Biography Khwaja Muntajibuddin zarzari ZarBakhsh تعارف حضرت خواجہ منتجب الدین زرزری زربخش

 Biography Khwaja Muntajibuddin zarzari ZarBakhsh
تعارف حضرت خواجہ منتجب الدین زرزری زربخش

حضرت خواجہ منتجب الدین زرزری زر بخش 
              عرف دولہامیاں ۔خلدآباد




    حضرت خواجہ منتجب الدین زرزری زربخش رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی باکمال اورباکرامت بزرگ ہیں ،بہت پہلے راقم نے آپ کی سوانح عمری کامطالعہ کرکے بہت ہی محظوظ ہواتھا،آپ چودہ مہینے ماں کے شکم میں تھے،اس درمیان میں آپ کی والدہ عجیب وغیرب خواب دیکھتی تھیں وہ خواب آپ نے اپنے خاوندحضرت محمودہانسوی کوبتایا،حضرت محمودہانسوی ان خوابوں کی تعبیردریافت کرنے کے لئے محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاکی خدمت میں حاضرہوئے، محبوب الٰہی نے فرمایا:محمودہانسوی تجھے تمہاراوہ فرزندجوتمہارے یہاں پیداہوگاتجھے مبارک ہووہ بندگانِ 

خدا میں برگزیدہ ومقبول اوراللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول ﷺکاپیاراہوگا‘‘یہاں پر’’ولی راولی می شنا سد‘‘کی مثل صادق آئی، اور حضر ت زرزری بخش نے اپنی ولایت کااعلان ماں کے شکم میں  ہی کر دیا،بقول مجاورصاحب کے کہ جب آپ ماں کے شکم میں تھے توآپ کی ماں قرآن مجید کی تلا و ت کرتی تھیں اورآپ اس تلاوت کئے ہوئے حصہ کویادکرلیتے تھے،آپ کی والدہ بی بی حاجرہ رحمۃ اللہ علیہانے ۲۹؍پارے کی تلاوت کی اور کسی وجہ سے یک پارہ تلاوت کرنے سے رہ گیا تو خواب میں باربارآپ اپنی والدہ سے فرماتے تھے کہ امی جان قرآن پاک کاوہ ایک پارہ بھی تلا و ت کرلیجئے تاکہ میں مکمل حافظ ہوجائوں ،آپ کی والدہ وہ ایک پارہ بھی تلاوت کرگئیں  اورآپ ماں کے شکم میں ہی مکمل حافظ ہوگئے،اللہ والوں کی ایسی باتیں  ہمارے لئے ماورائے شعور ہیں  ، جسے ہم لاشعورکی منزل کہتے ہیں اس منزل میں بھی اللہ والے شعورکی منزل میں ہو تے ہیں ،یہ اللہ تعالیٰ کابھیدہے،رازہے،اسرارہے،یہاں تک عام لوگوں کی پہنچ نہیں  ہے ، اس لئے عام لوگ اس کوکرمت کہتے ہیں ،ایسے اولیاء اللہ پیدائشی ولی ہوتے ہیں یعنی ماں کے شکم میں ہی اللہ تعالیٰ ان کومقام ولایت پرفائزکردیتاہے۔

   حضرت منجتب الدین زرزری بخش رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کازمانہ قریب آیاتوآپ اپنی والدہ سے نیم بیداری یانیم خوابی میں  باربارکہاکہ امی مَیں ننگاپیدانہیں ہوں گا،یہ عجیب بات اورعجیب فرمائش تھی،یہ ایسی فرمائش تھی جوساری دنیاکی دولت دینے کے بعدبھی کوئی فرمائش کوپوری نہیں  کرسکتاہے،واہ رے اللہ کے ولی یہ آپ کے شعورکی بات ہمارے لئے ماورائے شعورہے،اوریہ بھی کہہ لیجئے کہ جہاں پرعام لوگوں کی عقل کی سرحدختم ہوجاتی،سائنسدانوں کی انتہاہوتی ہے اولیائے کرام وہاں سے اپنی ابتداکرتے ہیں ،آپ کی والدہ نے اس بات کواپنے شوہرحضرت محمودہانسو ی کے گوش گزارکیا،آپ کے والدکسی طبیب وحکیم کے مطب میں نہیں بلکہ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچے اورساری باتوں سے آپ کومطلع کیا ، اورآپ ان باتوں کوسننے کے بعدمراقب ہوئے،پھرفرمایامحمودتم اپنی اہلیہ کوریشم کے 

چنددھاگے گڑیا شکر میں  لپیٹ کرکھلادواورقدرت کے تماشے دیکھو۔

   کہئے حضرت منتجب الدین کااپنے متعلق اعلانِ ولایت ہے کہ نہیں ؟شکم مادرہی میں آپ شعور کی منزل پرفائزہیں کہ نہیں ؟ یہی تومادرزادولی کی شان ہے،اس شان میں رب کی پوری قدرت شامل ہے جب حضرت منتجب الدین کی ولادت ۱۲۷۶ھ مطابق۶۷۵ھ میں  ہوئی تولوگوں نے اپنی سرکی آنکھوں سے دیکھاکہ آپ کے کمر کے نیچے کے حصے میں تہبندلپٹاہواہے،لوگ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے،سب کی زبان پرسبحان اللہ سبحان اللہ جاری تھا۔

    حضرت منتجب الدین علم باطنی سے لیس ہوکرتولد ہوئے اورعلم ظاہری کے لئے قرآن،علم قرآن، علم تفسیر،حدیث،علم حدیث اورفقہ کے لئے درس گاہ میں بیٹھے اورپڑھے،علم روحانیت کا بھی درس لیا،آپ کے والدنے آپ کوحضرت مسعودبابافریدگنج شکررحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں  پر بیعت کرا یا ، اور آپ نے محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ خدمت وصحبت میں رہ کر سلوک کی منزلو ں  کو طے کیا،عمرکی سترہویں بہارمیں داخل ہوئے،محبوب الٰہی نے اپنے اس نو عمر محبوب کا انتخاب دکن کے لئے کیا،سوال پیداہوتاہے کس لئے؟سیرسیاحت کے لئے،گھومنے کے لئے،دولت حاصل کرنے کے لئے،زر،زن،زمین کے لئے؟

   نہیں ،نہیں ،نہیں ۔

   دینِ متین کی خدمت کے لئے۔  

                         دہلی سے دیوگیری تک

   دہلی سے دیوگیری کاسفربڑے اہتمام کے ساتھ ہوتاہے،سا ت سویابقول بعض مؤرخین کہ چودہ سو پالکی کااہتمام کیاگیا،ہرپالکی پرایک ایک ولی کوبیٹھایاگیا،دہلی سے جس وقت یہ پالکی روانہ ہوئی تواس روحانی دنیاکے لشکرکودیکھ کرحضرت نظام الدین اولیارحمۃ اللہ علیہ نے حضرت منتجب الدین کے بارے میں کہاکہ یہ اسلام کادولہاہے یہ لفظ’’دولہا‘‘آپ کے نام کاجزبن گیا، قافلہ میں جوان اوربوڑھے سب شامل تھے لیکن سب کے سردارسترہ سالہ حضرت منتجب الدین 

تھے،سات سوپالکی پرایک ایک سواراوردودواُٹھانے والوں کاحساب لگایئے توکل اکیس سوآدمی ہوئے،اورچودہ سوپالکی تھی توایک ایک سواراوردودواٹھانے والے تھے توکل بیالیس سوآدمی ہو ئے،اتنے لوگوں کے دہلی سے روانہ ہوتے وقت زادِراہ کیاتھا؟تویوں کہئے کہ ظاہری طورپر کچھ نہیں  تھا لیکن توکل کی دولت ساتھ تھی،اللہ تعالیٰ پریقینِ کامل کاخزانہ ساتھ تھا،حضرت زرزری زربخش رحمۃ اللہ علیہ جب تہجدکی نمازادافرماکر جب مصلیٰ کوتہہ کرتے تومصلیٰ کے نیچے سے زر برآمد ہوتااسی مناسبت سے ’’زرزری‘‘اورآپ اُس زرکولوگوں میں تقسیم فرمادیتے تھے تواس عمل سے’’زربخش‘‘کہلائے اوریہ دونوں مل کر’’زرزری زربخش‘‘ہوا،آپ کانام منتجب الدین سے زیادہ مشہورہوگیااورآج تک مشہورہے،اپ کاقافلہ نشیب وفرازکوطے کرتاہوا’دیوگیری‘‘ پہنچا، یہاں مسجدکانام’’اولیامسجد‘‘ہے،جس کے بارے میں مشہورہے کہ اس مسجدکوچودہ  سواولیائے کرام نے مل کرتعمیرکیا،شایدوہ ہی اولیائے کرام ہوں جوچودہ سوپالکی پرسوارہوکریہاں پہنچے تھے ، حضرت زرزری زربخش کے ہمراہ آنے والے چاربزرگوں کی قبریں اولیامسجدمیں حضرت ظہیرالدین بھکّری ،حضرت سراج الدین بھکّری،حضرت بہاء الدین بھکّری،حضرت حسام الدین بھکّری رحمۃ اللہ علیہم ۔     

  اب ہم لوگ درگاہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔۔۔۔فقیرکے درکاشاہانہ صدردروازہ شاندارگنبد دیکھ کر عقل مبہو ت ہوگئی۔۔۔۔جناب سیدیاسین علی بھائی اورجناب سیدمنیراحمدبھائی نے پھولوں کی ٹو کری اور مٹھا ئیو ں  کی پیکٹیں لے لیں ۔۔۔۔ اب ہم لوگ آگے بڑھے اورزینہ چڑھنے لگے۔۔۔۔زینہ چڑ ھتے گئے لیکن زینہ کوگنانہیں کہ کتنے ہیں ۔۔۔۔ صدردروازے پرہی چپلوں کورکھ دیا۔۔۔۔یہا ں بھی وہی نظارہ تھا یعنی ایک بہت بڑامیدان نمااحاطہ ،صدیوں پرانی مگرچمچماتی ہوئی مضبوط عمارتیں  ، دالان اور دیوا ریں ،حسین وجمیل فرش،بلندوبالامینارے ،میدان پارکرنے کے بعداب درگاہ کی سیڑھیاں  شروع ہوئیں اس کوعبورکرنے کے بعدہم لوگ مزارشریف کے اندرداخل ہوئے۔۔۔۔ دو مزارات نظرآئے۔۔۔۔مجاورسے پوچھاایک 

مزارکن کاہے؟ 

   عمردرازمجاورنے کہا!آپ کے پیربھائی کاہے۔۔۔۔اس سے آگے کچھ نہیں بتایا،نہ صاحب قبرکا نام ہی کہا،کتابوں کی ورق گردانی سے یہ معلوم ہواکہ قدوۃ السالکین حضرت منتجب الدین زرزری زر بخش دولہامیاں کے پہلومیں آرام فرمارہے بزرگ کانام حضرت خواجہ محمدہے،آپ زرزری زربخش کے دوست تھے۔ جب ہم لوگ آپ کی تربت پرفاتحہ پڑھ کر باہرنکلے تودیکھاکہ چوکھٹ سے متصل باہری حصہ میں  ایک سیاہ رنگ کاپتھرلگاہواہے۔۔۔۔اُس پتھرمیں  کہیں  پر نگینے، کہیں  پر سونے کی کیلیں ،کہیں پرعقیق کے ٹکڑے،کہیں پرموتی،کہیں پرفیروزے وغیرہ جڑے ہوئے ہیں  لیکن بے ترتیب ہیں ۔۔۔۔جناب سیدیاسین علی بھائی نے مجاور سے پوچھ ہی دیاکہ اس پتھر میں یہ نگینے اورکیلیں کس طرح اورکس نے لگائے ہیں ؟

   مجاورصاحب نے کہاکہ اس آستانے پرآنے والے فقیروں اورمستوں نے لگائے ہیں ،لیکن عقل پوچھتی ہے کہ کس طرح سے لگائے گئے ہیں ؟سوراخ کرنے سے توپتھرچاک ہوجائے گا یا اُس میں شگاف پڑجائے گا۔۔۔۔اِس میں نہ سوراخ ہے نہ شگاف ہے اورپتھرمیں پتھریں پیوست ہیں  ، یہ کس طرح سے ہوا؟ 

   حیران وپریشان عقل کی حیرانی وپریشانی دورکرنے کے لئے کتابوں کامطالعہ کیاتویہ رازفاش ہواکہ تصوف کی تیراکی کرنے والے حضرات رات کے وقت حضرت زرزری زربخش کی چوکھٹ پربیٹھ کرمراقب ہوتے یاوِردکرتے تھے اورجب سرورطاری ہوتاتھاتووہ حضرات نعرہ مار کرنگینے اورکیلوں کوزورسے اس پتھرپرمارتے تھے اوروہ نگینے اورسونے کی کیلیں اُس پتھرمیں پیو ست ہو جاتے تھے،اب عقل یہ کہہ رہی ہے کہ یہ شایدراہِ تصوف کے متوالوں کی منتیں اورمرادیں  پوری ہونے کی علامت ہو۔

   وہاں ایک بورڈپرلکھاہواہے کہ:آپ ربیع الاوّل کی ۷؍تاریخ ۷۰۹؁ھ بروزپنجشنبہ چونتیس برس کی عمر میں خلدآبادشریف میں واصل بحق ہوئے۔

 یہاں کے مجاورصاحب ہم لوگوں پرکچھ زیادہ ہی مہربان تھے،جوکچھ ان سے پوچھاگیابڑے ہی خلوص سے انہوں نے بتایابلکہ یوں کہئے کہ بتایاہی نہیں مسلسل تقریرکردیااورجناب سیدیاسین علی بھائی اورجناب سیدمنیراحمدبھائی نے اپنے اپنے موبائل میں ان کی آوازکوقیدکرلیا،

یہ سب بتا نے کے بعدمجاورصاحب ہم لوگوں کوحضرت ہاجرہ رحمۃ اللہ علیہاکے مزارپرلے کرگئے۔

   حضرت ہاجرہ اورآپ کے بھائی حضرت سراج الدین 

    حضرت ہاجرہ حضرت زرزری زربخش کی والدہ محترمہ ہیں ،آپ کی تربت کے بالکل متصل ایک ہی حجرے میں ایک اور تربت کے متعلق مجاورصاحب نے بتایاکہ یہ حضرت ہاجرہ کے بھائی اور حضرت زر زری بخش کے ماموں حضرت سراج الدین کی تربت ہے۔

   بقول مجاورصاحب کے حضرت منتجب الدین زرزری بخش رحمۃ اللہ کے وصال کے بعدآپ کی والدہ اپنے بھائی سراج الدین صاحب کے ہمراہ خلدآبادکے لئے روانہ ہوئیں ،خلدآبادمیں  داخل سے پہلے شام ہوگئی،پہاڑی علاقہ میں راستہ معلوم نہیں تھااوررات کے اندھیرے میں کوئی راستہ بتانے والابھی نہیں مل رہاتھاتوآپ نے اپنی تربت سے خادم کوآوازلگائی کہ میری والدہ اور میرے ماموں تشریف لائیں اورفلاں جگہ پروہ کھڑے ہوئے ہیں لہذامشعل جلاکراُس کی روشنی میں اُن کولایاجائے،اِس طرح سے آپ کی والدہ اورآپ کے ماموں آپ کی خانقاہ تک پہنچے اورآپ دونوں کی آخری آرام گاہ خلدآبامیں بنی، حضرت بی بی حاجرہ کے مزارپرزائرین اپنی کنواری لڑکیوؔں کی شادی کے لئے خصوصی دعائیں کرتے اورمنتیں مانگتے ہیں ۔

                         سونابائی۔خلدآباد

    تاریخ اپنے اندرعجیب وغریب اورمحیرالعقول داستانیں  بھی رکھتی ہے،ان داستانوں کوپڑھ کر اورسن کرعقل وفکر،تخیل وتدبیرسب کے سب سرپٹکنے اورسرگوشیاں کرنے لگتے ہیں  کہ 

کیاایسابھی ہوسکتاہے؟اس کاجواب عقل وفکرہی دیتی ہے کہ ایک کام ایک کے لئے محال ہوتاہے،دوسرے کے لئے ناممکن اورتیسرے کے لئے ممکن،اورچوتھاکرکے دکھادیتاہے،کرنے اورنہ کرنے والو ں میں فرق ہوتاہے،مثال کے طورپرکے ایک مکان کی قیمت ایک کروڑروپے ہیں ،اس مکا ن کو خریدناایک مزدورکے لئے محال ہوتاہے،چھوٹے موٹے دھنداکرنے والوں کے لئے ناممکن ہے،خوشحال کسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ اپنی جائدادبیچ کرخریدسکتاہے،لیکن اسی مکان کودولت مند فی فورخریدلیتاہے،اسی طرح جوکام کوئی نہ کرسکے اللہ کے ولی کرکے دکھادیتے ہیں ۔

    جب ہم لوگ حضرت حاجرہ اورحضرت سراج الدین کی تربتوں پرسے فاتحہ پڑھ کرباہرآئے تو مجاورصاحب نے کہایہ سونابائی کی قبرہے،سونابائی کی بھی کچھ ایسی داستان تاریخ کے صفحات پرملتی ہے جوعجیب وغریب اورمحیرالعقول ہے،بڑے باپ کی بیٹی تھی،دولت،قوت ،ہمت سب کچھ تھی،دولت قوت اورہمت ہوتی ہے توکبرونخوت بھی ساتھ میں لائوولشکرکے کرداراداکرتے ہیں ،خلدآباداُس وقت خلدآبادنہیں بلکہ’’دِیوگری‘‘کے نام سے جاناجاتھا،دیوگری نام سے ظاہر ہو تاہے کہ اُس وقت وہاں مسلمان آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں تھے،وہاں حضرت زرزری زر بخش کے پہنچے اورآپ کی خوبیوں اورکرامت کی خبرعام ہوچکی تھی،سونابائی،بادلہ بائی،کٹھابائی، ڈاک بائی یہ چاروں بہنیں تھیں ،جن کے باپ نے زمین جائیدادکے علاوہ چاروں بہنوں کوایک ایک کنواں دیاتھا،ان چاروں میں سونابائی کے کنواں کادل دریاجیساتھا،یعنی گہرااورخوب پانی دیتاتھا،جس سے باغ کی سینچائی ہوتی اورلوگ سیراب ہوتے تھے،سونابائی گاہے گاہے بن سنور کرباغ میں سیرکوآئی تھی توکنواں بھی دیکھ لیتی ہے،اُس زمانے میں پانی کی فراوانی نہیں تھی،اِس لئے اللہ والے اکثرتالاب،کنواں اورندی کے کنارے قیام کرتے تھے تاکہ وضواورغسل کرنے کی دقت نہ ہو،لیکن سونابائی کے کنواں کی دریادلی پرپابندتھی،وہاں تک ہرشخص کی رسائی نہیں تھی حضرت منتجب الدین علیہ الرحمہ نے ایک دن 

اپنے خادم سے کہاکہ سونابائی کے کنواں سے وضو کے لئے پانی لے آئے،خادم جس وقت گیاتوسونابائی کنواں کے پاس ہی موجودتھی،خادم نے مقصد بیان کیاتوسونابائی نے کہاپانی چاہئے توزرزری بخش کہوکہ وہ ہمارے کنویں کے پانی کوسونا بنادے،خادم واپس آکرسونابائی کی گفتگوآپ کوسنائی،اپ نے فرمایاپہلے پانی لے لوپھرمیرایہ رومال پانی میں بھگوکرکنویں میں نچوڑدو،خادم نے ایساہی کیا،بس کیاتھادیکھتے ہی دیکھتے پانی سیال سونے میں تبدیل ہوگیا،حضرت زرزری زربخش کی اس کرامت سے سونابائی میں تبدیلی کی لہردوڑگئی،وہ بے تابانہ حضرت زرزری زربخش کے آستانہ کی جانب چل پڑی،اس وقت تک حضرت زرزری بخش رحمۃ اللہ علیہ وضوسے فراغت حاصل کرچکے تھے،سونابائی آکرآپ کے قریب بیٹھ گئی،آپ نے ایک اجنبی عورت کودیکھ کرپوچھاتم کون ہوکس مقصد سے میرے پاس آئی ہو؟سونابائی کی زبان کھلی توکہہ اٹھیں ،اسلام کی نظروں میں اسلام کاسونابننے کے لئے آئی ہوں ،سبحان اللہ!

   سونابائی اسلام کاسونابن کرتاریخ کے صفحات بپرجگمگارہی ہیں ،اسلام میں داخل ہوکرسونابائی واپس گئیں اوراپنی کنیزوں ،نوکرانیئوں اورنوکروں کولے کرآئیں اورسب کے سب حلقہ بگو ش اسلا م ہوئے، اس کے بعدحضرت منتجب الدین زرزری زربخش دولہامیاں کی خدمت میں اسلا م کاکلمہ پڑھنے کے لئے لوگوں کاتانتالگ گیا۔

   اسلام کاکلمہ پڑھنے کے بعدسونابائی نے عبادت وریاضت کرکے روحانیت میں اہم مقام حاصل کیا،اورآپ کی آخری تربت خانقاہ کے احاطہ میں حضرت ہاجرہ کے حجرہ کے بازومیں بنی، آج بھی ان کی قبرکے پاس چنبیلی درخت ان کی تربت پرگُل باری کررہاہے،سچ ہے جواسلام کا ہو گیاساری چیزاس کی ہوگئی۔ 
 

               ادیب شہیرحضرت مولاناالحاج
                           محمّدادریس رَضوی ،ایم ۔اے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی