Biography Hazrat Molana Khawaja Qamaruddin Sialvi شیخ الاسلام وخواجہ محمدقمرالدین سیالوی چشتی نظامی

شیخ الاسلام والمسلمین حضرت خواجہ محمدقمرالدین سیالوی چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ 

نام ونسب: اسمِ گرامی:خواجہ محمدقمرالدین سیالوی۔لقب:شیخ الاسلام والمسلمین۔سلسلۂ نسب اسطرح ہے: شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی،بن قدوۃ السالکین خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی ،بن عارف کبیر خواجہ محمد الدین سیالوی،بن شیخ المشائخ خواجہ محمدشمس الدین سیالوی۔علیہم الرحمہ۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادتِ باسعادت15،جمادی الاول،1324ھ،بمطابق1905ء،کوقدوۃالسالکین خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی علیہ الرحمہ کے گھرسیال شریف ضلع سرگودھا پنجاب میں ہوئی۔



تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے جدامجدخواجہ محمدالدین سیالوی علیہ الرحمہ کے زیرِ سایہ ہوئی۔ابھی آپ کی عمر مبارک 4سال کی تھی توجدامجد کا انتقال ہوگیا۔جب آپ چار سال،چارماہ،دس دن کے ہوئے تواس وقت کے معروف حافظِ قرآن،حافظ عبدالکریم کی خدمت میں حفظِ قرآنِ مجید کیلئے بٹھادیا گیا۔اپنی خانقاہ کے مدرسہ ضیاء شمس الاسلام کے اساتذہ اور والد ماجد سے اکثر درسی کتب کا درس لینے کے بعد 1346ھ میں دار الخیر اجمیر پہنچے،اور جامع المنقولِ والمعقول حضرت مولانا معین الدین اجمیر ی  علیہ الرحمہ سے  شرفِ تلمذ اختیار کیا، اسی سن میں چند ماہ کے بعد آپ کے والد ماجد نے مولانا اجمیری کو سیال شریف آنے کی دعوت دی، تو آپ بھی اُن کے ساتھ وطن آگئے، اور پورے انہماک کے ساتھ اُن سے کسب علم میں مشغول ہوگئے،اور1351ھ،بمطابق1932ءمیں تکمیل ِدرسیات کر کے سندِفراغت حاصل کی۔1356ھ،بمطابق1938ء میں بموقع حج وزیارت علماء حرمین شریفین سے بھی سندیں حاصل کیں۔

بیعت وخلافت:  اپنے والدِ گرامی قدوۃالسالکین خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی علیہ الرحمہ سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت وخلافت حاصل ہوئی۔

سیرت وخصائص: مجسمہ ٔروحانیت ،آفتابِ شریعت،ماہتابِ طریقت،اقلیمِ فقر کے تاجدار، عاشقِ نبی مختار،عارف باللہ ،مردِحقیقت آگاہ ،وارث علوم  حضرت پیر سیال لجپال، شیخ الاسلام و المسلمین حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ ۔آپ علیہ الرحمہ نے ہزاروں گم کردہ را ہوں کو راہ ِہدایت سے ہمکنار فرمایا۔بد نصیبوں کو سکون و طمانیت کی دولت عطا کی۔ انگنت نفوس آپ کے انفاس طیبہ کی وجہ سے اللہ کریم اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے انوار سے چمک اٹھے۔آپ سیدھے سادھے مسلمانوں کے ایمان اور خوش عقیدگی کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ فرقہائے باطلہ کی تردید میں سینہ سپر رہے۔ حضرت شیخ الاسلام عربی فارسی اردوسرائیکی اور پنجابی زبانوں میں تسلسل کے ساتھ گفتگو فرمالیا کرتے تھے۔ عربی میں کمال درجے کا شغف رکھنے کے علاوہ آپ اس زبان میں بلا تکلف مضمون لکھنے کی بھی مہارت تامہ حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس غضب کا حافظہ عطا کیا تھا کہ سالوں پہلے پڑھی ہوئی کتابوں کے مضامین آپ کے پیش نظر رہتے تھے۔آپ کے استاد محترمہ علامہ معین الدین اجمیری آپ ذہانت و ذکاوت کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے۔ آپ کو تقابلِ ادیان پر بھی  کامل دسترس حاصل تھی۔ آپ نے اپنے زور علم اور زور بیان سے عیسائیوں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کئے جس میں بڑے بڑے عیسائی پادرویوں کو منہ کی کھانی پڑی۔آپ حُسن اخلاق کےپیکر اور اپنے بزرگوں کےسچے جانشین  تھے۔ علماءومشائخ کے طبقہ میں یکساں مقبول تھے، پاکستان کے مسلمانوں کی عظیم دینی و سیاسی تنظیم جمعیت علماء پاکستان کے 1970کےشدید بُحران اور اختلاف کی فضاء میں باتفاق رائے صدر منتخب کیے گئے۔ آپ کی قیادت میں جمعیۃ علماء  پاکستان نے بہترین کارہائے نمایاںسر انجام دیئےتھے۔

حضرت خواجہ سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے جہاد کشمیر میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اور فرنٹیئر کے سرحدی علاقوں سے بیش قیمت اسلحہ خرید کر مجاہدین میں تقسیم فرمایا۔جہاد کشمیر کےلیے آپ نے ملک گیر مہم چلائی اور لوگوں کو اس جہاد میں شامل ہونے کی طرف راغب گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جوق در جوق جہاد کشمیر میں شامل ہونے لگے۔حضرت خواجہ سیالوی نے مہاجرین کی آباد کاری میں بھر پور حصہ لیا اور حکومت کا ہاتھ ہٹانے بٹانے کے علاوہ اپنے ذاتی فنڈ سے بے شمار مہاجروں کے گھروں کو آباد گیا۔1965ء کی جنگ  کے موقع پر آپ نے اپنی تمام جمع پونجی دفاعی فنڈ میں جمع کرادی اور اپنے مریدین اور معتقدین کو بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا حکم دیا۔آپ کے ایثار و قربانی کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے زیورات بھی ملک پر قربان کر دیئے اور اپنے احباب کو قنوت نازلہ پڑھنے کا حکم دیا۔آپ علیہ الرحمہ بیحدخودداراورغیورتھے۔کبھی بھی ذات مفادات آپ کی رکاوٹ نہ بن سکے،اوریہی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کاخاصہ ہوتاہے۔

حضرت صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ رحمۃ اللہ علیہ آلو مہار شریف ضلع سیالکوٹ والے فرماتے ہیں: کہ ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے موقع پر ایک سرمایہ دار اور جاگیر دار شخص جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کا خواہش مند تھا۔اس تمنا کی تکمیل کے لیے وہ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں سیال شریف حاضر ہوا۔ آپ نے اس کی خواہش سنی تو فرمایا یہ نشست تو ہم نے ایک عالم کو دی ہے۔ تاکہ وہ الیکشن میں کامیاب ہوجائے اور دین کی خدمت کرے ۔یہ سن کر مذکورہ جاگیر دار بہت مایوس ہوا اور ناکام واپس چلاگیا۔اس بات کے کچھ ہی دنوں بعد وہ تین لاکھ روپےکی خطیر رقم کا چیک لیکر خواجہ صاحب کے پاس دوبارہ آیا اور عرض کی حضرت یہ رقم ناچیز کی طرف سے قبول کرلیجئے تاکہ لنگر کے خرچ میں کام آئے۔ حضرت خواجہ صاحب سمجھ گئے کہ اس دنیا دار کا مقصد کیا ہے۔ آپ کو اس سرمایہ دار کی اس حرکت پر اتنا طیش آیا کہ غضب ناک ہوگئے اور فرمایا کہ اے دولت مند انسان !یہ اپنی دولت لے جا اور یہ بوٹی کسی دنیا کےکتے کے آگے ڈال دینا۔ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔وہ شخص شرمندہ ہوکر چلاگیا۔آپ نےساری زندگی پاکستان میں نظام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کےلیے بیحد کوششیں فرمائیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمٰن نے انکشاف کیا کہ حضرت شیخ الاسلام نے اسلامی نظریات کونسل کےلیے ہمیشہ تنخواہ کے بغیر کام کیا ہے۔حتیٰ  کہ سفر کےاخراجات کےلیے بھی آپ نےکبھی بھی حکومت سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔

وصال:  آپ 17 رمضان المبارک 1401ھ،بمطابق20جولائی 1981ء،کواپنے خالق حقیق سے جاملے۔ سیال شریف ضلع سرگودھا میں آپ کا مزار پر انوار مرجع خاص و عام ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی