Biography Hazrat Peer Zada Iqbal Ahmed Farooqi || ناشر ِ رضویات‘ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی

 ناشر ِ رضویات‘ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی !

(مدیر:جہان رضا/روح رواں مجلس رضا‘لاہور)


لاہور کے برادرم صوفی عبدالستار طاہر مسعودی زید مجدہ نے یہ انتہائی رنجیدہ خبر سنائی کہ ادیب ِاہل سنت،ناشر رضویات، پیرزادہ اقبال احمد فاروقی اپنے محبوب‘ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کے ماہِ مبارک صفر المظفرکی ۱۶؍تاریخ۱۴۳۵؁ھ/۲۰؍ دسمبر ۲۰۱۳؁ء کو لاہور میں وصال کر گئے۔انا ﷲ و انا الیہ رٰجعون

یہ وقت سب پر آنا ہے اور سب کو جانا ہے ……سب جانے کے لیے آتے ہیں…… رہنے کے لیے کوئی نہیں آیا……زندگی کو قرار نہیں،وہ بے قرار ہے…… ایک حالت پر نہیں ……منزل بہ منزل رواں دواں ہے اور اسی قافلہ ٔ زندگی میں سب چلتے چلے جارہے ہیں……عجب حال ہے اور عجب نظارہ ہے…… آنے والے آرہے ہیں اور جانے والے جاتے جارہے ہیں ……اناﷲ واناالیہ رٰجعون !

ان کی شخصیت دینی و علمی حلقوں میں کسی تعارف محتاج نہیں ، وہ افکا رِا مام احمد رضا کی تر و یج و اشاعت کرنے والوں میں نمائیا ں ہیں…… ما ہنا مہ ’’جہانِ رضا ‘‘ لاہور کے مد یر اور مرکزی مجلس رضا ‘لاہور کے طویل عرصہ سے نگراں تھے ……اﷲ کریم ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔آمین

آپ ۴؍ جنوری ۱۹۲۸؁ء کو ضلع گجرات(پاکستان) کے ایک گاؤ ں شہا بدیوال میں پیدا ہوئے …… آپ کے جد اعلیٰ پیر شاہ عبد الرحیم فاروقی علیہ الر حمۃ اپنے وقت کے اہل کمال میں تھے ……آپ نے ابتد ائی تعلیم مقا می اسکول سے حاصل کی اور پھرشہر علم لاہور کا رُخ کیا جہاں مولانا محمد نبی بخش حلوائی (مصنف ، تفسیر نبوی )کے درس میں شریک ہوئے اور ان ہی سے سلسلہ نقشبند یہ مجددیہ میں ارادت کا شرف حاصل کیا، فارسی ادب کاکورس بہاو لنگر سے اور ۱۹۴۴؁ء میں منشی فا ضل، ۱۹۴۶؁ء میں مولوی فا ضل کا کورس پنجاب یونیوڑسٹی لاہور سے کیا،اسی یونی ورسٹی سے ایم ۔ اے کیا پھر لاء کا لج لاہور سے قانون کا امتحان پاس کرکے سر کاری ملازمت اختیار کرلی ……۱۹۶۲؁ء میں اشاعت کتب اور ابلاغ دین کے جذ بہ سے سرشاراور بے تاب ہوکر ’’مکتبۂ نبویہ لاہور‘‘قا ئم کیا اور بے شمار کتب شائع کرنے کا شرف حا صل کیا…… ذاتی لگن سے کتب کی تصنیف و تالیف کا شر ف بھی حاصل کرتے رہے، کئی نادر کتب کے ترا جم کر کے دنیا ئے علم و ادب میں نام پیدا کیا جن میں ’’معارج النبوت ‘‘اور ’’الد را لثمن ‘‘جیسی کتب شامل ہیں…… خواجہ محمد احسان مجدد ی سر ہند ی کی تالیف ’’روضۃ القیومیہ‘‘ کی تر تیب نو اور تعلیقات کے ساتھ اشاعت کا اعزاز بھی آپ ہی کو حاصل ہوا۔ کتب کے علاوہ آپ کے مضا مین و مقا لات پاک وہند کے جرا ئد میں بر ابر شائع ہوتے رہے ۔تحریر کے ساتھ ساتھ آپ کو فن خطابت میں بھی شیریں کلامی کا ملکہ حاصل تھا۔اس انداز سے دلائل دیتے کہ سامع کو قائل ہوئے بغیر چارہ نہ ہوتا۔

پاک و ہند اور دنیا بھر کے اہل سے آپ کے روبط تھے دیگر اہل علم کے علاوہ رضویات پر کام کرنے والوں سے خاص تعلق رکھتے،خاص کرحکیم محمد موسیٰ امرتسری،مولانا سید ریاست علی قادی ،سیدی اُستاذی ماہر رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد سے ان کے خاص علمی مراسم تھے……فقیر پر بھی بڑا کرم فرماتے تھے،جب بھی کسی کتاب کی ضرورت پڑتی ،کہیں سے بھی دستیاب کرکے ہم جیسے طالبعلموں کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے۔اپنی آخری علالت سے قبل صوفی محمد مقصود حسین نوشاہی اویسی کی معرفت انہوں نے فقیر کے جد اعلیٰ‘ حضرت خواجہ عبد اﷲ انصاری ہروی قدس سرہ کی فارسی کتاب ’’صد میدان‘‘تلاش کر کے ارسال فرمائی تھی……اﷲ کریم ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین

۱۶ ؍صفرالمظفر ۱۴۳۵؁ھ/۲۰؍دسمبر ۲۰۱۳؁ء کوحضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمۃ کی نگری لاہور میں وصال کے بعد اگلے دن بروزجمعۃ المبارک ۱۷ ؍صفرالمظفر ۱۴۳۵؁ھ/۲۱؍دسمبر ۲۰۱۳؁ء کولاہور کی مشہور میانی صاحب جنازہ گاہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر زہے نصیب کہ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الر حمۃ کے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ محمد طاہر بندگی نقشبندی مجددی علیہ الر حمۃ کے مزار اقدس سے متصل آغوش لحد میں دیے گئے…… اﷲ تعالیٰ مرحوم کی خدمات کو قبول فرماکر اس کے سبب ان کی بخشش و مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔آمین آپ کا چلے جانا دنیائے اہل سنت کے لیے ایک عظیم سانحہ ہوہے……مولیٰ تعالیٰ ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی