biography Hazrat Allama Mufti Khalil Khan Barkati حضرت مولانا مفتی محمد خلیل خاں برکاتی رحمۃا للہ علیہ



حضرت مولانا مفتی محمد خلیل خاں برکاتی رحمۃا للہ علیہ

نام ونسب: اسم گرامی: مفتی محمد خلیل خان برکاتی ۔لقب: خلیل العلماء۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا مفتی  محمد خلیل خان قادری برکاتی بن عبدالجلیل خاں بن اسماعیل خاں لودھی۔آپ کاخاندانی تعلق ’’لودھی پٹھان‘‘ سے ہے۔آباؤاجداد کا زیادہ رجحان فوجی ملازمت کی طرف تھا۔ علاوہ ازیں زمینداری کا پیشہ بھی اختیار کیا جاتا تھا، جبکہ آپ کے نانا مولانا عبدالرحمٰن خان عرف لال خان ایک جیّد عالمِ دین،اور حضرت علامہ لطف اللہ علی گڑھی کے تلمیذِ رشید تھے۔(فقہاء سندھ کی علمی خدمات:263)

تاریخِ ولادت:  آپ کی ولادت باسعادت  ماہ ِ ذیقعد1338ھ،مطابق جولائی 1920ء کوموضع ’’کھریری‘‘ ضلع علی گڑھ(انڈیا) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم:  جب آپ کی عمر چھ روز ہوئیتو  والد ماجد کے سایہٗعاطفت سے محروم ہو گئے۔ دادا صاحب نے پرورش میں حصہ لیا۔ لیکن وہ بھی جلد ہی رخصت ہو گئے۔ جس کے بعد آپ والدہ ماجدہ کے ہمراہ اپنے ننھیال ’’مار ہرہ شریف‘‘ تشریف لے آئے یہاں آکر والدہ ماجدہ بھی رحلت فرماگئیں ۔ ابھی آپ عمر کے اس حصہ کو نہ پہنچے تھے کہ جہاں نیک و بد کاشعور ہو۔ چنانچہ چچا صاحب نے اپنی تربیت میں لیا۔ مفتی صاحب موصوف مارہرہ شریف ( ضلع ایٹہ ، انڈیا) کے محلہ کمبوہ میں افغان روڈ پر اقامت پزیر ہوئے۔

زمانے  کے دستور کے مطابق آپ نے بھی انگریزی تعلیم حاصل کی اور اوائل 1934ء میں انگریزی مڈل تک اچھی پوزیشن میں پاس کیا ۔ مفتی صاحب مارہرہ شریف میں اپنی تعلیم کا آغاز فرمانے کے بعد پھر اپنے مولد  علی گڑھ تشریف لے آئے اور مکمل تعلیم کے لئے نواب ابو بکر خان شروانی کے مدرسہ حافظیہ سعیدیہ میں 1353ھ؍ 9/ مارچ 1935ء کو داخل ہوئے اور آخر تک وہیں رہے ، دورہ ٔحدیث شریف تک صدر الشریعہ فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی ﷫سے پڑھا 1945ء میں فارغ ہوئے ۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا محمد مصطفی رضاخان﷫نے سندحدیث عطا فرمائی ۔ آپ کی سند حدیث کا سلسلہ صدرالشریعہ  کی وساطت سے بحر العلوم مولانا عبدالعلی لکھنوی تک اور مارہرہ شریف کے قطب سید شاہ آل رسول ﷫ ( امام احمد رضا خان کے پیرو مرشد) کے واسطے سے حضرت شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ تک پہنچتا ہے۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:857)

بیعت و خلافت :زمانہ طالب علمی ہی میں 18/ ذوالحجہ 1356ھ؍ 1938ء میں تاج العلماء حضرت مولانا الحاج سید اولاد رسول محمد میاں قادری قدس سرہ کے دست مبارک پر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے ۔ حضرت اولاد رسول ﷫کے انتقال کے بعد ان کے خلیفہ و جانشین احسن العلماء حضرت سید شاہ حسن میاں صاحب برکاتی نے حضرت کے ایماء پر آپ کو سندِ خلافت عطا فرمائی ۔ اس طرح آپ حضرت  اولادِ رسول ﷫کے خلیفہ قرار پائے اور اسی لئے برکاتی کہلاتے تھے۔ حضرت جامع المعقول والمنقول شیخ طریقت علامہ الحاج مفتی محمد مصطفی رضا خان نوری قدس سرہ نے سلسلہ قادریہ رضویہ میں خلافت سے نوازا۔(ایضا:857)

سیرت وخصائص: استاذالعلماء،مرجع الاصفیاء،سندالاتقیاء،جامع المعقول والمنقول،فقیہ العصر،فیض یافتہ حضرت صدرالشریعہ،خلیل العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی  محمد خلیل خان قادری برکاتی ﷫۔آپ علیہ الرحمہ کاشمار اکابرین اہل سنت ،اور محسنین ومصنفین اہل سنت میں ہوتا ہے۔آپ کی ذات ِ بابرکات سےسینکڑوں علماء وفضلاء نے اکتساب علم کیا اور چہار دانگ عالَم میں علم کےنور سےروشنی پھیلائی،اور باطل کےاندھیروں کو پاش پاش کیا۔آپ کی کتب آج بھی مینارۂ نور کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔اسی طرح آپ کا دارالعلوم احسن البرکات (حیدرآباد  سندھ) اپنی برکات سے ایک جہان کو مستفید کر رہاہے۔مفتی صاحب ﷫ زمانے کے ظاہر ی نمود و نمائش سے بہت متنفر رہتے ۔ اپنی تعریف و ستائش ( خود سنائی ) بالکل نا پسند تھی ۔ آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، غرور تکبر سے بہت دور ، سادگی ، علم سے محبت اور درس و تدریس میں بے حد محنت آپ کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ آپ نفاست پسند تھے لباس عمدہ اور صاف ستھرا زیب تن فرماتے تھے۔ علم کےساتھ عمل،فتویٰ کے ساتھ تقویٰ  میں بھی یادگار  اسلاف تھے۔ایک مرتبہ حجام بال بنانے آیا تو مدرسے میں پانی نہ تھا حجام نے کہا’’میں مسجد سے پانی لے آتا ہوں ‘‘ فرمایا کہ نہیں مسجد کا پانی مسجد ہی میں استعمال کرنا چاہئے ، اس لئے تم مسجد سے پانی نہ لاوٗ بلکہ کل آنا کل مدرسے میں پانی ہو گا۔

خطابت :تعلیم سے فراغت پاتے ہی تدریس و تبلیغ کے امور سونپ دیئے گئے۔ چنانچہ آپ نے تنہا اور مرشد گرامی کی معیت میں ہندوستان کے مختلف صوبوں میں کئی شہروں کے تبلیغی دورے کئے ، کچھ عرصہ میرٹھ چھاؤنی میں بحیثیت فوجی مبلغ بھی فرائض انجام دیئے ۔ فراغت کے چار سال بعد 29 سال کی عمر میں مرشد گرامی نے خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف کے دارالافتاء میں اہم ذمہ داری دے کر منصب افتاء پر بٹھا دیا جہاں سے آپ نے فتویٰ نویسی کا آغاز کیا۔ 1951ء کو ہندوستان سے ہجرت کرکے مستقل طور پر حیدر آباد پاکستان میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے تقریبا دس سال سے زیادہ عرصہ تک آپ کی تفسیر نشر ہوئی ، جس کے مسودات ، ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں اس کے علاوہ بہت سے مختلف مواقع پر آپ کی تقریر اور مذاکرات بھی نشر ہوئے۔ اسی طرح مفتی صاحب نے تقریبا 58 انتہائی مفید ِعام تصانیف و تراجم یاد گار چھوڑی ہیں جن میں سے نصف شائع ہو چکی ہیں۔مفتی صاحب حضور اکرم ﷺ کی یاد میں ان کی مدحت سرائی کرتے ہوئے نعتیہ شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، آپ کا تعتیہ دیوان ’’جمال خلیل ‘‘ کے نا م سے مطبوعہ ہے اور آپ کا تخلص خلیلؔ ہے۔

تحریک پاکستان :آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔ تحریک پاکستان کا دور حضرت مفتی صاحب کے شباب و جوانی کا دور تھا ۔ آپ مار ہرہ شریف اور اس کے گردو نواح میں ہونے والے مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں  میں بڑی دلچپسی سے حصہ لیتے رہے۔ آپ مسلم لیگ کا پرچم اٹھائے ہوئے جلوسوں کے آگے آگے چلتے تھے، کانگریس اور نگریسیوں کا اپنی تقاریر میں ہمیشہ رد فرماتے اور یوں حصول پاکستان کی تحریک میں بھر پور حصہ لیتے رہے ۔ زمانہ طالب علمی میں جب کہ (کانگریسی بیلچہ ) ’’خاکسار تحریک ‘‘ زوروں پر تھی اور اس کا ہر سو چرچاکیا جارہا تھا جگہ جگہ شہر شہر اس تحریک کے کنویئر اور اراکین گشت کر رہے تھے ، اکابر علماء اہل سنت، قائداعظم اور مسلم لیگ کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا۔ گمراہ کن لٹریچر کی بھر مار تھی ، اس دور میں مفتی صاحب نے اس تحریک کے چوبیس نکات کی شدید گرفت کی اور ان کے رد میں رسالہ ’’خنجر آبداربرفرقہ خاکسار ‘‘ تحریر فرما کر قوم کو خبر دار کیا اور ان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی۔(ایضا:860)

تاریخِ وصال:آپ کا وصال 28/رمضان المبارک 1405ھ،مطابق 18/جون  1985ء،بروز منگل،وقتِ مغرب 65سال  کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت مفتی محمد وقار الدین قادری﷫ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ 29رمضان المبارک کو ظہر کے وقت ،عارف کامل حضرت سخی سید عبدالوہاب شاہ جیلانی قدس سرہ کی درگاہ ِعالی کے صحن میں آپ کو مدفن نصیب ہوا۔

ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔فقہاء سندھ کی علمی خدمات کا تحقیقی جائزہ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی