Biography Hazrat Abul Najeeb Abdul Qahir Soharwardi تعارف حضرت ابو الجیب عبد القاہر سہروردی

 شیخ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی (1168-1097)



وجہ شھرت


آپ کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کے نام سے تمام عالم اسلام میں پھیلا اور خوب پھیلا۔

آپ کاشجرہ نسب بارہ واسطوں سے حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے

490ہجری عراق کے ایک چھوٹے سے قصبے ونجان کے قریب سہرورد نام ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ شجرہ نسب بارہ واسطوں سے حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔ آغاز جوانی میں سہرورد سے تحصیل علم کے لیے بغداد چلے آئے جہاں امام اسعد المتوفی 527 مدرس اعلیٰ مدرسہ نظامیہ بغداد سے فقہ ، اصول فقہ اور علم کلام کی تحصیل کی۔ علامہ ابو الحسن فصیح النحوی المتوفی 516 ہجری مدرس علم نحو سے علم ادبیہ کی تحصیل کی اور کئی محدثین کرام سے علم حدیث کی تعلیم پائی۔ غرض تھوڑے ہی دنوں میں ایک متحبر عالم بن گئے۔ اپنے ہم عصر علماءمیں نہایت شہرت و ناموری پائی۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ کے دل میں علوم باطنی کے حاصل کرنے کی لگن پیدا ہوئی۔ اگرچہ اپنے چچا وجیہ الدین ابو حفص عمرسہروردی کی صحبت میں بچپن ہی سے آپ کی طبیعت پر صوفیانہ رنگ تھا اور آپ فقر و درویشی کی طرف مائل تھے۔ لیکن اب آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ بھی جوان ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ آپ نے درس و تدریس کا مشغلہ ترک کر کے علوم باطنی کی تحصیل کے لیے پہلے اپنے چچا کی طرف رجوع کیا۔ ان سے فراغت پانے کے بعد امام محمد غزالی کے بھائی احمد غزالی کی طرف رجوع کیا۔ ان سے علم تصوف حاصل کیا اور منازل سلوک طے کیے۔ تذکرہ نویسوں نے بیان کیا ہے کہ آپ محبوب سبحانی سید عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں بھی پہنچے اور ان سے بھی استفادہ کیا۔ منازل سلوک طے کرنے کے بعد آپ نے دین اسلام کی اشاعت و خدمت کے لیے کمر ہمت باندھ لی اور درس و تدریس کا سلسلہ پھر سے شروع کیا۔

545 ہجری میں آپ سلجوقی بادشاہ مسعود اور المفتی امر اللہ عباسی خلیفہ کی خواہش پر مدرسہ نظامیہ بغداد کا اہتمام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آپ اس کے مہتمم مقرر ہوئے۔ مگر 547 ہجری میں دو سال ہی کے بعد اس مدرسہ سے علیحدہ ہو گئے۔ واقعہ یہ ہوا کہ بغداد کے مشہور کاتب شیخ یعقوب جو مدرسہ ہی میں رہا کرتے تھے فوت ہو گئے۔ وہ چونکہ بے وارث تھے۔ اس لیے حکومت کی طرف سے متعلقہ شعبہ کے افراد نے آ کر ان کے سامان پر قبضہ کر لیا اور تالا ڈالنا چاہا۔ طلباء مزاحم ہوئے۔ اس پر مدرسہ میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جناب شیخ اس ہنگامہ سے کچھ ایسے متاثر ہوئے, کہ عہدے ہی سے مستعفیٰ ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے اپنا مدرسہ جو پہلے سے قائم تھا دوبارہ جاری کیا جس میں فقہ و حدیث کے بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے مثلاً امام فخر الدین ابو علی واسطی ، قاضی ابوالفتوح تکوینی ، علامہ کمال الدین ابن الانباری، علامہ ابن الغبیری، حافظ ابن عساکر، علامہ حافظ قاسم ابن عساکر، حافظ عبدالکریم سمعانی وغیرہ محدثین واکابرین آپ کے شاگردان رشید ہیں غرض یہ کہ آپ کے چشمہ فیض و عرفان سے ایک عالم سیراب ہوا۔

طریقت کے علم میں بھی آپ کے اخلاص کیشان تصوف کی تعداد بے شمار ہے۔ جن میں سے چند مشہور مشائخ و اولیائے کرام یہ ہیں۔شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی ، شیخ نجم الدین کبریٰ، شیخ عبداللہ مطرومی، شیخ جمال الحق ، عبدالصمد زنجانی، خواجہ اسمٰعیل قیصری وغیرہ صوفیائے کرام آپ ہی کے مریدین خاص اور آپ کے خلفائے با اخلاص ہیں۔

آپ کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کے نام سے تمام عالم اسلام میں پھیلا اور خوب پھیلا۔ جناب شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی، مولانا فخر الدین عراقی، حضرت امیر حسینی سادات ، مولانا جلال الدین رومی ، جناب خواجہ فرید الدین عطار، مولانا شمس الدین تبریزی، شیخ الاسلام سید نور الدین مبارک غزنوی، مولانا مغربی، مخدوم جہانیاں سید السادات ، مخدوم جلال الدین بخاری، خواجہ نجیب الدین فردوسی، مولانا شمس الدین تبریزی اور شیخ الاسلام جناب غوث بہائو الدین زکریا ملتانی وغیرہ اہم بزرگان دین آپ ہی کے سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ کرام ہیں۔


شیخ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمتہ اللہ علیہ (1168-1097)

ابو نجیب سہروردی رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ زہب مذہب صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کا دسواں پیر طریقت ہےآپ حضرت شیخ احمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد اور خلیفہ باطن ہے-آپ

490ہجری کو عراق کے ایک چھوٹے سے قصبے ونجان کے قریب سہرورد نام کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آغاز جوانی میں سہرورد سے تحصیل علم کے لیے بغداد چلے آئے جہاں امام اسعد المتوفی 527 مدرس اعلیٰ مدرسہ نظامیہ بغداد سے فقہ ، اصول فقہ اور علم کلام کی تحصیل کی۔ علامہ ابو الحسن فصیح النحوی المتوفی 516 ہجری مدرس علم نحو سے علم ادبیہ کی تحصیل کی اور کئی محدثین کرام سے علم حدیث کی تعلیم پائی۔ غرض تھوڑے ہی دنوں میں ایک متحبر عالم بن گئے۔ اپنے ہم عصر علماءمیں نہایت شہرت و ناموری پائی۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ کے دل میں علوم باطنی کے حاصل کرنے کی لگن پیدا ہوئی۔ اگرچہ اپنے چچا وجیہ الدین ابو حفص عمرسہروردی کی صحبت میں بچپن ہی سے آپ کی طبیعت پر صوفیانہ رنگ تھا اور آپ فقر و درویشی کی طرف مائل تھے۔ لیکن اب آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ بھی جوان ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ آپ نے درس و تدریس کا مشغلہ ترک کر کے علوم باطنی کی تحصیل کے لیے پہلے اپنے چچا کی طرف رجوع کیا۔ ان سے فراغت پانے کے بعد امام محمد غزالی کے بھائی احمد غزالی کی طرف رجوع کیا۔ ان سے علم تصوف حاصل کیا اور منازل سلوک طے کیے۔ تذکرہ نویسوں نے بیان کیا ہے کہ آپ محبوب سبحانی سید عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں بھی پہنچے اور ان سے بھی استفادہ کیا۔ منازل سلوک طے کرنے کے بعد آپ نے دین اسلام کی اشاعت و خدمت کے لیے کمر ہمت باندھ لی اور درس و تدریس کا سلسلہ پھر سے شروع کیا۔

545 ہجری میں آپ سلجوقی بادشاہ مسعود اور المفتی امر اللہ عباسی خلیفہ کی خواہش پر مدرسہ نظامیہ بغداد کا اہتمام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آپ اس کے مہتمم مقرر ہوئے۔ جس میں فقہ و حدیث کے بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے مثلاً امام فخر الدین ابو علی واسطی ، قاضی ابوالفتوح تکوینی ، علامہ کمال الدین ابن الانباری، علامہ ابن الغبیری، حافظ ابن عساکر، علامہ حافظ قاسم ابن عساکر، حافظ عبدالکریم سمعانی وغیرہ محدثین واکابرین آپ کے شاگردان رشید ہیں غرض یہ کہ آپ کے چشمہ فیض و عرفان سے ایک عالم سیراب ہوا۔

طریقت کے علم میں بھی آپ کے اخلاص کیشان تصوف کی تعداد بے شمار ہے۔ جن میں سے چند مشہور مشائخ و اولیائے کرام یہ ہیں۔شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی ، شیخ نجم الدین کبریٰ، شیخ عبداللہ مطرومی، شیخ جمال الحق ، عبدالصمد زنجانی، خواجہ اسمٰعیل قیصری وغیرہ صوفیائے کرام آپ ہی کے مریدین خاص اور آپ کے خلفائے با اخلاص ہیں۔ آپ 563 ھ کو وفات پائی


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی