد محترم عالم دین تھے اور آپ کا پورا گھرانہ دینی ماحول میں ڈھلا ہوا تھا۔ عبادت و ریاضت سمیت علم و فضل کی چاشنی ہر فرد بشر کے سینہ میں موجزن تھی، ایسے ماحول میں نشو و نما پانے والے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے شوق و ذوق کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم، قرآن مجید اور فارسی کی ابتدائی کتابیں گھر پر ہی پڑھیں۔ حصول علم کے شوق نے آمادہ سفر کیا اور آپ مرکز علم و ادب دہلی کی درسگاہ تک جا پہنچے۔
دہلی میں آپ نے مدرسہ محمد حیات میں داخلہ لیا اور ایک حجرہ میں رہتے ہوئے حصولِ علم میں مگن ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد جب آپ کے والد محترم دہلی تشریف لائے اور یہاں مہاراجہ ہندو راؤ کے میر منشی مقرر ہوئے تو آپ نے مدرسہ کے قیام کو چھوڑ کر والد ماجد کے ساتھ سکونت اختیار کرلی۔ دہلی میں قیام کے دوران آپ چند رفقاء کی معیت میں مفتی سعد اللہ مرادآبادی کے حلقہ درس میں شامل ہونے کیلئے لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے مفتی سعد اللہ مرادآبادی کے درس میں پابندی سے شرکت کی اور آمد کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل انہماک سے تحصیل علوم کیلئے خود کو وقف کئے رکھا۔ علم طب یہ آپ کے خاندان میں صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ چنانچہ سلطنت مغلیہ کے فرمانرواؤں کے علاج کیلئے آج کے اجداد بلائے جاتے رہے ہیں۔ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آپ نے وقت کے مشہور حکیم استاد حکیم فیض محمد سے علم طب حاصل کیا۔
درس وتدریس
1256 ہجری میں تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے وطن مالوف کیرانہ لوٹ آئے۔ یہاں محلہ کی مسجد میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ چھوٹے طلبہ کے علاوہ کچھ بڑے طلبہ بھی استفادہ کیلئے آنے لگے تھے۔ اگرچہ آپ کا زمانہ تدریس بہت مختصر رہا ہے لیکن ان ایام میں بھی آپ نے بے شمار ذی استعداد طلبہ کی جماعت تیار کرکے اشاعت اسلام کی خاطر ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیا تھا۔ اللہ جب کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو اس کیلئے وسائل بھی خود فراہم کرتا ہے۔ ملک کے بدلتے حالات اور عیسائیت کی شورش کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے درس و تدریس کے بجائے عیسائیت کے ابطال کو اپنا میدان بنایا۔ عیسائی پادریوں کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات کے علاوہ اسلام کی حقانیت کی دلیلیں اور عیسائیت کے ابطال کی مستند باتوں سے اپنے آپ کو مزین کیا، اور جب پادریوں کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھ گئی تو ان کی سرکوبی کے لئے میدان میں کود پڑے اور تادم حیات اس کام میں لگے رہے۔ ہندوستان سے ترکی تک ہر جگہ آپ نے عیسائی پادریوں کا پیچھا کیا اور ان کی فرضی اور من گھڑت باتوں سے مسلمانوں کے دین و اسلام کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا تھا۔
عیسائیت کا سیلاب
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانیوں کو عیسائیت کے رنگ میں رنگنے کیلئے باضابطہ لندن پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی اور پھر کمپنی کی سرپرستی میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پادریوں کی فوج ٹڈی دل کی مانند ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ یہ پادری جہاں جاتے انہیں مکمل طور پر انگریزی فوج کے ذریعہ تحفظ فراہم کیا جاتا تھا۔ عیسائیت کی تبلیغ کے نام پر انہوں نے مذہب اسلام، شعائر اسلام اور حتی کہ پیغمبر اسلام کی ذات مقدسہ کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی خاموشی یا پھر انگریزوں کے خوف نے ان پادریوں کو مزید حوصلہ بخشا اور دن بدن ان کی سرگرمیاں تیز ہوتی چلی گئیں۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزی فوج کی پناہ میں عیسائی مبلغین اسلام کے فرزندوں کو للکارا کرتے تھے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ دہلی کی شاہجہانی مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کرنے کی خبر جنگل کے آگ کی مانند پھیل گئی اور یہ سب کچھ پادریوں کی خباثت کا نتیجہ تھا۔ اس مہم کو مزید تقویت بخشنے کیلئے لندن سے سب سے بڑے پادری ( فنڈر) کو ہندوستان بھیجا گیا۔ جس نے آگرہ کو اپنی قیام گاہ بناکر پورے ملک میں ہورہے مشنری کام کو انجام دینا شروع کیا۔ اس کی سوچ سے کہیں زیادہ اس کی زبان خراب تھی۔ اس نے ہندوستان کو دوسرا اندلس بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی ان تمام حالات سے باخبر تھے۔ اسی درمیان پہلے آپ نے پادری فنڈر کی کتاب (میزان الحق) کا جواب ( ازالہ الاوہام) کے نام سے لکھا۔ لیکن یہ فتنہ اس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ اس کے سد باب کیلئے یہ کافی نہیں تھا۔ آپ دہلی پہنچے اور یہاں سے اپنے رفیق خاص ڈاکٹر وزیر خان کی معیت میں پادری فنڈر کے چیلنج کو قبول کرنے کیلئے آگرہ جو عیسائی پادریوں کا قلعہ تھا وہاں پہنچ گئے۔ آگرہ پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ پادری فنڈر گھر پر نہیں ہے۔ آپ نے اس کے آنے کا انتظار کیا۔ بالمشافہ ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے خط و کتابت کے ذریعہ اپنے مقصد سے آگاہ کیا۔ پادری فنڈر کو ہر قسم کا تحفظ فراہم تھا۔ اس نے اسی جوش میں اپنی شرطوں کے ساتھ مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے مناظرہ کیلئے تیار ہوگیا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا عیسائی پادریوں سے مناظرہ
انگریزی فوج کی پشت پناہی کے باوجود اگرچہ کئی مقامات پر مسلمانوں نے عیسائیت کے سیلاب کو تہہ و بالا کیا تھا لیکن اس سطح پر نہیں جو مقصود تھا۔ بعد کے زمانے میں شاہجہاں پور میں امام محمد قاسم نانوتوی نے پادریوں کے چھکے چھڑا دیئے تھے، اور 1857 کے بعد مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہجرت کے بعد مولانا محمد علی مونگیری نے مکمل طور پر اس مورچہ کو سنبھالا تھا۔ لیکن پادری فنڈر کے چیلنج کو اس کے عہد میں کسی نے قبول نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس میں رعونت کبر و غرور حد درجہ پیدا ہوگیا تھا۔ شہر آگرہ میں مسلمانوں کی تعداد قابل ذکر تھی۔ علماء کی بڑی جماعت موجود تھی۔ لیکن پادریوں کا یہ ریوڑ بے لگام آگرہ سے پورے ملک میں دندناتے ہوئے گھوم رہا تھا۔
مناظرہ کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔ یہ وہ مناظرہ تھا جو ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل طے کرنے والا تھا۔ اس مناظرہ کی اطلاع پورے ملک میں پھیل گئی تھی، حتی کہ سات سمندر پار بیٹھے سلطنت برطانیہ کے اعلی عہدے داران بھی اس سے واقف تھے۔ یہ مناظرہ اس بات کو طے کرنے والا تھا کہ ہندوستان میں عیسائی مذہب قبول کرلیا جائے گا یا پھر ہندوستان کے غیور مسلمان اسے قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے مناظرہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کا مجمع ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس مناظرہ میں آگرہ کے چند مسلمانوں کے علاوہ انگریزی فوج اور انگریزی عہدے داران موجود تھے، جن کی مکمل تعداد تقریباً پانچ سو تک تھی۔
مناظرہ 10 اپریل 1854 کو آگرہ میں شروع ہوا، مناظرہ کے آغاز میں پادری فنڈر نے اپنی رعونت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، یہ مناظرہ دراصل مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے کہنے پر ہورہا ہے، جبکہ اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہے۔ مناظرہ نسخ، الوہیت مسیح، نبوت محمدی اور قرآن بر حق، ان موضوعات پر ہوگا۔ مناظرہ کا باضابطہ آغاز ہوا، دلائل پیش کئے گئے۔ وہ پادری حضرات جو بزعم خود علم کے پہاڑ تھے، ایک اکیلے مولوی رحمت اللہ کیرانوی کے سامنے بغلیں جھانکنے پر مجبور ہونے لگے۔ مناظرہ اپنے تمام اصول و ضوابط کے مطابق پورے دن جاری رہا بلکہ وقت سے زیادہ دیر تک بحث ہوتی رہی۔ پہلے دن کا اختتام ہوا لیکن اس اختتام میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے انجیل میں تحریفات کے اتنے دلائل پیش کئے کہ پادری فنڈر کو علی الاعلان کئی جگہوں پر تحریفات کا اقرار کرنا پڑا تھا، اور پھر دوسرے دن مناظرہ شروع ہوا۔ لیکن آج یہاں حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ اب پادری فنڈر اور اس کے ساتھیوں کے پاس لن ترانیوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ مسئلہ نسخ، الوہیت مسیح کہیں بھی ان کو جواب نہیں بن پارہا تھا۔ اس بوکھلاہٹ میں پادری فنڈر نے قرآن مجید کی غلط تلاوت کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کی، جس پر مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے فوراً گرفت فرمائی۔ توریت و انجیل میں تحریفات کے اقرار کے بعد پادریوں میں باہمی چپقلش بھی عوام کے سامنے واقع ہوگئی۔ بارہا عوام نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دلائل کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن پادری حضرات مارے شرم کے خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں۔ اس طرح مناظرہ کا دوسرا دن مکمل مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے نام رہا۔ مناظرہ کیلئے پانچ عنوانات طے کئے گئے تھے لیکن محض دو موضوع پر ہی بات ہوسکی، کیونکہ اس کے بعد پادری فنڈر میں مناظرہ کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔ آپ نے آگرہ میں پادری فنڈر کو نہیں بلکہ عیسائیت کے اس بھوت کا سر کچل دیا تھا، جو ہندوستانی مسلمانوں پر برے آسیب کی مانند چھا گیا تھا۔ اس مناظرہ کی گونج پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ مسلمانوں کو ایک ایسا مرد مجاہد مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی شکل میں نصیب ہوا تھا جس نے عیسائیت کے ابطال کو ان کے قلعہ میں جاکر ثابت کیا تھا۔ مسلمان خود کو محفوظ تصور کرنے لگے تھے۔ عیسائیت کی تبلیغ جس زور و شور سے جاری تھی یکایک اس پر لگام کس دی گئی تھی۔ پادری فنڈر شکست کے بعد بغیر اطلاع دیئے لندن فرار ہوگیا۔ اس کی شکست سے ناراض حکمرانوں نے اسے لندن میں عہدہ سے معزول کردیا تھا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو اللہ نے ایسے دور میں پیدا کیا تھا جب عیسائی مذہب نے ہندوستان میں اپنے پیر پھیلانے شروع کر دیئے تھے۔ مولانا نے اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیا اور فراغت کے بعد چند سالوں تک محلہ کی مسجد میں درس وتدریس کے علاوہ خصوصی طور پر عیسائیت اور اسلام کے موضوعات کا مطالعہ شروع کیا۔ آپ نے ہر ممکنہ طور پر اسلام پر اعتراضات کے جوابات کو تحریری شکل میں محفوظ رکھا۔ اور باضابطہ عیسائیت کے رد میں کتابیں لکھیں۔ پادری فنڈر کی کتاب جسے مذہب اسلام کے خلاف سب سے مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا آپ نے اس کا جواب ( ازالہ الاوہام) لکھ کر اس کی حقیقی حیثیت کو ثابت کیا تھا۔ بعد میں سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ کی درخواست پر اپنی معرکہ الآرا کتاب ( اظہار الحق) تصنیف فرمائی، جسے آج تک عیسائیت کے ابطال میں سب سے معتبر کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
1857 کی جنگ آزادی
سلطنت مغلیہ کے ادوار میں جو ذہنی اور فکری آزادی ہندوستانیوں کو حاصل تھی اب اس کا دور ختم ہوچکا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مضبوط اور ظالم پنجوں کے بل بوتے ہندوستانیوں کو غلام بنانے کیلئے ہر طرح کی حکمت عملی اپنانے کو تیار تھی، اور اس کام کیلئے باضابطہ سلطنت برطانیہ سے انہیں مکمل اختیار حاصل تھا۔ معاشی اور سماجی طور پر ہندوستانیوں کا استحصال کیا جانے لگا تھا، مذہبی معاملات میں ہندو مسلمان دونوں طبقے کو نشانہ بنایا جانے لگا تھا۔ یہ بات تقریباً ہندوستان کے ہر شہری کے ذہن میں محفوظ ہوگئی تھی کہ انگریز زبردستی عیسائیت ہم پر مسلط کریں گے۔ایک طرف انگریزوں نے عوام الناس کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا شروع کردیا تھا جبکہ دوسری جانب ہندوستان کے ہندو مسلم اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بزور طاقت عیسائی بنانے کا عمل تیز کردیا تھا۔ انہیں ایام میں کارتوس کے معاملہ کو لیکر میرٹھ میں فوجیوں نے احتجاج کیا۔ بعد میں یہی احتجاج انگریزی حکومت کے خلاف جنگ آزادی کی شکل میں رونما ہوا۔ میرٹھ چھاؤنی میں انگریز افسروں کو قتل کردیا گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے یہ آگ پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
ہجرت کا ارادہ
1857 کی جنگ نے انگریزی فوج کو انسانیت کے لبادہ سے اتار کر درندگی کے اس مقام پر پہنچا دیا، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انسانی شکل و شباہت والے ان گوروں نے ہندوستانی عوام اور خصوصاً علماء اسلام کو وہ دردناک اذیتیں دی ہیں جسے بیان کرنے سے الفاظ کا دامن تنگ ہے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا گیا اور آپ کو گرفتار کرنے پر ایک ہزار روپے انعام رکھے گئے۔ ہر طرف مخبروں کا جال بچھا دیا گیا تھا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے انگریزوں کا معاملہ صرف 1857 میں جنگ آزادی کا نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو آگرہ کا مناظرہ اور عیسائیت کے خلاف مولانا کی محاذ آرائیوں کی وجہ سے زیادہ آگ بگولہ تھے۔ عیسائیت کے سیلاب کا تن تنہا اس ذات گرامی نے سد باب کیا تھا۔انگریزی فوج آگرہ کی ذلت و رسوائی کا بدلہ لینے کے درپر تھی۔ مولانا نے ہجرت کا ارادہ کرکے، اپنا بھیس بدل لیا اور عامی لباس میں دہلی کو روانہ ہوگئے۔ پیادہ پا آپ دہلی سے سورت کی بندرگاہ پہنچے اور پھر یہاں سے کراچی ہوتے ہوئے جدہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ ناز و نعم میں پلنے والی اس شخصیت نے کم و بیش ڈھائی مہینوں تک ہزاروں میل کا سفر بھوک پیاس کی شدت اور موسم کے تغیر و تبدل کو خاطر میں لائے بغیر پیادہ پا طے کیا تھا۔ ان سرفروشان اسلام کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان میں اسلام اور مسلمان موجود ہیں۔
مکہ مکرمہ میں قیام
دین اسلام کا یہ عظیم مجاہد انگریزی تسلط اور انگریزوں کی حکمرانی سے دور خدا کے اس گھر میں پہنچ چکا تھا جہاں ہر کوئی مامون ہے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں میں بے شمار افراد ہجرت کرکے مکہ مکرمہ پہنچے تھے جن میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی بھی تھی۔ یہاں قیام کے دوران مولانا رحمت اللہ کیرانوی صاحب کی ملاقات عرب عالم دین سید احمد دحلان سے ہوئی۔ وہ آپ کے تبحر علمی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ باضابطہ آپ کیلئے حرم مکی میں درس کا سلسلہ شروع کردیا۔ آپ باضابطہ اساتذہ حرم میں داخل کئے گئے تھے۔ آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا اور پورے انہماک سے تعلیمی مشغولیت میں مصروف ہوگئے۔
دربار خلافت میں حاضری
مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے ہندوستان میں رونما ہونے والے واقعات اور انگریزوں کے ظلم و استبداد سے عرب ممالک کے علماء حضرات کو باخبر کیا اور آگرہ میں پیش آئے مناظرہ کی روداد سے سب کو آگاہ کیا۔ ان ایام میں آپ تو مکہ مکرمہ میں درس وتدریس میں مشغول رہے لیکن پادری فنڈر جو آگرہ سے بھاگ کھڑا ہوا تھا، وہ مختلف یوروپی ممالک سے ہوتے ہوئے ترکی کے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچ گیا اور یہاں ہندوستان میں پیش آئے مناظرہ کے متعلق غلط بیانیوں سے عوام کو متاثر کرنا شروع کیا۔ ترکی کے سلطان عبد العزیز کو جب ان حالات سے آگاہی ہوئی تو آپ شدید تشویش میں مبتلا ہوگئے اور مکہ کے گورنر کو حکم جاری کیا کہ ہندوستان سے آنے والے حاجیوں سے آگرہ کے مناظرہ کی روداد بالتفصیل معلوم کرکے بھیج دیں۔ مکہ کے گورنر نے یہ بات سید احمد دحلان سے کہی، سید احمد دحلان نے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا تعارف کرایا اور بتایا کہ یہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے آگرہ میں مناظرہ کیا تھا۔
سلطان عبد العزیز کے حکم پر شاہی مہمان کی حیثیت سے 1864 میں آپ ترکی کیلئے روانہ ہوئے۔ آپ کا شاہی استقبال کیا گیا اور سلطنت کے علماء ومشائخ کے سامنے آپ نے مناظرہ کی روداد بیان کی۔ جب آپ ترکی پہنچے ہیں تو پادری فنڈر ترکی میں موجود تھا، لیکن کسی طرح اسے یہ خبر مل گئی کہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی ترکی پہنچ گئے ہیں، باطل دین کا یہ خود ساختہ مبلغ راتوں رات ترکی سے فرار ہوگیا۔ اللہ نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے ذریعہ عیسائیت سے تحفظ دین کا کام صرف برصغیر میں ہی نہیں لیا، بلکہ مسلمانوں کے متحدہ سلطان کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں بھیج کر عیسائیت کے ابطال کو ثابت کرنے کی سعادت سے بھی مالا مال فرمایا۔ وہاں رہتے ہوئے، سلطان کی خواہش پر آپ نے مناظرہ کی مکمل روداد قلم بند کی۔ جسے ( اظہار الحق) کے نام سے شائع کیا گیا۔ مختلف زبانوں میں اس کتاب کے ترجمے شائع کئے جاچکے ہیں۔ آپ کے اس کارنامے سے خوش ہوکر سلطان نے آپ کو ( پایہ حرمین) کے خطاب سے نوازا۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1894 میں لندن ٹائمز میں ایک مضمون شائع ہوا کہ جب تک لوگ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی کتاب ( اظہار الحق) کا مطالعہ کرتے رہیں گے اس وقت تک عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت نہیں ہوسکتی ہے۔
مدرسہ صولتیہ کا قیام
ترکی میں کم و بیش ایک سال کی مدت گزار کر آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے، یہاں آپ نے ہندوستانی طرز پر تعلیم اور درس و تدریس کے آغاز کا فیصلہ کیا، لیکن اس کی کوئی سبیل نہیں پیدا ہورہی تھی۔ آپ نے مہاجرین کی جماعت سے اس کار خیر میں حصہ لینے کی پیشکش کی، لیکن چونکہ یہ حضرات خود دیار غیر میں اپنا سب کچھ لٹا کر پہنچے تھے، اسلئے اس کا نظم نہیں ہوسکا۔ اسی درمیان 1290 ہجری میں کولکاتہ کی ایک صاحبِ ثروت خاتون صولت النساء بغرض حج مکہ مکرمہ تشریف لے گئیں۔ اس نیک دل خاتون نے ثواب کیلئے کچھ رفاہی کام کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے داماد مستقل مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے درس میں شریک ہوا کرتے تھے ایک دن موقع دیکھ کر اپنی خوشدامن کے ارادہ کا ذکر کیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے ہندوستان کے طرز پر مدرسہ تعمیر کرنے کا مشورہ دیا اور پھر خاتون کی رضامندی سے زمین خرید کر مدرسہ کا تعمیراتی کام شروع کردیا گیا۔ تعمیراتی کام کے مکمل ہونے تک وہ نیک دل خاتون مسلسل جائے مقام پر جاکر جائزہ لیا کرتی تھی تاکہ کچھ کمی نہ رہ جائے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے مدرسہ کا نام اسی نیک دل خاتون کے نام پر رکھ دیا اور آج تک مدرسہ صولتیہ کا نظام جاری ہے۔
زندگی کے آخری ایام
مدرسہ صولتیہ کے قیام کے بعد مولانا رحمت اللہ کیرانوی مکمل انہماک سے مدرسہ کی تعلیم و تربیت کی ترقی کیلئے کوشاں ہوگئے۔ ان ایام میں کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر مولانا کو دو بارہ ترکی کا سفر درپیش ہوا، اس سفر میں بھی آپ کو مکمل طور پر سرکاری اعزاز کے ساتھ بطور مہمان خصوصی رکھا گیا۔
1303 ہجری میں آپ مکمل طور پر لکھنے پڑھنے سے معذور ہوگئے۔ آنکھوں کی بینائی مکمل ختم ہوگئی تھی۔ جب سلطان ترکی کو آپ کے اس مرض کی اطلاع ملی تو انہوں نے آپ کو ترکی طلب کیا تاکہ شاہی حکماء اور ڈاکٹروں کے ذریعہ علاج ممکن ہوسکے۔ آپ ترکی تشریف لے گئے، ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد دو ماہ انتظار کرنے کیلئے کہا۔ سلطان کی خواہش تھی کہ آپ وہیں قیام فرماتے لیکن آپ نے معذرت پیش کرکے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ کچھ دن قیام کے بعد آپ مکہ مکرمہ واپس ہوگئے۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی آنکھوں کا آپریشن ہوا لیکن یہ کامیاب نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے آپ کو فائدہ نہیں حاصل ہوسکا۔
آپ کی عمر مبارک 75 سال ہوچکی تھی، ان ایام میں آپ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ خدمت اسلام کا حسین ترین باب ہے۔ بالآخر 1308 رمضان المبارک کی 22 تاریخ کو عالم اسلام کا یہ سپوت جس کے نام سے عیسائیت کے قلعوں میں زلزلے طاری ہوجاتے تھے، اپنے رب حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔ آپ کی خواہش کے مطابق اللہ نے آپ کو سرزمین مکرم میں ہمیشہ کیلئے جگہ نصیب فرمائی۔