Biography Hazrat Shah Saif Ul Allah Ul Maslool Fazal Rasool Badayuni سیف اللہ المسلول شاہ فضل رسول محدث بدایونیقدس سرہ النورانی

Biography Hazrat Shah Saif Ul Allah Ul Maslool Fazal Rasool Badayuni 
سیف اللہ المسلول شاہ فضل رسول محدث بدایونیقدس سرہ النورانی 

______

✍️از : نازش مدنی مرادآبادی

______

سیف اللہ المسلول، محبّ الرسول، جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ شاہ فضل رسول محدث بدایونی قدس سرہ النورانی

امع المنقولات والمعقولات،جامع الشریعت والطریقت،امام اہلسنت،حامیِ سنت،ماحیِ بدعت،غیظ المنافقین،مہلک الوہابیین،معین الحق والدین،محسن الاسلام والمسلمین،سیف اللہ المسلول حضرت شاہ فضل رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ

نام و لقب :

          آپ کا نام نامی اسم گرامی شاہ فضلِ رسول، اور لقب سیف اللہ المسلول،معین الحق ہے شاہ آلِ احمداچھے میاں کے ارشاد کے مطابق آپ کا نام فضلِ رسول رکھا گیا۔(1)

 سلسلۂ نسب :

            آپ کاسلسلہ نسب والدِ ماجد کی طرف سے جامع القرآن عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے رئیس المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔(2)

ولادت باسعادت :

           آپ کے والد ماجد مولانا عبد المجید قدس کے یہاں مسلسل صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔لہذا آپ کی والدہ ماجدہ بکمال اصرار کہا کرتی تھیں کہ مرشد برحق شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی قدس سرہ العزیز کی بارگاہ میں نرینہ اولاد کے لیے دعا کی گزارش کریں، لیکن شاہ عین الحق پاس ادب کی بنا پر ذکر نہ کرتے۔جب فضل رسول کی ولادت کا وقت آیا تو حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرزند کے پیدا ہونے کی بشارت دی۔چنانچہ علامہ فضلِ رسول قادری بدایونی کی ولادت ماہِ صفر المظفر1213ھ،مطابق 1798ء کو بدایوں(انڈیا) میں ہوئی۔(3)

تعلیم وتربیت :

         صرف و نحوکی ابتدائی تعلیم جد امجد مولانا شاہ عبد الحمید بدایونی اور والد ماجد مولانا شاہ عبد المجید علیہما الرحمہ سے حاصل کی۔ بارہ برس کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاپیادہ لکھنؤ کا سفر کیا اور فرنگی محل لکھنؤ میں بحر العلوم کے جلیل القدر شاگرد مولانا نور الحق فرنگی محلی (متوفی 1338ھ)کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے چار سال کے قلیل عرصے میں تمام علوم و فنون کی تکمیل کرلی۔ حکیم ببر علی موہانی سے فنِ طب کی تکمیل کی۔

جمادی الآخرۃ( 1228ھ) کو حضرت  مخدوم شاہ عبد الحق ردولوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار اقدس کے سامنے عرس کے موقع پر مولانا عبد الواسع لکھنؤی، مولانا ظہور اللہ فرنگی محلی اور دیگر اجلہ علما کی موجودگی میں رسم دستار بندی ادا کی گئی اور وطن جانے کی اجازت دی۔(4)

بیعت وخلافت :

             علامہ فضلِ رسول قادری علیہ الرحمہ اپنے والدِ گرامی عین الحق شاہ عبد المجید بدایونی قدس سرہ النورانی کے دستِ حق پرست پربیعت ہوئے۔ انہوں نے تمام سلاسل میں اجازت و خلافت عطا فرمائی تھی۔ اس کے علاوہ آپ کو سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ، ابو العلائیہ اور سلسلہ سہروردیہ کی بھی اجازت وخلافت حاصل تھی۔(5)

درس وتدریس :

       علوم وفنون سے فراغت کے بعد چونکہ حضور اچھے میاں کے ایما پر آپ طب سیکھنے کے لیے دھول پور چلے  گیے تھے۔پھر والد ماجد کے بلانے پر وطن تشریف لائے اور مدرسہ قادریہ کی بنیاد رکھی۔جہاں سے اکثر اہل شہر کے علاوہ دیگر بلاد کے لوگوں نے بھی فیض حاصل کیا۔پھر ملازمت کا ارادہ کیا۔ریاست بنارس وغیرہ میں قیام کیا۔لیکن درس وتدریس کا سلسلہ کہیں منقطع نہ ہوا۔(6)

دربار رسالت مآب میں حاضری :

           آپ علیہ الرحمہ ایک مرتبہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کے مزار اقدس کے قریب معتکف تھے کہ اچانک مدینہ طیبہ کی حاضری کا شوق ایسا غالب ہوا کہ سفر خرچ کی فکر کیے بغیر پا پیادہ بمبئی روانہ ہو گیے۔دو ماہ کا سفر تائید ایزدی سے اس قدر جلد طے کیا کہ آپ ساتویں دن ممبئی پہنچ گیے۔حالانکہ زخموں کی وجہ سے کچھ دن راستے میں قیام بھی کرنا پڑا۔بمبئی سے سفر مبارک کی اجازت حاصل کرنے کے لیے والد ماجد کی خدمت میں عریضہ لکھا۔انہوں نے بکمال خوشی اجازت مرحمت فرمائی۔حرمین شریفین پہنچنے کے بعد عبادت وریاضت کو اور جلا ملی۔شب وروز یاد الٰہی میں بسر کیے اور خلق خدا کی خدمت کے لئے پوری طرح کمر بستہ رہے۔

جب آپ واپس وطن پہنچے تو والد ماجد 80 سال کی عمر میں حرمین شریفین کا قصد فرما کر بمقام بڑودہ پہنچ چکے تھے۔حاضر ہو کر گزارش کی کہ اس بڑی عمر میں آپ نے اس قدر طویل سفر کا ارادہ فرمایا ہے۔ لہذا میں مفارقت گوارا نہیں کر سکتا۔وہیں سے والدہ ماجدہ کی خدمت میں عریضہ لکھ کر اجازت طلب کی اور والد ماجد کے ساتھ پھر سوے حرمین شریفین روانہ ہو گیے۔اس سفر میں عبادت وریاضت کے علاوہ والد مکرم کی خدمت کا جق ادا کر دیا اور ان کی دعاؤں سے پوری طرح بہرہ ور ہوئے۔(7)

تصنیف وتالیف :

            علامہ شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ نے خدمتِ خلق، عبادت و ریاضت، درس و تدریس، وغط و تبلیغ کے مشاغل کے باوجود تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ آپ نے اعتقادیات، درسیات ،طب،تصوف او ر فقہ میں قابلِ قدر کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں۔ بعض کتب کے اسما درج ذیل ہیں :

• سیف الجبار

• بوارق محمدیہ

• تصحیح المسائل

•المتعقد المنتقد

• فوزالمؤمنین

•تلخیص الحق

• احقاق الحق

• شرح فصوص الحکم

• رسالۂ طریقت، حاشیۂ م

• رسالہ قطیبہ

• حاشیہ میرزاہد ملا جل

•طب الغریب

•تثبیت القدمین

•حرزِ معظم(8)


سفر آخرت :

       2/جمادی الاخریٰ 1289ھ،مطابق8/اگست 1872ء،بروز جمعرات خلف اصغر مولوی عبد القادر قادری بدایونی کو بلا کر نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کی اور ظہر کے وقت اسمِ ذات کے ذکر خفی میں مصروف تھے کہ اچانک دو دفعہ بلند آواز سے اللہ اللہ کہا اور ساتھ ہی روح قفسِ عنصری سے اعلیٰ علیین کی طرف پرواز کر گئی۔ آپ کا مزار پاک مدینۃ الاولیا بدایوں شریف میں درگاہِ قادری(بدایوں) میں جلوہ گاہ خاص وعام ہے۔(9)


ماخد ومراجع :

(1)نور نور چہرے ص: 296

(2)ایضاً ص: 296

(3) ایضاً ص: 296

(4)ایضاً ص: 296-297

(5)ایضاً ص: 298

(6)ایضاً ص: 297-298

(7)ایضاً ص:298-299

(8)ایضاً ص: 301

(9)ایضاً ص: 314


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی