Biography Hazrat Mufti Muhammad Abdul Qayyum Hazarwi |مفتی عبد القیوم ہزاروی جامعہ نظامیہ لاہور

 علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی


علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی اپنے عہد کے ایک منفرد اورجامع الکمالات شخصیت تھے ۔ آپ کی زندگی اخلاص وایثار ،سعی پیہم ،جہد مسلسل اورعزم صمیم سے عبارت تھی ۔آپ اپنے اسلاف کے ایثار،اخلاص،استقامت وعزیمت، ورع وتقوی کاکامل مظہر،اُن کی علمی وراثت کے امین تھے ۔آپ درس نظامی میں عدیم النظیر معلم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔ہر علم اورہرفن پرآپ کو کامل عبوراورملکہ حاصل تھا۔ آپ علوم عربیہ واسلامیہ کی تدریس کے ایسے مرکب تھے جس نے علم کے میدان میں ہرجانب اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ۔حضرت قبلہ مفتی صاحب اپنی حیات مبارکہ میں علمی رفعتوں اورمناصب جلیلہ تک پہنچے مگران میں سے کچھ بھی موروثی نہ تھا۔ آپ اُن لوگوں میں سے تھے جواپنی دنیا آپ تعمیر کرتے ہیں ،اپنے امکانات مواقع کاماحول خود پیداکرتے اور اُن کے متمنی وطلبگاررہتے ہیں۔جن سے مناصب کوعزت ملتی ہے ،عہدوں کووقارملتاہے جس مقام اورمسند پربیٹھیں اُسے نشان امتیاز بنادیتے ہیں ۔آپ اپنے تلامذہ ،معتقدین اور متوسلین کے روحانی باپ،مربی اورمحسن تھے ۔آدمی کوباکمال انسان بنانا ایک مشکل ترین فن ہے ،کردارسازی میں آپ کو خدا داد صلاحیت حاصل تھی۔ دراصل یہی اِعجازِ نبوت ہے اورفیضان نبوت ہے ۔ یہی تربیت ِنبوت تھی جس نے گڈریوں ،گنواروں ،وحشی انسانوں اورصحراوؤں اورریگستانوں کے مکینوں کورہتی دنیا تک کے لیے علم ،تہذیب ،عدل وانصاف،زُہدوتقویٰ اور الغرض ،شجاعت و صداقت کی مثال بنادیا۔

استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا ابوسعید مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی بن مولانا حمیداللہ ۲۹؍شعبان المعظم ۱۳۵۲ھ/ ۱۸؍دسمبر ۱۹۳۳ء میں بمقام میراہ علاقہ اپرتناول، مانسہرہ (ہزارہ) پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان کے اکثر افراد علم دین اور حفظِ قرآن کی لازوال دولت سے بہرہ ور ہیں۔

آپ نے ابتدائی کتب فارسی، جنیدھیڑ شریف ضلع گجرات میں اپنے چچا مولانا محبوب الرحمٰن سے پڑھیں، جبکہ مولانا مذکور انتہائی کتب وہاں مولانا محب النبی سے پڑھا کرتے تھے۔ فنون کی ابتدائی کتب مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب سے پڑھنے کے بعد باقی تمام کتب متداولہ، شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا غلام رسول صاحب (فیصل آباد) سے دارالعلوم جامعہ رضویہ منظرِ اسلام ہارون آباد (بہاول نگر) مدرسہ احیاء العلوم بورے والہ (ملتان) اور دارالعلوم حزب الاحناف میں پڑھیں۔ مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد مدظلہ سے دارالعلوم حزب الاحناف میں اور پھر محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ سے جامعہ رضویہ مظہراسلام (فیصل آباد) میں درسِ حدیث لے کر ہر دو اداروں سے ۱۹۵۵ء اور ۱۹۵۶ء میں سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔

دارالعلوم حزب الاحناف میں آپ کی رسم دستار بندی کے موقع پر دیگر اکابر علماء اہل سنت کے علاوہ حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھوی اور قائدِ تحریک ختمِ نبوت حضرت علامہ ابوالحسنات رحمہما اللہ، علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللہ اور علامہ سید احمد سعید کاظمی بھی موجود تھے۔

ابھی آپ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں درجہ حدیث کے متعلم تھے کہ جامعہ حنفیہ قصور کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب ایک مدرس کی تلاش میں دارالعلوم حزب الاحناف لاہور تشریف لائے، چنانچہ مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات مدظلہ نے آپ کو حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب کے ہمراہ جامعہ حنفیہ قصور میں تدریس کے لیے بھیجا، جہاں تقریباً بائیس اسباق کی تدریس آپ سے متعلق ہوگئی۔ کثرتِ اسباق کی وجہ سے آپ بیمار پڑ گئے، چنانچہ دوسرے سال آپ کی خرابیٔ صحت کی بنا پر گھر آگئے۔ اسی دوران حضرت محدث اعظم رحمہ اللہ نے آپ کو فیصل آباد بلاکر سمندری ضلع فیصل آباد میں خطابت اور قیامِ مدرسہ کے لیے بھیجا۔ چونکہ آپ کی طبیعت کا رجحان امامت و خطابت کی بجائے تدریس کی طرف زیادہ تھا، اس لیے چند دن بعد آپ واپس فیصل آباد آکر حضرت محدث اعظم رحمہ اللہ کی اجازت سے دورۂ حدیث میں شامل ہوگئے۔ جلسہ دستار فضیلت کے موقع پر حضرت مولانا عبدالغفور مہتمم جامعہ غوثیہ رضویہ غلہ منڈی پیر محل دارالعلوم کے لیے قابلِ مدرس حاصل کرنے کے لیے فیصل آباد آئے۔ جب طلباء سے آپ کی قابلیت اور لیاقت کا علم ہوا، تو حضرت محدث اعظم رحمہ اللہ کی اجازت سے آپ کو بطور مدرس پیر محل لے گئے۔ چونکہ یہ شعبان المعظم کا مہینہ تھا، اس لیے آپ نے تدریسی چارج سنبھالا اور رمضان المبارک کی تعطیل گزارنے اپنے گاؤں تشریف لائے۔

اسی دوران آپ کے استاذِ محترم حضرت علامہ مولانا غلام رسول (شیخ الحدیث) جامعہ رضویہ فیصل آباد) نے جامع مسجد خراسیاں لاہور میں ’’جامعہ نظامیہ رضویہ‘‘ کے نام سے ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی اور اپنی معاونت کے لیے آپ کو طلب کرنے کی غرض سے فیصل آباد خط لکھا خط ملنے پر حضرت محدث اعظم رحمہ اللہ نے حضرت مفتی صاحب کو فیصل آباد بلاکر صورتِ حال پیش کی اور آپ سے رائے طلب کی۔ آپ نے کہا جس طرح حکم ہو، میں حاضر ہوں، جب بار بار طلب رائے پر حکم کے لیے اسرار بڑھا، تو محدث اعظم رحمہ اللہ نے آپ کو لاہور میں جاکر اپنے استاذِ محترم کی معاونت میں کام کرنے کا حکم فرمایا۔

چنانچہ آپ نے لاہور پہنچ کر تدریسی فرائض سر انجام دینے کے علاوہ جامعہ کے انتظامی معاملات اور سرمایہ کی فراہمی میں بھی حصہ لیا، بلکہ قلیل مشاہرہ کی صورت میں جملہ تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اسی دوران آپ نے دو سال موچی دروازہ اور پانچ سال تک آخری بس اسٹاپ کرشن نگر لاہور میں امامت و خطابت کے فرائض بھی سر انجام دیے۔

یوں تو آپ جامعہ نظامیہ رضویہ کے قیام سے ہی جملہ انتظام و انصرام حتی کہ قابل مدرسین کے انتخاب و تقرری تک میں شریک کار رہے، لیکن جب یکم شعبان ۱۳۸۲ھ/ ۲۹؍دسمبر ۱۹۶۲ء کو حضرت محدث اعظم پاکستان رحمہ اللہ وصال فرماکر اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے اور ان کے بعد حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان جاری رکھنے کے لیے حضرت استاذ العلماء مولانا غلام رسول مدظلہ جامعہ رضویہ مظہراسلام فیصل آباد تشریف لے گئے، تو جامعہ نظامیہ رضویہ کے جملہ انتظامات آپ کے سپرد کیے گئے۔

مئی ۱۹۶۰ء میں تنظیم المدارس الاسلامیہ پاکستان  کے نام سے سنی مدارس کی ایک تنظیم قائم ہوئی۔ قواعد و ضوابط مرتب ہوئے، لیکن بوجوہ وہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی۔

۱۹۷۳ء میں تنظیم المدارس کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے دارالعلوم امجدیہ کراچی سے تحریک پیدا ہوئی۔ شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری کی سرپرستی میں کراچی اور سندھ کے علماء کی مجلسِ مشاورت میں یہ طے پایا کہ تنظیم کے احیاء کے لیے ملک گیر کنونشن بلایا جائے۔ نیز تحریک کا دفتر پنجاب میں ہو۔ چنانچہ سوچ و بچار کے بعد قرعۂ فال آپ کے نام نکلا اور یہ کام آپ کے سپرد کردیا گیا۔

چنانچہ اکابر علماء کے انتخاب اور اعتماد کے مطابق آپ نے شب و روز کی انتھک جدوجہد کے بعد جامعہ نظامیہ رضویہ میں ۱۴؍ذو الحجہ ۱۳۹۳ھ/ ۹؍جنوری ۱۹۷۴ء بروز بدھ ملک کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے سنی مدارس کا کنونشن بلایا اور علماء کرام کے اس جم غفیر میں آپ کو تنظیم المدارس کا ناظم اعلیٰ (مرکزی) مقرر کیا گیا۔

آپ کے چار صاحبزادے (محمد سعید، محمد عبدالمصطفےٰ، محمد عبدالمجتبیٰ اور محمد عبدالمرتضیٰ) اور چار صاحبزادیاں ہیں بڑے صاحبزادے محمد سعید احمد بیرونِ ملک ہیں اور باقی صاحبزادے ابھی کمسن ہیں۔ (اللہ تعالیٰ تمام صاحبزادگان کو آپ کا صحیح جانشین بنائے، آمین)

یوں تو بے شمار طلباء آپ سے اکتساب فیض کرچکے ہیں، تاہم چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:

۱۔       حضرت مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری، صدر مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

۲۔       حضرت مولانا محمد شریف ہزاروی، مجاہدِ تحریک نظام مصطفےٰ ہری پور (ہزارہ)

۳۔      حضرت مولاناسید  مزمل حسین شاہ، ناظم اعلیٰ جامعہ حسینیہ رضویہ ،لاہور

۴۔      حضرت مولانا محمد صدیق، انگلینڈ

۵۔       حضرت مولانا عبدالتواب صدیقی اچھرہ، لاہور

۶۔       حضرت مولانا گل محمد صاحب عتیقی، مدرس جامعہ رضویہ فیصل آباد

۷۔      حضرت مولانا مفتی ہدایت اللہ، مدرس جامعہ رضویہ مظہرالعلوم ملتان

۸۔      مولانا محمد یحییٰ صاحب، دوبئی

۹۔       حضرت مولانامفتی محمد منیب الرحمٰن ہزاروی ایم اے، مدرس دارالعلوم نعیمیہ کراچی

۱۰۔      حضرت مولانا محمد طفیل، ناظمِ اعلیٰ شمس العلوم جامعہ رضویہ کراچی

۱۱۔      حضرت مولانا سید خادم حسین شاہ، مدرس کاہنہ نو

۱۲۔      حضرت مولانا قاری عبدالرشید سیالوی، ناظمِ اعلیٰ دارالعلوم غوثیہ بندر روڈ شیراکوٹ لاہور

۱۳۔     حضرت مولانا حافظ عبدالستار نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

۱۴۔     حضرت مولانا سیّد غلام مصطفےٰ بخاری، مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

۱۵۔      محمد صدیق ہزاروی، مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

۱۶۔      مولانا محمد بشیر نقشبندی، خطیب، لاہور

۱۷۔     مولانا حافظ احسان اللہ ہزاروی [۱]

حضرت قبلہ مفتی صاحب اِسی نصب العین کے امین تھے آپ نے ایسے لاتعداد گمناموں اوربے ناموں کوناموربنادیا۔آپ اُن کے تلامذہ¿ گرامی کی فہرست پرنظرڈال کردیکھے توسہی ، اُنہوں نے کیسے کیسے شاہکارتخلیق فرمائے ۔حضرت قبلہ مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کااندازِ تربیت حکیمانہ بھی تھا لیکن اِس کے ساتھ وہ سیکھنے والوں کو اُن کی علمی نارسائی ،عملی کوتاہی اوربشری کمزوریوں کابھی احساس دلاتے رہتے تھے ۔حضرت قبلہ مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بلاشبہ عصبیت مذمومہ کے داعی ومبلغ نہیں تھے ، آپ”تصلب فی الدین“ علامت تھے اوریہی جذبہ صادقہ اپنے تلامذہ کے قلوب واذہان میں راسخ کرتے تھے تاکہ کسی بڑی طمع وحرص ،ہوائے نفس اورخوف سے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئے ،تا :ان الذین قالواربنااللہ ثم استقاموافلاخوف علیھم ولاھم یحزنون۔(سورة الاحقاف 13)ترجمہ:بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہاکہ ہمارارب اللہ ہے پھر اِس پر ثابت قدم رہے تواُن پر نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔

حضرت علامہ عبدالقیوم ہزاروی اپنے عہد کے اُن لوگوں میں سے تھے جو معیار حق تھے، حق گوتھے ،حق پر ڈٹ جانے والے اورحق پر مرمٹنے والے تھے ۔آپ کے اَخلاف ،اولاد امجاد اورتلامذہ کے علاوہ اُن کی دوعظیم یادگاریں ہیں: (1)جامعہ نظامیہ رضویہ لاہورو شیخوپورہ کمپلیکس (2)تنظیم المدارس (اہل سنت پاکستان)۔اِن دونوں اداروں کی تشکیل وتعمیر پرانہوں نے اپنے شباب اورعمر عزیز کاایک ایک لمحہ صرف کردیا۔

 عوام وخواص اہل سنت کاایک ایک فردجانتاہے کہ قبلہ مفتی مرحوم بعدنمازفجرسے لے کر بعدنمازمغرب یابعدنمازعشاءتک ادارے ہی میں رہتے، اس لیے ان کی خلوت وجلوت سب کے سامنے تھی

حضرت مفتی اعظم پاکستان کاباطن اُن کے ظاہر سے بھی زیادہ درخشاں وتابندہ تھااور سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کوچہرہ بھی نورانی عطافرمایا۔علامہ عبدالقیوم ہزاروی دفتری ذہن ،فائل ورک اوررسوم وضوابط مروجہ کے نہ قائل تھے ،لیکن تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کی ذمہ داری جب انہوں نے قبول فرمائی توپھر اِس میدان میں بھی نئے معیارات قائم فرمائے۔الحمدللہ جامعہ نظامیہ رضویہ اپنی ظاہری وباطنی شان وشوکت ،عظیم الشان قابل دید پر شکوہ عمارت اورعلمی وجاہت کے اعتبارسے اِس مقام پر ہے کہ اُسے ایک یونیورسٹی کاچارٹرحکومت کی جانب سے عطاکیاجائے۔ آپ نے امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت احمد رضا خان قادری کے فتاویٰ رضویہ کوتحقیق اورتدوین نو کرکے آپ نے عصرحاضرسے ہم آہنگ کردیااوررہتی دنیا تک اب یہ شاہکارلائبریریوں کی زینت بنارہے گااورموافق اورمخالف اہل علم اس سے صرف نظرنہیں کرپائیں گے۔ حضرت مفتی اعظم پاکستان کی حیات مبارکہ ہی میں اُن کاعلمی ودعوتی صدقہ جاریہ ،جامعہ نظامیہ رضویہ کی چاردیواری سے نکل کر قومی بین الاقوامی سطح پرپورے عالم پر پھیل چکاہے ،اُن کے تلامذہ کرام نے جابجا ادارے قائم کیے ،مساجد قائم کیں ،پہلے سے قائم اداروں کوجلا بخشی ،دعوت وارشاد کاکام ،تدریس،تصنیف وتالیف ، خطابت اورجدید ذرائع کواستعمال کرکے انجام دیا۔

مفتی عبد القیوم ہزاروی قادری27 جمادی الاخر 1424ھ/ 26 اگست، 2003ء کو فوت ہو گئے۔ آپ کی پہلی نماز جنازہ عتیق سٹیڈیم لاہور میں 27 اگست، 2003ء کو مولانا شاہ احمد نورانی نے پڑھائی۔ جب کہ دوسرا جنازہ جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ میں ھوا جس کی امامت آپ کے قریبی ساتھی بانی جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی حضرت مولانا سید حسین الدین شاہ صاحب زیدمجدہ نے کروائی ان کا مزار جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ میں مسجد کے باہر جنوبی طرف موجود ہے۔میری مخلصانہ دعاہے کہ علامہ عبدالقیوم ہزاروی کے بعد ان کے اخلاف صاحبزادگان گرامی اورتلامذہ ،متوسلین اُن کے صحیح جانشین ثابت ہوں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس راز کوسمجھنے اوراس پر کاربند رہنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین ثم آمین۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی