Biography Hazrat Mufti Mohammed Ameen Qadari Faisalabadi | تعارف خواجہ مفتی محمد امین

 Biography Hazrat Mufti Mohammed Ameen Qadari Faisalabadi
تعارف خواجہ مفتی محمد امین


نظامِ قدرت سارااصولوں کے تابع ہے۔بڑے لوگوں کی پیدائش کے بھی تو کچھ اصول ہوں گے۔غور کریں تو واضح ہوتا ہےکہ بڑے آدمی انعام و احسان کے طور پر عطا کیے جاتے ہیں۔ انہیں بے پایاں انعامات واحساناتِ الٰہیہ میں سے ایک، ہمارےحضرت خواجہ مفتی محمد امین رحمۃ اللہ علیہ کی ذات والاصفات ہے۔

آپ یکم مارچ 1926 ء بمطابق 15 شعبان المعظم 1344 ھ ، سوموار کے مبارک دن لاہور کے نواحی علاقے نوازش آباد میں پیدا ہوئے اور پیاسوں کے خوابیدہ بخت جاگ اٹھے۔آپ کا پیدائشی نام محمد امین بن الحاج غلام محمد بن میاں غلام محی الدین رحمۃ اللہ علیہم تجویز کیا گیا۔آپ کی والدہ ماجدہ محمد بی بی علیہاالرحمۃکی حیاتِ مبارکہ کابیشترحصہ قرآن مجید پڑھتے،پڑھاتے گزرا۔آپ ایک پاک طینت،بلند ہمت و بلند کردار خاتون تھیں۔
خواجہ فقیہ العصر نے ابتدائی تعلیم گھر پہ حاصل کی ۔ اسکول کی تعلیم’’ پکی حویلی ‘‘ نامی گاؤںں میں ماسٹر عبدالرشید علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ پھر شرقپور شریف مدرسہ میں درس نظامی کے اسباق شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی رحمۃ اللہ علیہ سےشروع کیے ۔ یہاں سات سالہ کورس فقط تین سال میں مکمل کیا اور دورہ حدیث شریف کیلئے ۱۳۶۷ ھ بمطابق اگست ۱۹۴۸ء کو لائلپور ، موجودہ فیصل آباد میں حضرت قبلہ محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوۓ ۔ یہاں اتنی محبت ملی کہ یہیں کے ہورہے۔ جامعہ رضویہ میں ہی افتاء نویسی کا آغاز کیا اور مفتی کا ٹائٹل پایا۔اسی دوران جامع مسجد گلزارِ مدینہ محمد پورہ شریف میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دینے لگے۔
آپ ۵ فروری ۱۹۵۳ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ کی زوجہ انتہائی متقی ،با وفا اور نیک خصلت تھیں۔ قبلہ فقیہ العصر کی ہمرا ہی میں گھرداخل ہوئیں اور سب سے پہلے کلام یہ تھا:’’مجھے نماز قائم کرنی ہے‘‘۔
خواجہ فقیہ العصر کی بیعت اولیٰ للہ شریف ، حضرت رابع خواجہ مقبول الرسول للہی قادری، بیعت ثانیہ حضرت قبلہ محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد چشتی جبکہ بیعت ثالثہ کوٹلی شریف ،خواجہ عالم ، خواجہ محمد صادق صدیقی نقشبندی مجددی علیہم الرحمۃ کے دست ِ حق پرست پر ہوئی ۔
قبلہ محدث اعظم پاکستان نے آپ کو خلافت سے بھی نوازا۔ البتہ آپ سنگیوں کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت کرتے اور اسی سلسلہ شریف کے اسباق کی تلقین فرماتے۔
آپ نے تین مرتبہ ۱۹۵۵ء،۱۹۷۲ءاور۱۹۷۵ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ ۱۹۵۵ء میں آپ نے پہلا حج والدین کریمین کی معیت میں کیا۔
آپ کے پیروکاروں کی تعداد بے شمار میں ہے جن میں سے ہزاروں راہِ حق کے پروانے اور زندگی شرع شریف کے مطابق گزاررہے ہیں۔ آپ کے خلفاء میں سرِ فہرست شہزادگان ہیں ۔حضرت قاری مسعود حسان صاحب اس وقت دربارِ عالیہ امینیہ کے سجادہ نشین ہیں۔
قبلہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے طویل علالت کے بعد ۳ جنوری ۲۰۱۸ء بمطابق ۱۵ ربیع الثانی ۱۴۳۹ھ بروز بدھ بعد نمازِ فجر لاہور کے ڈاکٹرز ہسپتال میں نفی اثبات کا ورد کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا اور مصنف ِآبِ کو ثر والبرھان، صاحبِ کوثر سے جامِ کوثر پینے وطن اصلی کی جانب عازم ہوئے۔
حضرت فقیہ العصر کا جنازہ ،راضیۃً مرضیۃً کی صداؤں میں فیصل آباد کے مشہورِ زمانہ دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں ادا کیا گیا ۔آپ کا جنازہ پاکستان کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔محتاط انداز ے کے مطابق تقریباً ۵۰ ہزار لوگ تو جنازے سے آگے تھے۔ جنازہ پڑھانے کی سعادت آپ کے فرزند ارجمند شیخ القرآن محمد سعید احمد اسعد حفظہ اللہ کے حصے میں آئی۔حضرت فقیہ العصر رحمۃ اللہ علیہ کے دستیاب خطوط میں سے ایک خط کی عبارت کچھ اس طرح ہے:’’ فقیر کے بعد احباب و متوسلین کی سپرداری، تربیت و نگہداشت عزیز القدر مناظرِ اسلام عزیزم محمد سعید اسعد سلمہ ربہ الصمد کے سپرد ہے‘‘۔
حضرت خواجہ فقیہ العصر کے جسدِحسن وعشق کو محمد پورہ شریف میں مسجد گلزار مدینہ سے متصل ایک ذاتی مکان میں سپرد خاک کیا گیا۔ جہاں آپ کا مزارِ پرانوار مرجع خلائق اور آنکھ والوں کیلیے لہلہا تا چمنستان ہے۔
‏‎آپ علم و عمل کا حسین امتزاج تھے۔آپ صاحب تقوی و ورع ، مخلص و باوفا اور انتہا درجے کے بااخلاق تھے ۔ آپ کی مجلس ہر قسم کے طمع، تصنع اور غیبت سے پاک ہوتی۔ حضرت تبلیغِ دین کیلیے وعظ و نصیحت سے زیادہ کردار و عمل کو موثر خیال کرتے ۔سنگیوں کی دلجوئی اور حاجت برآری میں پیش پیش رہتے ۔ آپ نمود و نمائش اور ذاتی تشہیر کو سخت ناپسند رکھتے۔ ایک سنگی نے بر سرِ مجلس تعریفیں کیں تو فرمانے لگے: یاد رکھنا ! سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشاد مبارک کامفہوم ہے جو منہ پر تعریف(دنیاوی غرض سے) کرے اس کے منہ میں مٹی ڈال دو ! آپ علماء سے بے حد محبت فرماتے۔ آپ کے قائم کردہ ادارے سے ان گنت حفاظ اور علماء فارغ التحصیل ہوۓ۔ آپ عقائد کی پختگی پر بہت زور دیتے۔صحیح العقیدہ سادات کو آنکھوں پر بٹھاتے۔ آپ خامشی کو پسند کرتے مگر خلافِ شرع کام برداشت نہ کرتے۔ ٹخنوں سے نیچے پائنچے دیکھ کر جلال کا اظہار کرتے کہ تمہیں سنت کا پاس نہیں ؟ ہم نے آپ کو کسی مجلس میں ننگے سر نہ دیکھا۔ انتہائ علالت کے باوجود نماز تکبیر اولی کے ساتھ ادا فرماتے۔ سفر حرمین کیلیے رات کا انتخاب کیا جاتا تاکہ نماز با جماعت ادا ہوسکے۔
آج بھی ‎حضرت جی کے حجرے میں بیٹھیں تو درودیواراُسی طرح نور مجسم ﷺ کی ذات بابرکات پربھیجے گئے درودشریف کی بوئے دل آویز سےمہکتے محسوس ہوتے ہیں۔اللہ رب العزت ،اپنے حبیب مکرم کے صدقے ہمارے حضرت جی کے درجات بلند فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی