ان شاء اللہ ہم آج اور کل ان شاء اللہ حضرت ابو المعالی چشتی انبیٹھوی اور حضرت ابو المعالی کا قادری کا ذکر کریں گے۔
شاہ ابوالمعالی صاحبِ اسرار و معارفِ یزدانی،شہبازِ لامکانی لاہور کے بڑے قادری بزرگ ہیں۔
شاہ ابوالمعالی لاہوری اپنے وقت کے شیخِ کامل اور عالمِ اکمل تھے۔آپ کی ذات وا لا صفات سے دینِ اسلام اور سلسلہ عالیہ قادریہ کو بہت فروغ حاصل ہوا۔خرقۂ خلافت کےبعد شیخ کی طرف سے لاہورمیں رشد وہدایت پر مامور کیے گئے۔چنانچہ شیر گڑھ سے لاہور تک جہاں قیام فرمایا وہاں سرائے،کنواں،تالاب اور باغ لگواتے گئے۔آج بھی راستے میں ایسے مقامات و سرائے اور مکانات و بستیاں موجود ہیں جو آپ کے نام سے ہیں۔جب آپ لاہور میں تشریف لائے تو مخلوقِ خدا جوق در جوق حلقۂ ارادت میں داخل ہونے لگی اور آپ نے بڑی قبولیت حاصل کی۔آپ کی بڑی کرامت یہ تھی کہ جو شخص آپ سے بیعت ہوتا اس کو اسی رات محبوبِ سبحانی غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کا دیدار نصیب ہوتا۔
اس غلط فہمی کو حضرت شاہ ابوالمعالی قادری لاہوری علیہ الرحمہ کے سجادہ نشین صاحبزادہ حافظ مفتی پیر سید علی زین العابدین شاہ کرمانی صاحب نے اپنی تصنیف انوار معالیہ میں درست کیا ہے ملاحظہ فرمائے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں بعض ایسے دوستوں سے ملاقات ہوئی جو سلسلہ چشتیہ سے وابستہ ہیں ان کے شجرہ طریقت میں ایک بزرگ کا نام شاہ ابوالمعالی بھی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ حضرت شاہ ابوالمعالی علیہ الرحمہ یہی ہیں جو حضرت داؤد بندگی علیہ الرحمہ کے مرید ہیں حالانکہ ایسا نہیں حضرت شاہ ابوالمعالی چشتی علیہ الرحمہ ١٠٤٥ ہجری سہارن پور کے قصبہ انبیٹھ میں پیدا ہوئے والد کا نام سید محمد اشرف تھا شیخ داؤد گنگوہی کے مرید تھے ٨ ربیع الاول ١١١٢ھ کو وصال کیا اور ضلع سہارن پور میں مزار ہے ۔ حسن اتفاق کہ نام اور مرشد کے نام میں مشابہت ہے پھر زمانہ بھی قریب ہونے کی وجہ سے شبہ پڑا تو لوگوں نے حضرت سیدنا شاہ ابوالمعالی قادری علیہ الرحمہ کو چشتی سمجھ لیا(انوار معالیہ صفحہ نمبر 27)
نام و نسب:
نام سید خیر الدین محمد۔ کنیت: ابوالمعالی۔ لقب: اسد الدین۔تخلص: اشعار میں معالی کے علاوہ ’’غربتی‘‘ بھی بطورِ تخلص استعمال کرتےتھے۔لیکن شاہ ابو المعالی کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔
سلسلہ نسب:
شاہ ابوالمعالی قادری بن سید رحمت اللہ بن سید فتح اللہ۔ ۔ شیخ المشائخ داؤدکرمانی آپ کے حقیقی چچا تھے۔آپ ان کے داماد اور خلیفۂ اعظم تھے۔ بزرگوں کا وطن ’’کرمان‘‘ تھا۔ خاندانی تعلق ساداتِ کرمان سےہے۔ سلسلہ ٔ نسب36 واسطوں سےحضرت سیدنا علی مرتضیٰ پر منتہی ہوتاہے۔
آپ صحیح النسب ، نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں۔ ابو المعالی احوال و آثار کے مصنف کے مطابق : آپ کے سلسلہ نسب و سلسلہ طریقت میں انقطاع کا شبہ تک نہیں ہوتا۔
دارالشکوہ نے لکھا ہے کہ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ قادری سلسلے میں آپ کو شیخ داؤد کرمانی سے نسبت تھی۔ حد یقتہ الاولیامیں لکھا ہے کہ شیخ داؤد کرمانی شیر گڑھی کے بھتیجے ہیں۔
ولادت:
تاریخ پیدائش10 ذو الحجہ 960ھ بمطابق 16/نومبر 1552ء کو’’شیر گڑھ‘‘تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ پنجاب پاکستان میں ہوئ۔سید رحمت اللہ کے بیٹے ہیں۔ سید رحمت اللہ بن میر سید فتح اللہ کرمانی تین بھائی تھے۔ ایک شیخ داؤد کرمانی دوسرے سید جلال الدین کرمانی تیسرے یہی سید رحمت اللہ کرمانی جو شاہ ابوالمعالی قادری کے والد گرامی قدر ہیں۔
ایک علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتےتھے۔ جو صدیوں سے علم وفضل میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کے والدِ محترم سید رحمت اللہ ایک عالمِ متبحر و عارف باللہ تھے۔ آپ کی تعلیم وتربیت والدِ گرامی کے زیرِسایہ ہوئی۔ تمام علوم ِ منقولات ومعقولات انہیں سے حاصل کیے۔اس وقت کے تمام مروجہ علوم کے ماہر ِ کامل اور عربی وفارسی ادب کے بہترین ادیب تھے۔آپ نے علم حدیث کی صرف درس تدریس ہی کے ذریعے اشاعت نہیں کی بلکہ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور و مسلّم کتاب لمعات ہے۔ شیخ عبد الحق دہلوی جیسے بزرگ تسکین قلب اور فیوض باطنی کے لیے جس کی توجہ کے طالب اور اکثر دستگیری و رہنمائی کے محتاج رہتے تھے۔ شیخ محدّث ان کی زیارت کے لیے دہلی سے لاہور آتے تو یہ سختی سے ان کو روک دیتے ہیں۔
واقعہ بیعت:
سیدنا شاہ ابو المعالی علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد عشق الٰہی و معرفت حقیقی سے تعلق والہانہ اور جذبۂ عشق و وفا سے بساط بھر شرف یاب ہونے کے بعد کسی پیر کامل کے دست حق پرست بیعت کا امید شجر کی کونپلیں پھوٹنے لگی پھر آپ نے قل سیرو ا فی الارض پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مرشد کامل کی تلاش میں دور دراز کے علاقوں کی سیاحت کا آغازفرمایا۔ ۹۸۰ ہجر ی میں ۲۰ برس کی عمر میں اپنے ایک دوست شیخ حامد قرشی کے ساتھ دہلی کی سیر کو نکلے۔ کئی دن مسلسل سفر میں گزارنے کے بعد بالآخر دہلی پہنچے یہاں سڑک کنار ایک صاحب حال و کشف مجذوب سے ملاقات ہوئی۔ اس مجذوب نے سیدی شاہ صاحب کے چہرہ پر نگاہ ڈالی اورمسکراتے ہوئے فرمایا۔
آج دنیا والے سلوک طریقت کے اکتساب اور حصول دولت معرفت کی خاطر حضرت داؤد بندگی ( حضرت ابو المعالی کے چچا) کے در پر حاضر ہوتے ہیں اور آپ اس قسم کی نعمت کو اپنے گھر میں چھوڑ کر اپنا مدعی باہر تلاش کرتے ہو۔
یہ بات سنتے ہی حضرت شاہ صاحب کے دل میں اس مجذوب کی ولایت و محبت گھر کر گئی لہذا آپ اس کے پاس بیٹھ گئے۔
دوسری طرف حضرت شاہ صاحب کی والدہ محترمہ آپ کی جدائی میں بے چین ہو کر سیدنا داؤد بندگی کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کی معالی کے فراق نے مجھے پریشان کر دیا ہے خدارا توجہ کر کے معلوم فرمائیں وہ اس وقت کہاں ہے۔ حضرت داؤد بندگی نے فرمایا وہ دہلی کے بازار میں ایک ہجر زدہ مجذوب کی خدمت کر رہا ہے چند روز میں واپس آ جائے گا۔
چناچہ کچھ روز ہی گزرے تھے کہ سیدنا شاہ ابو المعالی واپس کانقاہ عالیہ داؤدیہ تشریف لایئے اور حلقہ ارشاد میں سماع کے لیے سیدنا داؤد کی پشت کی طرف برا جمان ہوگئے۔وعظ و نصیحت سے فراغت کے حضرت داؤد بندگی نے ایک نظر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا پھر فارسی کا ایک شعر پڑھا۔
جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
سارا جہاں پھر کر دیکھ لو اور اپنے پاؤںح چھلنی کر لو اگر ہم ساکوئی نظر آئے تو کہنا۔
اس کے بعد فرمایا۔ ذرا اس مجذوب کے بارے میں بتائیں اس نےآپ سے ہمارے بارے میں کیا کہا۔ سرکار ابو المعالی نے سارا قصہ دہرایا اور پھر بیعت کی درخواست کی ۔ جو قبول کر لی گئی۔
تصنیفات
آپ نے جناب سید عبد القادر جیلانی کی منقبت میں’’ رسالہ غوثیہ‘‘اور آپ کی کرامات کے موضوع پر ’’تحفہ قادریہ ‘‘کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا نیز’’ حلیہ سروردوعالم‘‘،’’گلدستہ باغ ارم‘‘، ’’مونس جاں‘‘ اور’’ زعفران زار ‘‘کتابیں بھی آپ کی یادگار ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا ایک قلمی نسخہ ’’ہشت محفل‘‘ کے نام سے پنجاب یو نیورسٹی لاہور کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے۔ جسے آپ کے صاحبزادے جناب محمد باقر نے مرتب کیا تھا۔ اس نسخے میں شاہ صاحب کے ملفوظات جمع کیے گئے ہیں۔
دیوان غربتی مونس جان وغیرہ بھی آپ کی کتب میں شمار کیے جاتے ہیں۔
شاعری
شاہ صاحب ایک شاعر بھی تھے۔ غربتی اور معالی آپ کا تخلص تھا۔ عربی اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ جن میں اکثر صوفیانہ خیالات ہی کا اظہار ہوتا تھا۔
کرامات:
کہا جاتا ہے کہ جب لاہور میں ایک موقع پر بارش نہ برسی تو اس وقت کے حاکم افضل آغا نے عوام اور صالحین کی جماعت کو نماز استسقا کے لیے شہر سے باہر میدان میں اکٹھا کیا اور خود حضرت شاہ ابو المعالی کی خدمت میں حاضر ہوکر عید گاہ تشریف آوری کی التماس کی۔ آپ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ مجھے معذور سمجھو ( ساتھ لے جانے کی ضد نہ کرو۔ مگر حاکم نے عاجزی سے ساتھ چلنے کی درخواست کی اور عرض کی اس وقت تک نہ اٹھوں گا جب تک آپ کو ساتھ نہ لے چلوں۔ کچھ مراقبہ کے بعد فرمایا ۔ آج اورکل بارش نہ برسے گی، پرسوں بارش برسے گی۔ حاکم نے عرض کیا اجازت ہو تو یاد داشت کے لیے لکھ لوں۔ فرمایا لکھ لو۔ چنانچہ جیسے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ بارش برسنے کے بعد حاکم شہر نے نماز استسقا پڑھنے کے روز اور دوسرے روز بارش نہ برسنے اور تیسرے روز برسنے کی حکمت پوچھی تو فرمایا۔ اگر اسی روز بارش برستی تو نمازیوں میں جو مغرور و متکبر لوگ تھے وہ اسے اپنی طرف منسوب کر کے اپنی کرامت شمار کرتے، ان کے غرور کو توڑنے کے لیے تیسرے روز مینہ برسا۔
اس طرح کے بہت سے کرامات ہیں۔
وفات
سال وفات16 ربیع الاول 1024ھ بمطابق 1615ءہے شاہ ابوالمعالی نے پینسٹھ برس کی عمر پائی۔ لاہور میں بیرون موچی دروازہ مدفون ہیں