Biography Moulana Abu ALi Taqiuddin Ahmed ashrafi تعارف شیخ بو علی محمد تقی الدین احمد مالاباری
آج کی اس ویڈیو میں ہم بیسویں صدی میں جنوبی و شمالی ہند کے علوم اسلامیہ کے مجمع البحرین ، زینتِ مسندِ تدریس ، استاذ العلما، محبوب الاولیا، جلالۃ الارشاد، یادگارِ اسلاف آبروئے اہل سنت معمار ملت خلیفۂ حضور محدث اعظم ہند، خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند علامہ مولانا مفتی شیخ بو علی محمد تقی الدین احمد مالاباری نعیمی جعفری اشرفی نوری کی حیات و خدمات کا سرسری ذکر کر رہے ہیں ، تفصیلی معلومات کے لیے آپ سوانح معمار ملت کا لازمی طور پر مطالعہ فرمائیں۔
اگر آپ کو یہ ویڈیو پسند آتی ہو تو لائک اور شئیر کریں ، چینل کو سبسکرائب کیجئے۔
حضرت معمار ملت کو نام و نمود کی کبھی خواہش نہ تھی ۔ کبھی بھی کہیں بھی خود کو نمایاں نہیں کیا بلکہ اپنی ولایت و شخصیت کو پوشیدہ رکھا۔ معمار ملت خود عوام و خواص میں خود کو صرف اور صرف عام سے مولوی اور مولانا کی حیثیت سے روبرو ہوئے۔
آپ کا اسم گرامی : احمد لقب تقی الدین احمدہے
کنیت: ابو علی تھی ۔ ایم ٹی ای احمد، ایم ٹی ای وغیرہ عرفی ناموں سے عوام و خواص میں معروف رہے۔
استاذ العلما،، مجذوب العلما، معمار ملت، محبوب الاولیا آپ کے القابات ہیں۔
معمار ملت 1915 بمطابق 1333ھ کو جناب مولوی مداری صاحب کے گھر پنیور کلم ،پونانی ضلع مالاپورم کیرلا میں پیدا ہوئے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم کا آغاز میں اپنے گھر سے مشفق بڑے بھائی کی نگرانی میں ہوا۔ چونکہ آپ کے والد گرامی بچپن میں ہی رحلت کر گئے۔
حضرت مولانا تقی الدین اشرفی مسلک حضرت امام شافعی کے پیروکار تھے اس لیے آپ نے فقہ شافعی میں کمال و مہارت حاصل کی اور عربی زبان دانی پر عبور پایا۔آپ کے مطالعہ اور ذوق تعلیم نے آپ کو حنفی مسلک کی تعلیم و فقہ پر اکسایا تو آپ نے 29 سال کی عمر میں 1944 کو جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں داخلہ لیا اور چھ سال وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بقیہ تعلیم جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور مہاراشٹرا سے 13 شعاب 1370ھ بمطابق 20 مئی 1951 کو دستار قرات اور 16 شعبان ۱۳۷۱ ھ بمطابق 11 مئی 1952ء کو دستار فضیلت حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ وشیوخ میں صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی، فقیہ اعظم مفتی عبد الرشید خاں فتح پوری، علامہ مفتی محمد عمر نعیمی علیہم الرحمہ جیسے آسمان علم و فن کے نیر تاباں شامل ہیں۔
والدین کریمین نے معمار ملت کا نام احمد رکھا تھا ۔ حضور صد ر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے آپ کے تقویٰ و طہارت ، توکل علی اللہ ، اخلاص و ایچار، تواضع و انکساری، عشق رسول وغیرہ جیسے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے تقی الدین کے لقب سے نوازا ۔ ساری زندگی اور بعد وصال بھی معمار ملت اسی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
معمار ملت نے کرناٹک ، مہاراشٹرا ، گجرات، یوپی، کیرلا، آندھرا پردیش، تلنگانہ ، تمل ناڈو، راجستھان سمیت ملک کے متعدد صوبوں ، شہروں، قصبوں میں خدمت دین ودعوت دین کا فریضہ انجام دیا۔کئی مساجد و مدارس تعمیر کیے ، بے شمار بندگان خدا کو دعوت دین دی اور ان کی اصلاح فرمائی۔ معمار ملت کی 40 سالہ دینی ، دعوتی، تبلیغی، انتظامی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
آپ نے کیتھون ضلع کوٹہ راجستھان میں مرکز اہل سنت دارالعلوم رضویہ قائم فرمانے کے ساتھ چھوٹے بڑے کئی مدارس کی بنیاد بھی رکھی۔
تصانیف:
معمار ملت علیہ الرحمہ نے مالتبلیغ، تبلیغ کیا ہے۔ اسلامی بستان، نالۂ سحر کی کتابیں تصنیف کی ۔ جو آپ کے عمدہ فکر، آسان و سلیس لب ولہجہ، فکر اسلامی و فکر انسانی کا نمونہ ہیں۔
آپ کا عقد نکاح آپ کی بیوہ بھابھی سے ہوا۔ جن سے ایک بیٹے محمد علی پیدا ہوئے اور جن کی رحلت بچپن ہی میں ہو گئی۔
بیعت و خلافت:
حضرت معمار ملت ابتدائی دور میں ہی کیرلا کے کسی بزرگ سے بیعت ہو گئے تھے، اس کے بعد اپنے زمانے کے اکابرین سے طالب ہونے کا شرف حاصل کیا۔
معمار ملت کو حضور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی، محدث اعظم ہند علامہ سید محمد کچھوچھوی ، مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان علیہم الرحمہ سے شرف خلافت حاصل تھا۔
ایک جہان کو اپنے علم وفن ، اخلاق وکردار کی خوشبوؤں سے مہکانے کے بعد یہ محدث اعظم کا چہیتا تقریباً 57 سال کی عمر پا کر 14 جمادی الآخت 1392 ھ کو بمطابق 26 جولائی 1972 کو بعد نماز فجر صبح کے وقت 6 بج کر 35 منٹ پرہزاروں عقیدتمندوں اور شاگردوں روتا بلکتا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ آپ کی نماز آپ کے شاگرد حضرت مولانا محمد بن حسن نے پڑھائی۔ آپ کا مزار شیگاؤں ضلع ہاویری کرناٹک میں واقع ہے۔