Who is Sheikh Mahmud Efendi ? Sheikh & Pir of Tayyab Erdogan - Biography - حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی

حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی   



 آج ہم حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  کا تعارف پیش کر رہے ہیں جن کا نام دنیا کے سو بااثر افراد میں شمار کیا جاتا رہا ہے ، جو رجب اردگان کے پیر ومرشد بھی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح دیوبندی ان کوبھی دیوبندی بنانے پر تلے ہوئے ہیں، ہمارے معلومات کےمطابق حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  سنی صحیح العقیدہ تھے اگر آپ کیا جانتے ہیں ہمیں کمنٹس باکس میں بتایئے۔

آج کی یہ ویڈیو ہمارے سبسکرائبرملک اشفاق صاحب کی فرمائش پر پیش کی جا رہی ہے،  ویڈیو پسند آئے تو لائک اور شئیر کریں اور پسند نہ آئے تو ڈس لائک کیجئے اور ہمارے چینل کو سبسکرائب کیجئے۔

جب بیسویں صدی میں علما ومشائخ اور داعین اسلام کا تذکرہ ہو اورشیخ  محمود اُستومانوغلو کو نظرانداز کریں جو حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ محمود آفندی وہ شخصیت ہیں جونہ صرف ترکی بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ایک عظیم داعی اور مفکر شیخ طریقت کے حیثیت سے اپنی مثال آپ ہے۔

حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی متبحر عالم دین اور صاحب تقویٰ بزرگ ہیں ، جنہوں نےاس  ترکی میں جہاں اتا ترک اسلامی دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ایسے ماحول میں اسلام کے  پرچم کو بلند کیا۔

حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی استنبول میں مقیم ہیں اور انہوں نے اپنی ساری زندگی اسلام ، انسانیت اور امن کی خدمت میں صرف کی ہے۔ آپ نے اتنے جس جوش اور پرجوش طریقے سے کام کیا ہے کہ اس کی مماثلت ملنا اس دور میں تقریبا ناممکن ہے۔

حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی 1929 میں میانو (ٹاوانلی) نامی گاؤں میں پیداہوئے۔ترابزون صوبے کی بستی میں تھا۔ ان کے والد کا نام علی افندی اور ان کے دادا کا مصطفیٰ افندی ہےاور ان کی والدہ کا نام  فاطمہ حنیم ا فندی بنت  طفان افندی ہے

جو راسخ القیدہ سنی اور سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ ہیں جن کی تقویٰ طہارت کی قسمیں ایک زمانہ کھاتا ہے۔

  حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  نے محض چھ سال کی عمر میںوالدین کریمین کے روبرو قرآن کریم حفظ کیا۔ 

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد بد بخت اتاترک نے قرآن کریم اور مذہبی کتابوں پر پابندی عائد کر دی تھی ۔ نماز روزہ، اذان و حجاب وغیرہ بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔

الغرض اس پر فتن ماحول  میں حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  نے اپنے والدین کریمین سے حفظ قرآن کیا ۔ حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  بچپن ہی سے صالح اقدار کے پاسدار اور روحانی امانتوں کے امین رہے۔ فرض وواجب حتیٰ کہ نفل بھی ترک نہیں کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے بلا کا قوت حافظہ عطا فرمایا تھا ۔ جو چیز ایک بار سن لیتے یا پڑھ لیتے ہمیشہ ذہن و دل پر نقش ہو جاتی یہی وجہ تھی کہ حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  کی ذہانت فطانت لوگوں کو حیراں کر دیتی تھی جس کی سبب والدین اپنے بچوں کا نام محمود رکھنے پر فخر کرتے تھے اور حسرت و یاس بھی رکھتے تھے کہ ان کے بچے بھی حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  کی قوت حافظہ کے مالک بنیں۔

مزید اعلیٰ تعلیم کے لیےحضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  نے کم عمری میں قیصری کا سفر فرمایا جہاں آپ نے شیخ احمد ہوجا آفندی سے صرف و نحو، عربی و فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔

ایک سال قیصری میں حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں واپس آ گئے۔جہاں آپ نے مشہوقاری قرآن محمد ردیع آقوتلو ہوجا افندی سےعلم قرات کی تعلیم حاصل کی۔

  

حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  علم بلاغہ ،علم الکلام، تفسیر ، علم حدیث ، فقہ ، اصول فقہ اور دیگر اسلامی علوم مدرسہ سلیمانیہ میں  علامہ فیضی آفندی سے حاصل کیے۔    

حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی نے۱۶ سال کی عمر میں تمام علوم دفنون میں مہارت حاصل کی اسی سال ان کی شادی زہرہ حنیم سے ہوئی۔

اللہ رب العزت نے اس جوڑے سے تین بچوں کی ولادت ہوئی۔ جن کے نام احمد، عبداللہ اور فاطمہ ہے۔

حضرت شیخ محمود آفندی نقشبندی  نےجون 1952 میں فوجی ملازمت اختیار کی۔ ملازمت کےدوران ان کی ملاقات اپنے مرشد  شیخ علی حیدر احشقی النقشبندی الخلیدی سے ہوئی۔

شیخ علی حیدر افندی اپنے وقت کے متبحر عالم دین اور چاروں فقہی مذاہب میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔

           


ترکی میں بھی جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہات اور گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کی۔

جب وہاں کے لوگ فوج  کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے

یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں۔

ان طالبعلم بچوں میں شیخ محمود آفندی نقشبندی صاحب بھی شامل تھے،حضرت نے یوں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور فراغت کے بعد یہی سلسلہ

اپنے گاؤں جاری رکھا لیکن اسی دوران حضرت آفندی کے دو خلفاء شہید کیے گیے تو حالات کے تناظر میں حضرت آفندی نے وہاں سے شہر کا رخ کیا جہاں ایک قدیم  مسجد تھی،وہاں رہتے ہوئے حضرت  نے چالیس سال تک دین کی تدریس کا کام جاری رکھا۔

تقریبا اٹھارہ سال تک حضرت آفندی کے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت آفندی سے فیضیاب ہوتے گئے۔

آج جب اسی مسجد میں اذان ہوتی ہے تو جوق درجوق لوگ نماز کیلئے اس مسجد میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔جو حضرت آفندی جیسے علماء کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے

حضرت آفندی کی زندگی کا جب میں نے مطالعہ کیا تو ایک عجیب واقعہ میرے آنکھوں کے سامنے گذرا

ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی،اس وقت حضرت مولانا شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے گردان پڑھائے حج اور نماز کے مسئلے بھی ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھائے اللہ تعالی نے حضرت آفندی کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھ دیا تھا

اتنی مشقتوں اور تکالیف کے بعد اب  ترکی میں بہت بہترین اور آسان طریقے سے دینی تعلیم پڑھائے جاتے ہیں۔

باحوالہ ( ترک نادان سے ترک دانا تک ) مصنف مفتی ابولبابہ

حضرت شیخ محمود آفندی کا جو عقیدہ ہے وہی عقیدہ حضرت آفندی سے اصلاحی تعلق ہونے کی وجہ سے رجب طیّب اردوغان کا بھی ہے۔



ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی