نام و لقب
آپ کااسمِ گرامی محمد رشید۔ آپکی تحریر میں کہیں کہیں، عبدالرشیدبھی ملتاہے۔ آپکو قطب الاقطاب اور دیوان جی کےنام سےبھی لوگ جانتےہیں۔ آپکی کنیت ابوالبرکات اورلقب شمس الحق ہے۔ آپکے والدِبزرگوارکااسمِ شریف حضرت شیخ مصطفیٰ جمال الحق بندگی عثمانی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ ہے۔ آپکا سلسلۂ نسب خلیفہ سوم، جامع قران حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ سےملتاہے۔
ولادت
آپکی ولادت 10/ ذی القعدہ 1000ہجری بمطابق 19/ اگست 1592عیسوی میں موضع برونہ ضلع جونپورمیں ہوئی۔ آپکی ولادت سےپہلےہی آپ کی قطبیت و ولایت کے تعلق سے پیشن گوئی ہو چکی تھی۔ حضرت عبدالعزیز جونپوری رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ سےجب لوگوں نےپوچھاکہ حضور آپ کےبعد قطبِ وقت کون ہوگا توآپ نےفرمایاکہ اس کانام محمد رشیدہوگااوروہ گنّا خوب کھاے گا۔ اورحضرت قطب الاقطاب گنّا بہت پسند فرمایاکرتےاورخوب کھایاکرتے تھے۔ آپکے عالمِ طفل میں جب حضرتِ عبدالجلیل لکھنوی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نےآپکو دیکھاتوفرمایاکہ یہ بچہ ولی کامل اور صوفیِ باصفا ہوگا۔
تعلیم
آپ کی تعلیم کاآغاز حضرت شمس نور برونی کےذریعہ ہوا۔ اس کےبعدآپکی تعلیمی زندگی میں آپ کےماموں مولانا شمس الدین اورحضرت شیخ محمد افضل جونپوری قطب الوقت کانام خاص طورپرقابلِ ذکرہے۔ اس کاذکر،، گنجِ ارشدی،، میں ہے۔ آپکی تعلیم استاذالاستاذہ حضرت علامہ شیخ محمد افضل صاحب کی نگرانی میں مکمّل ہوئی۔ اس کےبعد آپ دہلی چلے گئے وہاں آپ نےمحقق على الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی سےاور ان کےفرزندحضرت شیخ نورالحق علیہم الرضوان سےحدیث شریف کی تعلیم حاصل کی-
ارادت و خلافت
جب حضرت قطب الاقطاب کی عمر شریف 9سال ہوئی توآپ کےوالدِمحترم حضرت سیدناشیخ مصطفیٰ جمال الحق بندگی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ سے آپ سلسلہ چشتیہ میں مریدہوئےاورکلاہِ ارادت وخرقہ خلافت آپ کوآپ کےوالدنےعطافرمایا۔ اگرچہ کم سنی کےوجہ سےوالدِمحترم کی حیات میں طریقہ صوفیہ کی تحصیل کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے لیکن خرقہ نےدل میں ایک جذبہ توپیداکرہی دیاتھا۔ اس کےبعدایک مدت تک تحصیل علم میں مصروف رہےاورفراغت کےبعددرس و تدریس میں مصروف رہے مگرتصوف کاذوق بھی تھااورمرشدِکامل کی تلاش بھی۔ اسی زمانےمیں مخدومِ زماں قدوۃ السالکین قطب العارفین حضرت مخدوم شیخ طیب بنارسی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ جونپور تشریف لائے۔ آپ نے حضرت مخدوم سےملاقات کی مگر اس مرتبہ دل مائل نہیں ہوا۔ کچھ دنوں کےبعدایک تقریب میں آپ بنارس تشریف لےگئےاور حضرت مخدوم سےملاقات کی اس باربمقتضاےالٰہی دل میں ایک محبت پیدا ہوگئی اورکچھ دنوں تک مخدوم کی خدمت میں رہ گئےاوراتنےدنوں میں سلوک کاذوق وشوق ایسا پیداہوا کہ آپ نے درس و تدریس کامشغلہ ترک کرکے خدمت میں رہنا چاہا۔ مگرحضرت مخدوم نےاسےپسندنہ کیا اورفرمایا کہ تم وظیفۂ صبح کےبدلےطلبہ کوسبق پڑھایا کروکہ یہ بھی عبادت ہے۔ اورجونپوررخصت کیا۔ حضرت مخدوم کے لئےآپ کی محبت دن بدن پروان چڑھی ایک بار حضرت دیوان جی رمضان میں بنارس تشریف لائے۔ حضرت مخدوم کےحکم سےرمضان شریف کےآخری دس دنوں میں آپ نےاعتکاف کیا۔ اس درمیان آپکے سامنے کئی بارکئی طرح کےتعجّب خیز واقعات رونما ہوئے۔ عید کامبارک دن آیا۔ عیدالفطر کےمبارک ومتبرک دن لوگوں کے ہجوم کےدرمیان حضرت مخدوم نےخواجگانِ چشت کی طرف سےاپناخرقہ پہنایا اور سلسلہ چشتیہ کی ارادت و خلافت سے نواز کر جون پور رخصت کیا۔ آپکو بزرگوں سےبےپناہ محبت اوراکتسابِ فیض کاذوق بھی تھا۔ آپ نے اپنے شیخِ کامل حضرتِ مخدوم سے سلسلہ چشتیہ کےعلاوہ سلسلہ قادریہ (جو محقق على الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی جانب سےحضرت مخدوم کوعطاہوا)وسلسلہ سہروردیہ کی بھی اجازت وخلافت کی نعمت حاصل کی اورسلسلہ قادریہ شمسیہ حضور میر سیدشمس الدین کالپی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ (جوحضورسیدناغوثِ اعظم رضی اللّٰہ عنہ کی اولادسےہیں)نےبنفسِ نفیس تشریف لاکراس نعمتِ عظمیٰ کوعطافرمایا۔ اورسلسلہ قلندریہ وسلسلہ مداریہ وفردوسیہ سے حضرت سیدناشیخ عبدالقدوس قلندرجونپوری علیہ الرحمہ نےمالامال فرمایا۔ اس طرح سے کئی سلاسل کی اجازت وخلافت اذکار و اشغال اوربزرگوں کی نعمتیں آپ کوحاصل ہوئیں۔
تفصیل انعامات
حضرت قطب الاقطاب علیہ الرحمہ کوجن جن بزرگوں سےنعمتیں پہنچی ہیں، ان کی تفصیل آپ کی ایک خاص تحریر سے یوں معلوم ہوئی: خرقہ ومثال سلسلہ چشتیہ وقادریہ، مثال سہروردیہ ومداریہ، اجازت اوراد حضرت شیخ ناصر الدین علیہ الرحمہ سے، تاج الاوراد، اورادشہریہ، ذکراسمائےحسنٰی، ذکرجہات ستہ، ذکرنفی اثبات طریقہ چشتیہ، شغل سہ پایہ،حضرت مخدوم شیخ طیب بنارسی قدس سرہ نےعطاکی۔ خرقہ ومثال حضرت قادریہ ومداریہ، طریقہ توجہ بجانبِ مزارحضور غوثِ پاک، وظیفہ پنج گنج سلسلہ قادریہ، ذکرنفی اثبات، ذکراثبات، ذکراسم ذات چہارضربی، صلٰوۃ معکوسہ وغیرہ!، سید السادات حضرت میرسیدشمس الدین کالپی نےعطاکیا۔ خرقہ ومثال سلسلہ چشتیہ وقادریہ، اجازت اورادبندگی شیخ (کمال الدین)کالو، ذکرصبح وشام، ذکرنفی اثبات،ذکراثبات، ذکراسم ذات، ذکرسہ پایہ وعروج ونزول وغیرہ سیدالسادات حضرت راجی سیداحمدمجتبٰی مانک پوری علیہ الرحمہ نےعطاکیا۔ مثال سلسلہ مداریہ وفردوسیہ، اذکاروعلم قلندریہ، ضرب راست، ضرب کوب، ذکراسم ذات، ذکردل کہ مسمٰی بہ نداومنادیٰ، گردش ثلاثی گنبدی وغیرہ، حضرت بندگی شیخ عبدالقدوس قلندرجون پوری علیہ الرحمہ نےعطاکیا۔
اوصاف و معمولات
حضرت قطب الاقطاب(شیخ محمد رشید) ایک عالم، عامل اور درویش کامل، صاحب تصرف و کرامات تھے - آپ پر کشف کا غلبہ ایسا تھا کہ آپ کی مجلس میں مدعائے دلی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی - ادھر دل میں خطرہ گزرا، اُدھر ظاہر ہوگیا اور خطرے کو دور فرمادیا، شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کی تصنیف،،فصوص الحکم،، وغیرہ برابر آپ کے مطالعے میں رہا کرتا تھی اور اس کا درس دیا کرتے تھے - اس کے مسائل اور دقائق پر آپ کو اس قدر عبور تھا کہ جس مسئلے میں جو شخص شبہ وارد کرتا تھا، آپ بدلائل ثابت کردیتے تھے اور تصوف کے مسائل کا استدلال اسی کتاب سے فرماتے تھے - تمام شب عبادت میں صرف کرتے تھے، اٹھتے بیٹھتے اللہ کا لفظ زبان پر جاری رکھتے، قناعت و استغنا مزاج میں بہت تھا، کیمیا بنانا پسند نہیں کرتے تھے، حساب کسی سے نہیں لیتے تھے، سلاطین یا أمراء کے در پر نہیں جاتے تھے-ہاں! اگر کسی سید یا غریب کی کوئی غرض أمراء سے اٹکتی تھی تو آپ بلا تامل جاکر رفع ضرورت فرماتے تھے- اگر کوئی سید قید ہوتا تو چھڑالاتےتھے- ددنیاداروں کو آپ خط نہیں لکھتے تھے، خاصۃً سبقت نہیں فرماتے تھے، قاضی سے کسی کی شفارش نہیں کرتے، جس خط میں شکایت ہوتی، اس کا جواب نہیں لکھتے- جس کام کو شروع فرماتے، ادھورا نہیں چھوڑتے- کل کا لفظ بغیر ان شاءاللہ ملائے نہیں بولتے- تہذیب و ادب کا لحاظ بہت رہا کرتا، حتیٰ کہ لوگوں کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلاتے، بزرگوں کی پیروی ہر کام میں ملحوظ رہتی، علی الخصوص طریقہ نبوی پر قدم بقدم چلتے- سنت حتی الوسع ترک ہونے نہیں پاتی، ہر کام میں بسم اللہ فرماتے، جس چیز کو رکھتے قبلہ رخ رکھتے، تقویٰ اور زہد اس درجے کا تھا کہ ہمیشہ دریا کے پانی سے غسل اور وضو فرماتے-اگر کسی مقام میں میسر نہ ہوتا تو کنوئیں کے پانی سے کام لیتے، کچے مکانوں سے بہت خوش ہوتے، پختہ مکانوں سے نفرت کرتے - مریدوں کو نماز اور عبادت کی تعلیم برابر فرماتے - طلبہ علوم سے بہت محبت فرماتے - اگر کبھی بیمار پڑتے، دوا کا اہتمام خود نہ فرماتے، اگر کوئی تیار کرکے لاتا تو پی لیتے-ہر مرض میں شہد اور کلونجی استعمال فرماتے اور اسی سے شفا ہوجاتی، دواؤں کے افعال و خواص پر اعتقاد نہ رکھتے، اس لیے کہ یہ اقوال حکما ہیں - آپ فرماتے تھے کہ موثر حقیقی تو خدا ہے، اگر وہ چاہے تو گرم کو سرد اور سرد کو گرم کردے، چنانچہ ایک بار آپ کو بخار اور دردِسر تھا، ملامحمود نے علاج کیا، دفع نہ ہوا-آپ وہی شہد اور کلونجی باہم ملاکر چاٹ گئے، اچھے ہوگئے، ملامحمود کو حیرت ہوئی کہ گرم دوا صفراوی تپ میں کیوں کر مفید ہوئی؟ آپ نے فرمایا کہ تم کو حکما کے قول پر اعتقاد ہے اور مجھ کو خدا و رسول کے قول پر - یہ بھی فرماتے کہ دوا میں توکل اچھی چیز ہے اور دوا کرنے کا حکم بھی ہے - حضرت رسولِ خدا علیہ التحیۃ والثنا نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے وہ جماعت بلا سوال و جواب بہشت میں جائے گی جو بیماری اور بلا میں توکل کرے گی اور دوا اور دعا کا وسیلہ نہ ڈھونڈے گی-کسی کی ضمانت آپ نہ فرماتے، کیوں کہ سلسلہ چشتیہ میں ممنوع ہے - موزہ ہمیشہ سیاہ پہنتے، کیوں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا موزہ جو نجاشی نے بھیجا تھا، سیاہ تھا - سرخ رنگ کا جوتا ناپسند تھا، اس لیے کہ فرعون کا جوتا سرخ تھا - با نسبت پالکی کے گھوڑے کی سواری پسند تھی-اکثر آپ پیدل چلتے تھے اور بہت تیز چلتے تھے - صبح کی نماز پڑھ کر جون پور سے روانہ ہوئے اور منڈواڈیہ(بنارس) ظہر کے وقت پہونچتے- کبھی حضرت مخدوم کو وضو کرتے ہوئے اور کبھی بعد وضو پاتے تھے - آپ کسی کی غیبت نہیں سنتے تھے، اگر کوئی ناواقف غیبت کربیٹھتا تو آپ بیزار ہوتے اور اس کی کسی اچھی بات سےتاویل فرماتے -
فضائل و کمالات
شاہ دوست محمد(حضرت ملا خواجہ لاہوری کے بھتیجے اور جانشین) آئے اور حضرت ملا خواجہ(لاہوری) کا بھیجا ہوا تحفہ سرمۂ سفید، عصا اور ایک مکتوب ساتھ لائے، جب وہ خانقاہ میں پہنچے تو حضرت قطب الاقطاب(شیخ محمد رشید) اندر تشریف رکھتے تھے-(شاہ دوست محمد نے) عصا کو دیوار سے لگا کر کھڑا کر دیا اور تخت پر بیٹھ گئے، جب حضرت تشریف لائے تو خط اور سرمہ پیش کر کے چاہا کہ اٹھ کر عصا بھی حاضر کریں - آپ نے فرمایا کہ ٹھہرو،یہ عصا جب اتنی مسافت طے کر کے آیا ہے تو کیا یہاں سے خود بخود چلا نہ آئے گا - یہ فرماتے ہی عصا میں ایک حرکت پیدا ہوئی اور حضرت کے ہاتھوں میں پہونچ گیا - آپ کے ایک مرید کا جہاز ڈوب رہا تھا، اس وقت پیر کی طرف رجوع کر کے مدد چاہی -(ادھر) لوگوں نے دیکھا کہ بیٹھے بیٹھے آپ(حضرت قطب الاقطاب) کا پیرہن تر ہو گیا، مگر اس وقت یہ بھید نہ کھلا - جب وہ مرید آیا اور اپنی مصیبت اور آپ کی امداد بیان کی تب لوگوں پر یہ(پیرہن تر ہونےکا) عقدہ کھلا۔ محمدآباد(عرف بنارس) میں ایک برہمن کا حال یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے خالی ہاتھ بڑھاتا تھا اور غیب سے کوئی نہ کوئی چیز منگاتا تھا - حضرت بھی ایک روز تشریف لے گئے، تین مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا، کچھ ہاتھ نہ آیا - حضرت شاہ یٰسین نے اس کی وجہ پوچھی، آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ قرآن کے صحیح پڑھنے والوں سے شیاطین بھاگتے ہیں۔
ملفوظات
آپ کے چند اقوال جو فائدے سے خالی نہیں درج ذیل کیے جاتے ہیں : سالک کو چاہیے کہ صفِ نعال [جوتے اتارنے کی جگہ] میں بیٹھے تاکہ اپنے کو پستی میں دیکھ کر بلندی کی طرف ترقی کرے اور شیخ کو چاہیے کہ [نمایاں جگہ] میں بیٹھے تاکہ نعال نشینوں (حاشیہ کے بیٹھنے والوں ) کی طرف متوجہ ہو اور ان کی تعلیم اور ترقی کی کوشش کرے۔ بھید جب دو لب سے گذر جاتا ہے تو پھیل جاتا ہے ۔ ااستحکام کے لیے جو لوگ نیو (بنیاد) عمیق (گہری) کھدواتے ہیں وہ بڑی حماقت کرتے ہیں، کیوں کہ فانی چیز کو باقی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی دوسروں کے لیے ۔ طلبِ کامل وہی ہے جو اپنی زبان سے کہنے کی نوبت نہ آئے اور شیخ خود اس کی غرض کی طرف توجہ کرے ۔ جو شخص بزرگوں کی فاتحہ کا تبرک کھاتا ہے سالِ آئندہ تک اس بزرگ کی پناہ میں رہتا ہے ۔ آآدمی کو چاہیے کہ کسی کو بلا میں گرفتار دیکھ کر نہ ہنسے بلکہ ڈرے، استغفار پڑھے اور اپنی سلامتی اور صحت پر خدا کا شکر ادا کرے ۔ مومن کو چاہیے کہ بلاؤں میں مبتلا ہونے کے ڈر سے تضرع (اللہ کے حضور آہ و زاری) کیا کرے شاید رحیمِ مطلق کے رحم کے سبب محفوظ رہے مگر صابر رہنا چاہیے ۔ جو عمارت حاجت سے زیادہ ہو قیامت کے دن تعمیر کرنے والے کے کاندھے پر رکھی جائے گی ۔ اہلِ دنیا چاہتے ہیں کہ فقیر کو دو ایک ملاقات میں پہچان لیں یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ فقیر کو غیرِ فقیر پہچان لے ۔
تصانیف
آپ کی تصانیف بہت ہیں، چند کتابیں جو خانقاہ میں موجود ہیں، ان کا نام درج ذیل ہیں - ان کے علاوہ اور دوسری تصانیف کا پتہ دوسرے مؤرخوں کی تحریر سے لگتا ہے، لیکن یہاں خانقاہ میں ان کا وجود نہیں،ممکن ہے کہ اور دوسرے مقاموں میں ہوں۔
مناظرہ رشیدیہ
پیہ شریفیہ کی شرح ہے، فن مناظرہ کی مشہور کتاب ہے- یہ کتاب چھپ گئی ہے اور درس نظامی میں داخل ہے۔
تذکرۃالنحو
نحو کے مسائل میں چند ورقوں کا رسالہ ہے، جس کو آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت شیخ محمد ارشد کے پڑھنے کے واسطے لکھا تھا اس کی ابتدا میں ہے؛ ''اِعلم ارشدک اللہ تعالیٰ'' (جان لو اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے) لکھا ہے - اب ''خلاصۃ النحو''کے نام سے مشہور ہے''نحومیر''کے آخر میں طبع ہے-
زادالسالکین
یہ ایک رسالہ تصوف کے متعلق ہے، جس کو آپنے پہلے مرید حضرت شیخ عبدالمجید کے لیے تحریر فرمایا ہے-
مقصودالطالبین
یہ کتاب بھی تصوف کے متعلق ہے، اس میں معارف و حقائق کی باتیں مرقوم ہیں - حضرت نصرت جمال ملتانی کے لیے لکھی گئی -
ترجمہ معینیہ
یہ رسالہ ''تذکرۃالنحو'' کی شرح ہے، اپنے بیٹے حضرت شیخ غلام معین الدین کے پڑھنے کے لیے تحریر فرمایا تھا۔
بدایۃالنحو
یہ بھی نحو کا رسالہ ہے جو اپنے بڑے بیٹے حضرت شیخ محمد حمید کے لیے لکھا تھا-
مکتوبات
یہ ان خطوط کا مجموعہ ہے جو اکثر خلفا کےنام بطور جواب کےلکھےگئےتھے-
دیوان شمسی
آپ کے اشعار فارسی و ہندی کا مجموعہ ہے- آپ ''شمسی''تخلص فرماتے تھے، کلام معرفت خیز ہے-
شاعری
آپ کے دیوان سے چند اشعار بطور نمونہ درج کرتا ہوں تا کہ اس مذاق والوں کو آپ کی طبع وقّاد اور ذہن رسا کے پرکھنے کا اندازہ ملے -
ہر نگاہِ او دعائے دیگر ست
پیچش زلفش بلائے دیگر ست
من بیک دم سیر عالم می کنم
روح را دستے و پائے دیگر ست
از دل شمسی دمے تمکیں مجو
ہردمش چوں ہووہائےدیگر ست
چوں یار بہ بنگالہ کند مسکن و ماوا
شمسی بہ بدخشاں نہ رود، لعل بہ بنگ ست
اے تیر تو در کماں نگنجد
شمشیر تو درمیاں نگنجد
راہ را گم کردہ حیرانی چرا
شمس حق را یاد کن گو یارشید
نکاح و اولاد
جب آپ کی عمر 32/ برس کی ہوئی تو 1032ھ(1623ء)میں حضرت حاجی ارزانی قدس سرہٗ کی صاحبزادی سے آپ کا نکاح ہوا - ''بحر زخار'' میں تحریر ہے کہ حضرت خیر المرسلین شفیع المذنبین علیہ التحیۃ والثنا نے آپ کی نسبت تجویز فرما کر والدین کو اطلاع دی تھی- آپ کے چار فرزند پیدا ہوئے - اول شیخ محمد حمید، دوم شیخ محمد ارشد، سوم شیخ غلام معین الدین، چہارم شیخ غلام قطب الدین - ہر ایک علوم ظاہر و باطن سے بہرہ مند تھا۔
وصال حضرت قطب الاقطاب
حضرت قطب الاقطاب شیخ محمد رشید کو آخر ماہ شعبان 1083ھ/1672ء سے تپ(بخار) آنا شروع ہوا،آپ کے صاحبزادوں نے علاج میں بہت کوشش کی، مگر کچھ نفع پیدا نہ ہوا - روز بروز (طبعی حرارت) زائل ہوتی گئی اور طاقت گھٹتی گئی - باوجود کمزوری اور ناتوانی کے آپ کے معمولات میں کچھ بھی فرق نہ تھا - نماز جماعت سے ادا کرتے تھے - رمضان شریف کی آٹھویں کو ظہر کے وقت آپ نے وضو فرما کر تخت پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھی، عصر کے وقت اتنی قوت نہ تھی کہ تخت پر جاتے، ناچار تیمم کر کے پلنگ پر نماز پڑھی-مغرب و عشاء بھی پلنگ پر ادا کی - رات کو حالت غیر ہوئی اور کرب زائد ہوا، مگر آدھی رات کے بعد آپ نے تیمم کا ظرف منگوا کر تیمم فرمایا اور نماز تہجد، صلٰوۃ العشق اور نوافل وغیرہ ادا کر کے ذکر جہر میں مصروف ہوئے - آواز اتنی بلند تھی کہ لوگ اچھی طرح سنتےتھے- اس کے بعد آپ نے فجر کی نماز کی نیت کی، لوگوں نے عرض کیا کہ ابھی وقت نہیں ہوا ہے-آپ نےفرمایا میاں ہوگیا ہے- جب تین گھڑی تھی تو آپ حضرت بدرالحق(شیخ محمد ارشد) کا ہاتھ تھام کے ٹیک کر بیٹھے - حضرت بدرالحق ظرف تیمم لے کر سامنے کھڑے ہوئے، آپ نے تیمم کے لیے دو ضربہ بڑی مشکل سے ماری، حضرت بدرالحق یہ حالت دیکھ نہ سکے، تیمم کا ظرف ہاتھ سے چھوٹ گیا - آپ نے تیسری ضرب جو ماری تو پلنگ کی چادر پر پڑی، فوراً لیٹ گئے - یہ آپ کا آخری تیمم تھا - صبح صادق ہو چکی تھی، پہلے حضرت شیخ محمد حمید نے اٹھ کر وضو کیا اور اذان کہی، پھر حضرت بدرالحق شیخ محمد ارشد نے بھی وضو کر کے سنت ادا کی اور کچھ تسبیح پڑھ کر جماعت سے فرض ادا کیا - واپس آکر چہرےمبارک سے چادر جو ہٹائی تو آپ اور ہی عالم میں نظر آئے - ہر چند آپ نے پکارا، مگر یہاں تو وصال ہوچکا تھا، کہتا سنتا کون؟ حضرت قطب الاقطاب کے حقیقی بھانجے اس وقت موجود تھے، انہوں نے کہا کہ میرا جہاں تک علم و سماع ہے، آپ نے اذان سن کر اللہ اکبر کہہ کر تحریمہ باندھا اور خاتمۂ ارکان یعنی سلام کے بعد وصال فرمایا - بعض لوگوں کا بیان تھا کہ عین نماز میں واصل بحق ہوئے - الغرض! رمضان المبارک 1083ھ کی نویں تاریخ روز جمعہ کی صبح (29/دسمبر 1672ء)کو نماز فجر کے وقت وصال فرمایا- انا للہ وانا الیہ راجعون جون پور خاص باغ میں جو اس وقت درگاہ کا احاطہ ہے، مدفون ہوئے - شیخ محمد ماہ(دیوگامی ثم جون پوری) نے جنازے کی نماز پڑھائی اور شیخ محمد ارشد، ملا ملتانی کے ساتھ قبر میں بھی اترے - پہلے بیر کے تخت دیے گئے، پھر وصیت کے مطابق ان پتھروں کا تختہ دیا گیا، جن پر آپ کے طلبہ کی جوتیاں اترتی تھیں-
خلفائے قطب الاقطاب
یوں تو آپ کے خلفا کثرت سے تھے،مگر چونتیس آدمی ایسے کامل اور جید خلیفہ تھے کہ اگر ان کا تفصیلی ذکر لکھوں تو کافی طوالت ہوجائے - لہٰذا صرف چند کے نام کا ذکر کرتا ہوں :
حضرت شیخ عبدالمجید (یہ اول مرید ہیں، جو بہ حکم حضرت غوث الاعظم آئے تھے)
حضرت ملا عبدالشکور. منیری
حضرت شیخ مبارک محی الدین
حضرت نصرت جمال ملتانی قدس سرہٗ
حضرت شیخ عبداللطیف مٹھن پوری
حضرت شیخ حبیب اللہ بہاری
میر سید سیف الدین مدن پوری
حضرت راجی خضر مانک پوری
حضرت شیخ محمد ارشد رشید قدست اسرارہم
یہ سب بزرگ اہل کمال تھے اور سب کے سب عارف کامل اور ذاکر و شاغل تھے، کہاں طاقت کہ تفصیلی حالات لکھ سکوں-
ماخوذ از"تذکرہ مشائخ رشیدیہ معروف بہ سمات الاخیار''